اسٹیفن ہاکنگ اور خودکشی

اسٹیفن ہاکنگ (8 جنوری 1942) آج کی نظریاتی طبیعات اور فلکیات کا غالباً سب سے بڑا نام۔ ہاکنگ ایسے سائنس دان ہیں...


Shaikh Jabir September 22, 2013
[email protected]

ATTOCK: اسٹیفن ہاکنگ (8 جنوری 1942) آج کی نظریاتی طبیعات اور فلکیات کا غالباً سب سے بڑا نام۔ ہاکنگ ایسے سائنس دان ہیں جنھیں اپنے شعبے کے اعلیٰ افراد کے علاوہ عوامی حلقوں میں بھی بے پناہ پذیرائی ملی۔ انھیں اگر ہر دلعزیز سائنسدان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ برطانوی ہیں اور کیمبرج یونیورسٹی کے نظریاتی فلکیات کے مرکز میں شعبہ تحقیق کے ڈائریکٹر ہیں۔ طبیعات کے میدان میں آپ کا بڑا کام اور بڑا نام ہے۔ بلیک ہولز کے بارے میں عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ یہ وہ اجسام ہیں جن سے کوئی چیز حتیٰ کہ روشنی بھی باہر نہیں آتی۔ ہاکنگ نے اس حوالے سے 1974 میں ایک نظریہ پیش کیا جو ان کے نام سے ''ہاکنگ ریڈی ایشن'' کہلایا۔ آپ نے نظریاتی طور پر یہ ثابت کیا کہ بلیک ہولز سے اشعاع پذیری صادر ہوتی ہے۔

1973 میں آپ نے روس کا دورہ کیا تھا۔ وہاں ماسکو میں روسی سائنس دانوں ''یاکوز زیلڈووچ'' اور ''ایلگژی اسٹرابنسکی'' نے مظاہرہ کیا کہ ''کوانٹم میکنکس'' کے اصول تغیر کی روشنی میں گردش کرتے ہوئے ''بلیک ہولز'' سے اجزا اور شعائیں خارج ہوسکتی ہیں۔ ہاکنگ نے عمومی نظریہ اضافیت اور ''کوانٹم میکنکس'' میں فلکیاتی حوالوں سے یک جائی کا نظریہ پیش کیا۔ آپ کی کتاب ''اے بریف ہسٹری آف ٹائم'' برطانوی ''سنڈے ٹائمز'' کی بیسٹ سیلر فہرست میں 237 ہفتے تک شامل رہی ہے ۔ یہ ایک ریکارڈ ہے۔

بدقسمتی سے آپ ایک شدید عصبی مرض ''موٹر نیورون ڈیزی'' کا شکار ہوگئے جس کے ساتھ '' امائی ٹروفک لیٹرل سیروسن'' بھی لاحق تھا۔ اس مرض نے انھیں مکمل طور پر مفلوج کردیا۔ یہاں تک آپ گفتگو سے بھی معذور ہوگئے۔ لیکن ہاکنگ نے اس حال میں بھی ہمت نہ ہاری۔ انھوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ آپ کے لیے ایک خاص آلہ وضع کیا گیا جس کی مدد سے آپ بات اور کام کرتے ہیں۔ لیکن اب لگتا ہے کہ ہاکنگ تھک رہے ہیں۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوا انھیں اے ایل ایس جیسی خطرناک بیماری سے لڑتے لڑتے۔ اس تمام عرصے میں انھوں نے ہار نہیں مانی اور وہ پامردی سے خراب ترین ذہنی اور جسمانی کیفیات کا مقابلہ کرتے رہے اور اپنے شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیتے رہے۔ آپ کے کام کی قوت اور نوعیت دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں کرسکتا کہ ہاکنگ کو بیماری نے اتنا مفلوج کردیا ہے کہ وہ ہاتھ ہلانا تو کجا زبان ہلانے سے بھی قاصر ہیں۔ لیکن اب شاید وہ تھک چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہاکنگ نے کہا طویل علالت کے یا مفلوج مریضوں کو خودکشی کا اختیار ملنا چاہیے۔

21 برس کی عمر میں جب آپ اس مرض کا شکار ہوئے تو ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اسٹیفن ہاکنگ بہ مشکل چند برس جئیں گے لیکن آج آپ کی عمر 71 برس ہے۔ آپ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''وہ افراد جو ''میقاتی امراض'' کا شکار ہیں، شدید کرب میں زندگی بسر کر رہے ہیں انھیں یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ خودکشی کرلیں۔ نیز ان کو خودکشی میں معاونت کرنے والے افراد کو کوئی سزا نہیں ملنی چاہیے''۔ آپ نے مزید فرمایا ''اس بات کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا مریض جو عرصے سے بیمار ہے اور جس کی آئندہ صحت یابی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اپنی خودکشی کے فیصلے میں آزاد ہو۔'' یعنی وہ یہ فیصلہ بغیر کسی جبرو اکراہ کے کر رہا ہو۔ اس پر اس فیصلے کے لیے کوئی دباؤ نہ ہو۔ نہ ہی مریض کی مرضی اور منشا کے خلاف یا مریض کو اطلاع تک نہ ہو اور کوئی اور یہ فیصلہ کر ڈالے ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ مریض کی آزادانہ مرضی ہو خودکشی کی اور ڈاکٹر اور دیگر افراد اس کی معاونت کریں۔ سوئٹزرلینڈ میں ایسی خودکشیاں قانونی طور پر جائز ہیں۔

گزشتہ چند دہائیوں سے طب میں یہ غیر ضروری بحث جاری ہے کہ کیا مریض کو اپنے مرض سے تنگ آکر خودکشی کرلینی چاہیے؟ اس بحث میں بعض عقدے ایسے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا یقیناً آسان نہیں ہے۔ مثلاً کون سا مرض زیادہ تکلیف دہ ہے اور کون سا مرض کم تکلیف دہ ۔ یعنی یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ میرے دانت میں ہونے والا درد فلاں کے گردوں کے درد سے کم ہے۔ بے شمار ایسے افراد ہیں جو محض سر درد اور پیٹ کے درد کو اپنے لیے ناقابل برداشت قرار دے کر خودکشی پر تیار دکھائی دیتے ہیں۔ تو کیا ان کو خودکشی کی اجازت دے دینی چاہیے؟ یا ایسے امراض کی ایک علیحدہ فہرست تیار کی جائے گی کہ صرف فلاں فلاں مرض میں ایک خاص عرصے تک مبتلا رہنے والا ہی خودکشی کرسکے گا؟ اگر ہاں تو وہ فہرست کون مرتب کریگا؟ کس کی اجازت سے اور کس قانون کے تحت؟ بے شک طب نے ترقی کی ہے لیکن کیا کوئی ایسا آلہ ایجاد ہوسکا ہے جو انسان کے دکھ درد یا کرب کا اندازہ کرسکے۔ جب یہ ممکن نہیں ہے تو کس بنیاد پر قانون سازی کی جائے گی؟ وہ تمام مریض جو جسمانی ہی نہیں ذہنی طور پر بھی معذور اور مفلوج ہوچکے ہیں مثلاً کوئی مسلسل غشی کی کیفیت میں ہے۔ اب اس کی خودکشی کا فیصلہ کون کرے گا؟

ڈاکٹروں کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اور ہر حال میں انسانی جان بچانے کی کوشش کریں گے۔ زندگی کو ہمیشہ خدا کا انعام سمجھا گیا ہے۔ یہ ایک الوہی تحفہ ہے۔ ہر آنے والے بچے کو امید کی کرن سمجھا جاتا ہے اور یہ جانا اور مانا جاتا ہے کہ خدا ابھی اس دنیا سے مایوس نہیں ہوا۔ اب کیا اقلیم طب میں ایک نیا حلف اور ایک نئی اخلاقیات روشناس کی جانی چاہیے، جب ڈاکٹر صاحبان کا فرض قرار پائے کہ جو مریض خواہش ظاہر کرے کہ میرا علاج کرو، یا علاج جاری رکھو تو اس کا علاج کیا جائے اور جو مریض اپنی مسلسل علالت سے تنگ آجائے اور خودکشی کرنا چاہے تو وہی ڈاکٹر اسے موت کی نیند سلادیں۔ ڈاکٹر زندگی دینے کے لیے ہوتا ہے یا موت بانٹنے کے لیے؟

دوسرا نتیجہ معاشرے پر خودکشیوں کی رفتار میں مزید اضافے سے پڑے گا۔ آج کا نوجوان کسی بھی درد تکلیف اور مشکل سے گھبرا کر خودکشی کرلیتا ہے۔ وہ کسی بھی مشکل یا پریشانی کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا خوگر ہی نہیں ہے۔ امریکا میں ہر برس اسی لاکھ سے زیادہ نوجوان خودکشی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ 20 لاکھ نوجوان ہر سال خودکشی کے منصوبے بناتے ہیں۔ 35 ہزار نوجوان ہر سال خودکشی کرلیتے ہیں۔ اور یہ حکومتی اعداد وشمار ہیں۔ ایک امریکی ادارہ ہے سی ڈی سی۔ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اس کا کہنا ہے کہ 30 برس سے کم عمر کے نوجوان خودکشی کی جانب زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ افراد وہ تھے جو خودکشی کی کوشش کرچکے تھے۔ یورپ کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں بھی خودکشی کا رجحان خطرناک طور پر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 2009 میں یورپ کے 54 میں سے مختلف ممالک میں عام دنوں کے مقابلے میں خودکشی کے 4884 واقعات زیادہ ریکارڈ کیے گئے۔ 2009 ہی میں 27 یورپی ممالک میں مردوں کی خودکشی کی شرح میں 4.2 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ خبر میں برٹش میڈیکل جنرل کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2009 میں مردوں کی خودکشی کی شرح میں 3.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یورپ میں 15 سال سے 24 سال تک کے نوجوانوں میں 2008 کے بعد سے اس شرح میں 11.7 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ہاکنگ کہتے ہیں کہ ''ہم جانوروں کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تو انسان تکلیف میں کیوں رہیں؟'' میرا سوال یہ ہے کہ کیا جانور بیماری سے تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں؟ وہ کون سا حیوان ہے جو خودکشی کرتا ہو؟ اسٹیفن ہاکنگ اور ان کے ہم خیالوں کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ آزادی کی قدر اور خودکشی اہم ہے یا انسان اور انسانی جان۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔