ہم سب کا پاکستان تمام مذاہب کے لوگ مل کر قومی یکجہتی کے لیے کام کر رہے ہیں
پاکستان میں اقلیتیں آزاد ہیں جبکہ بھارت میں مظالم ڈھائےجارہے ہیں، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا اظہار خیال
پاکستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جس میں رہنے والے تمام لوگ بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب اورزبان، مکمل آزاد ہیں۔
آئین پاکستان ان کے تمام حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، انہیں نہ تو مذہبی آزادی حاصل ہے اور نہ ہی انسانی حقوق ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کی بدترین تاریخ رقم ہورہی ہے جو دنیا کے سامنے ہے۔ یہ آزادی کا مہینہ ہے، اس یوم آزادی پر پوری پاکستانی قوم نے اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور 15 اگست کو یوم سیاہ بھی منایا۔ اس سارے پس منظر میں ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
پاکستان میں اقلیتیں آزاد ہیں اور ان کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت تمام پاکستانیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے موثر کام کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک برس میں مذہبی تصادم کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ وزیراعظم نے اقلیتوں کے حوالے سے صدر ہاؤس میں جو موثر تقریر کی،ان سے پہلے کسی نے نہیں کی۔
انہوں نے قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر کی روح تازہ کردی لہٰذا ملک میں بسنے والی تمام اقلیتیں وزیراعظم کی اس تقریر کو سراہتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں موجود تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق و تحفظ کیلئے تندہی سے کام کر ہی ہے ۔ اس حوالے سے پنجاب مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج اپنی مثال آپ ہے۔
یہ اقلیتوں کی حالت بہتر کرنے اور ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ اس پیکیج کے تحت شعبہ تعلیم میں اقلیتوں کا کوٹہ یقینی بنایا جائے گا۔جیلوں میں قید مسلم قیدیوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے اور مذہبی تہواروں کی وجہ سے قید میں رعایت مل جاتی ہے جبکہ دیگر قیدیوں کو یہ سہولت نہیں ہے۔ اس پیکیج میں اس بات کو شامل کیا گیا ہے کہ اب جیلوں میں قید دیگر مذاہب کے قیدیوں کو ان کے مذہب کی تعلیم دی جائے گی اور انہیں بھی قید میں رعایت ملے گی۔ اس پیکیج کے تحت تعلیمی نصاب پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، نصاب سے نفرت آمیز مواد کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ اسلامیات کی جگہ اقلیتوں کو ایتھکس کا مضمون پڑھایا جاتاہے، اس پیکیج کے تحت اقلیتوں کیلئے اسلامک سٹڈیز کی جگہ ایک الگ مضمون تیار کیا جائے گا جس میں 60 فیصد ان کی مذہبی تعلیم اور 40 فیصد ایتھکس ہوں گی۔ اقلیتی بچوں کو ہنر مند بنانے پر بھی کام کیا جائے گا۔
اس پیکیج کے تحت انہیں میٹرک کے بعد ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے گی جسے مکمل کرنے پر انہیں 5 لاکھ روپے وظیفہ دیا جائے گا تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج ہمارے 100 روزہ پلان میں شامل تھا اور اس وقت سے ہی اس پر کام جاری ہے تاہم عملدرآمد میں ابھی کچھ مسائل ہیں جنہیں دور کیا جا رہا ہے، ہم عجلت میں اس کا آغاز نہیں کرنا چاہتے، ہماری کوشش ہے کہ اسے دیرپا بنایا جائے تاکہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں، امید ہے جلد اس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقلیتوں کے دیہاتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر یوحنا آباد کا علاقہ اور رحیم یار خان میں موجود ہندو آبادی پر کام کیا جائے گا، اس حوالے سے یوحنا آباد کیلئے 30 کروڑ روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔
مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے اقلیتوں کے اثاثوں کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ کرتارپور راہداری کو کھولا جائے مگر وزیراعظم عمران خان نے سکھوں کے جذبات سمجھتے ہوئے یہ اقدام اٹھایا جو بہترین ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ہمیں مکمل حمایت حاصل ہے اور ہم اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کیلئے موثر کام کر رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کشمیریوں سے ان کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر سمیت خود اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں جن کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی، ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں کشمیر کا مقدمہ ہر فورم پر لڑے گا۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
( خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
حضور اکرم حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے کہ ریاست اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے لہٰذا ہم اسی مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔چند روز قبل صدر ہاؤس میں ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی اور اقلیتوں کا دن منایا گیا جس میں صدر پاکستان عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے خصوصی تقاریر کیں اور واضح کیا کہ پاکستان سب کا ہے اور یہاں سب کو برابر حقوق حاصل ہیں۔
اس تقریب میں مسلم، عیسائی، سکھ، ہندو، سب کے مذہبی رہنماؤں نے اپنے اپنے مذہب کے حوالے سے خوبصورت گفتگو کی۔ اسی طرح گزشتہ دنوں بشپ سباسٹین شاہ کے سکول میں 'استحکام پاکستان' کے حوالے سے کانفرنس منعقد کی گئی جس کے مہمان خصوصی اعجاز عالم تھے۔
اس تقریب میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی اور مذہبی ہم آہنگی کا بہترین مظاہرہ کیا گیا۔ پاکستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جس میں تمام مذاہب اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں اور انہیں یہاں مکمل آزادی حاصل ہے۔قائد اعظمؒ کا فرمان ہے کہ اس ملک میں رہنے والے تمام لوگ آزاد ہیں۔ ان کی 11 اگست کی تقریر بھی موجود ہے جو ہمارے لیے رہنما ہے۔ہم سب نے مل کر مذہبی ہم آہنگی کیلئے فعال کردار ادا کیا ہے۔ملک میں جہاں بھی تصادم کی فضا پیدا ہوئی یا اقلیتوں کو کوئی مسئلہ درپیش آیا تو ہم سب نے مل کر اسے حل کرنے کی کوشش کی اور اس جدوجہد میں تمام مذاہب کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور یہی ہماری خوبصورتی ہے۔ ہم نے امن و رواداری کی فضاء قائم کرنے کیلئے گھر گھر جا کر لوگوں کو ترغیب دی۔
تمام مذاہب میں امن و سلامتی اور بھائی چارے کی ترغیب دی گئی ہے۔ انجیل مقدس میں ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کرواتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ حضوراکرمﷺ کے پاس جب نجران سے وفد آیا تو آپﷺ نے ان کے لیے دروازے بند نہیں کیے۔ بادشاہی مسجد لاہور میں میرے والد نے 50 برس قبل بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کی بنیاد رکھی، ہم اسی وجہ سے آج اکٹھے بیٹھے ہیں۔ ہم نے 'پیغام پاکستان' ترتیب دیا ہے جسے تمام طبقات میں پزیرائی مل رہی ہے اور دنیا میں اسے پسند کیا جا رہا ہے۔ اس کتاب میں خود کش حملوں ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف فتوے موجود ہیں۔
اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ کس طرح مذہبی ہم آہنگی و رواداری کو فروغ دیا جائے۔ اس میں مفتی اعظم ، امام کعبہ ، تمام مسالک و مذاہب کے رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں اور یہی سب کا بیانیہ ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت سارے اقدامات کیے گئے ہیںجن کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نشستوں کو بڑھایا گیا اور موثر قانون سازی کی گئی۔ اس کے علاوہ مختلف محکموں میں بھی اقلیتوں کے لیے کوٹہ مختص کیا گیا جسے بڑھانے کے بھی ہم خلاف نہیں ہیں۔ کرسمس کا تہوار ہو تو ہم ان کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں، اسی طرح جب ہمارا کوئی تہوار آتا ہے تو دیگر مذاہب کے لوگ ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم صرف مسیحیوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سکھوں و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ بھی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔ ہم مذہبی ہم آہنگی کی بات پوری دنیا میں کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں برسلز میں کانفرنس تھی، وہاں 50 ممالک کے نمائندگان موجود تھے، ہم نے وہاں بھی یہی بات کی۔
میں اور بشپ سباسٹین شاہ بیشتر ممالک میں اکٹھے گئے اور اسی سوچ کو وہاں فروغ دیا۔ گورنر ہاؤس پنجاب میں بھی اقلیتوں کے دن کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی جو اچھا قدم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس سے یکجہتی پیدا ہوگی ۔ اس وقت پاکستان کا استحکام ضروری ہے۔ کشمیر میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے، بھارتی جارحیت اور مودی حکومت کے حالیہ اقدام سے دنیا کا امن خراب ہوجائے گا۔ پاکستان نے امن کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر بھارت ہمیشہ نفرت کی چنگاڑی لگاتا ہے۔ مودی اسرائیلی سوچ پر عمل پیرا ہے جس سے شدید نقصان ہوگا اور اس کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہوگی۔ کشمیر میں وہ بم گرائے جارہے ہیں جن کی ممانعت ہے۔ وہاں پیلٹ گنز سے بچوں اور بڑوں کی زندگیاں تباہ کی جا رہی ہیں ۔ اس پر اقوام متحدہ کو ایکشن لینا چاہیے اور امریکا کو بھی ثالثی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم مسئلہ کشمیر پر حکومت، افواج پاکستان اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، ملک میں بسنے والی اقلیتیں بھی کشمیریوں کے ساتھ ہیں، ہم سب یک زباں ہوکر بھارتی جارحیت اور دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
سباسٹین شاہ
(آرچ بشپ آف لاہور)
1947ء میں جب پاکستان تشکیل پا رہا تھا اور پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ ہورہا تھا تو اس وقت کانگریس اور ہندوتعداد میں زیادہ تھے جو پنجاب کی تقسیم میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔ دوسری طرف مسلم لیگ تھی جو ان کے مقابلے میں زیادہ طاقتور نہیں تھی لہٰذا پنجاب کی تقسیم میں مسئلہ پیدا ہو رہا تھا۔ جب یہ بات آئی کہ پنجاب کے صرف وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، پاکستان میں شامل کیے جائیں گے تو مسیحی رہنماؤں نے کہا کہ پنجاب کی مسیحی آبادیوں کو بھی مسلم آبادیوں میں گن لیا جائے تاکہ بڑا پنجاب بنایا جاسکے۔ہم ان کی دور اندیشی کی وجہ سے آج بہتر پنجاب میں بیٹھے ہیں۔
یہ انتہائی اہم بات ہے کہ مسیحیوں نے خود کو مسلم آبادیوں میں شامل کر کے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، پاکستان بننے سے پہلے سے ہی آپس میں مل جل کر رہ رہے تھے مگر بدقسمتی سے گزشتہ 2، 3 دہائیوں میں ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور آپس میں لڑایا گیا۔ اب یہ قوم بالغ ہوچکی ہے اور سمجھ گئی ہے کہ ہمیںاپنی اندرونی لڑائیوں کو ختم کرکے، متحد ہوکر اپنے بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب حالات میں بہتری آئی ہے۔ قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر بالکل واضح ہے کہ ہم نے پاکستان میں کس طرح رہنا ہے۔ مذہب اپنا اپنا مگر ملک سب کا سانجھا ہے اور ہم سب پاکستانی ہیں۔ مسیحی دیگر مذاہب کے تہواروں کا احترام کرتے ہیں اوران کے خوشی اور غم میں برابر شریک ہوتے ہیں۔
ہم کوشش کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں شادی بیاہ و ایسی تقریبات نہ ہوں جن سے مسلمان روزہ داروں کو کوئی مشکل پیش آئے، اسی طرح محرم الحرام کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے گرجہ گھروں میں باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے کہ احترام کیا جائے۔ ہم دعا گو ہیں کہ یہاں مزید امن و سلامتی قائم ہو۔ ہمیں مذہبی ہم آہنگی کو زیادہ مضبوط کرنا چاہیے کیونکہ جب ہم ایک دوسرے کے مذہب کو جانتے اور مکالمہ کرتے ہیں تو آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ ہم آزادی کا 72 واں سال منانے جارہے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی آج بھی بھارت کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں اور آگ میں جل رہے ہیں۔ جب ہم استحکام پاکستان ، ترقی اور آزادی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ انہیں جلد آزادی ملے۔
سردار بشن سنگھ
(چیئرمین بابا گورونانک ویلفیئر سوسائٹی پاکستان و سابق صدر پاکستان سکھ گوردوارہ پربھندک کمیٹی )
قیام پاکستان کیلئے سب کی قربانیاں ہیں اور یہ ملک 'سب دا سانجھا' ہے۔قیام پاکستان کے وقت سکھوں اور مسیحیوں نے بھی خود کو پاکستان کے ساتھ وابستہ کیا۔ ہم پہلے پاکستانی ہیں اور بعد میں سکھ، مسلم، ہندو، عیسائی یا کسی اور مذہب کے پیروکار ۔ پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کو برابر حقوق حاصل ہیں اور کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ یہاں بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ جب ہم بابا گرو نانک کا جنم دن مناتے ہیںتوایک عام مسلمان سے لے کر وزیراعظم تک، ہماری خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب مسیحی یسوع مسیحؑ کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہیں توہم بھی اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں۔ ہم اگست کا پورا مہینہ آزادی کے طور پر مناتے ہیں اور 14 اگست کو مل کر جشن آزادی کا کیک کاٹتے ہیں۔
اسی طرح ہندوؤں کا کوئی تہوار ہوتا ہے تو اس میں بھی سب شریک ہوتے ہیں۔ سکھ اپنے گوردوارے میں ، مسیحی اپنے چرچ میں ، ہندو اپنے مندر میں ، آزادی سے اپنی عبادات کرتے اور تہوار مناتے ہیں۔یہی قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر تھی کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ برابر شہری ہوں گے۔ ہمیں پاکستان خصوصاََ پنجاب میں کبھی بھی مذہبی یا نسلی لحاظ سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اس دھرتی کیلئے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان 1947ء میں آزاد ہوا لیکن اس خطے کی آزادی کیلئے سکھوں کی جدوجہد میں خون کا پہلا قطرہ بھگت سنگھ نے 23 مارچ 1931ء کودیا۔ انہوں نے کم عمری میں بہت عظیم کام کیا ۔ اس کے بعد بھی سکھوں نے قربانیاں دیں لہٰذا جب یہ تمام کڑیاں آپس میں ملائیں تو پاکستان کی آزادی مکمل ہوتی ہے۔
پاکستان میںہم مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر رہ رہے ہیں۔ ہم ملک کے کسی بھی علاقے میں بزنس کر سکتے ہیں، جائیداد خرید سکتے ہیں اور کسی بھی ادارے میں ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی برابری ہے اور یہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ہمیں اس دھرتی پر فخر ہے۔ دنیا بھر کے سکھوں کی اس دھرتی سے روحانی وابستگی ہے۔ یہاں بابا گرونانک کی پیدائش ہوئی ، ان کا بچن گزرا اور انہوں نے اپنی زندگی کے 18 برس کرتار پورصاحب میں کھیتی باڑی کی۔ سکھ مسلم کی سانجھ 'بھائی مردانہ' جسے گرو صاحب نے بھائی کا لقب دیا تھا وہ 70 برس گرو صاحب کے ساتھ رہے۔ دوسری طرف 'بھائی بالا'ساری زندگی گرو صاحب کے ساتھ رہے۔ گرو صاحب کی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور انسانیت پر دیا گیا۔
گرو صاحب نے کہا کہ 10 انگلیوں سے محنت مزدوری کرو ، دسواں حصہ زکوٰۃ دو، رب کو یاد کرو اور بانٹ کر کھاؤ۔ دسویں حصے زکوٰۃ کی کوئی شرط نہیں رکھی کہ یہ صرف سکھ کو دی جائے بلکہ جو بھی ضرورت مند ہو اسے دے دو۔ بانٹ کر کھانے کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ موجود ہوں،چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، سب میں لنگر تقسیم کیا جائے۔ ہر گوردوارے میں بلا تفریق رنگ، مذہب، نسل سب کو لنگر دیا جاتا ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں ادویات بھی۔ یہ گرو صاحب کی تعلیمات ہیں جن پر ہم عمل پیرا ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کرتار پور راہداری کے حوالے سے وہ کام کیا ہے جو 70 برسوں میں نہیں ہوسکا۔ یہ دنیا بھر کی سکھ برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے پورا کردیا گیا۔ گرو نانک صاحب کا مشن امن، بھائی چارہ اور رواداری تھا۔ ہماری حکومت نے کرتارپور کوریڈور امن، رواداری اور بھائی چارے کیلئے کھولا ہے مگر بھارتی حکومت کے مقاصد کچھ اور ہیں۔
پاکستان میں ہمیں مکمل آزادی اور تعاون حاصل ہے۔ ہم نے گزشتہ برس تقریباََ 6 گوردوارے کھولے ہیں جبکہ چند روز قبل جہلم اور گوجرانوالہ میں بھی گوردوارے دوبارہ کھولے گئے ہیں۔جہاں بھی گوردارے موجود ہیں، وہاں کی مقامی آبادی نے انہیں محفوظ بنایا، اور یہی وجہ ہے کہ آج انہیں دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے جو عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بھارت نے 1947ء سے اب تک سکھوں پر مظالم ڈھائے ہیںاور اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔1984ء میں دربار صاحب پر حملہ ہوا، بابری مسجد کا سانحہ بھی سب کے سامنے ہے، مسیحی بھائیوں کو وہاں زندہ جلایا گیا اور کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم وہاں ہورہا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بھارت نے 370 اور 35 اے کا خاتمہ کرکے کشمیریوں سے ان کا بنیادی حق چھین لیا ہے۔ کشمیر میں صرف مسلمان نہیں دیگر اقلیتیں بھی آباد ہیں تاہم بھارت 'براہمن وادی' کی سوچ کو فروغ دے رہا ہے اور وہاں ہندو آباد کیے جارہے ہیں۔ اس ظلم کو ایک دن ختم ہونا ہی ہے، ہم بھارتی جارحیت اور مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
قائد اعظمؒ نے قانون ساز اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں پاکستان کا نقشہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان بن چکا ہے، اب پاکستان کے تمام لوگ آزاد ہیں اور انہیں اپنی عبادتگاہوں میں جانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ 1973ء کے آئین کے مطابق پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں۔ پاکستان دشمنوں نے ہمیں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ مساجد، چرچ و دیگر عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور پاکستان ایک مشکل دور سے گزرا مگر اب حالات بہتر ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد سے مذہبی منافرت کا خاتمہ ہوا اور اب تمام مذاہب و مسالک کے لوگ مل کر مذہبی ہم آہنگی اور یکجہتی کیلئے کام کر رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے نفرت انگیز مواد اور تقاریر پر پابندی لگائی گئی جو اتحاد و یگانگت کا باعث بنا اور صدیوں پرانا تعلق دوبارہ بحال ہوگیا۔
سول سوسائٹی کیلئے یہ خوش آئند ہے کہ اب ریاست یہ تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان سب کا ہے۔ اقلیتوں کے عالمی دن کی تقریب صدر ہاؤس میں منعقد ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو دیوالی کی تقریب میں شریک ہوتے ہیں۔ ملک کی سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنے عمل سے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے تمام لوگ برابر ہیں۔ سابق پنجاب اسمبلی نے 'سکھ میرج ایکٹ' منظور کیا جبکہ ہندو میرج ایکٹ کے حوالے سے موجودہ حکومت کام کر رہی ہے۔ اقلیتوں کیلئے موثر قانون سازی ہورہی ہے، انہیں وظائف دیے جارہے ہیں اور ملازمتوں میں کوٹہ بھی بڑھایا جارہا ہے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔
امن و استحکام کیلئے سول سوسائٹی اپنا کام کرتی ہے۔ یہ امن صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ خطے اور دنیا کے کیلئے ہے۔ یہ پاکستان میں قومی یکجہتی کی عظیم مثال ہے کہ یہاں تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگ اکٹھے ہیں اور ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سول سوسائٹی ہمیشہ آواز اٹھاتی ہے۔ ہم کشمیر میں ہونے والی بھارتی جارحیت اور آئین میں ترمیم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار داداوں کے مطابق حق خودارادیت دیا جائے۔
آئین پاکستان ان کے تمام حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، انہیں نہ تو مذہبی آزادی حاصل ہے اور نہ ہی انسانی حقوق ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کی بدترین تاریخ رقم ہورہی ہے جو دنیا کے سامنے ہے۔ یہ آزادی کا مہینہ ہے، اس یوم آزادی پر پوری پاکستانی قوم نے اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور 15 اگست کو یوم سیاہ بھی منایا۔ اس سارے پس منظر میں ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
پاکستان میں اقلیتیں آزاد ہیں اور ان کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت تمام پاکستانیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے موثر کام کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک برس میں مذہبی تصادم کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ وزیراعظم نے اقلیتوں کے حوالے سے صدر ہاؤس میں جو موثر تقریر کی،ان سے پہلے کسی نے نہیں کی۔
انہوں نے قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر کی روح تازہ کردی لہٰذا ملک میں بسنے والی تمام اقلیتیں وزیراعظم کی اس تقریر کو سراہتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں موجود تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق و تحفظ کیلئے تندہی سے کام کر ہی ہے ۔ اس حوالے سے پنجاب مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج اپنی مثال آپ ہے۔
یہ اقلیتوں کی حالت بہتر کرنے اور ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ اس پیکیج کے تحت شعبہ تعلیم میں اقلیتوں کا کوٹہ یقینی بنایا جائے گا۔جیلوں میں قید مسلم قیدیوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے اور مذہبی تہواروں کی وجہ سے قید میں رعایت مل جاتی ہے جبکہ دیگر قیدیوں کو یہ سہولت نہیں ہے۔ اس پیکیج میں اس بات کو شامل کیا گیا ہے کہ اب جیلوں میں قید دیگر مذاہب کے قیدیوں کو ان کے مذہب کی تعلیم دی جائے گی اور انہیں بھی قید میں رعایت ملے گی۔ اس پیکیج کے تحت تعلیمی نصاب پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، نصاب سے نفرت آمیز مواد کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ اسلامیات کی جگہ اقلیتوں کو ایتھکس کا مضمون پڑھایا جاتاہے، اس پیکیج کے تحت اقلیتوں کیلئے اسلامک سٹڈیز کی جگہ ایک الگ مضمون تیار کیا جائے گا جس میں 60 فیصد ان کی مذہبی تعلیم اور 40 فیصد ایتھکس ہوں گی۔ اقلیتی بچوں کو ہنر مند بنانے پر بھی کام کیا جائے گا۔
اس پیکیج کے تحت انہیں میٹرک کے بعد ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے گی جسے مکمل کرنے پر انہیں 5 لاکھ روپے وظیفہ دیا جائے گا تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج ہمارے 100 روزہ پلان میں شامل تھا اور اس وقت سے ہی اس پر کام جاری ہے تاہم عملدرآمد میں ابھی کچھ مسائل ہیں جنہیں دور کیا جا رہا ہے، ہم عجلت میں اس کا آغاز نہیں کرنا چاہتے، ہماری کوشش ہے کہ اسے دیرپا بنایا جائے تاکہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں، امید ہے جلد اس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقلیتوں کے دیہاتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر یوحنا آباد کا علاقہ اور رحیم یار خان میں موجود ہندو آبادی پر کام کیا جائے گا، اس حوالے سے یوحنا آباد کیلئے 30 کروڑ روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔
مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے اقلیتوں کے اثاثوں کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ کرتارپور راہداری کو کھولا جائے مگر وزیراعظم عمران خان نے سکھوں کے جذبات سمجھتے ہوئے یہ اقدام اٹھایا جو بہترین ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ہمیں مکمل حمایت حاصل ہے اور ہم اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کیلئے موثر کام کر رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کشمیریوں سے ان کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر سمیت خود اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں جن کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی، ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں کشمیر کا مقدمہ ہر فورم پر لڑے گا۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
( خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
حضور اکرم حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے کہ ریاست اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے لہٰذا ہم اسی مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔چند روز قبل صدر ہاؤس میں ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی اور اقلیتوں کا دن منایا گیا جس میں صدر پاکستان عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے خصوصی تقاریر کیں اور واضح کیا کہ پاکستان سب کا ہے اور یہاں سب کو برابر حقوق حاصل ہیں۔
اس تقریب میں مسلم، عیسائی، سکھ، ہندو، سب کے مذہبی رہنماؤں نے اپنے اپنے مذہب کے حوالے سے خوبصورت گفتگو کی۔ اسی طرح گزشتہ دنوں بشپ سباسٹین شاہ کے سکول میں 'استحکام پاکستان' کے حوالے سے کانفرنس منعقد کی گئی جس کے مہمان خصوصی اعجاز عالم تھے۔
اس تقریب میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی اور مذہبی ہم آہنگی کا بہترین مظاہرہ کیا گیا۔ پاکستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جس میں تمام مذاہب اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں اور انہیں یہاں مکمل آزادی حاصل ہے۔قائد اعظمؒ کا فرمان ہے کہ اس ملک میں رہنے والے تمام لوگ آزاد ہیں۔ ان کی 11 اگست کی تقریر بھی موجود ہے جو ہمارے لیے رہنما ہے۔ہم سب نے مل کر مذہبی ہم آہنگی کیلئے فعال کردار ادا کیا ہے۔ملک میں جہاں بھی تصادم کی فضا پیدا ہوئی یا اقلیتوں کو کوئی مسئلہ درپیش آیا تو ہم سب نے مل کر اسے حل کرنے کی کوشش کی اور اس جدوجہد میں تمام مذاہب کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور یہی ہماری خوبصورتی ہے۔ ہم نے امن و رواداری کی فضاء قائم کرنے کیلئے گھر گھر جا کر لوگوں کو ترغیب دی۔
تمام مذاہب میں امن و سلامتی اور بھائی چارے کی ترغیب دی گئی ہے۔ انجیل مقدس میں ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کرواتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ حضوراکرمﷺ کے پاس جب نجران سے وفد آیا تو آپﷺ نے ان کے لیے دروازے بند نہیں کیے۔ بادشاہی مسجد لاہور میں میرے والد نے 50 برس قبل بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کی بنیاد رکھی، ہم اسی وجہ سے آج اکٹھے بیٹھے ہیں۔ ہم نے 'پیغام پاکستان' ترتیب دیا ہے جسے تمام طبقات میں پزیرائی مل رہی ہے اور دنیا میں اسے پسند کیا جا رہا ہے۔ اس کتاب میں خود کش حملوں ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف فتوے موجود ہیں۔
اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ کس طرح مذہبی ہم آہنگی و رواداری کو فروغ دیا جائے۔ اس میں مفتی اعظم ، امام کعبہ ، تمام مسالک و مذاہب کے رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں اور یہی سب کا بیانیہ ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت سارے اقدامات کیے گئے ہیںجن کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نشستوں کو بڑھایا گیا اور موثر قانون سازی کی گئی۔ اس کے علاوہ مختلف محکموں میں بھی اقلیتوں کے لیے کوٹہ مختص کیا گیا جسے بڑھانے کے بھی ہم خلاف نہیں ہیں۔ کرسمس کا تہوار ہو تو ہم ان کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں، اسی طرح جب ہمارا کوئی تہوار آتا ہے تو دیگر مذاہب کے لوگ ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم صرف مسیحیوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سکھوں و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ بھی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔ ہم مذہبی ہم آہنگی کی بات پوری دنیا میں کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں برسلز میں کانفرنس تھی، وہاں 50 ممالک کے نمائندگان موجود تھے، ہم نے وہاں بھی یہی بات کی۔
میں اور بشپ سباسٹین شاہ بیشتر ممالک میں اکٹھے گئے اور اسی سوچ کو وہاں فروغ دیا۔ گورنر ہاؤس پنجاب میں بھی اقلیتوں کے دن کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی جو اچھا قدم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس سے یکجہتی پیدا ہوگی ۔ اس وقت پاکستان کا استحکام ضروری ہے۔ کشمیر میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے، بھارتی جارحیت اور مودی حکومت کے حالیہ اقدام سے دنیا کا امن خراب ہوجائے گا۔ پاکستان نے امن کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر بھارت ہمیشہ نفرت کی چنگاڑی لگاتا ہے۔ مودی اسرائیلی سوچ پر عمل پیرا ہے جس سے شدید نقصان ہوگا اور اس کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہوگی۔ کشمیر میں وہ بم گرائے جارہے ہیں جن کی ممانعت ہے۔ وہاں پیلٹ گنز سے بچوں اور بڑوں کی زندگیاں تباہ کی جا رہی ہیں ۔ اس پر اقوام متحدہ کو ایکشن لینا چاہیے اور امریکا کو بھی ثالثی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم مسئلہ کشمیر پر حکومت، افواج پاکستان اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، ملک میں بسنے والی اقلیتیں بھی کشمیریوں کے ساتھ ہیں، ہم سب یک زباں ہوکر بھارتی جارحیت اور دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
سباسٹین شاہ
(آرچ بشپ آف لاہور)
1947ء میں جب پاکستان تشکیل پا رہا تھا اور پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ ہورہا تھا تو اس وقت کانگریس اور ہندوتعداد میں زیادہ تھے جو پنجاب کی تقسیم میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔ دوسری طرف مسلم لیگ تھی جو ان کے مقابلے میں زیادہ طاقتور نہیں تھی لہٰذا پنجاب کی تقسیم میں مسئلہ پیدا ہو رہا تھا۔ جب یہ بات آئی کہ پنجاب کے صرف وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، پاکستان میں شامل کیے جائیں گے تو مسیحی رہنماؤں نے کہا کہ پنجاب کی مسیحی آبادیوں کو بھی مسلم آبادیوں میں گن لیا جائے تاکہ بڑا پنجاب بنایا جاسکے۔ہم ان کی دور اندیشی کی وجہ سے آج بہتر پنجاب میں بیٹھے ہیں۔
یہ انتہائی اہم بات ہے کہ مسیحیوں نے خود کو مسلم آبادیوں میں شامل کر کے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، پاکستان بننے سے پہلے سے ہی آپس میں مل جل کر رہ رہے تھے مگر بدقسمتی سے گزشتہ 2، 3 دہائیوں میں ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور آپس میں لڑایا گیا۔ اب یہ قوم بالغ ہوچکی ہے اور سمجھ گئی ہے کہ ہمیںاپنی اندرونی لڑائیوں کو ختم کرکے، متحد ہوکر اپنے بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب حالات میں بہتری آئی ہے۔ قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر بالکل واضح ہے کہ ہم نے پاکستان میں کس طرح رہنا ہے۔ مذہب اپنا اپنا مگر ملک سب کا سانجھا ہے اور ہم سب پاکستانی ہیں۔ مسیحی دیگر مذاہب کے تہواروں کا احترام کرتے ہیں اوران کے خوشی اور غم میں برابر شریک ہوتے ہیں۔
ہم کوشش کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں شادی بیاہ و ایسی تقریبات نہ ہوں جن سے مسلمان روزہ داروں کو کوئی مشکل پیش آئے، اسی طرح محرم الحرام کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے گرجہ گھروں میں باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے کہ احترام کیا جائے۔ ہم دعا گو ہیں کہ یہاں مزید امن و سلامتی قائم ہو۔ ہمیں مذہبی ہم آہنگی کو زیادہ مضبوط کرنا چاہیے کیونکہ جب ہم ایک دوسرے کے مذہب کو جانتے اور مکالمہ کرتے ہیں تو آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ ہم آزادی کا 72 واں سال منانے جارہے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی آج بھی بھارت کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں اور آگ میں جل رہے ہیں۔ جب ہم استحکام پاکستان ، ترقی اور آزادی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ انہیں جلد آزادی ملے۔
سردار بشن سنگھ
(چیئرمین بابا گورونانک ویلفیئر سوسائٹی پاکستان و سابق صدر پاکستان سکھ گوردوارہ پربھندک کمیٹی )
قیام پاکستان کیلئے سب کی قربانیاں ہیں اور یہ ملک 'سب دا سانجھا' ہے۔قیام پاکستان کے وقت سکھوں اور مسیحیوں نے بھی خود کو پاکستان کے ساتھ وابستہ کیا۔ ہم پہلے پاکستانی ہیں اور بعد میں سکھ، مسلم، ہندو، عیسائی یا کسی اور مذہب کے پیروکار ۔ پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کو برابر حقوق حاصل ہیں اور کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ یہاں بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ جب ہم بابا گرو نانک کا جنم دن مناتے ہیںتوایک عام مسلمان سے لے کر وزیراعظم تک، ہماری خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب مسیحی یسوع مسیحؑ کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہیں توہم بھی اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں۔ ہم اگست کا پورا مہینہ آزادی کے طور پر مناتے ہیں اور 14 اگست کو مل کر جشن آزادی کا کیک کاٹتے ہیں۔
اسی طرح ہندوؤں کا کوئی تہوار ہوتا ہے تو اس میں بھی سب شریک ہوتے ہیں۔ سکھ اپنے گوردوارے میں ، مسیحی اپنے چرچ میں ، ہندو اپنے مندر میں ، آزادی سے اپنی عبادات کرتے اور تہوار مناتے ہیں۔یہی قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر تھی کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ برابر شہری ہوں گے۔ ہمیں پاکستان خصوصاََ پنجاب میں کبھی بھی مذہبی یا نسلی لحاظ سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اس دھرتی کیلئے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان 1947ء میں آزاد ہوا لیکن اس خطے کی آزادی کیلئے سکھوں کی جدوجہد میں خون کا پہلا قطرہ بھگت سنگھ نے 23 مارچ 1931ء کودیا۔ انہوں نے کم عمری میں بہت عظیم کام کیا ۔ اس کے بعد بھی سکھوں نے قربانیاں دیں لہٰذا جب یہ تمام کڑیاں آپس میں ملائیں تو پاکستان کی آزادی مکمل ہوتی ہے۔
پاکستان میںہم مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر رہ رہے ہیں۔ ہم ملک کے کسی بھی علاقے میں بزنس کر سکتے ہیں، جائیداد خرید سکتے ہیں اور کسی بھی ادارے میں ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی برابری ہے اور یہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ہمیں اس دھرتی پر فخر ہے۔ دنیا بھر کے سکھوں کی اس دھرتی سے روحانی وابستگی ہے۔ یہاں بابا گرونانک کی پیدائش ہوئی ، ان کا بچن گزرا اور انہوں نے اپنی زندگی کے 18 برس کرتار پورصاحب میں کھیتی باڑی کی۔ سکھ مسلم کی سانجھ 'بھائی مردانہ' جسے گرو صاحب نے بھائی کا لقب دیا تھا وہ 70 برس گرو صاحب کے ساتھ رہے۔ دوسری طرف 'بھائی بالا'ساری زندگی گرو صاحب کے ساتھ رہے۔ گرو صاحب کی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور انسانیت پر دیا گیا۔
گرو صاحب نے کہا کہ 10 انگلیوں سے محنت مزدوری کرو ، دسواں حصہ زکوٰۃ دو، رب کو یاد کرو اور بانٹ کر کھاؤ۔ دسویں حصے زکوٰۃ کی کوئی شرط نہیں رکھی کہ یہ صرف سکھ کو دی جائے بلکہ جو بھی ضرورت مند ہو اسے دے دو۔ بانٹ کر کھانے کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ موجود ہوں،چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، سب میں لنگر تقسیم کیا جائے۔ ہر گوردوارے میں بلا تفریق رنگ، مذہب، نسل سب کو لنگر دیا جاتا ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں ادویات بھی۔ یہ گرو صاحب کی تعلیمات ہیں جن پر ہم عمل پیرا ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کرتار پور راہداری کے حوالے سے وہ کام کیا ہے جو 70 برسوں میں نہیں ہوسکا۔ یہ دنیا بھر کی سکھ برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے پورا کردیا گیا۔ گرو نانک صاحب کا مشن امن، بھائی چارہ اور رواداری تھا۔ ہماری حکومت نے کرتارپور کوریڈور امن، رواداری اور بھائی چارے کیلئے کھولا ہے مگر بھارتی حکومت کے مقاصد کچھ اور ہیں۔
پاکستان میں ہمیں مکمل آزادی اور تعاون حاصل ہے۔ ہم نے گزشتہ برس تقریباََ 6 گوردوارے کھولے ہیں جبکہ چند روز قبل جہلم اور گوجرانوالہ میں بھی گوردوارے دوبارہ کھولے گئے ہیں۔جہاں بھی گوردارے موجود ہیں، وہاں کی مقامی آبادی نے انہیں محفوظ بنایا، اور یہی وجہ ہے کہ آج انہیں دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے جو عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بھارت نے 1947ء سے اب تک سکھوں پر مظالم ڈھائے ہیںاور اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔1984ء میں دربار صاحب پر حملہ ہوا، بابری مسجد کا سانحہ بھی سب کے سامنے ہے، مسیحی بھائیوں کو وہاں زندہ جلایا گیا اور کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم وہاں ہورہا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بھارت نے 370 اور 35 اے کا خاتمہ کرکے کشمیریوں سے ان کا بنیادی حق چھین لیا ہے۔ کشمیر میں صرف مسلمان نہیں دیگر اقلیتیں بھی آباد ہیں تاہم بھارت 'براہمن وادی' کی سوچ کو فروغ دے رہا ہے اور وہاں ہندو آباد کیے جارہے ہیں۔ اس ظلم کو ایک دن ختم ہونا ہی ہے، ہم بھارتی جارحیت اور مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
قائد اعظمؒ نے قانون ساز اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں پاکستان کا نقشہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان بن چکا ہے، اب پاکستان کے تمام لوگ آزاد ہیں اور انہیں اپنی عبادتگاہوں میں جانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ 1973ء کے آئین کے مطابق پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں۔ پاکستان دشمنوں نے ہمیں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ مساجد، چرچ و دیگر عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور پاکستان ایک مشکل دور سے گزرا مگر اب حالات بہتر ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد سے مذہبی منافرت کا خاتمہ ہوا اور اب تمام مذاہب و مسالک کے لوگ مل کر مذہبی ہم آہنگی اور یکجہتی کیلئے کام کر رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے نفرت انگیز مواد اور تقاریر پر پابندی لگائی گئی جو اتحاد و یگانگت کا باعث بنا اور صدیوں پرانا تعلق دوبارہ بحال ہوگیا۔
سول سوسائٹی کیلئے یہ خوش آئند ہے کہ اب ریاست یہ تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان سب کا ہے۔ اقلیتوں کے عالمی دن کی تقریب صدر ہاؤس میں منعقد ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو دیوالی کی تقریب میں شریک ہوتے ہیں۔ ملک کی سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنے عمل سے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے تمام لوگ برابر ہیں۔ سابق پنجاب اسمبلی نے 'سکھ میرج ایکٹ' منظور کیا جبکہ ہندو میرج ایکٹ کے حوالے سے موجودہ حکومت کام کر رہی ہے۔ اقلیتوں کیلئے موثر قانون سازی ہورہی ہے، انہیں وظائف دیے جارہے ہیں اور ملازمتوں میں کوٹہ بھی بڑھایا جارہا ہے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔
امن و استحکام کیلئے سول سوسائٹی اپنا کام کرتی ہے۔ یہ امن صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ خطے اور دنیا کے کیلئے ہے۔ یہ پاکستان میں قومی یکجہتی کی عظیم مثال ہے کہ یہاں تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگ اکٹھے ہیں اور ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سول سوسائٹی ہمیشہ آواز اٹھاتی ہے۔ ہم کشمیر میں ہونے والی بھارتی جارحیت اور آئین میں ترمیم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار داداوں کے مطابق حق خودارادیت دیا جائے۔