دی موسٹ پاور فل ’’ویپن‘‘
انگریز خود تو چلے گئے لیکن ’’بھڑ‘‘ کی طرح یہ ’’ڈنگ‘‘ ہم میں چھوڑ گئے۔
دیسی اور اردو میڈیم یا منشی فاضل ٹائپ کے اقوال تو ہم پیش کرتے رہتے ہیں جو انگلش میڈیم کی ہائی فائی فریکونسی کے اوپر سے گزر جاتے ہیں لیکن سوچا کہ چلو آخری عمر میں ہم بھی تھوڑے سے ہائی فائی ہو جائیں۔ سو آج کے لیے ہم نے جو قول زریں پکڑا ہے، وہ مقدس زبان انگریزی کا ہے۔
انگریز خود تو چلے گئے لیکن ''بھڑ'' کی طرح یہ ''ڈنگ'' ہم میں چھوڑ گئے۔ بھڑ یا شہد کی مکھی کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ کسی جگہ ڈنگ مار لے تو وہ جگہ سوجھ جاتی ہے۔ یہ قول زریں یا ''گولڈن بیانیہ'' یہ ہے کہ ایجوکیشن از دی موسٹ ''پاور فل ویپن'' وچ یو کین یوز ٹو چینج دی ورلڈ''۔
ایجوکیشن بلکہ ایڈ۔ جو کیشن یعنی تعلیم وہ طاقتور ہتھیار ہے جس کے استعمال سے آپ دنیا بدل سکتے ہیں۔ ویسے تو اس قول زریں سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف کر کے اردو میڈیم موت مرنا ہے کیا؟ اور پھر اردو میں آپ علم و معرفت کے دریا ہی کیوں نہ بہائیں دانشور نہیں کہلا سکتے اور اگر انگریزی میں صرف سوری کہنا بھی سیکھ لیں تو دانشور ہو جاتے ہیں۔ انگریزی پر یاد آیا، ہمارے علاقے میں ایک گاؤں ہے جس کے زیادہ تر لوگ برطانیہ کینڈا یعنی بقول ان کے ''یوکے'' میں رہتے ہیں۔ ی
ہاں کا ایک سبزی فروش پوری زندگی وہاں سبزی بیچتا رہا اور کچھ بھی نہ بنا۔ ایک مرتبہ ہم نے اس سے پوچھا کہ آخر اتنی مصروفیت میں تم نے کیا پایا، اپنے گاؤں میں سبزی بیچتے تو کم ازکم خوارتو نہ ہوتے۔ تو بولا، کیا بتاؤں وہاں کی خواتین انگریزی میں جو گالیاں دیتی ہیں، ان کا مزہ ہی کچھ اور ہے لیکن تمام تر عقیدت کے باوجود اس قول زریں میں یہ جو ''ویپن'' بلکہ ''موسٹ پاورفل ویپن'' کا لفظ استعمال ہوا ہے، یہ بڑا ہی تحقیق طلب ہے کیونکہ یار لوگ آج کل تقریبات و خرافات میں بہت زور زور سے چلاتے ہیں، ہمیں بچوں کے ہاتھ سے ''ہتھیار'' چھین کر ''قلم'' دینا چاہیے اور اگر قلم کو بھی ''وپین'' قرار دیا جائے تو تیرا کیا بنے گا کالیا کیونکہ حکومت نے جو ہر طرح کی ''دانش'' اور ہتھیاروں کی سرپرستی کی ہے، اسکولوں کے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ اساتذہ اپنے ہتھیار ضرور رکھیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اب بچوں کے بیگ میں بھی ایک پستول رکھنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہو، کل ہم ان طالب علموں کو برا کہتے تھے جو درسگاہوں میں ہتھیار لاتے تھے اور آج جو ہتھیار نہیں لاتے وہ برے۔ ایک اور گاؤں کا قصہ یاد آ رہا ہے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ وہاں ایک زمانے میں لڑکی کا کسی کے ساتھ بھاگنا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن آج کل جو لڑکی بھاگ نہیں جاتی یا کوئی اسے بھگا کر نہیں لے جاتا، اس کی خاندانی شادی ہوتی ہے تو اسے ''عیب دار'' سمجھا جاتا ہے۔ خیر یہ تو ویسے ہی درمیان میں آگئی، اصل بات ''ویپن'' بلکہ موسٹ پاورفل وپین کی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ:
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے ''کتابوں'' نے کیا دیا مجھ کو
آپ اپنے حالات کی مناسبت سے ''کتابوں'' کی جگہ مشینوں، کرنسیوں، بینکوں اور آئی ایم ایف کے قرضوں اور لیڈروں کو بھی رکھ سکتے ہیں، بالکل سیدھی سی اور سچی بات تو یہ ہے کہ ''جس وپین'' کو لارڈ میکالے نے بنایا اور انگریزوں نے ہتھیاروں کے سائے میں پروان چڑھایا اور آج پھر ہتھیاروں کے سائے میں تیار کیا جا رہا ہے، اس لیے ''وپین'' ہی کا نام موزون ہو سکتا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں اس سلسلے میں ایک حقیقہ بشکل لطیفہ بھی موجود ہے۔
کہتے ہیں ایک پٹواری راستے پر جا رہا تھا کہ اس کا قلم گر گیا لیکن اسے پتہ نہیں چلا۔ پیچھے پیچھے آنے والے ایک ''عامی'' نے قلم دیکھ کر اور پھر اٹھا کر کہا، مرزا صاحب ذرا رکیے، آپ کا یہ ''چھرا'' گر گیا تھا۔ مرزا صاحب نے اس کے ہاتھ سے قلم لیتے ہوئے کہا، عجیب احمق آدمی ہو جو قلم کو ''چھرا'' کہہ رہے ہو ، یہ قلم ہے کوئی چھرا وُرا نہیں ہے۔ دیہاتی نے کہا، وہ تو مجھے پتہ ہے کہ یہ چھرا نہیں قلم ہے لیکن جب تک میرے ہاتھ میں تھا، آپ کے ہاتھ میں پہنچ کر تو یہ ''چھرا'' بن جاتا ہے نا۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ ''تیرگی'' جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
ویسے بھی یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ قلم گوئد کہ من شاہ جہانم۔ شاید ''جہانم'' کی جگہ اصل لفظ ''جہنم'' رہا ہو کیونکہ آج کی دنیا کو اگر کسی نے جہنم بنا رکھا ہے تو وہ یہی ''ویپن'' ہے۔ اور خوش قسمتی سے (سوداگروں کی) یہ وپین اپنے ہاں اتنا زیادہ بن رہا ہے کہ پاکستان کو ہم اس لحاظ سے ''درہ آدم خیل'' بھی کہہ سکتے ہیں۔ جہاں طرح طرح کے ویپن دکانوں، کیبنوں، ریڑھیوں اور چھابڑیوں میں یوں بکتے ہیں جسے عرب میں کھجور، بھارت میں کیلے اور ناریل، چین میں الیکڑانک اور امریکا میں ''امریکی'' عام ملتے ہیں۔ یہ وپین واقعی دنیا میں بہت بڑا چیلنج لا رہے ہیں جس رفتار سے اس کے ذریعے جہالت پھیلائی جا رہی ہے، بیروزگاری اور جرائم اُگائے جا رہے ہیں، یہ دنیا کو بہت جلد بدل کر اس کا نام... وہ آپ کی پسند پر ہے کچھ بھی رکھ سکتے ہیں سوائے ''دنیا'' کے کیونکہ دنیا تو پہلے ہی اپنا سر کھا چکی ہے اور ابھی تو بہت کچھ بدلنا باقی ہے، اس ویپن کے ذریعے۔
انسان کو صرف حیوان بنا چکا ہے، درندہ اور بندر بنانا تو باقی ہے۔ دراصل یہ سارا چکر ''نام'' کا ہے جس چیز کو ''علم'' کہتے تھے، وہ تو ایک بے فیض غیر کھماؤ اور نکھٹو سی چیز تھی جو آدمی کو آدمی بنا کر کہیں کا نہیں رکھتی ہے۔ یہ تعلیم یا ایڈ۔ جو کیشن بالکل اور چیز ہے جو صرف آدمی نہیں بناتی باقی سب کچھ بناتی ہے۔
انگریز خود تو چلے گئے لیکن ''بھڑ'' کی طرح یہ ''ڈنگ'' ہم میں چھوڑ گئے۔ بھڑ یا شہد کی مکھی کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ کسی جگہ ڈنگ مار لے تو وہ جگہ سوجھ جاتی ہے۔ یہ قول زریں یا ''گولڈن بیانیہ'' یہ ہے کہ ایجوکیشن از دی موسٹ ''پاور فل ویپن'' وچ یو کین یوز ٹو چینج دی ورلڈ''۔
ایجوکیشن بلکہ ایڈ۔ جو کیشن یعنی تعلیم وہ طاقتور ہتھیار ہے جس کے استعمال سے آپ دنیا بدل سکتے ہیں۔ ویسے تو اس قول زریں سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف کر کے اردو میڈیم موت مرنا ہے کیا؟ اور پھر اردو میں آپ علم و معرفت کے دریا ہی کیوں نہ بہائیں دانشور نہیں کہلا سکتے اور اگر انگریزی میں صرف سوری کہنا بھی سیکھ لیں تو دانشور ہو جاتے ہیں۔ انگریزی پر یاد آیا، ہمارے علاقے میں ایک گاؤں ہے جس کے زیادہ تر لوگ برطانیہ کینڈا یعنی بقول ان کے ''یوکے'' میں رہتے ہیں۔ ی
ہاں کا ایک سبزی فروش پوری زندگی وہاں سبزی بیچتا رہا اور کچھ بھی نہ بنا۔ ایک مرتبہ ہم نے اس سے پوچھا کہ آخر اتنی مصروفیت میں تم نے کیا پایا، اپنے گاؤں میں سبزی بیچتے تو کم ازکم خوارتو نہ ہوتے۔ تو بولا، کیا بتاؤں وہاں کی خواتین انگریزی میں جو گالیاں دیتی ہیں، ان کا مزہ ہی کچھ اور ہے لیکن تمام تر عقیدت کے باوجود اس قول زریں میں یہ جو ''ویپن'' بلکہ ''موسٹ پاورفل ویپن'' کا لفظ استعمال ہوا ہے، یہ بڑا ہی تحقیق طلب ہے کیونکہ یار لوگ آج کل تقریبات و خرافات میں بہت زور زور سے چلاتے ہیں، ہمیں بچوں کے ہاتھ سے ''ہتھیار'' چھین کر ''قلم'' دینا چاہیے اور اگر قلم کو بھی ''وپین'' قرار دیا جائے تو تیرا کیا بنے گا کالیا کیونکہ حکومت نے جو ہر طرح کی ''دانش'' اور ہتھیاروں کی سرپرستی کی ہے، اسکولوں کے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ اساتذہ اپنے ہتھیار ضرور رکھیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اب بچوں کے بیگ میں بھی ایک پستول رکھنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہو، کل ہم ان طالب علموں کو برا کہتے تھے جو درسگاہوں میں ہتھیار لاتے تھے اور آج جو ہتھیار نہیں لاتے وہ برے۔ ایک اور گاؤں کا قصہ یاد آ رہا ہے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ وہاں ایک زمانے میں لڑکی کا کسی کے ساتھ بھاگنا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن آج کل جو لڑکی بھاگ نہیں جاتی یا کوئی اسے بھگا کر نہیں لے جاتا، اس کی خاندانی شادی ہوتی ہے تو اسے ''عیب دار'' سمجھا جاتا ہے۔ خیر یہ تو ویسے ہی درمیان میں آگئی، اصل بات ''ویپن'' بلکہ موسٹ پاورفل وپین کی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ:
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے ''کتابوں'' نے کیا دیا مجھ کو
آپ اپنے حالات کی مناسبت سے ''کتابوں'' کی جگہ مشینوں، کرنسیوں، بینکوں اور آئی ایم ایف کے قرضوں اور لیڈروں کو بھی رکھ سکتے ہیں، بالکل سیدھی سی اور سچی بات تو یہ ہے کہ ''جس وپین'' کو لارڈ میکالے نے بنایا اور انگریزوں نے ہتھیاروں کے سائے میں پروان چڑھایا اور آج پھر ہتھیاروں کے سائے میں تیار کیا جا رہا ہے، اس لیے ''وپین'' ہی کا نام موزون ہو سکتا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں اس سلسلے میں ایک حقیقہ بشکل لطیفہ بھی موجود ہے۔
کہتے ہیں ایک پٹواری راستے پر جا رہا تھا کہ اس کا قلم گر گیا لیکن اسے پتہ نہیں چلا۔ پیچھے پیچھے آنے والے ایک ''عامی'' نے قلم دیکھ کر اور پھر اٹھا کر کہا، مرزا صاحب ذرا رکیے، آپ کا یہ ''چھرا'' گر گیا تھا۔ مرزا صاحب نے اس کے ہاتھ سے قلم لیتے ہوئے کہا، عجیب احمق آدمی ہو جو قلم کو ''چھرا'' کہہ رہے ہو ، یہ قلم ہے کوئی چھرا وُرا نہیں ہے۔ دیہاتی نے کہا، وہ تو مجھے پتہ ہے کہ یہ چھرا نہیں قلم ہے لیکن جب تک میرے ہاتھ میں تھا، آپ کے ہاتھ میں پہنچ کر تو یہ ''چھرا'' بن جاتا ہے نا۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ ''تیرگی'' جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
ویسے بھی یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ قلم گوئد کہ من شاہ جہانم۔ شاید ''جہانم'' کی جگہ اصل لفظ ''جہنم'' رہا ہو کیونکہ آج کی دنیا کو اگر کسی نے جہنم بنا رکھا ہے تو وہ یہی ''ویپن'' ہے۔ اور خوش قسمتی سے (سوداگروں کی) یہ وپین اپنے ہاں اتنا زیادہ بن رہا ہے کہ پاکستان کو ہم اس لحاظ سے ''درہ آدم خیل'' بھی کہہ سکتے ہیں۔ جہاں طرح طرح کے ویپن دکانوں، کیبنوں، ریڑھیوں اور چھابڑیوں میں یوں بکتے ہیں جسے عرب میں کھجور، بھارت میں کیلے اور ناریل، چین میں الیکڑانک اور امریکا میں ''امریکی'' عام ملتے ہیں۔ یہ وپین واقعی دنیا میں بہت بڑا چیلنج لا رہے ہیں جس رفتار سے اس کے ذریعے جہالت پھیلائی جا رہی ہے، بیروزگاری اور جرائم اُگائے جا رہے ہیں، یہ دنیا کو بہت جلد بدل کر اس کا نام... وہ آپ کی پسند پر ہے کچھ بھی رکھ سکتے ہیں سوائے ''دنیا'' کے کیونکہ دنیا تو پہلے ہی اپنا سر کھا چکی ہے اور ابھی تو بہت کچھ بدلنا باقی ہے، اس ویپن کے ذریعے۔
انسان کو صرف حیوان بنا چکا ہے، درندہ اور بندر بنانا تو باقی ہے۔ دراصل یہ سارا چکر ''نام'' کا ہے جس چیز کو ''علم'' کہتے تھے، وہ تو ایک بے فیض غیر کھماؤ اور نکھٹو سی چیز تھی جو آدمی کو آدمی بنا کر کہیں کا نہیں رکھتی ہے۔ یہ تعلیم یا ایڈ۔ جو کیشن بالکل اور چیز ہے جو صرف آدمی نہیں بناتی باقی سب کچھ بناتی ہے۔