روٹی بندہ کھاجاندی اے

11 مئی کے الیکشن سے پہلے جب الیکٹرانک میڈیا پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف بھرپور اشتہاری مہم چلا...


Asghar Abdullah September 22, 2013
[email protected]

11 مئی کے الیکشن سے پہلے جب الیکٹرانک میڈیا پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف بھرپور اشتہاری مہم چلا رہی تھیں تو مسلم لیگ ن کا ایک اشتہار بہت ہی ولولہ انگیز معلوم ہوتا تھا۔ اشتہار کا ابتدائی حصہ تو یاد نہیں آ رہا لیکن یہ اشتہار ختم اس طرح ہوتا تھا کہ نواز شریف علامہ اقبالؔ کا یہ شعر اموختہ دُہرانے کے انداز میں سامعین کو ازبر کراتے ہیں ؎

اے طائر ِ لاہوتی، اُس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی

اشتہار کا مقصد غالباً عوام کو یہ با ور کرانا تھا کہ زرداری حکومت نے آئی ایم ایف سمیت مختلف ملکی اور غیرملکی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر بھاری قرضہ لے کر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں نواز شریف جب علامہ اقبال کا یہ مشہور ِزمانہ شعر سبقاً سبقاً پڑھتے اور پڑھاتے تھے تو یہ گویا ببانگ دہل اعلان تھا کہ 'علامہ اقبال کے ''طائر لاہوتی'' کی طرح مرتے مر جائیں گے لیکن زرداری حکومت کی تقلید میں قرض لے کر قوم کو رسوا نہیں کریں گے۔ لیکن ہوا یوں کہ موجودہ حکومت نے پہلے 100 دن میں جس کام میں پھرتی دکھائی ہے وہ ملکی اور غیرملکی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول ہے۔ نوازشریف حکومت سردست 5.3 بلین ڈالر کا قرض لے چکی ہے۔ وزیر باتدبیر اسحاق ڈار نے مزید 2 بلین ڈالر کی عرضی ڈال رکھی ہے۔ طائر لاہوتی والا قصہ رفت گزشت ہو چکا ہے۔

مہنگائی کا طوفان نہیں بلکہ ایک سونامی ہے آ رہا ہے۔ پٹرول فی لٹر 109 تک پہنچ چکا ہے۔ چند روز میں مزید 3روپیہ اضافہ متوقع ہے۔ یہ بات قطعاً مبالغہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں جس تناسب سے یکدم اضافہ کیا ہے پچھلے 68 برسوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

20 کلو آٹے کا تھیلا صرف90 روز میں 120 روپے مزید مہنگا ہو چکا ہے۔ روٹی کی قیمت 6 روپے تک جا پہنچی ہے۔ وفاق میں ان دنوں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے یعنی وفاق کی طرف سے اب کوئی مسئلہ نہیں اس کے باوجود ابھی تک کوئی اس طرح کا عندیہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ پنجاب حکومت سستی روٹی اسکیم دوبارہ شروع کرنے جا رہی ہے یا روٹی کی قیمت کم کرنا چاہتی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت آٹا سستا نہیں کر پاتی یا روٹی کی قیمت نیچے لانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر ناقدین کا یہ موقف درست سمجھا جائے گا کہ سستی روٹی اسکیم سیاسی اسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اب روپیہ کی طرف آجائیں۔ ایک طرف تیل، بجلی، گیس اور آٹا کی قیمتوں میں ہوش اڑا دینے والا اضافہ ہے، دوسری طرف روپے کی گرتی ہوئی قدر ہے۔

امریکی ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر107 روپے فی ڈالر تک گر چکی ہے۔ اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ اگلے چند ماہ تک یہ قدر مزید گر کر 114 روپے فی ڈالر تک جا پہنچے گی۔ روپے کی قدر گرنے کا معاملہ بہت خوفناک عمل ہے۔ غریب کی کمائی بیٹھے بیٹھے لٹ جاتی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی نے بیٹی کے جہیز کے لیے ایک لاکھ روپیہ پیٹ کاٹ کر جمع کیا ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں روپے کی قدر 10 روپے فی ڈالر کے حساب سے کم ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس غریب کی ایک لاکھ کی جمع پونجی میں سے حقیقتاً 10 ہزار روپے کم ہو چکے ہیں، لیکن یہ سرکاری نقب زنی اس پر تب منکشف ہو گی جب وہ بیٹی کے لیے جہیز کی اشیا خریدنے کے لیے بازار جائے گا۔

یہاں تک لکھ چکا تو قائداعظم کا وہ خطاب یاد آ گیا جو انھوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کیا تھا۔ قائد اعظم مرض الموت میں مبتلا ہیں اور کوئٹہ میں آرام فرما رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے تقریب قریب آ گئی ہے۔ قائداعظم اپنی تقریر تیار کرتے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح بیمار بھائی سے کہتی ہیں کہ بھائی آپ کی صحت اس قابل نہیں کہ اس تقریب میں شرکت کے لیے کراچی جائیں۔ آپ کی لکھی یہ تقریر وہاں کوئی اور پڑھ دے گا۔ لیکن قائداعظم کو جیسے اس تقریب ہی کا انتظار ہے، فرماتے ہیں نہیں فاطی میرا اس تقریب میں جانا بے حد ضروری ہے۔ بانی ِ پاکستان کو اس تاریخی تقریب میں وہ بنیادی اصول متعین کرنا ہیں جن پر پاکستان کی آیندہ معاشی پالیسی استوار ہو گی۔ یہ تقریر ان کی زندگی کی آخری تقریر ہے۔ اس طرح یہ ان کی وصیت بھی ہے۔ اگرچہ قائداعظم کا سارا خطاب ہی دعوت ِفکر و عمل ہے لیکن ضرورت ِ زندگی کی قیمتوں میں غیر معمولی اور نامنصفانہ اضافہ سے متعلق اُن کا تجزیہ اور پالیسی بیان پڑھ کر آدمی ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔

فرماتے ہیں ''ضروریات ِ زندگی کی قیمتوں میں غیر معمولی اور نامنصفانہ اضافہ سے معاشرہ کا غریب اور تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ جاتاہے۔ یہ صورتحال معاشرہ میں انارکی کو جنم دیتی ہے۔ دریں حالات، حکومت پاکستان کی پالیسی یہ ہے کہ بنیادی ضروریات ِ زندگی کی قیمتوں کو بہرصورت مستحکم رکھا جائے گا۔ قیمتوں کا تعین کرتے وقت صرف سرمایہ کار کا مفاد نہیں، صارف کا مفاد بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔'' پاکستان کی 68 سالہ تاریخ قائد اعظم کا یہ تجزیہ سچ ثابت کر رہی ہے۔ لیکن شاید ہمارے حکمران ہوش میں آنے کو تیار نہیں۔ طائرلاہوتی کی تقلید کی خواہش اپنی جگہ، لیکن غریب آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو زندگی کی بنیادی ضروریات ارزاں نرخوں پر مہیا ہوں۔ افسوس کہ زرداری حکومت کے بعد نواز شریف حکومت کی بھی اس معاملہ میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے۔ صرف آرائشی اور نمائشی اقدامات پر زور ہے۔ حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ طائرلاہوتی کی طاقت ِپرواز اپنی جگہ لیکن روٹی کی طاقت بھی امر مسلمہ ہے۔ روٹی کا مسئلہ حل نہ ہو اور یہ کھانے پر آ جائے تو یہ اس طرح ہر چیز نگل لیتی ہے کہ معاشرہ میں پیچھے صرف دہشت اور ملال رہ جاتے ہیں کچھ بھی نہیں بچتا۔ شاعر نے کہا تھا ؎

توں کی جانے یار امیرا

روٹی بندہ کھا جاندی اے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔