زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل

مسلمانوں کی طرح مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا تماشا برسہا برس سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔


شاہد سردار August 18, 2019

مسلمان ایک دوسرے سے کیوں الجھتے، لڑتے اور ایک دوسرے کا خون بہاتے چلے آرہے ہیں۔ کاش اللہ انھیں ہدایت دے دے اور ایک قرآن اور ایک رسول کو ماننے والے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر کردے کیونکہ مسلمانوں کے دشمن اسی فرقہ واریت کو ایک مہلک ہتھیار کے طور پر مسلمانوں کے خلاف برسوں سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔

لبنان سے لے کر شام تک اور عراق سے لے کر پاکستان تک مسلمانوں کے دشمنوں نے فرقہ وارانہ تنظیموں کو ہی پالا پوسا اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ افسوس صد افسوس کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف کم اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ بولتی ہے۔

حال ہی میں مصرکے پہلے منتخب صدر محمد مرسی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوئے ہیں اور وہ دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے لیے سدا روشنی کا مینار بن کر رہیں گے۔ ہر تاریخ سے دلچسپی رکھنے والا جانتا ہے کہ محمد مرسی بندوق کی طاقت سے نہیں بلکہ ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے تھے۔امریکا اور اس کے کاسہ لیسوں نے ایک منتخب صدر کو فوج کی مدد سے پہلے جیل میں ڈالا ، اس پر متعدد سنگین الزامات عائد کیے،کیونکہ بہت سے اسلامی ممالک میں یہ روایت موجود ہے کہ جب کسی سیاست دان یا صحافی کے کردار پر حملہ کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہ ہو تو اسے امریکا، اسرائیل یا بھارت کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ محمد مرسی کو بالآخر قبر میں اتارکر دنیا کو بتا دیا گیا کہ اس ملک کی جمہوریت پسندی کے دعوے محض ایک فریب ہیں۔ محمد مرسی کی موت سے مسلم دنیا میں جمہوریت پسندوں کا بیانیہ کمزور اور عسکریت پسندوں کا بیانیہ مضبوط ہوگیا۔

اکثر مسلم ممالک کے حکمران ان کی موت پر خاموش رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ محمد مرسی کی موت پر اظہار تعزیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشانی پر بل پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ''خاموش سمجھوتوں'' کی تاریخ تو ویسے بھی بہت پرانی ہے۔

آج کل ہمارے ملک میں ''ریاست مدینہ'' کے نام کا بڑا غلغلہ مچا ہوا ہے اور ایسا ہمارے وزیر اعظم صاحب کی وجہ سے ہوا ہے جن کی توجہ ملک کے ایشوز کی بجائے افراد پر ہے۔ ریاست مدینہ اور اسلام کے الفاظ کا تو اس ملک میں پہلے بھی بہت استحصال ہوا ہے وہ مزید استحصال نہ کریں کیونکہ ریاست مدینہ جیسی ریاست کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ پاکستان کو موجودہ دورکا ترکی ہی بنا دیں تو ہم ان کو قائد اعظم ثانی کا مقام دینے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔

ہمارے منتخب وزیر اعظم کو وطن عزیز میں نئی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے جو یک رخی نہیں بلکہ وسیع تر تعلقات پر مبنی ہو۔خصوصاً ایران اور سعودی عرب سے برادر مسلم ملکوں کے تنازعات کے تصفیے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں برسوں سے جاری بدامنی کا خاتمہ اور مسلم دنیا میں باہمی تعاون کا فروغ اس کے بغیر ممکن نہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ صرف فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کی تاریخ ہی نہیں، عالم اسلام کے کئی دوسرے ممالک میں بھی مسلمانوں پر خدا کی زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ یتیم بچے، مظلوم بیٹیاں، بیوہ مائیں اور کمزور بوڑھے برسوں سے پھر کسی محمد بن قاسم کو پکار رہے ہیں۔ قبلہ اول بھی برسہا برس سے پھر کسی صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھ رہا ہے، لیکن لگتا ہے عرب کی مٹی نے مجاہد پیدا کرنے بند کردیے ہیں۔ کوئی خالد بن ولید، کوئی سعد بن وقاص اور کوئی نور الدین زنگی اب عرب و افریقہ کے ریگ زاروں سے نہیں آرہا کیونکہ تیل اور پٹرول سے حاصل شدہ دولت کی فراوانی نے عربوں کو آرام طلبی اور ہر قسم کے عیش و عشرت اور زعم میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کبھی پاکستان کو اسلام کا قلعہ ہونے کا فخر حاصل تھا، لیکن پاکستان بھی قومیتوں، فقہوں، فرقوں اور لسانی جھگڑوں، اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہے اور مشرق و مغرب دونوں سرحدوں پر دشمنوں سے برسر پیکار ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے اقوال عالم میں اسلام کے مسلمانوں کی حالت زار کا اندازہ جبھی کرلیا تھا اسی لیے ان کا یہ شعر عالم اسلام کے مسلمانوں کا غماز نظر آتا ہے:

زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ توکیا حاصل

دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

یہ کڑوی سچائی ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی برسوں سے جعلی اور مطلب برار اسلام دوستوں کے شکنجوں میں پھنسا ہوا ہے جو عبادت اور معاملات کو الگ الگ چیزیں سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسلام سے محبت کے صرف دعوے، پاکستان سے محبت کے بھی صرف دعوے لیکن اصل مقصد اصل محبت صرف ذات اور اپنے مفاد سے ہے۔

ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں کہ ہم سب اسلام، اسلامی قوانین، اسلامی نظریات اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام نہاد دوست یا نگہبان ہیں اس لیے اقوام عالم میں موجود مسلمانوں کی طرح مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا تماشا برسہا برس سے دیکھتے چلے آرہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ طالع آزماؤں کے ہاتھوں میں اب تک کھیل بھی رہے ہیں۔ سامنے کی حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ ہے مگر ہمیں پاکستان سے زیادہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات مقدم ہیں، اپنا منصب، اپنا اقتدار یا پھر اپنا مرتبہ ہی پیارا اور عزیز ہے اور اس کا غرور بھی ہے۔

حالانکہ جس چیز پر انسان سب سے زیادہ غرور کرتا ہے وہ چیز رب چھین لیتا ہے۔ لیکن مسلمان چاہے پاکستانی ہو، لبنانی ہو، ایرانی ہو یا پھر کسی بھی دوسرے ملک سے تعلق رکھتا ہو اسے اس کی ذرہ برابر پرواہ اور فکر نہیں۔ کاش وہ جان لیں کہ زندگی دوسرا موقع نہیں دیتی پھر بھی دوسرا موقع تیسرا موقع بلکہ کئی مواقع ہم قصور وار مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے مل چکے ہیں لیکن شاید ساری دنیا کے مسلمان بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی طرح ہوگئے ہیں اور طوفان نوح کے منتظر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں