افغان بحران کے حل کے اشارے

افغان طالبان رہنما ملا برادر اور امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے مابین براہ راست ملاقات کا بھی امکان ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

طالبان اور امریکا کے درمیان امن بات چیت کا آٹھوں مرحلہ اگست میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دوبارہ شروع ہو گیا۔ امریکی سینئر حکام کے مطابق یہ مرحلہ انتہائی اہم ہے کیونکہ افغان جنگ اپنے اختتامی مرحلے میں ہے۔ افغانستان جس تباہی و بربادی سے گزر رہا ہے اس کا آغاز دو دہائی نہیں بلکہ 40 سال پہلے ہوا، ذرا سوچیں جب کسی انسان، قوم یا ملک پر جب کوئی برا وقت نازل ہوتا ہے تو اس کی طوالت تمام تر کوششوں کے باوجود40 برسوں پر پھیل جاتی ہے اور افغانستان میں عدم استحکام کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب ظاہر شاہ کے کزن سردار داؤد نے ان کی بادشاہت کا تختہ الٹا تھا۔ افغانستان چونکہ گریٹ گیم کا اہم حصہ تھا، یہاں سے روس اور چین پر نظر رکھی جاتی تھی، سینٹرل ایشیاء کے وسیع ذخائر تھے چنانچہ عالمی طاقتوں نے لنگر لنگوٹ کس کر افغانستان پر دھاوا بول دیا۔

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم نے افغانستان کے حوالے سے بہت پیش رفت کی ہے۔ طالبان سے بات چیت جاری ہے۔ طالبان کی جانب سے 19رکنی وفد امن مذاکرات میں شریک ہے۔ اس نئے مذاکراتی دور کو انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے۔ سنیئر امریکی اہلکاروں کا خیال ہے کہ اس مرحلے میں فریقین کسی امن معاہدے پر متفق ہو سکتے ہیں، جس سے18سالہ جنگ کے خاتمے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ امریکا طالبان کے ساتھ امن ڈیل طے کرنے کی کوششوں میں ہے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امن معاہدے میں یقینی طور پر امریکی فوج کے انخلاء کا عمل بھی شامل ہو گا اور افغانستان میں امریکی موجودگی کی شرائط کو بھی شامل کیا جائے گا۔ انھوں نے اس کے ساتھ افواج کے انخلاء کو مشروط قرار دیا۔

طالبان بھی امن معاہدے پر دستخط کرنے کے اشارے دے چکے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ صورت حال یہاں تک ہموار ہو چکی ہے کہ اس سمجھوتے کے طے پانے کا امکان اسی مہینے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ جب کہ طالبان معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ضمانتیں بھی فراہم کریں گے۔ طالبان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایک بہترین امن ڈیل قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی افواج کی تعداد میں کمی طالبان اور امریکا کے درمیان جاری مذاکرات میں طے پانے والے معاہدے کا واضح نتیجہ ہو گا۔ اس کے بعد طالبان کا بل حکومت کے ساتھ براہ راست مذکرات کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کی طالبان کو دورہ پاکستان کی دعوت فوراً قبول کرنے پر ان کے مخالفین نے انھیں پاکستان کی پراکسی قرار دیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کسی کی پراکسی نہیں بلکہ وہ اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ طالبان دوحہ مذاکرات کے آٹھویں دور کے خاتمے کے بعد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ جس میں اہم ملاقاتیں اور اعلانات متوقع ہیں۔ جتنی سرعت کے ساتھ امریکا طالبان مذاکرات میں پیشرفت ہوئی وہ حیران کن ہے۔


ادھر امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ پاکستان بھی متوقع ہے جس کی تاریخ کا تعین ابھی نہیں کیا گیا لیکن قرائن سے ظاہر ہوتا ہے یہ دورہ اگست کے آخر یا ستمبر کے اوائل میں متوقع ہے۔ اس سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہو جائیں گے۔ جب کہ افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ہم نے امن مذاکرات کے آغاز کے لیے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھیں تاہم انھوں نے اس بات کو واضح کر دیا کہ امن معاہدہ شرائط کے بغیر نہیں ہو گا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم افغانستان میں خلافت نہیں جمہوری حکومت چاہتے ہیں۔

8 ویں مذاکراتی دور کے بارے میں خبر یہ ہے کہ امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے دونوں طرف سے سر توڑ کوششیں جاری ہیں کیونکہ امریکی حکومت یکم ستمبر سے پہلے طالبان کے ساتھ کوئی امن معاہدہ کرنے کی خواہش مند ہے۔ دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ہم80 فیصد امور پر معاہدہ کر چکے ہیں اور باقی20 فیصد میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء کا ٹائم فریم اور ایک اور مسئلہ شامل ہے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دوسرا مسئلہ کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے اور بڑا مسئلہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا ہے۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم پر امید ہیں کہ مذاکرات کے اس مرحلے میں معاہدہ کر لیں گے۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں زبردست پیشرفت ہوئی ہے۔ طالبان ذرایع کے مطابق افغان طالبان رہنما ملا برادر اور امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے مابین براہ راست ملاقات کا بھی امکان ہے۔

افغان مسئلے پر امریکا، طالبان، افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان زبردست سرگرمیاں جاری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ پوری دنیا میں افغان مسئلے کے حل میں جو کردار پاکستان ادا کر سکتا ہے وہ دنیا کا کوئی اور ملک نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کے اس اعلان نے مودی حکومت کو مایوسی کی انتہا پر پہنچا دیا۔ باوجود اس کے بھارتی حکومت نے افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کیے، اس اعلان نے بھارت کو افغان مسئلے سے نکال باہر کیا۔ یہ پاکستان کی بھارت پر بہت بڑی اسٹرٹیجک کامیابی تھی۔

پاک امریکا تعلقات کا مستقبل اور پاکستان کا خطے میں پھیلتا ہوا اثر و رسوخ بھارت کو دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ بھارت نے تو پچھلے کئی سال کی جدوجہد سے پاکستان کو دہشتگردی کے حوالے سے تنہا کر دیا تھا۔ لیکن امریکا کے پاکستان کے قریب آنے سے مدتوں کی ان سازشوں پر پانی پھر گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا مسلسل بھارت کو مذاکرات اور امن کی دعوت جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی تائید کے بغیر ممکن نہ تھی پوری دنیا کو پیغام گیا کہ پاکستان بھارت سے جنگ نہیں خطے میں امن چاہتا ہے۔ کرتار پور راہ داری اوپر سے سونے پر سہاگہ تھا۔ جس نے پوری دنیا میں سکھوں کے دل جیت لیے۔ اوپر سے ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ اس سے پہلے پانی سر سے نہ گزر جائے۔
Load Next Story