ٹیکسی ڈرائیورقتل کیس تفتیشی افسرکا سپریم کورٹ کے احکامات پرعملدرآمد سے انکار

دو ماہ گزر جانے کے باوجودکسی بھی عدالت میں گرفتار رینجرز اہلکاروں کیخلاف مقدمے کا چالان جمع نہیں کرایا گیا۔

16جولائی2013کو گلستان جوہر میں رینجرز اہلکار نے ٹیکسی ڈرائیور مرید عباس کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا. فوٹو: محمد نعمان/ ایکسپریس

ٹیکسی ڈرائیور قتل کیس کے تفتیشی افسر نے سپریم کورٹ کے احکام پر عملدرآمد کرنے سے انکار کردیا۔

2ماہ گزر جانے کے باوجود کسی بھی عدالت میں گرفتار رینجرز اہلکاروں کے خلاف مقدمے کا چالان جمع کرایا اور نہ ہی کسی بھی عدالت کو آگاہ کیا ہے، تفصیلات کے مطابق16جولائی2013کو گلستان جوہر کے علاقے میں رینجرز اہلکار غلام رسول نے دیگر اہلکاروں کی موجودگی میں غریب ٹیکسی ڈرائیور مرید عباس کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، ٹیکسی ڈرائیور اپنے معصوم بچے کے ہمراہ افطاری کی خریداری کیلیے آیا تھا، مبینہ روکنے کی کوشش میں اسے رینجر اہلکار نے گولی ماردی تھی،مکینوں کے احتجا ج پر تھانہ گلستان جوہر نے مقدمہ درج کیا تھا،17جولائی کو چیف جسٹس افتخارچوہدری نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا اور اعلیٰ حکام کو سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا۔

از خود نوٹس پر پولیس نے لائس نائنک غلام رسول کو گرفتار کیا اور18جولائی کو جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی ارم جہانگیر سے22جولائی تک جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا، پولیس نے18جولائی کو دیگر اہلکاروں میں شامل برکت علی، وقار اور نذیر کی بھی گرفتاری ظاہر کردی تھی اور عدالت سے27جولائی تک ریمانڈ حاصل کرلیا تھا،27جولائی کو دوبارہ فاضل عدالت میں پیش کیا،اس موقع پر دو چشم دید گواہ محمد صادق اور محمد خان نے چاروں اہلکاروں کا شناخت کیا تھا۔




فاضل عدالت نے چاروں ملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا اور31جولائی کو ملزمان کے مقدمے کا چالان جمع کرانے کا حکم دیا تھا تاہم چیف جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے کا دہشت گردی کی ایکٹ درج کرنے کا حکم دیا اور اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مقدمہ کا چالان جمع کرانے اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد مقدمہ کا فیصلہ7یوم میں کرنے کا حکم دیا تھا،مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عملدرآمد کرنے کے بجائے مقتول کی بیوہ مسماۃ دعا پر دبائو ڈالا کہ وہ ملزمان سے مصالحت کرے اور انھیں عدالت میں معاف کردے اور20اگست کوبیوہ مسماۃ دعا کو جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی ارم جہانگیر کے روبرو پیش کیا تھا۔

اس موقع پر مدعیہ نے عدالت میں تحریری درخواست میں ملزمان کو معاف کرنے اور مقدمہ واپس لینے کی استدعا کی تھی جس پر فاضل جج نے درخواست واپس کردی اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ مقدمہ سپریم کورٹ کے حکم پر دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلانے کا حکم دیا گیا ہے اور دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا، تفتیشی افسر کو31جولائی تک چالان جمع کرانے کا حکم تھا، دہشت گردی کی ایکٹ کے تحت مقدمے کا چالان ایک ماہ میں جمع کرانے کی ہدایت ہے لیکن دو ماہ گزر جانے کے باوجود تفتیشی افسر نے دہشت گردی کی ایکٹ کی بی خلاف ورزی کی اور عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عملدآمد نہیں کیا اور تاحال کسی بھی عدالت میں چالان جمع کرایا اور نہ ہی عدالت کو آگاہ کیا ہے۔
Load Next Story