غرور کا سر نیچا۔۔۔
امریکی وزیر دفاع نے فرمایا تھا کہ ہم شام پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں صرف اوباما کے حکم کی دیر ہے.
امریکی وزیر دفاع نے فرمایا تھا کہ ہم شام پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں صرف اوباما کے حکم کی دیر ہے۔ امریکا کے بحری بیڑے شام کے قریب لنگر انداز ہوگئے تھے اور یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ شام کی کتنی اور کون کون سی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا اور اس حملے میں کتنے میزائل استعمال ہوں گے اور حملہ کتنے دن جاری رہے گا اوباما بار بارکہہ رہے تھے کہ شام پر حملہ ناگزیر اور لازمی ہے۔ اوباما نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ شام پر حملے کے لیے اقوام متحدہ کی منظوری ضروری نہیں۔ ہم اپنی کانگریس کی منظوری سے شام پر حملہ کردیں گے۔
شام پر حملے کے لیے امریکی کانگریس سے رجوع کرلیا گیا تھا اور صرف کانگریس سے منظوری کے لیے رائے شماری کا انتظار تھا کہ روس نے یہ اعلان کردیا کہ اگر امریکا نے شام پر حملہ کیا تو روس سعودی عرب پر حملہ کردے گا۔ برطانیہ جو ابتداء میں شام پر حملے کے پروگرام میں پیش پیش تھا اس نے شام پر حملے کی مخالفت کردی امریکی عوام امریکا کے سابق اور حاضر سروس فوجیوں کی بڑی تعداد نے بھی حملے کی مخالفت کردی چین پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں نے بھی شام پر امریکی حملے کی مخالفت کردی خود نیٹو بھی نیم دروں نیم بروں ہوگیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ دنیا بھر میں لاکھوں عوام شام پر امریکی حملے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
یہ تھی وہ صورت حال جس نے امریکی صدر اور دنیا کی واحد سپر پاورکے غرورکو چکنا چورکردیا لیکن وہ حملے کے اعلان پر عملدرآمد نہ کرنے کی ذلت سے بچنا چاہتا تھا روس نے اسے ذلت سے بچانے کے لیے شام کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیار اقوام متحدہ کے حوالے کردے اوباما نے اپنی ذلت کو چھپانے کے لیے روس کی تجویز مان لی، یوں سپر پاورکی شام پر حملے کی منصوبہ بندی اور غرور چکنا چور ہوگیا۔ شام نے امریکا کی اس پسپائی کو اپنی فتح قرار دیا۔ ایران اور حزب اللہ جو امریکی حملے کا جواب دینے کے لیے شام کے ساتھ کھڑے تھے انھیں بھی یہ احساس ہوا کہ اگر جارحیت کے خلاف ڈٹ جائیں تو بڑے سے بڑے جارح ملک کو اپنی جارحیت سے دست کش ہونا پڑتا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی حکمرانوں کی ساری منصوبہ بندی ناکام ہوگئی دنیا ایک بڑی جنگ سے بچ گئی۔
اس پورے ڈرامے میں ایک کردار بڑا اہم رہا ہے وہ ہے سعودی حکمران کی طرف سے امریکا کو یہ پیشکش کہ وہ شام پر حملے کے سارے اخراجات برداشت کرنے کے لیے تیار ہے اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے شام کے باغیوں کی بے تحاشا مالی امداد اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب ہی نہیں بلکہ مسلم ملکوں کے حکمرانوں کی اکثریت روز اول ہی سے امریکا کی تابعدار رہی ہے لیکن مسلم ملکوں کے عوام ہمیشہ سامراجی ملکوں ان کی جارحانہ پالیسیوں کے سخت خلاف رہے ہیں۔ اس حوالے سے اندرونی خبریں یہ ہیں کہ ایک معروف سعودی شہزادے روس کے صدر پوتن سے ملے اور انھیں بھاری مالی امداد اور تیل کی بھاری مقدار مفت فراہم کرنے کی پیشکش اس شرط کے ساتھ پیش کی کہ وہ شام پر امریکی حملے کی مخالفت چھوڑ دے لیکن پوتن نے اس پیش کش کو ماننے سے انکارکردیا اور سعودی شہزادے کو ماسکو سے مایوس لوٹنا پڑا۔
اس حوالے سے سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم ملکوں خصوصاً عرب ملکوں کے درمیان اس قدر شدید اختلافات کیوں ہیں؟ بہ ظاہر تو اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں ایک یہ کہ مسلم ملکوں کے درمیان فقہی اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ایک مسلم ملک دوسرے مسلم ملک پر امریکی حملے کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی پیش کش کر رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا جو طوفان اٹھا ہوا ہے وہ بغاوتوں سے بچے ہوئے ملکوں کے حکمرانوں کے لیے زبردست خطرہ بنا ہوا ہے اور یہ بادشاہ لوگ اس خطرے سے بچنے کے لیے عوام کی طاقت کو فقہی اختلافات کے حوالے سے تقسیم کرکے اپنی حکمرانیوں بچانا چاہتے ہیں۔ اس خود غرضی نے انھیں اس قدر اندھا اور بہرہ بنادیا ہے کہ وہ مسلم ملکوں کے عوام کی اجتماعی بھلائی ان کی ترقی کو پس پشت ڈال کر اپنی حکمرانیوں کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور پورا مسلم ملک جو دنیا کی آبادی کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ تھے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ان منافقانہ اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے معاشی معاشرتی اور سیاسی پسماندگی کے پاتال میں کھڑا ہے۔
اس پس منظر میں ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا ایک فطری بات ہے کہ مسلم ملکوں کے درمیان اس قدر شدید اختلافات اور مسلم ملکوں کے عوام کو فقہہ کے حوالے سے تقسیم کرکے انھیں ایک دوسرے کے خلاف لاکھڑا کرنا سامراجی ملکوں کی سازش تو نہیں؟ اس شک کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جس تیزی کے ساتھ پسپائی اور معاشی بحرانوں کی طرف جارہا ہے اور دنیا بھر کے غریب عوام میں اس استحصالی نظام کے خلاف نفرت میں جس شدت سے اضافہ ہورہا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ملک اپنے نظام کی تباہی اور اس نظام سے عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کو کم کرنے کے لیے عوام کو تقسیم کرنا اور دنیا کو جنگوں کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں؟
9/11 کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی جس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اول تو یہ دہشت گردی ان ہی کی متعارف کرائی ہوئی ہے۔ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکا نے اسی دہشت گردی کا سہارا لیا۔ کیا امریکا مسلم ملکوں کو مستقبل کے حریف بننے سے روکنے کے لیے خود اب بھی مسلم ملکوں کے مذہبی انتہاپسندوں کو استعمال نہیں کرسکتا؟ یہ سوال ذہن میں اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ سامراجی ملکوں کی ہر پالیسی ہر اقدام صرف اور صرف ان کے ''قومی مفادات'' کے تابع ہوتے ہیں اس حوالے سے اگر ہم مسلم انتہا پسندی پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا پر غلبہ حاصل کرنے اور دنیا بھر میں شریعت کا نظام نافذ کرنے والے ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے مسلمان اور اسلام بدنام ہورہے ہیں۔ ساری دنیا کے عوام ان مذہبی انتہاپسندوں سے نفرت کے ساتھ ان کے نظریات سے بھی نفرت کرنے لگے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نظریے کو دنیا کے عوام میں مقبول بنانے کے لیے اپنے ہی نظریے اپنے ہی ہم قوموں کو اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہو جس بے دردی سے مذہبی انتہاپسند کر رہے ہیں؟ آج خود مسلمان مذہبی انتہاپسندوں اور ان کے نظریات سے نفرت کر رہے ہیں۔
کیا اس کے پیچھے سامراجی منصوبہ بندوں کی یہ سازش نہیں ہوسکتی کہ مسلم ملکوں سمیت ساری دنیا کے عوام کو مسلمانوں اور ان کے نظریات کے حوالے سے بدنام کردیا جائے؟ اس پس منظر میں کیا بعض حلقوں کے یہ خدشات درست نظر ہیں آتے کہ 9/11 کا حادثہ اور 17 ستمبر 2013 کے دن واشنگٹن میں امریکی بحریہ کے ہیڈ کوارٹر اور وائٹ ہاؤس پر کریکر حملہ سب سامراجی ڈراموں کا حصہ ہیں؟ ان خدشات کو استحکام اس لیے ملتا ہے کہ 9/11 کے بعد امریکا نے اپنے ملک کی سیکیورٹی اس قدر مضبوط اور مستحکم بنادی ہے کہ اس کی سرزمین پر بغیر اجازت پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا اس پس منظر میں اس کے دارالحکومت میں موجود بحریہ کے ہیڈ کوارٹر اور خود صدر مملکت کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں چند دہشت گرد گھس جائیں اور 13 اہلکاروں کو قتل کردیں اور وائٹ ہاؤس پر کریکر پھینکیں کیسے ممکن ہے؟ اگرچہ یہ خدشات بادی النظر میں حقیقت سے قریب نظر نہیں آتے لیکن جن سامراجی ملکوں کے اپنے مفادات کے سامنے کوئی اصول کوئی اخلاقیات کوئی قائدے قانون نہ ہوں کیا ایسے ملک اس قسم کی سازشیں نہیں کرسکتے؟
شام پر حملے کے منصوبے سے مجبوراً دست بردار ہونے کے باوجود امریکا شام کے باغیوں کی بھرپور مالی اور فوجی امداد جاری رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جواز یہ ہے کہ شام پر ایک آمر حکومت کر رہا ہے اور شام کے عوام کو آمریت سے نجات دلانا امریکا کی ذمے داری ہے اور امریکا اپنی اس جمہوری ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے شام میں مسلح باغی بھجوا رہا ہے اور انھیں ہتھیار اور مالی امداد ان عرب حکمرانوں کے ہاتھ مل کر فراہم کر رہا ہے جو صدیوں سے اپنے ملکوں پر خاندانی اور قبائلی حکمرانی مسلط کیے ہوئے ہیں اور جو جمہوریت کا نام لینے والوں کو قتل کرادیتے ہیں۔ کیا کسی آمر سے عوام کو نجات دلانے کا یہی طریقہ ہے؟ کیا عوام کو آمریت سے نجات دلانے کے جمہوری طریقے انتخابات اب متروک ہوگئے ہیں؟ ایک طرف امریکا دنیا کو جمہوریت اور انتخابات کا سبق پڑھا رہا ہے دوسری طرف آمریت کو مسلح بغاوتوں سے ختم کرنے کی پالیسی اپنا رہا ہے۔ کون سا طریقہ کار جمہوری کون سا طریقہ کار فاشسٹ ہے؟