تعلیمی مسائل پیپرورک کے بجائے عملی اقدامات کے متقاضی ہیں
پنجاب کی غیر سرکاری تعلیمی کابینہ کے اجلاس میں شرکاء کی بات چیت
بڑے بڑے ہوٹلوں میں بیٹھ کر تعلیم پر بات کرنا ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے ٹھنڈے اور بند کمروں میں بیٹھ کر غریبوں کے مسائل اور لوڈشیڈنگ پر گفتگو کرنا یا پھر منرل واٹر کی بوتلیں آگے رکھ کر پانی کی قلت اور مسائل پر بات کرنا، لیکن عموماً ان نشستوں کے خاطرخواہ عملی نتائج سامنے نہیں آتے کیونکہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر عوامی مسائل پر گفتگو کرنے والے کبھی بھی ان مسائل کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے۔
اس ضمن میں فلاحی تنظیموں کا کردار تھوڑا مختلف ہوتا ہے بالخصوص تعلیم کے حوالے سے ان کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی آواز حکومتی اجلاسوں کے برعکس محض کاغذی کارروائی تک محدود نہیں رہتی بلکہ عملی پیش رفت بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ حکومتیں فنڈز ہونے کے باوجود ''وسائل کی کمی'' کا شکار رہتی ہیں لیکن نجی ادارے یا این جی اوز ''اِدھر اُدھر'' سے فنڈز ملنے کی وجہ سے اس قلت کو کم کرنے کیلئے حکومتوں سے بڑھ کر کام کرتی ہیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (PCE) اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیراہتمام ''پنجاب میں تعلیم کی صورتحال'' کے موضوع کا احاطہ کرنے کیلئے تعلیمی میدان میں خدمات سرانجام دینے والے افراد اور ماہرین تعلیم کے ہمراہ نشست کرنے کا موقع ملا، جس میں مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے سینئر پروفیسرز، تعلیمی این جی اوز کے نمائندے، مختلف اضلاع سے آئے ای ڈی اوز ایجوکیشن اور سیاسی قیادت (ایم پی اے ڈاکٹر نوشین حامد، سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود اور فرید احمد پراچہ ) شامل تھی جبکہ پنجاب حکومت کے دفاع کیلئے مسلم لیگی ایم این اے عارفہ خالد اور ایم پی اے رانا محمد ارشد موجود تھے۔
تعلیمی ماہرین اور پیشہ وروں کے اس پارلیمانی اجلاس میں موضوع کی حساسیت اور سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے محکمہ تعلیم پنجاب کی جانب سے سیکرٹری سکولز ایجوکیشن، سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کمیشن، پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن، ٹیکسٹ بک بورڈ، موجودہ و سابق وزرائے تعلیم، وزیر برائے انسانی حقوق، منسٹر سوشل ویلفیئر اور دیگر متعلقہ سرکاری تعلیمی شعبوں کے ذمہ داران اور مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو بھی بالخصوص مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ اجلاس کے شرکاء کی گفتگو کے جواب میں نہ صرف حقائق کی روشنی میں اپنا موقف دے سکیں بلکہ پنجاب کے دوردراز علاقوں سے آئے نمائندگان (ای ڈی اوز) اور نجی اداروں کے اصل مسائل سے بھی آشنا ہوسکیں کہ ان کے علاقوں میں تعلیم کو کن مسائل کا سامنا ہے ، اور مل بیٹھ کر ان سے مبٹنے کی کوئی تدبیر ہوسکے۔
مگر ان کی تعلیمی مسائل سے دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ اپنی حکومت اور اقدامات کے دفاع کیلئے خود آنے کی بجائے بھیجا گیا دعوت نامہ ان سے نچلے افسران اور وائس چانسلرز کی جانب سے پروفیسروں کو ''فارورڈ'' ہوتا رہا اور ستم ظریفی یہ کہ نچلی سطح کے کسی ذمہ دار نے بھی پروگرام میں میں آنا گوارہ نہ کیا۔ اور یوں اس تعلیمی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی پنجاب کے تعلیمی شعبے سنبھالنے والے افسران کے بغیر ہی کی گئی۔ تعلیم سازوں کی اس پارلیمنٹ کے منتظمین کی خواہش تھی کہ حکومت کے متعلقہ محکمے اپنا موقف دے کر پروگرام کو جانبدار ہونے سے بچاتے اور دونوں اطراف مل بیٹھ کر اس حوالے سے لائحہ عمل طے کرتے ، لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ، مجبوراً انہیں حکومت کی نمائندگی کیلئے ممبران اسمبلی کو مدعوکرنا پڑا چونکہ تعلیم ان کا شعبہ ہی نہیں ہے تو وہ کیسے ان مسائل پر مدلل گفتگو کرسکتے تھے، سوائے اس کے کہ رٹے رٹائے چند جملے ادا کرکے حکومت کی خوبیاں اور اقدامات گنواتے رہے۔
اجلاس میں تعلیم کے مختلف مسائل بشمول گورننس، مالیات، لڑکیوں کی تعلیم، ایجوکیشن انرولمنٹ، ذریعہ تعلیم و نتائج کی شرح، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی کمی، بالخصوص دیہاتوں میں تعلیم کو درپیش مسائل، نتائج اور دیگر مختلف مراحل کے موضوعات پر تفصیلاً گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ تعلیمی مسائل کا احاطہ زبانی کلامی باتوں یا کاغذی اجلاسوں کے بجائے عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ مقررین نے پاکستان کی تعلیمی پسماندگی اور جہالت کی اصل وجہ قومی زبان سے دوری کو قرار دیا اور اس ضمن میں میڈیم کے تجربات اور مخلوط تعلیم پر بھی تنقید کی ۔ اجلاس میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیاکہ تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 2.05 فیصد مختص کیا گیا ہے مگر اس میں سے صرف 1.8 فیصد خرچ ہورہے ہیں، باقی رقم کہاں جارہی ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ مقررین نے کہا کہ ہمارا تعلیمی بجٹ تعلیم سے نابلد بیوروکریٹ بناتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی انحطاط بڑھتا جارہا ہے۔
اجلاس میں سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں پوری دنیا کی نسبت صرف 2 فیصد انرولمنٹ ہے جبکہ ان کی حکومت سے قبل دنیا کا سب سے بڑا ڈراپ آئوٹ ریشو پنجاب میں تھا۔ مسلم لیگی رکن پنجاب اسمبلی رانا ارشد نے پنجاب حکومت کے دفاع میں مقدمہ لڑتے ہوئے شہباز حکومت کے تعلیمی اقدامات گنوائے اور کہا کہ ان کی حکومت نے تعلیم پر گذشتہ تمام ادوار سے زیادہ کام کیا ہے جنہیں عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔ وفاق کی وکالت کرتے ہوئے ایم این اے عارفہ خالد نے ''تعلیم سازوں'' کے اس اجلاس کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگرچہ تنقید کرنا ہمارا کلچر بن چکا ہے لیکن ہم خندہ پیشانی سے اسے قبول کرتے ہیں، تاہم حقائق کو قبول کرنے سے ہی ملک سے بے اطمینانی کا خاتمہ ہوسکتا ہے، لہٰذا اس اجلاس کے شرکاء پنجاب حکومت کے تعلیمی اقدامات کو حقائق کی نظر سے دیکھتے ہوئے انہیں قبول کریں اور جہاں کمی پائیں وہاں تعمیری تنقید کے ذریعے اس کے حل کی تدبیر حکومت کے سامنے رکھیں۔
پروفیسر حلیمہ سعدیہ، فرح احمد اور پروگرام میں شریک دیگر سینئر پروفیسرز نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی زور دیا۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عامر محمود نے دیہاتوں کے ماحول اور مسائل کی پیچیدگی کی منظرکشی کی اور تعلیمی چیلنجز سے آگاہ کرتے ہوئے عوام کی کونسلنگ اور شہروں کی بجائے دیہاتوں میں کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مختلف اضلاع سے آئے ای ڈی اوز ایجوکیشن نے اپنے اپنے علاقوں کے تعلیمی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ تعلیمی سال کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے علاوہ حکومت کی جانب سے لگائی گئی مختلف ڈیوٹیوں میں گزارتے ہیں جن میں الیکشن ڈیوٹیاں ، پولیو اور ڈینگی مہات وغیرہ سرفہرست ہیں۔ اساتذہ کے ان جگہوں پر ڈیوٹیاں دینے کی وجہ سے تدریسی سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے جس سے طلباء کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے تعلیمی بجٹ کے شفاف استعمال اور اساتذہ کو تدریسی سرگرمیوں تک محدود رکھنے کا مطالبہ کیا۔
یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ پنجاب میں 5 سے 16 سال تک کی عمر کے کم و بیش 3.73 ملین بچے آج بھی سکول سے باہر ہیں جنہیں تعلیم سے منسلک کرنے کیلئے موجودہ بجٹ کو دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین تعلیم کی آراء کے مطابق حالیہ بجٹ کبھی بھی انرولمنٹ کے موجودہ ہدف کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے جتنا کام ہورہا ہے اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے تعلیمی منصوبے اور اقدامات کھلی کتاب ہیں جنہیں دہرانے کی ضرورت نہیںتاہم افسر شاہی اور سکولوں میں بنیادی ضروریات کی کمی بلاشبہ اہم ترین ابتدائی مسائل ہیں جن سے نمٹنے کیلئے پالیسی سازوں کی توجہ اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کیلئے مختص فنڈ کے استعمال کا نظام منظم اور شفاف بنایا جائے تاکہ وہ کرپشن اور بددیانتی کی نظر نہ ہو نیز ہمارا تعلیمی بجٹ جسے وہ بیوروکریٹ بناتے ہیں اور ان کا براہِ راست تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس کیلئے بھی مناسب منصوبہ بندی کی جائے کہ تعلیمی بجٹ سرکاری تعلیمی محکموں کے ذمہ داران بالخصوص نچلی سطح کے افسران ای ڈی اوز ایجوکیشن اور ماہرین تعلیم کی مشاورت سے تیار کریں کیونکہ وہ مسائل سے براہِ راست واقف ہوتے ہیں۔ یہ اقدام انحطاط کے شکار تعلیمی نظام اور اس شعبے کو یرغمالی حالات سے نکالنے میں معاونت کرے گا۔
اس ضمن میں فلاحی تنظیموں کا کردار تھوڑا مختلف ہوتا ہے بالخصوص تعلیم کے حوالے سے ان کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی آواز حکومتی اجلاسوں کے برعکس محض کاغذی کارروائی تک محدود نہیں رہتی بلکہ عملی پیش رفت بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ حکومتیں فنڈز ہونے کے باوجود ''وسائل کی کمی'' کا شکار رہتی ہیں لیکن نجی ادارے یا این جی اوز ''اِدھر اُدھر'' سے فنڈز ملنے کی وجہ سے اس قلت کو کم کرنے کیلئے حکومتوں سے بڑھ کر کام کرتی ہیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (PCE) اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیراہتمام ''پنجاب میں تعلیم کی صورتحال'' کے موضوع کا احاطہ کرنے کیلئے تعلیمی میدان میں خدمات سرانجام دینے والے افراد اور ماہرین تعلیم کے ہمراہ نشست کرنے کا موقع ملا، جس میں مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے سینئر پروفیسرز، تعلیمی این جی اوز کے نمائندے، مختلف اضلاع سے آئے ای ڈی اوز ایجوکیشن اور سیاسی قیادت (ایم پی اے ڈاکٹر نوشین حامد، سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود اور فرید احمد پراچہ ) شامل تھی جبکہ پنجاب حکومت کے دفاع کیلئے مسلم لیگی ایم این اے عارفہ خالد اور ایم پی اے رانا محمد ارشد موجود تھے۔
تعلیمی ماہرین اور پیشہ وروں کے اس پارلیمانی اجلاس میں موضوع کی حساسیت اور سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے محکمہ تعلیم پنجاب کی جانب سے سیکرٹری سکولز ایجوکیشن، سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کمیشن، پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن، ٹیکسٹ بک بورڈ، موجودہ و سابق وزرائے تعلیم، وزیر برائے انسانی حقوق، منسٹر سوشل ویلفیئر اور دیگر متعلقہ سرکاری تعلیمی شعبوں کے ذمہ داران اور مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو بھی بالخصوص مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ اجلاس کے شرکاء کی گفتگو کے جواب میں نہ صرف حقائق کی روشنی میں اپنا موقف دے سکیں بلکہ پنجاب کے دوردراز علاقوں سے آئے نمائندگان (ای ڈی اوز) اور نجی اداروں کے اصل مسائل سے بھی آشنا ہوسکیں کہ ان کے علاقوں میں تعلیم کو کن مسائل کا سامنا ہے ، اور مل بیٹھ کر ان سے مبٹنے کی کوئی تدبیر ہوسکے۔
مگر ان کی تعلیمی مسائل سے دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ اپنی حکومت اور اقدامات کے دفاع کیلئے خود آنے کی بجائے بھیجا گیا دعوت نامہ ان سے نچلے افسران اور وائس چانسلرز کی جانب سے پروفیسروں کو ''فارورڈ'' ہوتا رہا اور ستم ظریفی یہ کہ نچلی سطح کے کسی ذمہ دار نے بھی پروگرام میں میں آنا گوارہ نہ کیا۔ اور یوں اس تعلیمی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی پنجاب کے تعلیمی شعبے سنبھالنے والے افسران کے بغیر ہی کی گئی۔ تعلیم سازوں کی اس پارلیمنٹ کے منتظمین کی خواہش تھی کہ حکومت کے متعلقہ محکمے اپنا موقف دے کر پروگرام کو جانبدار ہونے سے بچاتے اور دونوں اطراف مل بیٹھ کر اس حوالے سے لائحہ عمل طے کرتے ، لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ، مجبوراً انہیں حکومت کی نمائندگی کیلئے ممبران اسمبلی کو مدعوکرنا پڑا چونکہ تعلیم ان کا شعبہ ہی نہیں ہے تو وہ کیسے ان مسائل پر مدلل گفتگو کرسکتے تھے، سوائے اس کے کہ رٹے رٹائے چند جملے ادا کرکے حکومت کی خوبیاں اور اقدامات گنواتے رہے۔
اجلاس میں تعلیم کے مختلف مسائل بشمول گورننس، مالیات، لڑکیوں کی تعلیم، ایجوکیشن انرولمنٹ، ذریعہ تعلیم و نتائج کی شرح، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی کمی، بالخصوص دیہاتوں میں تعلیم کو درپیش مسائل، نتائج اور دیگر مختلف مراحل کے موضوعات پر تفصیلاً گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ تعلیمی مسائل کا احاطہ زبانی کلامی باتوں یا کاغذی اجلاسوں کے بجائے عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ مقررین نے پاکستان کی تعلیمی پسماندگی اور جہالت کی اصل وجہ قومی زبان سے دوری کو قرار دیا اور اس ضمن میں میڈیم کے تجربات اور مخلوط تعلیم پر بھی تنقید کی ۔ اجلاس میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیاکہ تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 2.05 فیصد مختص کیا گیا ہے مگر اس میں سے صرف 1.8 فیصد خرچ ہورہے ہیں، باقی رقم کہاں جارہی ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ مقررین نے کہا کہ ہمارا تعلیمی بجٹ تعلیم سے نابلد بیوروکریٹ بناتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی انحطاط بڑھتا جارہا ہے۔
اجلاس میں سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں پوری دنیا کی نسبت صرف 2 فیصد انرولمنٹ ہے جبکہ ان کی حکومت سے قبل دنیا کا سب سے بڑا ڈراپ آئوٹ ریشو پنجاب میں تھا۔ مسلم لیگی رکن پنجاب اسمبلی رانا ارشد نے پنجاب حکومت کے دفاع میں مقدمہ لڑتے ہوئے شہباز حکومت کے تعلیمی اقدامات گنوائے اور کہا کہ ان کی حکومت نے تعلیم پر گذشتہ تمام ادوار سے زیادہ کام کیا ہے جنہیں عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔ وفاق کی وکالت کرتے ہوئے ایم این اے عارفہ خالد نے ''تعلیم سازوں'' کے اس اجلاس کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگرچہ تنقید کرنا ہمارا کلچر بن چکا ہے لیکن ہم خندہ پیشانی سے اسے قبول کرتے ہیں، تاہم حقائق کو قبول کرنے سے ہی ملک سے بے اطمینانی کا خاتمہ ہوسکتا ہے، لہٰذا اس اجلاس کے شرکاء پنجاب حکومت کے تعلیمی اقدامات کو حقائق کی نظر سے دیکھتے ہوئے انہیں قبول کریں اور جہاں کمی پائیں وہاں تعمیری تنقید کے ذریعے اس کے حل کی تدبیر حکومت کے سامنے رکھیں۔
پروفیسر حلیمہ سعدیہ، فرح احمد اور پروگرام میں شریک دیگر سینئر پروفیسرز نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی زور دیا۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عامر محمود نے دیہاتوں کے ماحول اور مسائل کی پیچیدگی کی منظرکشی کی اور تعلیمی چیلنجز سے آگاہ کرتے ہوئے عوام کی کونسلنگ اور شہروں کی بجائے دیہاتوں میں کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مختلف اضلاع سے آئے ای ڈی اوز ایجوکیشن نے اپنے اپنے علاقوں کے تعلیمی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ تعلیمی سال کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے علاوہ حکومت کی جانب سے لگائی گئی مختلف ڈیوٹیوں میں گزارتے ہیں جن میں الیکشن ڈیوٹیاں ، پولیو اور ڈینگی مہات وغیرہ سرفہرست ہیں۔ اساتذہ کے ان جگہوں پر ڈیوٹیاں دینے کی وجہ سے تدریسی سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے جس سے طلباء کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے تعلیمی بجٹ کے شفاف استعمال اور اساتذہ کو تدریسی سرگرمیوں تک محدود رکھنے کا مطالبہ کیا۔
یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ پنجاب میں 5 سے 16 سال تک کی عمر کے کم و بیش 3.73 ملین بچے آج بھی سکول سے باہر ہیں جنہیں تعلیم سے منسلک کرنے کیلئے موجودہ بجٹ کو دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین تعلیم کی آراء کے مطابق حالیہ بجٹ کبھی بھی انرولمنٹ کے موجودہ ہدف کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے جتنا کام ہورہا ہے اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے تعلیمی منصوبے اور اقدامات کھلی کتاب ہیں جنہیں دہرانے کی ضرورت نہیںتاہم افسر شاہی اور سکولوں میں بنیادی ضروریات کی کمی بلاشبہ اہم ترین ابتدائی مسائل ہیں جن سے نمٹنے کیلئے پالیسی سازوں کی توجہ اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کیلئے مختص فنڈ کے استعمال کا نظام منظم اور شفاف بنایا جائے تاکہ وہ کرپشن اور بددیانتی کی نظر نہ ہو نیز ہمارا تعلیمی بجٹ جسے وہ بیوروکریٹ بناتے ہیں اور ان کا براہِ راست تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس کیلئے بھی مناسب منصوبہ بندی کی جائے کہ تعلیمی بجٹ سرکاری تعلیمی محکموں کے ذمہ داران بالخصوص نچلی سطح کے افسران ای ڈی اوز ایجوکیشن اور ماہرین تعلیم کی مشاورت سے تیار کریں کیونکہ وہ مسائل سے براہِ راست واقف ہوتے ہیں۔ یہ اقدام انحطاط کے شکار تعلیمی نظام اور اس شعبے کو یرغمالی حالات سے نکالنے میں معاونت کرے گا۔