کراچی ’’گٹر پالیٹکس‘‘ میں ڈوب رہا ہے

موجودہ صورتحال پر وفاق، سندھ اور شہری حکومت ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں

مختلف عناصر تینوں کو ناکام ثابت کرنے کیلیے نکاسی و فراہمی آب کا نظام خراب کرنے کو متحرک

عروس البلاد ہنوز مون سون کی حالیہ بارشوں کے اثرات کی لپیٹ میں ہے۔ بہت سے علاقوں میں برساتی پانی تالابوں کی صورت میں موجود ہے، شہر میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور شہر کی متعدد آبادیوں کی گلیوں اور سڑکوں پر سیوریج کا پانی بہہ رہا ہے۔

دوسری جانب کراچی میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان سیاسی رسہ کشی بھی جاری ہے۔ ملکی معاشی شہ رگ کے لیے ایک دوسرے پر کچھ نہ کرنے کے الزامات کی کیچڑ اچھالنے کے بعد وفاقی اور صوبائی نمائندوں نے متعدد وعدے کیے ہیں اور اہل شہر کی دادرسی کے لیے کئی اقدام کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔ تاہم سیاسی نمائندوں کی ساکھ خراب کرنے کے لیے کچھ عناصر دانستہ طور پر شہر میں صفائی ستھرائی، نکاسی آب کی خراب صورتحال کو مزید ابتر کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ 4 اگست کو جب کہ شہر کے بیشتر علاقے میں پانی میں ڈوبے ہوئے تھے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے کے ایم سی اور فرنٹریئر ورکس آرگنائزیشن کے اشتراک سے دو ہفتے پر مشتمل ' کراچی صفائی مہم' شروع کرنے کا اعلان کیا۔


اسی دوران صوبائی حکومت نے اپنی ' نیلی جیکٹ مہم' شروع کردی۔ دریں اثنا میئر کراچی وسیم اختر ، جنھیں صوبائی حکومت کی جانب سے شہر میں نکاسی آب کے نظام کے لیے 1.2ارب روپے فراہم کیے جاچکے تھے، وہ شہر کے گٹر کھولنے اور کچرا اٹھانے کے لیے مزید فنڈز حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ بہ یک وقت کراچی کے تینوں بڑے سیاسی کھلاڑیوں کے میدان میں اتر جانے کے باوجود اہل شہر کے مصائب جوں کے توں ہیں بلکہ بعض علاقوں میں نکاسی آب اور کچرے کی صورتحال مزید خراب ہونے کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ یہ صورتحال کے ایم سی اور حکومت سندھ کے مابین طویل عرصے سے جاری کشمکش کا نتیجہ ہے۔ شہری حکومت نے سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہری حکام کو بدنام کرنے کے لیے کچھ عناصر مختلف علاقوں میں دانستہ طور پر مین سیوریج لائنو ں کو بند کردیتے ہیں۔ ہم نے ان لائنوں میں سے پتھروں اور بلاکوں سے بھری ہوئی بوریاں نکالی ہیں۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ اختیارات کی جنگ ہے۔ میئر اور کے ایم سی مزید اختیارات اور پیسہ حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت اختیارات اور فنڈز دونوں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ اس لڑائی میں نقصان کراچی کے باسیوں کا ہورہا ہے۔ پی ٹی آئی کی ' کلین کراچی مہم' شروع ہوئے 15 روز گزرچکے ہیں۔ چند روز قبل علی زیدی نے اسکیم کے لیے 1.7 ارب کے عطیات کی اپیل کی تھی۔ ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رکن صوبائی اسمبلی اور اس اسکیم کی کوآرڈینیٹر سدرہ امام نے کہا کہ ناکام ٹاؤن پلاننگ، تجاوزات، ناقص مینجمنٹ کی وجہ سے کراچی تھوڑی سی بارش میں بھی ڈوب جاتا ہے۔ کلین کراچی مہم کے دوران ہماری توجہ سیوریج کے نظام پر ہے۔ ہم نے چوک پوائنٹس سے اب تک 17 ہزار ٹن کچرا نکال چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مہم کے لیے کچھ اسپانسر، بینکوں اور کے پی ٹی اور شہریوں کی جانب سے عطیات ملے ہیں۔ انھوں نے کہا اکاؤنٹ کو ایف ڈبلیو او مینیج کررہی ہے اور اس کی آڈٹ رپورٹ بھی عام کی جائے گی۔
Load Next Story