تضاد
کسی انسان میں اگر دو متضاد صفات یکجا ہوجائیں تو یہ بھی کافی حیران کن ثابت ہوسکتی ہیں مثلاً ایک صاحب نے اپنے آفیسرکی...
کسی انسان میں اگر دو متضاد صفات یکجا ہوجائیں تو یہ بھی کافی حیران کن ثابت ہوسکتی ہیں مثلاً ایک صاحب نے اپنے آفیسرکی ریٹائرمنٹ کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا ''موصوف انتہائی تنگ نظر لیکن بڑے ہی انصاف پسند تھے۔ '' تمام دوست یہ تبصرہ سن کر حیران رہ گئے کہ کوئی بھی شخص ستمگر ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف پسند کیونکر ہوسکتا ہے ؟ وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا '' وہ بلا تخصیص رنگ و نسل ، عہدہ و مرتبہ ، ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں رعونت سے ہی پیش آیا کرتے تھے '' ۔ انسانی شخصیات کی طرح قوموں کے اجتماعی مزاج میں بھی یہ گہرا تضاد اکثر نظر آتا ہے ۔
مثلاً امریکی قوم انسان کے بنیادی حقوق ، خواتین کے احترام اور سماجی بہبود کے حوالے سے جہاں بڑی جذباتی واقع ہوئی ہے ، وہاں اتنی خود غرض بھی ہے کہ انتہائی قریبی دوست بھی ایک دوسرے کو اپنے پلے سے ایک سینڈوچ کھلانے کے بھی روادار نہیں ہوتے ۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے میاں بیوی اخبار بھی اپنا اپنا خرید کر پڑھتے ہیں '' امریکن سسٹم '' جسے مشرق میں مہمان نوازی کی توہین سمجھا جاتا ہے ، امریکی قوم بڑے فخر کے ساتھ اسے اپنے اثاثے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ جانوروں کے حقوق کے لیے زمین آسمان ایک کر دینے والی اس قوم نے چشم زدن میں لاکھوں انسان ہیروشیما اور ناگاساکی میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مار ڈالے تھے ۔ کیا یہ گہرا تضاد نہیں ہے ؟ جاپانی قوم بڑی محنتی، مہمان نواز اور اپنے روشن مستقبل کی بڑی باریک بینی سے پلاننگ کرنے والی قوم ہے لیکن گہری شرمندگی کا ازالہ کرنے کے لیے ، ایک جاپانی خود کشی کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتا ۔ ہر قوم کے اپنے اپنے تضادات ہیں ۔
کسی کے ہلکے اور کسی کے گہرے ۔ جن پر حیران ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا لیکن ہمارے جو قومی تضادات ہیں ، ان پر حالانکہ ہمیں ہنسی آنی چاہیے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ان پر حیران بھی نہیں ہوتے مثلاً ہمارے حکمران اکثر یہ اعلان ببانگ دھل کرتے نظر آتے ہیں کہ '' پاکستان کے حالات غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی سازگار ، خوشگوار اور آئیڈیل ہیں'' جب کہ صرف ایک بے نامی موبائل سم اور ایک عد د ٹی ٹی پستول کی سرمایہ کاری کر کے آپ یہاں اغوا برائے تاوان کا '' پروجیکٹ '' با آسانی مکمل کرسکتے ہیں اور لاکھوں کا منافع سمیٹ سکتے ہیں ۔ اس ماحول میں کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو اگر پاگل کتے نے نہیں کاٹا تو وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کیوں آئیگا ؟ وہ ملائیشیا ، انڈیا ، چائنا اور بنگلہ دیش کیوں نہیں جائے گا ؟ اس سوال کا جواب ہمارے کسی حکمران نے آج تک نہیں دیا ہے ۔ لیکن ہم اس بیان پر نہ تو ہنستے ہیں اور نہ ہی حیران ہوتے ہیں ۔
ہم اربوں کھربوں ڈالر کی بلٹ ٹرین چلانے کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں لیکن سرکلر ٹرین کو آج تک بحال نہ کرسکے ، ہم نئے شہر بنانے اور بسانے کا اعلان کرتے ہیں لیکن پرانے شہروں کی حدود آج تک متعین نہ کرسکے ۔ ہم صاف و شفاف پانی مہیا کرنے کے اعلانات اور دعوے کرتے ہیں لیکن موجودہ '' غیر شفاف '' پانی کی سپلائی کا نظام ہی آج تک وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ ٹینکر مافیا دن رات شہر کی سڑکیں ادھیڑتی پھرتی ہے لیکن ہم ان ٹینکرز کے والوز رسنے والی پانی کی اس دھار کو بند کرنے کا انتظام تک نہ کر سکے ، جو موٹر سائیکل سواروں کے لیے موت کی لکیر بنی ہوئی ہے ۔ یہ ٹینکر بند کرنا تو بعدکی بات ٹھہری لیکن ہر گھر کی دہلیز پر صاف پانی مہیا کرنے کے دعوے کرتے کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی ہے ۔ اس تضاد پر بھی نہ ہم ہنستے ہیں اور نہ ہی حیران ہوتے ہیں ۔ ہمارے نیوز چینلز پر خبر نشر ہوتی ہے کہ آج کراچی شہر میں 13 انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔ نصف درجن افراد تاوان کے لیے اغوا کر لیے گئے ۔ تین بڑی مارکیٹس کے تاجروں کو بھتے کی پرچیاں موصول ہوئی ہیں ۔
درجنوں گاڑیاں اور سیکڑوں موبائل فونز چھین لیے گئے ۔ اگلی ہی خبر میں وزیراعلیٰ سندھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ '' اب کراچی میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہوچکی ہے '' ۔ اس خبر کے بعد نیوز کاسٹرز کے لبوں پر ہلکی سی مسکان بھی نظر نہیں آتی ۔ نہ میڈیا کے رپورٹرز حیران ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ہنستے ہیں کیا یہ تضاد نہیں ہے ؟ یا ہم اسے تضاد سمجھنا ہی نہیں چاہتے ؟ چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے اور گورنر سندھ کے استعفیٰ کی منظوری سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے غیر ملکی دورے سے واپسی کا انتظار کریں ۔ اکیسویں صدی میں اور سیٹلائیٹ کے اس جدید دور میں جب بچہ بچہ انٹرنیٹ کے ذریعے تصویر و آواز سمیت ایک دوسرے کے رابطے میں ہے ۔ جب برازیل کے آخری جزیرے پر بیٹھا ہوا شخص ، کراچی کے ساحل پر موجود شخص کے ساتھ انگلی کی ایک خفیف سی حرکت پر رابطے میں آجاتا ہے تو اس دور میں فیصلہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی جسمانی طور پر موجودگی کیوں ضروری سمجھی جاتی ہے ؟
ہم اس خبر پر بھی نہیں ہنستے اور نہ حیران ہوتے ہیں ۔ حکمران جماعت نے اب صاف کہہ دیا ہے کہ انتخابی جلسوں میں جو دعوے اور وعدے کیے گئے تھے وہ محض انتخابی اور سیاسی بیانات تھے ۔ یعنی ان کا سچ سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ ہم پھر بھی حیران نہیں ہوتے ۔ یہ تیسری حکومت ہے ، جو ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا افتتاح کرتی چلی جارہی ہے ۔ موجودہ حکومت نے اپنی سابقہ حکومت سے اور سابقہ حکومت نے اپنی سابقہ حکومت سے آج تک نہیں پوچھا کہ اس کے شروع کردہ منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی '' نیشنل باسکٹ '' میں کیوں نہ پہنچ سکی ؟ نہ کسی نے اس باسکٹ میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولا کہ باسکٹ میں کہیں سوراخ تو نہیں ہے ؟ منصوبے منظور ہو رہے ہیں فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ لیکن ہم نہ ہی ہنستے ہیں اورنہ ہی حیران ہوتے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی نجی محفلوں میں یہ سوچ کر ضرور حیران ہوتے ہوں گے اور ہنستے بھی ہوں گے کہ اس ملک کے عوام اگلے الیکشن میں پھر ان ہی کو ووٹ ضرور دیں گے ۔ اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ عوام پر ہنسنا ان کا حق بھی بنتا ہے ۔ اگر وہ نہ ہنسیں تو یہ بات واقعی حیران کن ہوگی ۔
مثلاً امریکی قوم انسان کے بنیادی حقوق ، خواتین کے احترام اور سماجی بہبود کے حوالے سے جہاں بڑی جذباتی واقع ہوئی ہے ، وہاں اتنی خود غرض بھی ہے کہ انتہائی قریبی دوست بھی ایک دوسرے کو اپنے پلے سے ایک سینڈوچ کھلانے کے بھی روادار نہیں ہوتے ۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے میاں بیوی اخبار بھی اپنا اپنا خرید کر پڑھتے ہیں '' امریکن سسٹم '' جسے مشرق میں مہمان نوازی کی توہین سمجھا جاتا ہے ، امریکی قوم بڑے فخر کے ساتھ اسے اپنے اثاثے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ جانوروں کے حقوق کے لیے زمین آسمان ایک کر دینے والی اس قوم نے چشم زدن میں لاکھوں انسان ہیروشیما اور ناگاساکی میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مار ڈالے تھے ۔ کیا یہ گہرا تضاد نہیں ہے ؟ جاپانی قوم بڑی محنتی، مہمان نواز اور اپنے روشن مستقبل کی بڑی باریک بینی سے پلاننگ کرنے والی قوم ہے لیکن گہری شرمندگی کا ازالہ کرنے کے لیے ، ایک جاپانی خود کشی کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتا ۔ ہر قوم کے اپنے اپنے تضادات ہیں ۔
کسی کے ہلکے اور کسی کے گہرے ۔ جن پر حیران ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا لیکن ہمارے جو قومی تضادات ہیں ، ان پر حالانکہ ہمیں ہنسی آنی چاہیے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ان پر حیران بھی نہیں ہوتے مثلاً ہمارے حکمران اکثر یہ اعلان ببانگ دھل کرتے نظر آتے ہیں کہ '' پاکستان کے حالات غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی سازگار ، خوشگوار اور آئیڈیل ہیں'' جب کہ صرف ایک بے نامی موبائل سم اور ایک عد د ٹی ٹی پستول کی سرمایہ کاری کر کے آپ یہاں اغوا برائے تاوان کا '' پروجیکٹ '' با آسانی مکمل کرسکتے ہیں اور لاکھوں کا منافع سمیٹ سکتے ہیں ۔ اس ماحول میں کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو اگر پاگل کتے نے نہیں کاٹا تو وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کیوں آئیگا ؟ وہ ملائیشیا ، انڈیا ، چائنا اور بنگلہ دیش کیوں نہیں جائے گا ؟ اس سوال کا جواب ہمارے کسی حکمران نے آج تک نہیں دیا ہے ۔ لیکن ہم اس بیان پر نہ تو ہنستے ہیں اور نہ ہی حیران ہوتے ہیں ۔
ہم اربوں کھربوں ڈالر کی بلٹ ٹرین چلانے کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں لیکن سرکلر ٹرین کو آج تک بحال نہ کرسکے ، ہم نئے شہر بنانے اور بسانے کا اعلان کرتے ہیں لیکن پرانے شہروں کی حدود آج تک متعین نہ کرسکے ۔ ہم صاف و شفاف پانی مہیا کرنے کے اعلانات اور دعوے کرتے ہیں لیکن موجودہ '' غیر شفاف '' پانی کی سپلائی کا نظام ہی آج تک وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ ٹینکر مافیا دن رات شہر کی سڑکیں ادھیڑتی پھرتی ہے لیکن ہم ان ٹینکرز کے والوز رسنے والی پانی کی اس دھار کو بند کرنے کا انتظام تک نہ کر سکے ، جو موٹر سائیکل سواروں کے لیے موت کی لکیر بنی ہوئی ہے ۔ یہ ٹینکر بند کرنا تو بعدکی بات ٹھہری لیکن ہر گھر کی دہلیز پر صاف پانی مہیا کرنے کے دعوے کرتے کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی ہے ۔ اس تضاد پر بھی نہ ہم ہنستے ہیں اور نہ ہی حیران ہوتے ہیں ۔ ہمارے نیوز چینلز پر خبر نشر ہوتی ہے کہ آج کراچی شہر میں 13 انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔ نصف درجن افراد تاوان کے لیے اغوا کر لیے گئے ۔ تین بڑی مارکیٹس کے تاجروں کو بھتے کی پرچیاں موصول ہوئی ہیں ۔
درجنوں گاڑیاں اور سیکڑوں موبائل فونز چھین لیے گئے ۔ اگلی ہی خبر میں وزیراعلیٰ سندھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ '' اب کراچی میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہوچکی ہے '' ۔ اس خبر کے بعد نیوز کاسٹرز کے لبوں پر ہلکی سی مسکان بھی نظر نہیں آتی ۔ نہ میڈیا کے رپورٹرز حیران ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ہنستے ہیں کیا یہ تضاد نہیں ہے ؟ یا ہم اسے تضاد سمجھنا ہی نہیں چاہتے ؟ چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے اور گورنر سندھ کے استعفیٰ کی منظوری سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے غیر ملکی دورے سے واپسی کا انتظار کریں ۔ اکیسویں صدی میں اور سیٹلائیٹ کے اس جدید دور میں جب بچہ بچہ انٹرنیٹ کے ذریعے تصویر و آواز سمیت ایک دوسرے کے رابطے میں ہے ۔ جب برازیل کے آخری جزیرے پر بیٹھا ہوا شخص ، کراچی کے ساحل پر موجود شخص کے ساتھ انگلی کی ایک خفیف سی حرکت پر رابطے میں آجاتا ہے تو اس دور میں فیصلہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی جسمانی طور پر موجودگی کیوں ضروری سمجھی جاتی ہے ؟
ہم اس خبر پر بھی نہیں ہنستے اور نہ حیران ہوتے ہیں ۔ حکمران جماعت نے اب صاف کہہ دیا ہے کہ انتخابی جلسوں میں جو دعوے اور وعدے کیے گئے تھے وہ محض انتخابی اور سیاسی بیانات تھے ۔ یعنی ان کا سچ سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ ہم پھر بھی حیران نہیں ہوتے ۔ یہ تیسری حکومت ہے ، جو ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا افتتاح کرتی چلی جارہی ہے ۔ موجودہ حکومت نے اپنی سابقہ حکومت سے اور سابقہ حکومت نے اپنی سابقہ حکومت سے آج تک نہیں پوچھا کہ اس کے شروع کردہ منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی '' نیشنل باسکٹ '' میں کیوں نہ پہنچ سکی ؟ نہ کسی نے اس باسکٹ میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولا کہ باسکٹ میں کہیں سوراخ تو نہیں ہے ؟ منصوبے منظور ہو رہے ہیں فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ لیکن ہم نہ ہی ہنستے ہیں اورنہ ہی حیران ہوتے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی نجی محفلوں میں یہ سوچ کر ضرور حیران ہوتے ہوں گے اور ہنستے بھی ہوں گے کہ اس ملک کے عوام اگلے الیکشن میں پھر ان ہی کو ووٹ ضرور دیں گے ۔ اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ عوام پر ہنسنا ان کا حق بھی بنتا ہے ۔ اگر وہ نہ ہنسیں تو یہ بات واقعی حیران کن ہوگی ۔