کوچ اور چیف سلیکٹرکون بنے گا
بورڈ کا نیا آئین منظور ہونے والا ہے جس کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں گی۔
''میں بھی کوچ کی پوسٹ کیلیے درخواست دینے کا سوچ رہا ہوں، میرا نام بھی مضبوط امیدواروں میں شامل ہونے کی خبر دے دو'' جب ایک سابق کرکٹر نے مجھ سے یہ کہا تو میرا جواب تھا کہ آپ کو تو کوچنگ کا کوئی تجربہ ہی نہیں جہاں تک میں جانتا ہوں لیول تھری تک بھی نہیں پہنچے تو کیسے کوچنگ سنبھال لیں گے، اس پر انھوں نے کہا کہ '' کوشش کرنی چاہیے اب بورڈ ذمہ داری سونپے یا نہیں یہ اس کی مرضی ہے،اب دیکھو مصباح الحق کو کوچ اور چیف سلیکٹر مقرر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، وہ تو ابھی لیول ٹو بھی نہیں ہوا، ویسے آپس کی بات بتاؤں بورڈ والے ایسی خبریں خود چلوا کر ردعمل چیک کرتے اور پھر من پسند شخص کو سامنے لے آتے ہیں، اب بھی یہی ہوگا''۔
میں نے ان کرکٹر سے معذرت کی کہ کسی کے کہنے پر خبر نہیں دیتا ہاں اگرآپ اگر واقعی دوڑ میں شامل ہو گئے تو نام ضرور دوں گا، ویسے واقعی اب تک کوچنگ کیلیے بے تحاشا امیدوار سامنے آ چکے، چیف سلیکٹر کے لیے تو آئینے میں شکل دیکھے بغیر کئی ایسے کرکٹرز نے بھی اپنے نام پیش کیے جنھیں اس پوسٹ پر دیکھنے کا تصور کر کے ہی انسان کانوں کو ہاتھ لگا لے،اس حوالے سے لابنگ زوروں پر پہنچ چکی، مصباح کو بطور فیورٹ پیش کیا جا رہا ہے مگر ان کا انداز صرف ٹیسٹ کرکٹ کے لیے آئیڈیل ہے، کیریئر کی ایک، دو اننگز کو جواز بنا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جارحانہ انداز کی کرکٹ کھلانے کے بھی اہل ہیں، ان کی کوالیفکیشن کے حوالے سے بھی سوال اٹھیں گے۔
اس وقت بہترین آپشن تو یہ ہوگا کہ مصباح کو کسی صوبائی ٹیم کی کوچنگ سونپ کر تجربہ حاصل کرنے دیا جائے پھر انھیں قومی سیٹ اپ میں لے آئیں، اگلے برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ہونے والا ہے اس سے پہلے مصباح کو کوچ بنایا گیا تو یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، دیکھتے ہیں بورڈ اس حوالے سے کیا کرتا ہے، ایک نام محسن خان کا بھی ہے لیکن انھیں اپنی زبان پر کنٹرول نہیں جس کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں۔
اب بھی انھوں نے یہ کہہ دیا کہ '' چیئرمین بورڈ کو جواری کرکٹرز غلط مشورے دے رہے ہیں'' اس سے نہ صرف اعلیٰ حکام بلکہ وہ لوگ بھی ناراض ہو گئے جنھیں کوچ کے انتخاب میں رائے دینا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ محسن خان سے کرکٹ کمیٹی کی سربراہی یہ کہہ کر واپس لی گئی کہ اگر وہ مستقبل میں کوچ یا چیف سلیکٹر بنے تو دوہری ذمہ داری سے مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ سامنے آئے گا، اس لیے کمیٹی کو ازخود چھوڑ دیں، یہ اور بات ہے اس کے بعد اسی کرکٹ کمیٹی کی رکن عروج ممتاز ویمنز چیف سلیکٹر بن گئیں اوراب مصباح کو بھی عہدہ سونپنے کی باتیں ہو رہی ہیں، میری ذاتی رائے ہے کہ محسن خان اب ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔
غیرملکی کوچز میں ہمارے پاس زیادہ آپشنز موجود نہیں، گوکہ ملکی حالات بہتر ہو چکے مگراب بھی غیرملکیوں کو یہاں آزادی سے گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی، گرانٹ فلاور کی طرح عہدے سے الگ ہونے کے بعد ہی وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، پھر آئی پی ایل جیسے ایونٹس نے مارکیٹ خراب کر دی،اب کوچز اتنی رقم مانگتے ہیں جو پاکستان جیسا ملک افورڈ نہیں کر سکتا، البتہ اب ایم ڈی اور ڈائریکٹر میڈیا کو ریکارڈ تنخواہوں پر لایا گیا ہے تو شاید کوچ کو بھی بڑی رقم دے دی جائے، اس وقت مائیک ہیسن کا نام سامنے آ رہا ہے جنھیں بھارت کے بعد بنگلہ دیش نے بھی ریجکٹ کر دیا۔
اینڈی فلاور کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آئی تھیں مگر تصدیق نہیں ہو سکی، ایک طرف کوچ اور چیف سلیکٹر کا تقرر نہیں ہوا دوسری جانب بورڈ بڑے بڑے فیصلے خود کیے جا رہا ہے، جیسے پہلے سینٹرل کنٹریکٹ کے پلیئرز کا اعلان کیا پھر کیمپ کااسکواڈ بھی منتخب کر لیا، اس میں ڈومیسٹک کرکٹ کے کئی ٹاپ پرفارمرز باہر اور بالکل ہی منظرعام سے غائب کچھ کرکٹرز شامل تھے، یہ فہرست جس نے بنائی اگر اسے ٹیم کی ذمہ داری سونپی گئی پھر تو ملکی کرکٹ کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ نیا چیف سلیکٹر جو بھی ہو اسے سب سے پہلے نظرانداز شدہ کھلاڑیوں کو انصاف دینا ہوگا ورنہ انضمام الحق میں کیا برائی تھی ان کو ہی برقرار رکھ لیا جاتا۔
اکتوبر میں سری لنکا سے سیریز بہت اہم ہے، چیئرمین احسان مانی کی انٹرنیشنل کرکٹ حلقوں میں اچھی ساکھ ہے، انھوں نے ہی آئی لینڈرز کو دورے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا،ایم سی سی کی ٹیم بھیجنے کیلیے بھی وہ کافی کام کر چکے، آسٹریلوی اور انگلش کرکٹ حکام احسان مانی کے ذاتی دوست ہیں وہ بھی پاکستان کا ٹور کرنے والے ہیں، چیئرمین میں پاکستانی کرکٹ کو درست سمت میں گامزن رکھنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے، مگر حیران کن طور پر انھوں نے خود اپنے بیشتر اختیارات وسیم خان کو سونپ دیے ہیں، وہ بھی یقیناً ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے کام کرنا چاہتے ہوں گے مگر بدقسمتی سے انھیں بورڈ کے کچھ غیرمحفوظ لوگوں نے یرغمال بنا لیا اور وہ ان کے مشوروں پر حد سے زیادہ عمل کرتے ہیں جس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
بورڈ کا نیا آئین منظور ہونے والا ہے جس کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں گی، فی الحال تو میڈیا ڈپارٹمنٹ میں تبدیلیاں آ رہی ہیں،نئے افسران کو آنے کے بعد پتا چلا کہ برسوں سے عمدگی سے فرائض انجام دینے والے پرانے آفیشلزتو کچھ جانتے ہی نہیں، اس لیے بغیر اشتہار دیے من پسند افراد کو ملازمت دی گئی اور اب اپنی ٹیم بنا کر پرانوں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا جو ان کے ساتھ ناانصافی ہے، کل کو یہ کہہ کرکہ کام نہیں کرتے فارغ کردیا جائے گا ، برسوں کی محنت کا یہ صلہ ملنا انتہائی افسوسناک ہوگا،خیز میں جانتا ہوں کہ احسان مانی پروفیشنل انسان ہیں وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے لیکن انھیں معاملات پرخود بھی نظر رکھنا ہوگی، انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ کو پروفیشنل ادارہ بنانے کا سنہری موقع ملا ہے جسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
میں نے ان کرکٹر سے معذرت کی کہ کسی کے کہنے پر خبر نہیں دیتا ہاں اگرآپ اگر واقعی دوڑ میں شامل ہو گئے تو نام ضرور دوں گا، ویسے واقعی اب تک کوچنگ کیلیے بے تحاشا امیدوار سامنے آ چکے، چیف سلیکٹر کے لیے تو آئینے میں شکل دیکھے بغیر کئی ایسے کرکٹرز نے بھی اپنے نام پیش کیے جنھیں اس پوسٹ پر دیکھنے کا تصور کر کے ہی انسان کانوں کو ہاتھ لگا لے،اس حوالے سے لابنگ زوروں پر پہنچ چکی، مصباح کو بطور فیورٹ پیش کیا جا رہا ہے مگر ان کا انداز صرف ٹیسٹ کرکٹ کے لیے آئیڈیل ہے، کیریئر کی ایک، دو اننگز کو جواز بنا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جارحانہ انداز کی کرکٹ کھلانے کے بھی اہل ہیں، ان کی کوالیفکیشن کے حوالے سے بھی سوال اٹھیں گے۔
اس وقت بہترین آپشن تو یہ ہوگا کہ مصباح کو کسی صوبائی ٹیم کی کوچنگ سونپ کر تجربہ حاصل کرنے دیا جائے پھر انھیں قومی سیٹ اپ میں لے آئیں، اگلے برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ہونے والا ہے اس سے پہلے مصباح کو کوچ بنایا گیا تو یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، دیکھتے ہیں بورڈ اس حوالے سے کیا کرتا ہے، ایک نام محسن خان کا بھی ہے لیکن انھیں اپنی زبان پر کنٹرول نہیں جس کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں۔
اب بھی انھوں نے یہ کہہ دیا کہ '' چیئرمین بورڈ کو جواری کرکٹرز غلط مشورے دے رہے ہیں'' اس سے نہ صرف اعلیٰ حکام بلکہ وہ لوگ بھی ناراض ہو گئے جنھیں کوچ کے انتخاب میں رائے دینا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ محسن خان سے کرکٹ کمیٹی کی سربراہی یہ کہہ کر واپس لی گئی کہ اگر وہ مستقبل میں کوچ یا چیف سلیکٹر بنے تو دوہری ذمہ داری سے مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ سامنے آئے گا، اس لیے کمیٹی کو ازخود چھوڑ دیں، یہ اور بات ہے اس کے بعد اسی کرکٹ کمیٹی کی رکن عروج ممتاز ویمنز چیف سلیکٹر بن گئیں اوراب مصباح کو بھی عہدہ سونپنے کی باتیں ہو رہی ہیں، میری ذاتی رائے ہے کہ محسن خان اب ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔
غیرملکی کوچز میں ہمارے پاس زیادہ آپشنز موجود نہیں، گوکہ ملکی حالات بہتر ہو چکے مگراب بھی غیرملکیوں کو یہاں آزادی سے گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی، گرانٹ فلاور کی طرح عہدے سے الگ ہونے کے بعد ہی وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، پھر آئی پی ایل جیسے ایونٹس نے مارکیٹ خراب کر دی،اب کوچز اتنی رقم مانگتے ہیں جو پاکستان جیسا ملک افورڈ نہیں کر سکتا، البتہ اب ایم ڈی اور ڈائریکٹر میڈیا کو ریکارڈ تنخواہوں پر لایا گیا ہے تو شاید کوچ کو بھی بڑی رقم دے دی جائے، اس وقت مائیک ہیسن کا نام سامنے آ رہا ہے جنھیں بھارت کے بعد بنگلہ دیش نے بھی ریجکٹ کر دیا۔
اینڈی فلاور کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آئی تھیں مگر تصدیق نہیں ہو سکی، ایک طرف کوچ اور چیف سلیکٹر کا تقرر نہیں ہوا دوسری جانب بورڈ بڑے بڑے فیصلے خود کیے جا رہا ہے، جیسے پہلے سینٹرل کنٹریکٹ کے پلیئرز کا اعلان کیا پھر کیمپ کااسکواڈ بھی منتخب کر لیا، اس میں ڈومیسٹک کرکٹ کے کئی ٹاپ پرفارمرز باہر اور بالکل ہی منظرعام سے غائب کچھ کرکٹرز شامل تھے، یہ فہرست جس نے بنائی اگر اسے ٹیم کی ذمہ داری سونپی گئی پھر تو ملکی کرکٹ کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ نیا چیف سلیکٹر جو بھی ہو اسے سب سے پہلے نظرانداز شدہ کھلاڑیوں کو انصاف دینا ہوگا ورنہ انضمام الحق میں کیا برائی تھی ان کو ہی برقرار رکھ لیا جاتا۔
اکتوبر میں سری لنکا سے سیریز بہت اہم ہے، چیئرمین احسان مانی کی انٹرنیشنل کرکٹ حلقوں میں اچھی ساکھ ہے، انھوں نے ہی آئی لینڈرز کو دورے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا،ایم سی سی کی ٹیم بھیجنے کیلیے بھی وہ کافی کام کر چکے، آسٹریلوی اور انگلش کرکٹ حکام احسان مانی کے ذاتی دوست ہیں وہ بھی پاکستان کا ٹور کرنے والے ہیں، چیئرمین میں پاکستانی کرکٹ کو درست سمت میں گامزن رکھنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے، مگر حیران کن طور پر انھوں نے خود اپنے بیشتر اختیارات وسیم خان کو سونپ دیے ہیں، وہ بھی یقیناً ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے کام کرنا چاہتے ہوں گے مگر بدقسمتی سے انھیں بورڈ کے کچھ غیرمحفوظ لوگوں نے یرغمال بنا لیا اور وہ ان کے مشوروں پر حد سے زیادہ عمل کرتے ہیں جس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
بورڈ کا نیا آئین منظور ہونے والا ہے جس کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں گی، فی الحال تو میڈیا ڈپارٹمنٹ میں تبدیلیاں آ رہی ہیں،نئے افسران کو آنے کے بعد پتا چلا کہ برسوں سے عمدگی سے فرائض انجام دینے والے پرانے آفیشلزتو کچھ جانتے ہی نہیں، اس لیے بغیر اشتہار دیے من پسند افراد کو ملازمت دی گئی اور اب اپنی ٹیم بنا کر پرانوں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا جو ان کے ساتھ ناانصافی ہے، کل کو یہ کہہ کرکہ کام نہیں کرتے فارغ کردیا جائے گا ، برسوں کی محنت کا یہ صلہ ملنا انتہائی افسوسناک ہوگا،خیز میں جانتا ہوں کہ احسان مانی پروفیشنل انسان ہیں وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے لیکن انھیں معاملات پرخود بھی نظر رکھنا ہوگی، انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ کو پروفیشنل ادارہ بنانے کا سنہری موقع ملا ہے جسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)