غریب مرجائیں کیا
راہ زندگی روز بہ روز مشکل تر ہوتی جا رہی ہے
منیر نیازی کیا خوب کہہ گئے کہ
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
یہ سچا شعر پاکستان کے غریبوں پر بالکل صادق آتا ہے۔ ان مسکینوں کے لیے تو ہر روز ایک نیا امتحان زندگی لاتی ہے۔ ابھی ایک مشکل اور ایک مسئلہ حل نہیں ہو پاتا کہ دوسرا مسئلہ سر اٹھائے آنکھیں دکھا رہا ہوتا ہے۔ غریب کی حالت تو بس بد سے بدتر ہی ہوتی چلی جارہی ہے۔اب پہلے تو یہ طے کرنا ہی مشکل ہے کہ آخر غریب کہیں کس کو،کون غریب ہے؟ یہاں تو ایسے حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں کہ لاکھوں روپے کمانے والا بھی غربت اور مہنگائی کا رونا روتا نظر آرہا ہوتا ہے اور ہزاروں روپے کمانے والا بھی۔ پھر بھی ہم اپنی تسلی کے لیے اس شخص کو غریب تسلیم کیے لیتے ہیں جسکی ماہانہ آمدنی چاہے تنخواہ کی شکل میں ہو یا کاروبار کی شکل میں پچاس ہزار پاکستانی روپے تک کی حدکی حامل ہو یعنی دس، بیس، تیس ،چالیس اور پچاس ہزار تک کمانے والے افراد غریب اگر سمجھے جائیں تو پھر یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ان کے لیے واقعی زیست ایک وبال اور بوجھ بنتی جا رہی ہے اور راہ زندگی روز بہ روز مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
اب دیکھیں نا کہ اس قسم کے تقابل بہت دفعہ سوشل میڈیا پر اور الیکٹرانک میڈیا پر پیش کیے جا چکے ہیں کہ مذکورہ آمدنیوں کے حاملین کے لیے ذرا کوئی ماہر معیشت پورے مہینے کا پر سکون بجٹ تو بنا کر دکھا دے۔ آدمی کہاں ،کہاں اورکس کس طرح اپنے اخراجات میں کٹوتیاں کرے ، روزمرہ کے اخراجات ، بجلی ، گیس اور دیگر یوٹیلیٹیز کے ماہانہ بلز، بیوی بچوں کی ذاتی ضروریات کے اخراجات، ہوشربا تعلیمی اخراجات اور اس سے بھی بڑھ کر قیامت خیز طبی علاج معالجے کے اخراجات، شادی بیاہ ، تقریبات کا لین دین اور بھی بہت سے دیگر ضروری اخراجات ایسے ہیں جو روز مرہ کی زندگی میں پیش آنا لازم ہیں۔ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ اس ملک میں بلکہ ساری دنیا میں صرف اور صرف دو طبقات پائے جاتے ہیں ایک فیصد وہ طبقہ ہے جو خواص ہیں ، اشرافیہ ہیں، جو ہر اعتبار سے مراعات یافتہ ہیں۔
ان میں ہر شعبہ زندگی یعنی سرمایہ دار اور بزنس مین ، سیاستداں، حکومتی اراکین ، جاگیر دار، اعلیٰ سطح کے ٹاپ پروفیشنلز، ہر مذہب و دھرم کے معروف راہنما حضرات میڈیا اور شوبز کی بڑی شخصیات، زیر زمین معدنیات سے ملنے والی چھپڑ پھاڑ دولت کے حاملین کے ساتھ ساتھ اور بھی دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل ہیں جو عرف عام میں بڑے لوگ یا بگ شاٹس کہلاتے ہیں تو یہ دنیا ان کے لیے جنت سمان ہے۔ وہ ساری عمر ریشم وکمخواب پہنتے ہیں، حسین خوابوں کی طرح کی اپنی زندگیاں جیتے ہیں اور ہر لذت اور نعمت ان کے قدموں میں ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس بے تحاشہ پیسہ اور اختیارات ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ 99 فیصد لوگ ہیں جوچھوٹے بڑے قسم کے ورکروں ، ہاریوں ، ملازموں ، کارندوں اور کارکنوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں اور ان بڑی شخصیات کی دولت میں اضافہ کرنے میں اپنی صلاحیتیں، محنت اور طاقت صرف کرتے ہیں اور بدلے میں امراء کی دولتوں کے سمندروں سے چند قطرے بھیک کی طرح سے حاصل کرکے ہنسی خوشی اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
تو اس ایک فیصد مراعات یافتہ خواص کوکسی غریب کے مسائل سے کبھی حقیقی دلچسپی اور ہمدردی ہونا منطقی لحاظ سے ممکن ہی نہیں کیونکہ وہ ان تکالیف سے کبھی گزرے ہی نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ عنین کبھی وصل کی حقیقی لذت کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ تو اسی طرح سیانوں نے ان عالی جنابوں نے کبھی کڑی دھوپ میں پسینہ بہایا ہی نہیں ہوتا۔کبھی انھیں آنیوالے اخراجات کے وہ ہولناک اندیشے پریشان ہی نہیں کرتے جو غریبوں کی رہی سہی نیندیں بھی اڑا دیتے ہیں۔
انھیں کبھی فاقہ کشی سے، ظلم وجبر سے، ڈر اور خوف سے پالا ہی نہیں پڑتا تو وہ کیسے ان باتوں کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ ان کے لیے تو سارے غریب انسان نہیں نیم انسان ہوتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ بادشاہ صفت بس مختلف مصلحتوں اور حکمت عملیوں کے تحت غریبوں کے غم میں ہمدردی جھاڑتے اور ٹسوے بہاتے بھی نظر آجاتے ہیں۔ طبقہ خواص میں یہ کام یعنی غریبوں سے دلی ہمدردی کا اظہارکرنا سیاستدان اور ہائی لیول کے سماجی خدمت گزاران ذرا زیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ تو یہی ایک فیصد طبقہ ہجو ہر شعبہ ہائے زندگی میں ساری دنیا کے اصل حکمران ہیں اور یہی سارے عالم کے سارے وسائل پر دیدہ و نادیدہ انداز میں قابض ہیں۔ عوام کو خوش رکھنے اور بہلانے کے لیے انھوں نے چند میٹھی گولیاں مثلا مساوات، جمہوریت، فلاحی ریاست اور خدمت انسانیت وغیرہ ٹائپ کی ہوئی ہیں جنھیں سارے دنیا کے ننانوے فیصد عوام مزے سے ساری عمر چوستے چوستے مرجاتے ہیں اور ان کے بعد ان کے بچے اس کام میں لگ جاتے ہیں۔
یہ صدیوں، زمانوں سے جاری استحصالی نظام ہے جو نہ جانے کب تک چلتا رہے گا۔ اسی کو فیض صاحب نے انگنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم سے تشبیہ دی ہے۔ خیر بات ذرا دور نکل گئی ہم تو بس اپنے ملک کی بات کیے لیتے ہیں تو یہاں بھی غریب ابن غریب بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور مرے پر سو درے کے مصداق ان کے لیے جینا روز بہ روز دشوار سے دشوار تر بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کے خواص ابن خواص بھی ویسے ہی بے مہر ، سنگ دل اور بے حس ہیں جیسے کہ کسی بھی استحصالی نظام کے نمایندوں کو ہونا چاہیے بس ذرا بوجہ انسانیت، خدمت، غریبوں سے ہمدردی اور محبت کی نقابیں چڑھائے رکھتے ہیں ۔
ان کے لیے یہ ملک ایک چراگاہ ایک سونے کی کان اور ان لمیٹڈ پرافٹ والے بزنس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور غریب غرباء یا عوام ان کے لیے جدی پشتی غلاموں اورکارندوں سے زیادہ کی اوقات نہیں رکھتے، یہ بڑے ہوشیار لوگ ہیں انھوں نے ہر اعتبار سے اپنی زندگی کو شاندار طور سے بسر کرنے کے لیے باہر اپنی اپنی شداد کے جیسی دنیاوی جنتیں جائیدادوں، اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی شکل میں بنائی ہوئی ہیں کہ جیسے ہی یہاں خاکم بدہن کوئی بڑی مشکل یا مصیبت آجائے تو فوراً سے پیشتر یہاں سے نکل جائیں، اپنی اپنی دنیاوی جنتوں میں ٹھکانہ کرلیں لیکن ہمارے لیے تو سب سے بڑی پناہ گاہ یہی ملک ہے نا، ہم تو کہیں نہیں جاسکتے اور پھرکیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ دہائیوں سے طاری اس ذلت کو ، جہالت کو ، مختلف شکلوں کی غلامی کو ، اس تعفن زدہ جمود کو توڑیں اور اپنی خود نبیڑنے کی اور اپنی راہ آپ بنانے کے کوشش شروع کریں جیسا کہ وہ لطیفے والا رات کا چوکیدار کہتا تھا کہ جاگدے رہنا میرے تے نہ رہنا، بالکل اسی طرح اس متعفن نظام کی بدبودار اشرافیہ کی آسروں جھانسوں اور دلاسوں پر ہم نے کتنے برس گزار دیے لیکن انھوں نے تو ہمیں بس استعمال کر کے اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے فوائد سمیٹنے کے سوا کچھ بھی تو نہ کیا بلکہ اپنے مقاصد میں رکاوٹ نہ آجانے کے خوف سے انھوں نے ہر قسم کے بگاڑ کو خوب ہی فروغ دیا، تعلیم کا بیڑہ غرق کیا۔
معاشرے میں کرپشن ، عدم برداشت، ہر قسم کی لسانی، مسلکی اور علاقائی تعصب کو فروغ دیا کہ ہم انھی میں الجھے رہیں، یونہی لڑتے مرتے رہیں اور زندہ باد، مردہ باد کے نعرے مارتے رہیں اور یہ مسیحا بنے خاموشی سے اپنا الو سیدھا کرتے رہیں۔ اب واقعی پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے اور ایسا ہرگز نہیں کہ خواص اور اشرافیہ میں سب ہی برے ہیں۔ اچھے بھی ہیں گوکہ آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی مگر ہیں۔ تو اب باتیں کرنے کا اور بھاشن سننے سنانے کا وقت ختم ہو رہا ہے اور خود کو سنبھالنے کا اپنی ذات اور اپنے حقوق کے عرفان کا اپنے معاملات کو خود سنبھالنے کا عملی شعور پیدا کرنا ہی ہو گا۔ کیا ہم لوگ اس مشکل راستے کے لیے تیار ہیں؟ یا دوسرا آسان راستہ یہ ہے کہ اسی طرح وقت گزارتے گزارتے اپنا بوجھ آنیوالی نسلوں کو ابتر شکل میں منتقل کرکے مر جائیں۔