وہی ہُوا جس کا ڈر تھا
جن باتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا وہ انتہائی دردناک حقیقت اور المناک واقعات کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
میں یہ شعر اُن تمام لوگوں کے نام کر رہا ہوں ، جو شہرکراچی میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہونے والی بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے۔ باران ِ رحمت تو چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتی ہے اور بکھیرتی رہے گی لیکن اس کے دوران کراچی میں جو سانحات رُونما ہوئے، اُن کا درد شاید ہی کبھی ختم ہو، ہاں ہم لوگ تو کچھ عرصے بعد کسی اور حادثے یا سانحے کو قلمبند کر رہے ہوں گے یا اس کی تفصیلات بتا رہے ہونگے لیکن جن کے پیارے اس بارش کے دوران ہمیشہ کے لیے چلے گئے وہ ایک ایک پَل تڑپیں گے اور تڑپ رہے ہیں۔
افسوس کے عالم میں اپنا سَر پیٹیں یا غم سے نڈھال ہوکر چیخیں مار مارکر روئیں، حادثات کے ذمے داروں کو بد دعائیںدی جائیں یا کوسنے دے کر دل کی بھڑاس نکالی جائے مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ جن کے پیارے چلے گئے وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے اور یہ بات بھی المیے سے کم نہیں ہے کہ کوئی بھی ذمے دار اتھارٹی ان سانحات کی ذمے داری بھی قبول نہیں کرے گی۔
اگرکسی گھر میں عین عید کے موقع پر خوشیاں اس طرح رخصت ہوجائیں کہ اُن کی جگہ زندگی بھرکا دکھ، درد اور غم لے لیں، پیاروں کے جنازے آجائیں تو اُس کا اندازہ صرف اُس گھرکے مکین ہی کرسکتے ہیں لیکن رونا تو اس بات کا ہے کہ شہرکراچی میں ایسا کوئی ایک گھر نہیں ہے بلکہ درجنوں گھر ہیں جہاں عید پر میتیں آئیں اور اب پیچھے رہ جانے والوں کیلیے پہاڑ جیسی زندگی انتہائی تلخ اور دکھ بھری یادوں کے ساتھ رہ گئی ہے۔
اس سے قبل بھی چند تحریروں میں بار بار کراچی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا اور بارش میں حادثات سے بچنے کیلیے اقدامات بھی تجویزکیے گئے، ارباب اختیارکو آرا اور تجاویز بھی دی گئیں جن کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ کام نہیں کر رہے بلکہ صرف ایک درد مند شہری اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت میں اپنی طرف سے کچھ باتیں اُن تک پہنچانی تھیں تاکہ اُنہیں عوام کی سہولت کیلیے کام کرنے میں آسانی ہو۔
جن باتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا وہ انتہائی دردناک حقیقت اور المناک واقعات کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ بارشوں کے دوران جہاں بجلی کے گرے ہوئے تاروں نے کرنٹ سے بہت سے شہریوں کو لقمہ اجل بنایا تو دوسری طرف نکاسی آب کے ابتر نظام نے متعدد علاقوں میں سیکڑوں گھروں کو زیر آب کردیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو اُس وقت بھی شہر کے بہت سے علاقے برساتی پانی میں گھرے ہوئے ہیں اور اُس پانی کی نکاسی کا کام بہت سست رفتاری سے کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے معمولات زندگی درہم برہم ہوگئے ہیں۔
کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد صورتحال کیا رہی؟، اس کے بارے میں زیادہ کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دریا بنی سڑکوں ، تالاب بنے رستوں اور ندی نالوں کی صورت اختیارکیے رہائشی علاقوں اور وہاں موجود شہریوں کی حالت زارکی تصاویر ٹی وی چینلوں، اخبارات، سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ زیر نظر مضمون تو بارش کے دوران جاں بحق افراد کے لیے تعزیت ہے کہ ہم اتنے بدنصیب ہیں کہ بارانِ رحمت کا لطف تو نہیں اٹھاسکے لیکن ہم نے شہروالوں کے جنازے ضرور اٹھائے۔ ہم کس کس کو روئیں؟، ڈیفنس میں کرنٹ لگنے سے موٹرسائیکل سوار 3 نوجوان دوستوں طلحہ، حمزہ اور فیضان کو روئیں جن کی المناک اور دردناک کہانی سب کے لبوں پر ہے اور جن کی آخری فوٹیج خون کے آنسو رُلا رہی ہے۔ کھارادر کے عمیر کیلیے اشک بہائیں جو قربانی کیلیے لائے گئے جانوروں کے ساتھ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہُوا یا کسی اور کے لیے احتجاج کریں۔ اداروں کی جنگ اور اُن کے مفادات کی تیز چھُری تلے آکر قربان ہونے والے کراچی والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ کسی کو نہیں پتہ کہ کون کب اور کیوں مارا گیا جب کہ جن اداروں اور شخصیات کو شہرکی حالت سُدھارنے کی ذمے داری دی گئی ہے وہ سب اپنے اپنے موقف کے صحیح ہونے کی مسلسل قسمیں کھا رہے ہیں۔بقول شاعر
قبریں ہی جانتی ہیں کہ اس شہرِ جبر میں
مرکر ہوئے ہیں دفن کہ زندہ گڑے ہیں لوگ
جہاں حالیہ بارشوں کے دوران وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کے نمائندوں نے اپنے طور پر عوام کو مسائل کے حل کے لیے کوششیں کیں، وہاں غیر سرکاری تنظیم جے ڈی سی کے روح رواں ظفر عباس بھی اس لحاظ سے نمایاں رہے کہ انھوں نے بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے جاں بحق افراد کے سوگوار اہلخانہ کی آواز اور فریاد ارباب اقتدار تک پہنچانے اور شہریوں کو اُن کا احوال بتانے کیلیے حتی المقدورکوششیں کیں اور کررہے ہیں۔ جب لوگ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے تو ظفرعباس لواحقین کے ساتھ مردہ خانوں میں بھی گئے، اپنے پیاروں کی جدائی کے غم سے نڈھال لوگوں کی اُن کے گھروں میں جاکر بھی دلجوئی کی ، میڈیا کے سامنے بھی تمام صورتحال رکھی۔ رات کے اندھیرے، برستی بارش کے دوران مردہ خانے میں کھڑے ہوکر اُن کی جانب سے پوچھا گیا یہ سوال ارباب اختیار اور ارباب اقتدار سے تمام کراچی والوں کا سوال ہے کہ ''کیا کوئی ہے کراچی کو پوچھنے والا ؟''، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ۔
بارشوں کے دوران شہر کی صورتحال کا جائزہ لینے وزیر اعلیٰ سندھ بھی باہر نکلے، میئرکراچی بھی سڑکوں پر تھے، دیگر سیاسی رہنما اور وزرا نے بھی اپنے طور پر معاملات کو دیکھا۔ ہمیں کسی کی نیت پر شُبہ نہیں کرنا چاہیے لیکن کراچی والوں کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ شہرکے سدھار کیلیے منصوبے اور دیگرکام صرف اس وجہ سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے کیونکہ وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتیں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ یہ صرف ان بارشوں کا معاملہ نہیں، شہرکے ہر ایشو پر تینوں حکومتیں اور ان کے نمائندے الگ الگ موقف لیے ہوئے ہوتے ہیں جس سے شہر قائد کے باسیوں کو احساس ہوتا ہے کہ شاید صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہو رہی ہے اور عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔اس کے علاوہ شہرکو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک مسلسل تنقید کی زد میں ہے، اس کا ابتر انفرااسٹرکچر مسلسل حادثات میں اضافہ کر رہا ہے لیکن کے الیکٹرک کے ذمے دار بھی جانے والوں کے سوگواروں سے اظہار تعزیت اور آیندہ بہتر کارکردگی پیش کرنے کے دعوئوں کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔
مجھ ناچیز کی رائے ہے کہ کرنٹ لگنے جیسے روح فرسا حادثے میں جاں بحق افراد کے جنازے میں شرکت اور لواحقین کو دلاسے دینے سے بہتر ہے کہ ایسے کام کیے جائیں جن کی مدد سے المناک حادثات کو روکا جاسکے۔
یہ بات سب کو پتہ ہے کہ کراچی میں بارش پہلی بار ہوئی نہ آخری بار، جولوگ چلے گئے وہ تو کبھی بھی واپس نہیں آسکتے لیکن جو لوگ باقی ہیں اُنہیں کسی بڑے حادثے سے ضرور بچایا جاسکتا ہے۔بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے شہریوں کی اموات، سڑکوں، گلیوں حتیٰ کہ گھروں تک میں برساتی پانی کا ہونا، قبرستانوں میں نالوں کا گندا پانی چلے جانا اورکئی دن تک موجود رہنا، کیا یہی کراچی کا نصیب ہے؟، بالکل ایسا نہیں ہے۔ یہ انتہائی ابتر اور افسوسناک صورتحال اس لیے پیدا ہوتی ہے جب شہر کی بحالی اور بہتری کے لیے کام کرنے والے ادارے اور لوگ اپنا کام صحیح طرح اور وقت پر نہ کریں۔
شہر میں کچرے سے بھرے نالوں کی صفائی، نکاسی آب کے نظام کو جامع منصوبہ بندی کے تحت تیار کرنا، بجلی کے ترسیلی نظام میں موجود نقائص کو دُورکرنا اور شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور خستہ حال راستوں کی فوری مرمت سال میں ایک دفعہ کا کام نہیں بلکہ ایسے کام تو روزانہ کی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ شہریوں کو اس سے سروکار نہیں کہ کون حکومت کررہا ہے اورکون نہیں؟، وہ تو صرف اپنے اُن مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں جو شاید اُنہیں ورثے میں مل گئے ہیں اور کوئی انھیں ٹھیک کرنے کو تیار نہیں۔ جو شخص، جماعت یا حکومت شہریوں کے بنیادی مسائل اُن کی دہلیز پر حل کرنے کا مشن پورا کرے گا لوگ اُسے ہی اپنا سمجھیں گے ورنہ لوگ تو ہمیشہ یاد رہتے ہیں، بری اور تلخ یادوں کے ساتھ بھی اور اچھی یادوں کے ساتھ بھی، اس بات پر غور کرنا ارباب اختیارکی ذمے داری ہے۔