غلطیوں کا ٹوکرا
مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو اردوکا قومی زبان بننا پسند نہ آیا۔ اس حوالے سے ہمارے دانشوروں کے یکطرفہ دلائل جاری ہیں۔
مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو اردوکا قومی زبان بننا پسند نہ آیا۔ اس حوالے سے ہمارے دانشوروں کے یکطرفہ دلائل جاری ہیں۔ محترمہ زاہدہ حنا نے اپنے ایک کالم میںسرسری طور پر اس کا حوالہ دیا۔ نئے ملک کی تشکیل کے بعد ایک قومی زبان کی ضرورت تھی۔ ایسی زبان جو تمام اہل وطن کو ایک لڑی میں پرو سکے۔ بھارت میں ہندی تو انگلینڈ میں انگریزی انھوں نے نافذ کی جن کے خلاف ہم آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ قائد اعظم نے ڈھاکہ میں اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کیا۔ یہ محمد علی جناح کی نہ مادری زبان تھی اور نہ وہ اردو روانی سے بولنے اور لکھنے کی قدرت رکھتے تھے۔ پہلے ہم زاہدہ صاحبہ کے خیالات پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد پورے مقدمے کا احاطہ کریں گے کہ غلطی کس کی رہی ۔
''پاکستان کی تخلیق ممکن نہ ہوتی اگر مشرقی بنگال کے مسلمان اس میں فعال ترین کردار ادا نہ کرتے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا لہٰذا ان کی امید برابری، توقیر اور احترام کی تھی۔ پاکستان کے لیے انھوں نے بنگال اور ہندوستان کو تقسیم کروایا لیکن ان کی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ جب انھوں نے آواز بلند کی تو کہا گیا کہ پاکستان ایک قوم ہے لہٰذا اس کی ایک زبان ہوگی اردو اور صرف اردو''۔ مسلم لیگ بنگال میں بنائی گئی۔ تیس سال تک یہ نوابوں کی پارٹی رہی۔ ممبئی اور لکھنو کے متوسط اور پڑھے لکھے مسلمانوں نے اس میں جان ڈالی۔ قائد اعظم نے علی گڑھ کی اہمیت بتائی یوں تحریک پاکستان مسلم اکثریتی صوبوں میں پروان چڑھنے لگی۔ صدی کی ابتدا میں بنگالی مسلمان جب اپنے ہندو ہم زبانوں سے الگ ہوئے تو انھوں نے ترقی کے مزے لیے۔ پھر برسوں بعد انگریزوں نے بنگال کو پھر متحد کردیا۔
1905 میں تقسیم بنگال سے مسلمان کو مسرت ہوئی تو 1911 میں یکجائی پر ہندو خوش ہوئے۔ مسلمان بنگالیوں نے اس اثر کو محسوس کیا۔ انھوں نے چاہا کہ کسی طرح ہندو بنگالیوں سے جان چھڑائی جائے۔ ایسے میں انھیں قائد اعظم اور مسلم لیگ نظر آئے۔ انھیں مسلم اقلیتی صوبوں میں نئے وطن کے لیے جوش و جذبہ نظر آیا۔ یوں لیگ کو نجات دہندہ سمجھ کر انھوں نے اپنا وزن تحریک پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ سو برسوں، جی ہاں پچھلی ایک صدی میں مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیلے۔ دیکھا جائے تو وہی سب سے زیادہ فائدے میں رہے ہیں۔ بنگالی ہندو سے نجات پانے کے لیے پاکستان کا سہارا لیا اور پاکستان سے جان چھڑانے کے لیے ہندوستان کا۔ گویا دونوں کو صحیح مقام پر استعمال کرتے ہوئے آج ایک قوم، ایک ملک، ایک زمین، ایک زبان اور ایک مذہب ایک جھنڈے پر مشتمل ایک اکائی بن گئے ہیں۔
مغربی پاکستان کے دانشوروں کو بنگال کے مسلمانوں کی ایک صدی پر مشتمل دانشوری کی جھلکیاں دکھانا لازمی ہے۔ پاکستان کے نام پر ووٹ دینے یا نہ دینے کے موقعے پر بنگال کے مسلمانوں کے پاس دو راستے تھے۔ متحدہ بنگال میں اپنے ہم نسل بھائیوں کے ساتھ رہنا، بنگالی زبان بولنا، مچھلی چاول کھانا، ایک جیسا لباس یعنی دھوتی بنیان پہننا، رابندرناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کی شاعری اپنے ہم زبان ہندو بنگالیوں کے ساتھ پڑھنا۔ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے سامنے دوسرا راستہ قومیت کے بت کو توڑ کر مذہب کی بنیاد پر بننے والے ملک کے مغربی حصے کے مسلمانوں کے ساتھ رہنا تھا۔ ان مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھی جاسکتی تھی، ان کے ساتھ حج کیا جاسکتا تھا، ان سے زکوٰۃ لی یا دی جاسکتی تھی۔
پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچ مسلمانوں کے ساتھ آپس میں رشتے کیے جاسکتے تھے، عید کے تہوار منائے جاسکتے تھے، ان کے ساتھ گائے، بکرے، دنبے اور اونٹ ذبح کیے جاسکتے تھے۔ ان دو راستوں میں بنگال کے باشعور مسلمانوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے نسل، زبان، ثقافت، قومیت کو چھوڑ کر مذہب کا راستہ اپنایا۔ جب بنگال کے مسلمانوں نے ایک راستہ چن لیا، ملک بن گیا، ہندوؤں سے آزادی مل گئی، ان کے ساہوکاروں سے لیا گیا قرضہ و سود معاف ہوگیا، ان کے پاس رہن رکھی گئی زمینیں آزاد ہوگئیں تو اب قربانی کا وقت تھا۔ زبان اور قومیت کی وقتی طور پر قربانی۔ بدقسمتی سے بنگالی مسلمانوں نے یہ قربانی نہ دے کر جلدبازی میں خود ہی بے وفائیوں کی بنیاد رکھی۔ ہماری آزادی کے نقشے میں بنگال تو تھا ہی نہیں۔ پہلے ہم اس معاملے پر گفتگو کے بعد اس سوال پر آئیں گے کہ کیا اردو کو قومی زبان بناکر بنگالیوں سے زیادتی کی گئی؟
علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد میں بنگال کا ذکر نہیں تھا۔ ایسی مملکت کی بات کی گئی تھی جو سندھ، پنجاب، بلوچستان، کشمیر اور شمال مغربی سرحدی صوبے پر مشتمل ہو۔ چوہدری رحمت علی کے تخلیق کردہ Pakistan لفظ میں پنجاب، افغانیہ، کشمیر، سندھ اور بلوچستان کا ذکر ملتا ہے، بنگال کا B کیوں نہیں۔ علیحدہ وطن کی تعریف کی گئی تو بنگال بھی اس پر پورا اترتا تھا۔ یوں اگر تحریک پاکستان کو آزادی کی ٹرین قرار دیا جائے جس کا نام ''پاکستان ایکسپریس'' ہو تو اس کے پاس دو قومی نظریے کا انجن تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر قائد اعظم جیسی شخصیت، منزل پر رواں دواں ہونے والے ڈبے پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور کشمیر کے تھے۔ بنگالیوں کے پاس نہ انجن تھا اور نہ بہت سارے ڈبے جو آزادی کی ٹرین کو ٹرین بناتے اور نہ رہنمائی کے لیے کوئی قائد اعظم۔ منزل تک پہنچنے کے لیے انھوں نے اپنا ایک ڈبہ ہمارے انجن اور ٹرین کے ساتھ جوڑلیا۔ منزل پر پہنچ کر وہ کنفیوز تھے۔ پچیس سال تک گومگو کی کیفیت علیحدگی کا سبب بنی۔
اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر کیا بنگالیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی؟ سوال ہے کہ کیا اردو مغربی پاکستان کی زبان تھی؟ ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں شہری علاقہ دس فیصد بھی نہ تھا۔کراچی تو ابھی بنا ہی نہیں تھا۔ لاہور، راولپنڈی، کوئٹہ، پشاور کی آبادی ملا کر بھی 35 لاکھ نہ بنتی تھی۔ گویا ملک کی نوے فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی تھی اور ان کی اپنی مادری زبان اردو نہ تھی۔ پنجاب میں پنجابی، سندھ میں سندھی، خیبر میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی زبان بولی جاتی تھی۔ پھر اردو زبان مغربی پاکستان کی زبان تو نہ ہوئی۔ یہ تو کسی کی زبان نہ تھی اور سب کی زبان تھی۔ رابطے کی زبان۔ جس طرح مغربی پاکستان کے صوبوں نے اردو کو قومی زبان کے طور پر قبول کرلیا اس طرح بنگالیوں کو بھی اس فیصلے کو قبول کرنا چاہیے تھا۔ اگر انھیں بنگلہ زبان اور ثقافت کو فروغ دینا تھا تو وہ اپنے صوبے میں آہستہ آہستہ بڑھتے اختیارات سے دے دیتے۔ بھارت کے مغربی بنگال نے بھی تو پورے ملک کے لیے ہندی کو قبول کرلیا۔ انھیں اپنے صوبے میں اپنی زبان کو فروغ دینے سے کوئی نہیں روک رہا تو مشرقی بنگال کے باشندوں کو بھی وہی طریقہ اپنانا چاہیے تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ہم سے اس ضمن میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ وہ نہ ہوتیں تب بھی بنگال اپنی سوچ اور ہزار میل کی دوری کے سبب ہمارے ساتھ ایک جھنڈے تلے زیادہ وقت نہیں رہ سکتا تھا۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو طویل فاصلے پر ہو اور درمیان میں دشمن۔ ہمیں سقوط ڈھاکہ کے اسباب نئی نسل کو بتانے چاہئیں۔ ماضی کی غلطیوں کو مستقبل میں نہیں دھرنا چاہیے لیکن تمام غلطیوں کا ٹوکرا اپنے سر پر نہیں رکھنا چاہیے۔ سچا تجزیہ نہ کرکے ہم قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نئی نسل کو حوصلہ افزا جواب دینے سے اپنے آپ کو محروم کردیتے ہیں۔ غلطیاں سب نے ہی کی ہیں وہ احساس کمتری کے مارے اور نادان ہوتے ہیں جو رکھتے ہیں خوامخواہ اپنے سر پر تمام غلطیوں کا ٹوکرا۔
''پاکستان کی تخلیق ممکن نہ ہوتی اگر مشرقی بنگال کے مسلمان اس میں فعال ترین کردار ادا نہ کرتے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا لہٰذا ان کی امید برابری، توقیر اور احترام کی تھی۔ پاکستان کے لیے انھوں نے بنگال اور ہندوستان کو تقسیم کروایا لیکن ان کی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ جب انھوں نے آواز بلند کی تو کہا گیا کہ پاکستان ایک قوم ہے لہٰذا اس کی ایک زبان ہوگی اردو اور صرف اردو''۔ مسلم لیگ بنگال میں بنائی گئی۔ تیس سال تک یہ نوابوں کی پارٹی رہی۔ ممبئی اور لکھنو کے متوسط اور پڑھے لکھے مسلمانوں نے اس میں جان ڈالی۔ قائد اعظم نے علی گڑھ کی اہمیت بتائی یوں تحریک پاکستان مسلم اکثریتی صوبوں میں پروان چڑھنے لگی۔ صدی کی ابتدا میں بنگالی مسلمان جب اپنے ہندو ہم زبانوں سے الگ ہوئے تو انھوں نے ترقی کے مزے لیے۔ پھر برسوں بعد انگریزوں نے بنگال کو پھر متحد کردیا۔
1905 میں تقسیم بنگال سے مسلمان کو مسرت ہوئی تو 1911 میں یکجائی پر ہندو خوش ہوئے۔ مسلمان بنگالیوں نے اس اثر کو محسوس کیا۔ انھوں نے چاہا کہ کسی طرح ہندو بنگالیوں سے جان چھڑائی جائے۔ ایسے میں انھیں قائد اعظم اور مسلم لیگ نظر آئے۔ انھیں مسلم اقلیتی صوبوں میں نئے وطن کے لیے جوش و جذبہ نظر آیا۔ یوں لیگ کو نجات دہندہ سمجھ کر انھوں نے اپنا وزن تحریک پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ سو برسوں، جی ہاں پچھلی ایک صدی میں مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیلے۔ دیکھا جائے تو وہی سب سے زیادہ فائدے میں رہے ہیں۔ بنگالی ہندو سے نجات پانے کے لیے پاکستان کا سہارا لیا اور پاکستان سے جان چھڑانے کے لیے ہندوستان کا۔ گویا دونوں کو صحیح مقام پر استعمال کرتے ہوئے آج ایک قوم، ایک ملک، ایک زمین، ایک زبان اور ایک مذہب ایک جھنڈے پر مشتمل ایک اکائی بن گئے ہیں۔
مغربی پاکستان کے دانشوروں کو بنگال کے مسلمانوں کی ایک صدی پر مشتمل دانشوری کی جھلکیاں دکھانا لازمی ہے۔ پاکستان کے نام پر ووٹ دینے یا نہ دینے کے موقعے پر بنگال کے مسلمانوں کے پاس دو راستے تھے۔ متحدہ بنگال میں اپنے ہم نسل بھائیوں کے ساتھ رہنا، بنگالی زبان بولنا، مچھلی چاول کھانا، ایک جیسا لباس یعنی دھوتی بنیان پہننا، رابندرناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کی شاعری اپنے ہم زبان ہندو بنگالیوں کے ساتھ پڑھنا۔ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے سامنے دوسرا راستہ قومیت کے بت کو توڑ کر مذہب کی بنیاد پر بننے والے ملک کے مغربی حصے کے مسلمانوں کے ساتھ رہنا تھا۔ ان مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھی جاسکتی تھی، ان کے ساتھ حج کیا جاسکتا تھا، ان سے زکوٰۃ لی یا دی جاسکتی تھی۔
پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچ مسلمانوں کے ساتھ آپس میں رشتے کیے جاسکتے تھے، عید کے تہوار منائے جاسکتے تھے، ان کے ساتھ گائے، بکرے، دنبے اور اونٹ ذبح کیے جاسکتے تھے۔ ان دو راستوں میں بنگال کے باشعور مسلمانوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے نسل، زبان، ثقافت، قومیت کو چھوڑ کر مذہب کا راستہ اپنایا۔ جب بنگال کے مسلمانوں نے ایک راستہ چن لیا، ملک بن گیا، ہندوؤں سے آزادی مل گئی، ان کے ساہوکاروں سے لیا گیا قرضہ و سود معاف ہوگیا، ان کے پاس رہن رکھی گئی زمینیں آزاد ہوگئیں تو اب قربانی کا وقت تھا۔ زبان اور قومیت کی وقتی طور پر قربانی۔ بدقسمتی سے بنگالی مسلمانوں نے یہ قربانی نہ دے کر جلدبازی میں خود ہی بے وفائیوں کی بنیاد رکھی۔ ہماری آزادی کے نقشے میں بنگال تو تھا ہی نہیں۔ پہلے ہم اس معاملے پر گفتگو کے بعد اس سوال پر آئیں گے کہ کیا اردو کو قومی زبان بناکر بنگالیوں سے زیادتی کی گئی؟
علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد میں بنگال کا ذکر نہیں تھا۔ ایسی مملکت کی بات کی گئی تھی جو سندھ، پنجاب، بلوچستان، کشمیر اور شمال مغربی سرحدی صوبے پر مشتمل ہو۔ چوہدری رحمت علی کے تخلیق کردہ Pakistan لفظ میں پنجاب، افغانیہ، کشمیر، سندھ اور بلوچستان کا ذکر ملتا ہے، بنگال کا B کیوں نہیں۔ علیحدہ وطن کی تعریف کی گئی تو بنگال بھی اس پر پورا اترتا تھا۔ یوں اگر تحریک پاکستان کو آزادی کی ٹرین قرار دیا جائے جس کا نام ''پاکستان ایکسپریس'' ہو تو اس کے پاس دو قومی نظریے کا انجن تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر قائد اعظم جیسی شخصیت، منزل پر رواں دواں ہونے والے ڈبے پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور کشمیر کے تھے۔ بنگالیوں کے پاس نہ انجن تھا اور نہ بہت سارے ڈبے جو آزادی کی ٹرین کو ٹرین بناتے اور نہ رہنمائی کے لیے کوئی قائد اعظم۔ منزل تک پہنچنے کے لیے انھوں نے اپنا ایک ڈبہ ہمارے انجن اور ٹرین کے ساتھ جوڑلیا۔ منزل پر پہنچ کر وہ کنفیوز تھے۔ پچیس سال تک گومگو کی کیفیت علیحدگی کا سبب بنی۔
اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر کیا بنگالیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی؟ سوال ہے کہ کیا اردو مغربی پاکستان کی زبان تھی؟ ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں شہری علاقہ دس فیصد بھی نہ تھا۔کراچی تو ابھی بنا ہی نہیں تھا۔ لاہور، راولپنڈی، کوئٹہ، پشاور کی آبادی ملا کر بھی 35 لاکھ نہ بنتی تھی۔ گویا ملک کی نوے فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی تھی اور ان کی اپنی مادری زبان اردو نہ تھی۔ پنجاب میں پنجابی، سندھ میں سندھی، خیبر میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی زبان بولی جاتی تھی۔ پھر اردو زبان مغربی پاکستان کی زبان تو نہ ہوئی۔ یہ تو کسی کی زبان نہ تھی اور سب کی زبان تھی۔ رابطے کی زبان۔ جس طرح مغربی پاکستان کے صوبوں نے اردو کو قومی زبان کے طور پر قبول کرلیا اس طرح بنگالیوں کو بھی اس فیصلے کو قبول کرنا چاہیے تھا۔ اگر انھیں بنگلہ زبان اور ثقافت کو فروغ دینا تھا تو وہ اپنے صوبے میں آہستہ آہستہ بڑھتے اختیارات سے دے دیتے۔ بھارت کے مغربی بنگال نے بھی تو پورے ملک کے لیے ہندی کو قبول کرلیا۔ انھیں اپنے صوبے میں اپنی زبان کو فروغ دینے سے کوئی نہیں روک رہا تو مشرقی بنگال کے باشندوں کو بھی وہی طریقہ اپنانا چاہیے تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ہم سے اس ضمن میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ وہ نہ ہوتیں تب بھی بنگال اپنی سوچ اور ہزار میل کی دوری کے سبب ہمارے ساتھ ایک جھنڈے تلے زیادہ وقت نہیں رہ سکتا تھا۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو طویل فاصلے پر ہو اور درمیان میں دشمن۔ ہمیں سقوط ڈھاکہ کے اسباب نئی نسل کو بتانے چاہئیں۔ ماضی کی غلطیوں کو مستقبل میں نہیں دھرنا چاہیے لیکن تمام غلطیوں کا ٹوکرا اپنے سر پر نہیں رکھنا چاہیے۔ سچا تجزیہ نہ کرکے ہم قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نئی نسل کو حوصلہ افزا جواب دینے سے اپنے آپ کو محروم کردیتے ہیں۔ غلطیاں سب نے ہی کی ہیں وہ احساس کمتری کے مارے اور نادان ہوتے ہیں جو رکھتے ہیں خوامخواہ اپنے سر پر تمام غلطیوں کا ٹوکرا۔