شام میں بیرونی مداخلت

شام کی اندرونی صورتحال اتنی خراب نہیں تھی جتنی بیرونی طاقتوںکی دخل اندازی کی وجہ سے معاملات سنگین ہوتے چلے گئے...


قمر عباس نقوی September 22, 2013

شام کی اندرونی صورتحال اتنی خراب نہیں تھی جتنی بیرونی طاقتوںکی دخل اندازی کی وجہ سے معاملات سنگین ہوتے چلے گئے۔ بیرونی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے شام میں قائم بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی غرض سے باغیوں کی مالی مدد بھی کر رہی ہیں ۔شام کے دارالحکومت دمشق کے مشرقی اور جنوب مغربی حصے کی شہری آبادیوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے مبینہ حملہ جس سے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 1400 انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ شام کی حکومت نے سراسر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کیمیائی حملوں سے انکار کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ حملے مخالف طاقتوں کی طرف سے کیے گئے ہیں۔ عالمی ذرائع کا کہنا ہے کہ کیمیائی طاقت کا استعمال، ذرائع اور طریقہ شام کی اسد حکومت کے پاس ہی ہیں ۔ اقوام متحدہ کی سیکریٹری جنرل انجیلا کین 24اگست 2013کو دمشق پہنچی اور شامی حکومت کے ساتھ گفت و شنید کی اور ایک غیر جانبدار انکوائری مر تب کرنے کوکہا۔

ادھر وہائٹ ہا ئوس کے ذرا ئع کا کہنا ہے کہ اگر شامی حکومت اپنے قول میں سچی ہے تو اقوام متحدہ کے ماہرین کو جائے وقوع پر معائنہ کی اجا زت دے۔حقیقت میں دیکھا جائے یہ اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بیرونی مفادات کی سول وار ہے۔ ایک طرف ایران او ردوسری طرف قطر، اسرائیل، سعودی عرب اور امریکا کی پراکسی وار ہے روس کے بھی مفادات شام کے ساتھ یقینی طور پر ہو سکتے ہیں ۔ امریکا چاہتا ہے کہ شام میں اس کی من پسند حکومت ہو جو اس کے مفادات کا خیال رکھے ۔اس لڑائی میں بیرونی مما لک خطیر رقوم کی بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔دوسری طرف شامی حکومت کو ایران کی حمایت حاصل ہے امریکا نے یہ فتنہ 15مارچ2011 میں اس وقت کھڑا کیا جب ایک نامعلوم تنظیم کی سر پرستی میں اسد حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا گیا ۔ باغیوں کا یہ کہنا تھا کہ ملک میں بادشاہت کی بجائے جمہوری نظام ہونا چاہیے ۔ باغیوں کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ 1963سے عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کے اختتام سے موروثی سیاست کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے تھا ۔

باوثوق ذرائع سے معلوم ہو ا ہے کہ شام میں سول وار کی اصل پوشیدہ حقیقت ایران اور قطر کے درمیان قدرتی گیس کی ترسیل و فرو خت کے مقا بلے کا رجحان ہے ۔ ایران اور قطر مشرق وسطی کے دو ایسے ممالک ہیں جہاں قدرتی گیس وافر مقدار میں پائی جاتی ہے ، ایران اور قطر کی 1200کلو میٹر طویل عرب گیس پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس کی سپلائی مصر ، اردن سے ہوتی ہوئی شام اور لبنان ، روس تک پہنچتی ہے ، اور پھر روس کے ذریعے یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی ممکن ہو تی ہے ۔ انھیں میں ایک لائن کی شاخ اسرائیل کو جا ملتی ہے ۔ ایک سال قبل ایران،عراق اور شام کے درمیان قدرتی گیس کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت اس میں لبنان تک رسائی کی بھی گنجائش رکھی گئی تھی ۔ سول وار کی وجہ سے یہ معاہدہ پس پشت چلا گیا جو مزید پیچیدگیوں کا سبب بنا ۔

ادھر ترکی اور روس ایران کا قدرتی گیس کا سب سے بڑے خریدار ہیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایران اور قطر کے درمیان گیس کی سپلائی کا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔یہ اختلاف 15مارچ 2011 میں اس وقت پیدا ہوا جب ملک کے ایک مخصوص طبقے نے اسد حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا جو اپریل 2011 تک پورے ملک میں پھیل گیا ۔ جس کے نتیجے میں مشرق وسطی کے وسیع علاقوں میں احتجاجی تحریک ''عرب اسپرنگ ''کے نام سے مشہور ہو ئی ۔ چنانچہ جب تحریک اپنا زور پکڑتی گئی تو شامی افواج کو اس تحریک کوکچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کرنا پڑا جس سے وہاں کے ریٹائرڈ فوجی اور سویلین رضا کار بغیر کسی رہنماء کی قیادت میں وہاں کے باغیوں کے ساتھ مل گئے اور وہ طاقت کا جواب طاقت سے دینے کے لیے مسلح ہو گئے ۔ اسی اثنا میں یعنی 2011 میں شامی افواج کے بھر پور مقابلے اور باغیوں کی مدد کے لیے ''القاعدہ '' سے تعلق رکھنے والی تنظیم ''جباہت النصرہ'' فعال ہوئی اور اس بھیانک صورتحال کو دیکھتے ہوئے 2013 میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ نے بھی بھر پور طاقت سے مدا خلت کی جس سے النصرہ کو شکست کا سامنا کر نا پڑا۔

اس دوران شامی حکومت کو روس اور ایران کی طرف سے مادی حما یت حا صل ہوئی ۔ دوسری طرف قطر اور سعودی عرب نے باغیوں کو بے دریغ اسلحے اورفوجی سازو سامان فراہم کیا تاکہ شام کے خلاف اس تحریک کو کامیاب بنایا جا سکے ۔ روس اور ایران کی مدد سے شام اپنے علاقوں کے 60%میں سے30% سے 40% علاقوں کا کنٹرول حاصل کر سکا۔ ادھر عرب لیگ ، امریکا اور یورپی یونین نے باغیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی مخالفت میں شدید تنقید کی جس کے نتیجے میں عرب لیگ نے شام کی ممبر شپ کینسل کردی ۔ شامی فوج نے النصرہ کو پسپا کرنے کے بعد السیکنہ نامی قصبے پر قبضہ کر لیا ۔ حمص میں باغیوں کے ساتھ جھڑپ میں شامی فوج نے ایک تاریخی مسجد خالد بن ولید اور اس کے دو دن بعد ڈسٹرکٹ خالدیہ پر قبضہ جما لیا ۔

کیمیکل ہتھیار تقریباً دنیا کے ہر ملک کے پاس ہیں،اقوام متحد ہ کی سلامتی کونسل سے ان ہتھیاروں کا رجسٹریشن کرا نا لازم ہو تا ہے، لیکن دنیا میں شام وہ واحد ملک ہے جس نے کیمیائی ہتھیاروں کی رجسٹریشن کرا نے سے صاف صاف انکارکر دیا تھا ۔شام کی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے شہری آبادی پر حملے کی ذمے داری قبول نہیں کر رہی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ بلا شبہ شام اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ ان کا ملک دنیا میں تیسرا سب سے بڑا کیمیائی ہتھیاروں کاذخیرہ رکھتا ہے ، خود شام مخالف قوتیں حکومت سے یہ کہہ رہی ہیں کہ شام حکو مت کو کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال آخری حربے کے طور پر کیا جا نا چاہیے جو زیادہ مناسب ہو گا۔ فرانس ، برطانیہ اور امریکا نے شام کو دھمکی دی ہے اگر ان کا استعمال نہ روکا گیا تو شام کو سنگین نتائج بھگتنے ہونگے ۔الجزیرہ کی ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ سب سے پہلے شام نے انسانی جانوں کی ہلاکتوں کے لیے کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا اور ان ہتھیاروں میں مخصوص قسم کی زیریلی گیس ''سارن'' کا استعمال کیا گیا ۔

ترکی اخبار کے مطابق ترکی سیکیورٹی فورسز نے شام کے سرحدی صوبوں مرسن اور ادانا سے النصرہ فرنٹ کے جنگجوں کو گرفتار کیا ہے اور ان کے قبضے سے 2کلو گرام سارن گیس ضبط کی ہے ۔ عراق ڈیفنس منسٹری نے بھی دعویٰ کیا ہے انھوں نے القاعدہ کے سرگرم کارکنان کو سارن اور مسٹرڈ گیس کے ساتھ گرفتار کر لیا ہے ۔ القاعدہ کے تحت چلنے والی النصرہ فرنٹ شام میں سب سے بڑی جہادی تنظیم ہے جو شامی حکومت کی مخالفت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ،اس کی کوشش ہے کہ ملک میں کسی طرح فرقہ واریت کو رنگ دیا جائے ، یاد رہے القاعدہ وہی جہادی تنظیم ہے جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنے فوجیں اتاریں تھیں اور ان کا مقابلہ امریکا کے ایماء پر مجاہدین کی تحریک کی شکل میں کیا تھا ۔

پاکستان بھی گونا گوں ان ہی مسا ئل سے دو چار ہے۔ یہاں کی حکو متیں ٹیکنوکریسی سے کام لیتے ہو ئے اپنے انتخا بی مینڈیٹ کی تکمیل میں شب وروزکوشاں ہیں۔ سپر طا قتوں کا دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسا ئل پر غاصبانہ قبضہ صدیوں سے وطیرہ رہا ہے۔ ان کی کو شش ہو تی ہے کہ ان ممالک میں بالواسطہ اور بلا وا سطہ مداخلت کا سلسلہ ہنوز جاری رہے۔ کہا جا تا ہے جہاں مفاد ہوگا وہا ں فساد ہوگا۔ لہٰذا دنیا میں انسا نوں کے درمیان طبقا تی جنگ کا سلسلہ ان ہی قوتوں کے عزائم کی عکا سی کرتا ہے۔ امریکا کے شہر نیویارک میں ہو نے والے 9/11کے المناک واقعے کی بھی تمام تر ذمے دا ری مسلمانوں ہی کے کھا تے میں ڈال دینا، آ خرکہاں کا انصاف ہے۔ آ نے والے عالمی حالات بتا رہے ہیں کہ سپر طا قتیں بادشاہت کے نظام کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں اور اپنی من پسند جمہوریت کے بھی متلاشی ہیں اور یوں اپنی طاقت میں مزید اضافے کی خواہاں بھی ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں