عیدالاضحی اور جشن آزادی ایک ساتھ

سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے ساتھ کشمیری عوام سے یکجہتی کا شاندار مظاہرہ

سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے ساتھ کشمیری عوام سے یکجہتی کا شاندار مظاہرہ۔ فوٹو: فائل

اگست کا مہینہ جونہی آتا ہے تو ہر طرف جشن آزادی منانے کا سلسلہ عروج پر پہنچ جاتا ہے لیکن اس مرتبہ تو جہاں یوم آزادی کی تیاری جاری تھیں وہیں عید الاضحی بھی روایتی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔

ایسا بہت کم ہوتا ہے جب دو تہوار ایک ساتھ آجاتے ہیں لیکن جب بھی ایسا ہوتا ہے تو پھر کمال ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ایسا ہی ہوا کہ عید الاضحی اور یوم جشن آزادی ایک ساتھ آئے تو تمام عمر کے لوگوں کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی طرح فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں، تکنیک کاروں نے ان تہواروں کو منانے کیلئے خوب تیاری کی۔ کسی نے ٹی وی پروگرام میں رنگ جمائے تو کسی نے گھر کو سبز ہلالی پرچم سے سجایا، کسی نے سنت ابراھیمی کی ادائیگی کے لیے جانور قربان کیا تو کسی نے ملی نغمے سنائے۔

مگر ایک بات جو بہت اہم تھی وہ یہ کہ پاکستان اور دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں نے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم پر آواز بلند کی اور ہر طرف کشمیری پرچم دکھائی دیا جس پر اقوام متحدہ کو بھی بالآخر حرکت میں آنا پڑا۔

اس حوالے سے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے فنکاروں نے ملے جلے جہاں خیالات کا اظہار کیا وہ نذر قارئین ہے۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے بچوں شیراز ، ایریکا اور امیکا کے ہمراہ پہلی مرتبہ پاکستان میں عید الاضحی اور جشن آزادی منائی۔ لیکن یہ واقعی بہت منفرد اور خوشگوار تھا کیونکہ ہر چہرہ مسکراتا دکھائی دے رہا تھا۔ کوئی سنت ابراہیمی ادا کرنے کرنے کی تیاری میں مصروف تھا اور کوئی جشن آزادی منانے کیلئے گھر کو سجا رہا تھا۔ ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ جس کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ یہ میرا پاکستان ہے جہاں پر لوگ خوشی ہو یا غم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے بچے امریکہ میں رہنے کے بعد جب یہاں آئے اور یہ سب کچھ دیکھا تو انہیں بہت اچھا لگا اور اب وہ پاکستان آتے رہیں گے اور یہاں پر ہونے والے تہواروں کا حصہ بنیں گے۔

فلمسٹار ریما، ریشم اور مدیحہ شاہ نے کہا کہ عید ہو یا جشن آزادی ، اپنوں کے سنگ ہی اچھی لگتی ہے۔ ہم لوگ پاکستان میں ہو یا پاکستان سے باہر آئے ہوں لیکن جب بھی مذہبی و قومی تہوار آتے ہیں تو ہمارے دل جھوم اٹھتے ہیں۔ ہم انہیں بھرپور انداز سے منانے کے لیے لئے ہر طرح کی تیاری کرتے ہیں ،جہاں سنت ابراہیمی ادا کی جاتی ہے وہی جشن آزادی کی مناسبت سے سے گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے ساتھ ساتھ چراغاں بھی کیا جاتا ہے۔ ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بسنے والے لوگ بہت سے مسائل کا شکار ہیں مگر ہم ان تہواروں کو منانے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے باسیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں قربانیوں سے ہمیں یہ وطن عزیز حاصل ہوا اس وقت بھی مسائل بے پناہ تھے لیکن آج جس مقام پر پاکستان کھڑا ہے اگر ہم مل کر حکومت کے شانہ بشانہ کام کریں اور اپنے اپنے شعبے میں کامیابی کی مثالیں قائم کریں تو وہ وقت دور نہیں رہے گا جب ہمارا ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔

اداکارہ مایا علی، شہریار منور، زارا نور عباس، احمد علی بٹ اور حریم فاروق نے کہا کہ عیدالاضحی کے موقع پر ریلیز ہونے والی تینوں اردو فلموں کا بزنس جہاں شاندار رہا۔ لوگوں نے بھرپور انداز سے مذہبی اور قومی تہوار منائے۔ یہی ہمارے پاک وطن کا حسن ہے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اب وقت آچکا ہے کہ ہمیں میں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں ایک اچھا پاکستانی بننا ہے یا ایک ایسی قوم بن کر سامنے آنا ہے جس کو ہر کوئی نشانہ بنائے ، لفظوں کے تیر چلائے اور ہمیں برا بھلا کہے۔ ہم لوگ بہت باصلاحیت ہیں اور اپنے بل بوتے پر پر آج اس مقام پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کا ہر بچہ قومی جذبے سے سرشار ہے مگر اس کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے لیے ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم آئندہ اپنے ملک کے لوگوں کو زیادہ سراہیں گے خاص طور پر فنون لطیفہ کے شعبے میں ہمیں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر ایسا ممکن ہو گیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ہر جگہ پاکستان کا بول بالا ہوگا۔


بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال راحت فتح علی خاں، عاطف اسلم، یاسر اختر اور شاہدہ منی نے کہا کہ جونہی اگست کا مہینہ آتا ہے تو ہر طرف جشن آزادی کے رنگ دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بار تو ایسا ہوا کہ ہر طرف جشن آزادی کے ساتھ ساتھ عید الاضحی منانے کی تیاری دکھائی دے رہی تھی۔ ہم نے بھی دونوں تہوار منانے کیلئے خوب تیاری کی۔ جس طرح ہم بچپن میں اپنے گھر کو سبز ہلالی پرچم سے سجایا کرتے تھے اسی طرح اب ہمارے بچے بھی اس تہوار کو کو اسی جوش و ولولے کے ساتھ مناتے ہیں۔ ہم بس اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے یہ وطن ہے تو ہم ہیں ہماری پہچان پاک وطن سے ہے، یہ ہی ہماری شان ہے یہ وطن ہماری جان ہے، پاکستان زندہ باد۔

گلوکارہ شازیہ منظور، سونیا خان ، سارہ لورین اور سارہ رضا خان نے کہا کہ عیدالاضحی کے موقع پر سنت ابراہیمی میں ادا کرکے جو خوشی ہوتی ہے اس کا لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں دوسری جانب یوم آزادی کی بات کریں تو تو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح میں جس بے مثال جدوجہد کے بعد ہمیں یہ وطن دیا اس پر ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ آج جو حالات مقبوضہ کشمیر ر میں مسلمانوں کے ہیں اگر ہم بھی بھارت میں ہوتے تو آج ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہوتا ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو تیسرے نہیں بلکہ چوتھے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے ان کو وہ حقوق نہیں دیے جاتے جس کے وہ حقدار ہیں۔ اس لئے ہمیں سوچنا چاہئے اور اس پاک سر زمین کی قدر کرنی چاہئے۔

اداکارہ ماہرہ خان، ہمایوں سعید، میگھا، عدنان صدیقی، عتیقہ اوڈھو اور زیبا بختیار نے کہا کہ لاکھوں لوگوں کی قربانیوں سے حاصل کیا ہوا یہ ملک کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کو جب قائداعظم نے پورا کرنے کے لیے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو اکٹھا کیا تو یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا جس انداز سے قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے مل کر اس تحریک کو چلایا اور انگریزوں کو مجبور کیا کہ مسلمانوں کو ان کا حق دیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کیونکہ اس تحریک کے پیچھے لاکھوں لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا آج ہم جس دھرتی پر خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں ہیں وہ ان گنت جانوں کے صدقے ہی ممکن ہوسکا ہے۔

جہاں تک بات مسائل کی ہے تو دنیا میں ہر جگہ مسائل ضرور ہیں ہمیں ہر وقت تنقید کرنے کے بجائے یہ سوچنا ہوگا کہ مسائل کیسے پیدا ہوئے۔ آج پاکستانی قوم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ جس طرح سے پوری قوم نے عیدالاضحی اور14اگست پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی مثال قائم کی اور جس طرح سے اقوام متحدہ کو ایکشن لینے پر مجبور کیا ہے، اس کے بعد تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہمیں اسی جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں یہ عہد کر نا ہوگا کہ ہمیں ایک اچھے پاکستانی کے طور پر اپنے فرائض کو ادا کرنا ہے، اگر ہم نے یہ انداز اپنا لیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔

انٹرنیشنل پروموٹر یار محمد شمسی، میگھا، وارث بیگ، غلام محی الدین اور سید نور نے کہا کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ یہ گیت نہیں ایک جذبہ ہے ، جو ہر پاکستانی میں میں دکھائی دیتا ہے چاہے وہ پاکستان میں رہے یا دیار غیر میں بسے۔ ہمارا نام ہماری پہچان ہماری شناخت اس وطن سے ہے۔ آج ہم جس مقام پر بھی موجود ہیں وہ صرف اور صرف پاکستان کی بدولت ہے ، ہم دنیا میں جہاں بھی جائیں ، ہماری پہچان پاکستان سے ہے۔ جہاں تک بات عیدالاضحی اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ہے تو پوری دنیا جانتی ہے کہ جس طرح پاکستانی اپنے مذہبی اور قومی تہوار مناتے ہیں۔

ہم ہر حال میں ان کو منانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت مالی مشکلات کا شکار ہی، بے پناہ مسائل ہیں لیکن اس کے باوجود جشن آزادی کو جس انداز سے منایا جاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری بہن بھائیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بات ہو تو سب سے پہلے آواز پاکستانیوں کی ہی آواز بلند ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب جو امن کا علمبردار بنا بیٹھا ہے وہ بھی اس مسئلے پر ہمیشہ خاموش رہتا لیکن اس بار جس گونج کے ساتھ پاکستانیوں نے کشمیری عوام کے لیے آواز بلند کی ہے اس پر اقوام متحدہ کوحرکت میں آنا پڑا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے اب ہم اس تحریک کو دبنے نہیں دیں گے۔ ہماری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم ہے اس نیک مقصد کو پورا کرنے کے لئے لیے ہمت عطا کرے۔ آمین پاکستان زندہ باد۔

 
Load Next Story