آسان بیان القرآن
قرآن مجید کے دو ترجمے اور دو تفسیریں مطالعے میں ایک ساتھ مل جائیں گی
اردو زبان میں قرآن مجید کی مستند، مختصر اور جامع تفسیروں میں دو تفسیروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ایک ''بیان القرآن'' جو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تالیف ہے اور دوسری ''تفسیر عثمانی'' جو علامہ شبیر احمد عثمانی کی لکھی ہوئی ہے۔ان دونوں تفسیروں سے ایک ساتھ استفادہ کرنے کے لیے مولانا عمر انور بدخشانی نے ''آسان بیان القرآن'' کے عنوان سے ایک تفسیر مرتب کی ہے۔ اس میں ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کا ہے۔
مولانا عمر انور بیان کرتے ہیں کہ مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاؤن، کراچی میں اپنے زمانہ طالبعلمی میں انھوں نے والد مولانا محمد انور بدخشانی اور اپنے اساتذہ سے بار بار یہ سنا کہ اردو میں '' بیان القرآن'' اور '' تفسیر عثمانی'' کو ہمیشہ مطالعے میں شامل رکھنا چاہیے۔ مولانا انور بدخشانی جو ان دنوں قرآن کریم کا فارسی میں ترجمہ اور تفسیر لکھ رہے تھے، فرماتے تھے کہ قرآن کریم کے بہت سے مشکل مقامات پر کئی عربی تفسیروں کے مطالعے کے بعد جب وہ بیان القرآن یا تفسیر عثمانی کو دیکھتے ہیں تو ان میں بہت مختصر اور جامع تعبیر میں انھیں وہ بات مل جاتی ہے جو دیگر تفاسیر میں طویل عبارتوں میں بیان ہوئی ہے چنانچہ انھیں خیال آیا کہ تفسیر عثمانی کو عام فہم اور آسان انداز میں مرتب کرکے پیش کیا جائے تاکہ مطالعہ کرنیوالے کو آیت کے ترجمے کے ساتھ تفسیر بھی مل جائے اور یکسوئی سے قرآن کریم کے مطالب ذہن نشین ہوجائیں۔ انھوں نے اپنے اساتذہ اور ساتھیوں سے مشورہ کیا اور اللہ کا نام لے کر یہ کام شروع کردیا۔
مولانا عمر انورکہتے ہیں ''دیگر مصروفیات کے ساتھ جیسے جیسے موقع ملتا میں یہ کام ازخود کمپیوٹر پر کرتا رہا۔ الحمد للہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں '' تفسیر عثمانی'' کی ترتیب نوکا کام مکمل ہوگیا۔ ساتھیوں کا اصرار تھا کہ اسے شایع کردیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے دل میں یہ بات ڈالی کہ تفسیر عثمانی کے ساتھ حضرت تھانوی ؒ کی شہرہ آفاق تفسیر ''بیان القرآن'' کے ترجمے اور تفسیری فوائد کو بھی آسان زبان میں ڈھال کر ساتھ ہی شامل کردیا جائے۔
اس طرح اردو زبان کے دو مستند و مقبول ترجموں اور تفسیروں سے ایک ساتھ استفادہ آسان ہوجائے گا۔ چنانچہ دسمبر 2012 میں مدینہ طیبہ میں ''بیان القرآن'' کے خلاصہ تفسیر کو آسان زبان میں منتقل کرنا شروع کردیا۔ جب یہ کام بھی مکمل ہوگیا تو ''آسان بیان القرآن'' کے عنوان سے اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ ''آسان بیان القرآن'' میں ''تفسیر عثمانی'' کو مکمل شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کسی قسم کی لفظی تبدیلی یا کمی نہیں کی گئی ہے۔ البتہ ''بیان القرآن'' میں چونکہ بہت سے مقامات پر دقیق عربی الفاظ اور مختلف فنون کی علمی اصطلاحات زیر استعمال تھیں جن کی وجہ سے اب ان کا سمجھنا عام قارئین کے لیے مشکل ہوگیا تھا اس لیے اسے آسان اردو میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس اشاعت میں تفسیر بیان القرآن کے خاص اس حصے کو مدنظر رکھا گیا ہے جس کا تعلق عوام سے ہے۔ کیوں کہ اس تفسیر کا بڑا حصہ وہ ہے جس کا تعلق خواص اہل علم اور علما کرام سے ہے اور وہ عربی زبان میں ہے۔
تفسیر بیان القرآن کا ایک خاص وصف سورتوں اور آیات کے درمیان نظم یعنی ربط و مناسبت کا اہتمام ہے چنانچہ خلاصہ تفسیر کے عنوان سے آیت کے ترجمے اور تفسیر سے پہلے آیت کا ماقبل سے ربط بھی آسان زبان میں کردیا گیا ہے۔ ربط آیات کے علاوہ سورتوں کے درمیان ربط کا بھی مولانا تھانویؒ نے بھی اہتمام فرمایا ہے۔ چونکہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے بسا اوقات ترجمہ کافی نہیں ہوتا اس لیے حضرت نے ترجمہ کے ساتھ قوسین میں کچھ تشریحی الفاظ یا جملے بڑھا کر قرآن کریم کے مضامین کی عمدہ وضاحت فرمائی ہے۔ البتہ قرآنی آیات کے ترجمے میں احتیاط اور امتیاز کے پیش نظر اسے خط کشیدہ بھی رکھا ہے جو ترجمہ کی علامت ہے۔ چنانچہ اس مجموعہ ''آسان بیان القرآن'' میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ خط کشیدہ الفاظ میں ترجمہ قرآن ہے اور قوسین میں اس کی تفسیر ہے۔ ''تفسیر بیان القرآن'' میں ایک مستقل سلسلہ اخلاق و سلوک کے مسائل کا ہے یعنی جن آیات میں تزکیہ و اخلاقیات کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں اس کی وجہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ ''آسان بیان القرآن'' میں تزکیہ و اخلاق کے ان مسائل کو بھی آسان اور مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔''
مولانا عمر انور کی ''بیان القرآن'' اور ''تفسیر عثمانی'' کو ایک جگہ جمع کرنے کی اس کوشش پر مولانا محمد انور بدخشانی نے تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس میں تین باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ ''آسان بیان القرآن'' صرف تین جلدوں میں اردو کی دو اہم اور مستند تفسیروں پر مشتمل ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کا مکمل ترجمہ قرآن شامل ہے اور تیسری اور اصل بات یہ کہ اس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر کو آسان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے جو اس وقت کی ایک انتہائی اہم ضرورت تھی۔ ایک اور بات اس مجموعہ کی یہ بھی ہے کہ اس میں قرآن کریم کی دو تفسیروں کو یکجا کردیا گیا ہے لیکن امتیاز اور فصل کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس سے مجموعہ کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے اور تفسیر قرآن کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ سہولت اور آسان ہوگئی ہے کہ انھیں قرآن مجید کے دو ترجمے اور دو تفسیریں مطالعے میں ایک ساتھ مل جائیں گی۔
تفسیر ''بیان القرآن'' لکھنے کے دوران جن امور کی لازمی رعایت رکھی گئی تھی ان کا ذکر کرتے ہوئے حکیم الامت فرماتے ہیں ''سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے رب کو پہچانیں اور اس کی صفات اور اس کے احکام کو معلوم کریں اور تحقیق کریں کہ حق تعالیٰ کون سی باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کون سی باتوں سے ناراض۔ اس کی خوشی کے کاموں کو کرنا اور اس کی ناخوشی کے کاموں سے بچنا، اسی کا نام بندگی ہے اور جو بندگی نہ کرے وہ بندہ نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے سب چیزوں سے ناواقف اور انجان ہوتا ہے۔
پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جاننا بھی بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے لیکن جیساکہ حق تعالیٰ نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں۔ اس لیے عام و خاص تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ اپنے اپنے درجے کے مطابق کلام اللہ کو سمجھنے میں کوتاہی اور غفلت نہ کریں۔
سو قرآن شریف کے اوپر کے درجے کے مطالب اور خوبیاں تو عالموں کے سمجھنے کی بات ہے مگر جو لوگ علم عربی سے ناواقف ہیں ان کو بھی کم سے کم اتنا تو ضرور کرنا چاہیے کہ علمائے دین نے جو سلیس ترجمے ان کی زبان میں عوام کی واقفیت اور ہدایت کے لیے کر دیے ہیں، ان کے ذریعے سے اپنے معبود حقیقی کے کلام کو سمجھنے میں ہرگز کاہلی نہ کریں اور اس نعمت لازوال سے بالکل محروم نہ رہیں کہ یہ بہت بڑی بدبختی اور بدقسمتی ہے۔ اس میں یہ اندیشہ ضرور ہے کہ فارسی خواں یا اردو داں جو محاورات عرب سے ناواقف ہے سلیس ترجمہ دیکھ کر کچھ کا کچھ نہ سمجھ جائے۔ اس لیے لازم ہے کہ استاد سے سیکھنے میں کاہلی اور کوتاہی نہ کریں اور محض اپنی رائے پر اعتماد کرکے ثواب کی بجائے اللہ کا غصہ نہ کمائیں۔