قیادت اور ذمے داران

ملک کے سیاسی اتار چڑھاؤ کے پیش نظر یہ کہنا بعید نہیںکہ گزشتہ حکومت نے اپنے 5 سالہ دور اقتدار میں عوام کے لیے...


S S Haider September 22, 2013

ملک کے سیاسی اتار چڑھاؤ کے پیش نظر یہ کہنا بعید نہیںکہ گزشتہ حکومت نے اپنے 5 سالہ دور اقتدار میں عوام کے لیے کچھ نہ کیا ماسوائے چند ایک کاموں کے۔ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو اس ناسور کے خاتمے کے لیے ماضی سے اب تک کوئی بھی خاطر خواہ تدابیر یا کوئی مثبت قانونی تقاضے کسی بھی دور میں کوئی بھی قیادت حتمی فیصلہ نہ کرپائی کہ اس عذاب سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہر آنے والی قیادت صرف اور صرف بلند بانگ دعوے ہی کرتی رہی۔ ''ایسا کریں گے، ویسا کریں گے'' ہو کچھ نہ سکا، دہشت گردی عروج پر ہے۔ بالخصوص ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائم جاری ہیں۔ حکومتی بے حسی کی وجہ سے کراچی ''مقتل گاہ'' بن گیا ہے اوسطاً روزانہ 16-15 افراد کا قتل معمول بن چکا ہے۔

نتیجتاً لاقانونیت، کراچی کے تاجربرادری اور سیاسی تنظیموں کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور حکومت تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ پورا کراچی اس وقت دہشتگردی کے نرغے میں پھنسا نظر آتا ہے۔ لوٹ مار میں بھی کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہ ہوسکی جبکہ شہر کے مختلف مقامات پر شاہراہوں کے کنارے موبائل پولیس کے عملے اپنی ذمے داری ادا کرتے نظر آتے ہیں، پر پکڑ میں کوئی نہیں آتا۔ موجودہ قیادت کو عوامی حق رائے دہی سے ن لیگ کو تیسری بار منتخب کیا گیا ہے۔ میاں صاحب عوامی مینڈیٹ سے اقتدار پر فائز ہوئے اور جو وعدے انتخابات کے دوران عوام سے کیے گئے تھے اسے نبھانا وزیراعظم کی ذمے داری ہے۔ جمہوریت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تمام انتہائی ضروری کارروائی کو عملی جامہ پہنانا وقت کا تقاضا ہے۔

کراچی کا انتہائی گنجان آبادی والا علاقہ، کھارادر، میٹھادر، موسیٰ لین، عثمان آباد، گارڈن ایسٹ اور ویسٹ، لیاری وغیرہ میں آئے دن گروپوں میں تشدد و تصادم و فائرنگ کے نتیجے میں کاروبار ٹھپ اور علاقہ مکین اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کراچی کا کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں وطن عزیز کا دفاع و عوامی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر دانشمندانہ فیصلہ کریں تاکہ ملک کی سلامتی و بقا اور عوامی تحفظ کو یقینی بناکر دشمن قوتوں پر واضح کردیں کہ حکومت غافل نہیں۔ یہ ذمے داری وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے، اس موضوع پر فوری کوئی مثبت نتیجے کو عملی جامہ پہناکر قانونی تقاضوں کو پورا کیا جانا چاہیے۔ ہمارا دب، ہماری تہذیب، ہمارا اصول و کردار وہماری قومی زبان ہمارے تشخص کی بنیاد ہی اسے قائم و برقرار رکھنا ہمارا قومی فریضہ ہے اور جمہوریت کے پرچم تلے پاکستانی قوم ہمہ وقت اصول پرستی و صاف و شفافیت کے قائل ہیں لہٰذا سماجی حقیقت کو فراموش کرنا یا اسے درگزر کرنا دانشمندی نہیں۔

تمام عوام وزیراعظم کے ساتھ ہے، میاں صاحب ایک جمہوری ملک کے سربراہ ہونے کے ناطے معاشرے کی تبدیلی اور امن کا گہوارا بنانے کے ساتھ ساتھ اقتدار نہیں ''اقدار'' کی ان سیڑھیوں کو سر کرنا ہے جو فی الوقت معاشرے پر اندھیرا بن کر چھائی ہوئی ہے، اسے صاف کرنے کی ذمے داری بھی وزیراعظم کے حکومتی ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہیے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو معاشرے کے بہتے ہوئے روایتی دھارے سیلابی ریلے میں بہہ جائیں گے۔ اس موضوع پر گہرے تفکر و سوچ اور کارروائی کی ضرورت ہے۔ ورنہ معاشرہ اس سے بھی خطرناک حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ سوچ و فکر کے حامل لوگوں کو مزید بیدار کرنے کی بھی اہم ذمے داری کو نبھانا بھی فرائض میں شامل ہے۔ بشرطیکہ آپ از خود مخلصانہ سوچ کے ساتھ قدم بڑھانا گوارا کریں، اسے جذبات سے نہ جوڑا جانا چاہیے۔ معاشرے کی اصلاح و فلاح کے لیے اقدام ضروری ہے، زندگی ہر حال میں قیمتی اور انمول ہے۔

معاشرے میں انارکی پھیلتی جارہی ہے، اسے معاشرے سے پاک کرنے کی ضرورت ہے، جب تک وزیراعظم ازخود ان حالات کا صحیح جائزہ نہ لیں گے اس وقت تک کوئی مثبت نتیجہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ حالات کے تقاضے کو وہی لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں جو ضرورت مند کی مدد کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں۔ قوم اس وقت بے حال روایتوں کے زیر سایہ ہے، انھیں کہر سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ عوامی حقوق کے استحصال کی ضرورت ہے، جو ترقی و خوشحالی کے راستوں کا ضامن ہو۔ ملک کے حالات سازگار نہیں ہیں، موجودہ قیادت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی، مختلف بحران جن میں توانائی، پانی، مہنگائی اور کرپشن ایک طرف تو دوسری جانب بیرونی محاذ و اندرونی خلفشار بیک وقت کئی زاویوں سے موجودہ حکومت کو گزرنا ہے۔ لاقانونیت کا ہی بول بالا نظر آتا ہے، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے بااختیار نہیں کیوں کہ انھیں ایک حد تک اختیار حاصل ہے، انھیں فعال بنانا ہے۔ بیشتر لوگوں کی خواہش ہے کہ فوج کو لایا جائے تاکہ مسائل کا حل ممکن ہو۔

بے شک فوج قابل تعریف و قابل قدر ہے اگر قیادت مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل اختیارات دے دیے جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ شہر کے حالات درست نہ ہوں۔ کیونکہ شہر کراچی کے تمام علاقوں کے ''تھانے'' اور وہاں تعینات عملہ بخوبی اپنی ذمے داری نبھانے کا اہل ہے۔ اب تک ایسا نہ ہوسکا، اس کی وجہ بھی وہی اختیارات کا فقدان! یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ علاقہ وائز پولیس کے تھانے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے اپنے حلقے (علاقے کی حد) کہاں تک ہے اور کون اچھے اور کون برے ہیں۔ یہ ریکارڈ تھانے میں ضرور ہوتا ہے اس لیے اگر مقامی پولیس کے ادارے کو یہ اختیارات دے دیے جائیں کہ اگر کسی بھی تھانے کے علاقے میں کوئی بھی کرائمز، دہشت گردی، لوٹ مار، بھتہ خوری یا اسٹریٹ کرائم رونما ہوا تو علاقے کا تھانہ اور اوپر سے لے کر نچلی سطح کے تمام ذمے دار اہلکار جواب دہ ہوں گے تو شاید شہر کراچی کے حالات سلجھ سکتے ہیں۔

ویسے تو پولیس کے تعاون کے لیے رینجرز ایک بڑی تعداد میں موجود ہے، رینجرز کے افسران اور اہلکار باقاعدہ تربیت یافتہ ہونے کے ناتے پولیس کے شانہ بشانہ کارروائی میں تعاون کرسکتے ہیں۔ جبکہ فی الوقت بھی رینجرز اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری پر پوری اترتی نظر آتی ہے۔ وزیراعظم نے کسی ایک موقع پر یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے خاتمے پر کوئی مثبت پالیسی واضح کرنے کا پر ایسا نہ ہوسکا۔ ہاں اتنا ضرور کہا کہ توانائی بحران کے پس پردہ کرپشن ہی اس بحران کا سبب ہے۔ موجودہ صورت حال میں دہشتگردی، توانائی بحران، مہنگائی، بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائم و ٹارگٹ کلنگ حالات کے بگاڑ کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ صوبہ سندھ کے حالات سازگر نظر نہیں آتے۔

صوبائی قیادت قیام امن میں مکمل طور پر بے حس نظر آتی ہے، عملی اقدامات کی کمی ہی شاید اس کا سبب ہو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کراچی کے امن و امان کے حوالے سے فوری کسی خاص اقدام کی جانب پیش رفت کی جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی ایسی ہی پیش گوئی کی تھی کہ 4 ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ کیا تو نام بدل دینا۔ پر ہوا کچھ نہیں، حالات جوں کے توں ہی ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اب بھی اپنی کارروائی جو غیر فطری عمل پر مبنی ہے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی خاطرخواہ پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اسلام آباد، پنڈی، لاہور، خیبرپختونخوا، کوئٹہ، گلگت اور کراچی سمیت ہر جگہ یہی کیفیت جاری ہے۔ اسے کیسے سدھارا جائے، کون ذمے داری اٹھائے؟ موجودہ قیادت یا 5 سال بعد دوبارہ آنے والی کوئی دوسری حکومت؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔