اِدھر اُدھر سے
کانگریس نے تو اس عمل کو بھارتی آئین کا قتل قرار دے دیا ہے
ہندوستان میں جب سے مذہبی انتہا پسندی انتہا کو پہنچی ہے توکچھ ترقی پسند لبرل اور سیکولر خیالات کے حامل پڑھے لکھے افراد جن میں پروفیسرز، ادیب و شاعر، صحافی اور فلمی صنعت سے وابستہ افراد (اداکار، فلم ساز، کہانی نگار وغیرہ) واضح یا ڈھکے چھپے الفاظ، بیانات وغیرہ میں اس صورتحال کو نہ صرف ہندوستان بلکہ انسانیت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے مخالف انتہا پسندی کے عروج کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر حکمرانوں اور ایوان کے کردار پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں حتیٰ کہ کانگریس نے تو اس عمل کو بھارتی آئین کا قتل قرار دے دیا ہے۔
یہ تو ایک خاص طبقے یعنی صاحب الرائے افراد کا ردعمل ہے مگر یونینوں، کالجوں کے طلبا بھی بطور ردعمل کچھ نہ کچھ متحرک ہیں۔کچھ ماہ قبل (مسئلہ کشمیر کی نئی صورتحال سے پہلے) سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں کچھ نوجوان اورکچھ درمیانی عمرکے راہگیر بھی شامل تھے اور ایک طالبہ کلمہ حق (کلمہ طیبہ) پر پرجوش انداز میں اظہار خیال فرما رہی ہیں۔ مجمع اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا رہا ہے وہ طالبہ اس قدر فصیح و بلیغ الفاظ میں اللہ کی وحدانیت بیان فرما رہی ہیں کہ سن کر یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ یہ ساری تقریر انھیں بڑی محنت و توجہ سے رٹوائی گئی ہے سب بڑے غور سے سن رہے ہیں نہ کوئی مخالفت نہ کوئی ردعمل ظاہر کر رہا ہے نہ سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ لاحق ہے، نہ کوئی انتہا پسند انھیں روکنے کے لیے مارنے پیٹنے کی طرف مائل نظر آرہا ہے جب کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں بلکہ آ رہی ہیں کہ مسلمان نوجوانوں، بوڑھوں اور خواتین سے زبردستی ہندوانی نعرے لگوائے جاتے ہیں انکار یا پس و پیش پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ پٹتے پٹتے وہ شخص ختم ہو جاتا ہے مگر انتہا پسندوں کا جی نہیں بھرتا۔
عید قرباں پر ایک اور ویڈیو بھارت کے شہر مرادآباد کی وائرل ہوئی ہے جس میں ایک لڑکی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے گلے مل کر عید کی مبارکباد دے رہی ہے اس منظر کے ساتھ جوکومنٹری کی جا رہی ہے اس میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اظہار یکجہتی کی آڑ میں اسلام کی (معاذ اللہ) توہین اور مذاق اڑایا جا رہا ہے ویڈیو تو آپ میں سے بیشتر نے دیکھ ہی لی ہوگی، نماز عید کے بعد یہ صاحبہ لوگوں کو تین بار گلے لگا کر اور پھر مصافحہ کرتی ہیں۔ ان سے عید ملنے کے امیدواروں کی لمبی قطار ہے جس میں نوجوان، بچے اور کچھ بوڑھے بھی شامل ہیں۔ عید ملتے اور ہاتھ ملاتے ہوئے پوری توجہ کیمرے کی طرف بھی ہے۔
تو اب یہ عمل جس کو اسلام کی توہین اور مذاق بنانا قرار دیا گیا ہے اور اسلام کے خلاف سازش بھی تو کیا اس سب کا سہرا ان محترمہ کے سر جاتا ہے یا ان حضرات کے جو نماز عید کے بعد ان سے (ایک نامحرم خاتون سے) گلے مل رہے ہیں، ہاتھ ملا رہے ہیں اور بصد شوق پوری توجہ سے ویڈیو بنوا رہے ہیں۔ وہ طالبہ تو اپنی جانب سے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی ہی فرما رہی ہیں اور اپنے صاحبان اقتدار کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں آپ بلاوجہ ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں، الزام ہم مسلمانوں کو بھی نہیں دے سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں وہاں رہنا ہے تو جینے اور رہنے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا قبل اس کے کہ انھیں مکمل طور پر ہندو بننے پر مجبور کیا جائے۔ رہ گئی یہ بات کہ یہ سب سازشیں ہیں جن سے اسلام کو خطرہ ہے، تو ایسی باتوں سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ دین اسلام کی حفاظت خود رب کائنات فرما رہے ہیں، خطرہ ہے تو ان تنقید کاروں سے جو حالات کا پس منظر جانے بنا، مجبوری اور صورتحال کو سمجھنے کی بجائے صرف دین خدا کو خطرے میں محسوس کرتے رہتے ہیں۔
اس بارعیدالاضحیٰ سے قبل بارشوں کے باعث خدشہ تھا کہ پہلے کی نسبت کچھ زیادہ ہی بدنظمی ہوگئی اور آلائشیں کئی روز تک نہ اٹھائی جاسکیں گی، مگر (پورے کراچی کا تو کہہ نہیں سکتے) ضلع شرقی میں ہماری حد نظر تک اپنے ارد گرد کے علاوہ اور جگہ بھی جہاں ہم گئے صفائی کا معقول انتظام نظر آیا۔اس سلسلے میں اس علاقے کے لوگوں کو بھی بلدیہ شرقی کے چیئرمین معید انورکی تعریف کرتے اور ان کی مثالی کارکردگی کو سراہتے سنا ہم نے خود بھی جہاں تک ممکن ہوا بلدیہ شرقی میں گھوم پھر کر دیکھا کہ آلائشیں بروقت اٹھا لی گئیں اور گلیاں سڑکیں فوراً ہی صاف کردی گئیں۔
ہمارے محلے بلکہ گلی میں پہلے ہی دن تقریباً سب گھروں میں قربانی ہوئی، پوری گلی میں خون اور آلائشیں پڑی تھیں اور ہم سوچ رہے تھے کہ اب جب کہ زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر کچھ گھنٹے یہ سب یوں ہی پڑا رہا تو تعفن کے علاوہ وبائی امراض پھیلنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں تو آخر ہر گلی کے رہائشی ایک بڑا گڑھا کھود کر اپنے اپنے جانوروں کو اسی گڑھے پر لکڑی کا تختہ رکھ کر باری باری کیوں ذبح نہ کرلیں تاکہ تمام خون اور آلائشیں اس میں دفن کردی جائیں مانا کہ صفائی حکومتی اور بلدیاتی اداروں کا کام اور ذمے داری ہے مگر کیا بطور مہذب شہری ہماری اپنی کوئی ذمے داری نہیں ہے؟ مگر کچھ دیر بعد جاکر دیکھا تو پوری گلی صاف ہوچکی تھی اور تمام آلائشیں اٹھائی جا چکی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ کم ازکم ہمارے علاقے میں (پورے ضلع شرقی کے ہم چشم دید گواہ نہیں) تو یوسی چیئرمینوں، وائس چیئرمینوں نے چیئرمین بلدیہ شرقی معید انور کی زیر نگرانی بے مثال اور بروقت صفائی کا کام سرانجام دیا۔ خدا کرے آیندہ اس سے بھی بہتر اور تیز رفتاری سے کام ہو اور ہم سب کو بہترین شہری ہونے کا احساس بھی ہو۔
عید کی چھٹیوں کے باعث تین دن اخبار نہ پڑھنے سے یوں لگا کہ ہمارا رابطہ شاید دنیا سے منقطع ہوگیا ہے کہ دوسرے ذرایع ابلاغ بطور خاص ٹی وی چینلز کے سامنے تو عام دنوں میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا بھلا کسی تہوار کے دنوں میں کیا موقع ملتا۔ پس ان تین دنوں میں ایک (کم ازکم دوکالمی) تصویر اور تین چارکالمی خبر نہ پڑھنے کا ایسا قلق رہا کہ مت پوچھئے۔
شاہ محمود قریشی تو قومی زبان کا استعمال کرکے بہترین انداز گفتگو کے ذریعے خاصی عقلی اور معلوماتی باتیں کرکے لوگوں کو بات سننے پر مجبور نہیں بلکہ آمادہ کرلیتے ہیں۔ رہ گئیں ایک وزیر صاحبہ، اول تو قومی زبان کی مظلومیت (ہمارے ماڈرن پاکستانیوں کے باعث) پر مہر تصدیق ثبت کردیتی ہیں اور پھر سب کچھ سن کر (پڑھ کر بھی) پتا ہی نہیں چلتا کہ موضوع گفتگوکیا ہے؟
وہ جب ایک دوسری سیاسی جماعت میں تھیں تو ٹی وی کا وہ منظر نہیں بھولتا جب وہ رو رو کر وزیراعظم صاحب کو اپنا استعفیٰ پیش کرکے اس کو منظور کرنے کی استدعا فرما رہی تھیں کہ ''جی مجھے بولنا نہیں آتا، لوگ میرا مذاق بناتے ہیں بس اب میں مزید کام نہیں کرسکتی۔'' پی پی پی کے ہر جائز و ناجائز عمل کی تعریف، حمایت اور طرف داری موصوفہ یوں ہی کرتی تھیں جیسے اب پی ٹی آئی کی کر رہی ہیں۔ یعنی سچی تے وڈی عاشق حکمران جماعت کی۔ اخبار پر پہلی نظر پڑتے ہی اگر دو کالمی تصویر (عموماً پریس کانفرنس کی) اور تین کالمی خبر یا بیان نظر نہ آئے تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ جاتا ہے مگر ذرا بغور دیکھ کر کچھ نیچے یا سائیڈ پر دونوں خبریں مل جاتی ہیں تو دل دوبارہ دھڑکنے اور سانس بحال ہونے لگتی ہے کہ ماشا اللہ اپنی جگہ موجود ہیں خدانخواستہ پارٹی بدرکی گئیں اور نہ ہوئیں۔
یہ تو ایک خاص طبقے یعنی صاحب الرائے افراد کا ردعمل ہے مگر یونینوں، کالجوں کے طلبا بھی بطور ردعمل کچھ نہ کچھ متحرک ہیں۔کچھ ماہ قبل (مسئلہ کشمیر کی نئی صورتحال سے پہلے) سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں کچھ نوجوان اورکچھ درمیانی عمرکے راہگیر بھی شامل تھے اور ایک طالبہ کلمہ حق (کلمہ طیبہ) پر پرجوش انداز میں اظہار خیال فرما رہی ہیں۔ مجمع اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا رہا ہے وہ طالبہ اس قدر فصیح و بلیغ الفاظ میں اللہ کی وحدانیت بیان فرما رہی ہیں کہ سن کر یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ یہ ساری تقریر انھیں بڑی محنت و توجہ سے رٹوائی گئی ہے سب بڑے غور سے سن رہے ہیں نہ کوئی مخالفت نہ کوئی ردعمل ظاہر کر رہا ہے نہ سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ لاحق ہے، نہ کوئی انتہا پسند انھیں روکنے کے لیے مارنے پیٹنے کی طرف مائل نظر آرہا ہے جب کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں بلکہ آ رہی ہیں کہ مسلمان نوجوانوں، بوڑھوں اور خواتین سے زبردستی ہندوانی نعرے لگوائے جاتے ہیں انکار یا پس و پیش پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ پٹتے پٹتے وہ شخص ختم ہو جاتا ہے مگر انتہا پسندوں کا جی نہیں بھرتا۔
عید قرباں پر ایک اور ویڈیو بھارت کے شہر مرادآباد کی وائرل ہوئی ہے جس میں ایک لڑکی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے گلے مل کر عید کی مبارکباد دے رہی ہے اس منظر کے ساتھ جوکومنٹری کی جا رہی ہے اس میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اظہار یکجہتی کی آڑ میں اسلام کی (معاذ اللہ) توہین اور مذاق اڑایا جا رہا ہے ویڈیو تو آپ میں سے بیشتر نے دیکھ ہی لی ہوگی، نماز عید کے بعد یہ صاحبہ لوگوں کو تین بار گلے لگا کر اور پھر مصافحہ کرتی ہیں۔ ان سے عید ملنے کے امیدواروں کی لمبی قطار ہے جس میں نوجوان، بچے اور کچھ بوڑھے بھی شامل ہیں۔ عید ملتے اور ہاتھ ملاتے ہوئے پوری توجہ کیمرے کی طرف بھی ہے۔
تو اب یہ عمل جس کو اسلام کی توہین اور مذاق بنانا قرار دیا گیا ہے اور اسلام کے خلاف سازش بھی تو کیا اس سب کا سہرا ان محترمہ کے سر جاتا ہے یا ان حضرات کے جو نماز عید کے بعد ان سے (ایک نامحرم خاتون سے) گلے مل رہے ہیں، ہاتھ ملا رہے ہیں اور بصد شوق پوری توجہ سے ویڈیو بنوا رہے ہیں۔ وہ طالبہ تو اپنی جانب سے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی ہی فرما رہی ہیں اور اپنے صاحبان اقتدار کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں آپ بلاوجہ ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں، الزام ہم مسلمانوں کو بھی نہیں دے سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں وہاں رہنا ہے تو جینے اور رہنے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا قبل اس کے کہ انھیں مکمل طور پر ہندو بننے پر مجبور کیا جائے۔ رہ گئی یہ بات کہ یہ سب سازشیں ہیں جن سے اسلام کو خطرہ ہے، تو ایسی باتوں سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ دین اسلام کی حفاظت خود رب کائنات فرما رہے ہیں، خطرہ ہے تو ان تنقید کاروں سے جو حالات کا پس منظر جانے بنا، مجبوری اور صورتحال کو سمجھنے کی بجائے صرف دین خدا کو خطرے میں محسوس کرتے رہتے ہیں۔
اس بارعیدالاضحیٰ سے قبل بارشوں کے باعث خدشہ تھا کہ پہلے کی نسبت کچھ زیادہ ہی بدنظمی ہوگئی اور آلائشیں کئی روز تک نہ اٹھائی جاسکیں گی، مگر (پورے کراچی کا تو کہہ نہیں سکتے) ضلع شرقی میں ہماری حد نظر تک اپنے ارد گرد کے علاوہ اور جگہ بھی جہاں ہم گئے صفائی کا معقول انتظام نظر آیا۔اس سلسلے میں اس علاقے کے لوگوں کو بھی بلدیہ شرقی کے چیئرمین معید انورکی تعریف کرتے اور ان کی مثالی کارکردگی کو سراہتے سنا ہم نے خود بھی جہاں تک ممکن ہوا بلدیہ شرقی میں گھوم پھر کر دیکھا کہ آلائشیں بروقت اٹھا لی گئیں اور گلیاں سڑکیں فوراً ہی صاف کردی گئیں۔
ہمارے محلے بلکہ گلی میں پہلے ہی دن تقریباً سب گھروں میں قربانی ہوئی، پوری گلی میں خون اور آلائشیں پڑی تھیں اور ہم سوچ رہے تھے کہ اب جب کہ زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر کچھ گھنٹے یہ سب یوں ہی پڑا رہا تو تعفن کے علاوہ وبائی امراض پھیلنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں تو آخر ہر گلی کے رہائشی ایک بڑا گڑھا کھود کر اپنے اپنے جانوروں کو اسی گڑھے پر لکڑی کا تختہ رکھ کر باری باری کیوں ذبح نہ کرلیں تاکہ تمام خون اور آلائشیں اس میں دفن کردی جائیں مانا کہ صفائی حکومتی اور بلدیاتی اداروں کا کام اور ذمے داری ہے مگر کیا بطور مہذب شہری ہماری اپنی کوئی ذمے داری نہیں ہے؟ مگر کچھ دیر بعد جاکر دیکھا تو پوری گلی صاف ہوچکی تھی اور تمام آلائشیں اٹھائی جا چکی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ کم ازکم ہمارے علاقے میں (پورے ضلع شرقی کے ہم چشم دید گواہ نہیں) تو یوسی چیئرمینوں، وائس چیئرمینوں نے چیئرمین بلدیہ شرقی معید انور کی زیر نگرانی بے مثال اور بروقت صفائی کا کام سرانجام دیا۔ خدا کرے آیندہ اس سے بھی بہتر اور تیز رفتاری سے کام ہو اور ہم سب کو بہترین شہری ہونے کا احساس بھی ہو۔
عید کی چھٹیوں کے باعث تین دن اخبار نہ پڑھنے سے یوں لگا کہ ہمارا رابطہ شاید دنیا سے منقطع ہوگیا ہے کہ دوسرے ذرایع ابلاغ بطور خاص ٹی وی چینلز کے سامنے تو عام دنوں میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا بھلا کسی تہوار کے دنوں میں کیا موقع ملتا۔ پس ان تین دنوں میں ایک (کم ازکم دوکالمی) تصویر اور تین چارکالمی خبر نہ پڑھنے کا ایسا قلق رہا کہ مت پوچھئے۔
شاہ محمود قریشی تو قومی زبان کا استعمال کرکے بہترین انداز گفتگو کے ذریعے خاصی عقلی اور معلوماتی باتیں کرکے لوگوں کو بات سننے پر مجبور نہیں بلکہ آمادہ کرلیتے ہیں۔ رہ گئیں ایک وزیر صاحبہ، اول تو قومی زبان کی مظلومیت (ہمارے ماڈرن پاکستانیوں کے باعث) پر مہر تصدیق ثبت کردیتی ہیں اور پھر سب کچھ سن کر (پڑھ کر بھی) پتا ہی نہیں چلتا کہ موضوع گفتگوکیا ہے؟
وہ جب ایک دوسری سیاسی جماعت میں تھیں تو ٹی وی کا وہ منظر نہیں بھولتا جب وہ رو رو کر وزیراعظم صاحب کو اپنا استعفیٰ پیش کرکے اس کو منظور کرنے کی استدعا فرما رہی تھیں کہ ''جی مجھے بولنا نہیں آتا، لوگ میرا مذاق بناتے ہیں بس اب میں مزید کام نہیں کرسکتی۔'' پی پی پی کے ہر جائز و ناجائز عمل کی تعریف، حمایت اور طرف داری موصوفہ یوں ہی کرتی تھیں جیسے اب پی ٹی آئی کی کر رہی ہیں۔ یعنی سچی تے وڈی عاشق حکمران جماعت کی۔ اخبار پر پہلی نظر پڑتے ہی اگر دو کالمی تصویر (عموماً پریس کانفرنس کی) اور تین کالمی خبر یا بیان نظر نہ آئے تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ جاتا ہے مگر ذرا بغور دیکھ کر کچھ نیچے یا سائیڈ پر دونوں خبریں مل جاتی ہیں تو دل دوبارہ دھڑکنے اور سانس بحال ہونے لگتی ہے کہ ماشا اللہ اپنی جگہ موجود ہیں خدانخواستہ پارٹی بدرکی گئیں اور نہ ہوئیں۔