یہ بھی گذر جائیں گے
ننگر پارکر کا ایک باسی ملا جو عمران خان حکومت کا پہلا برس کامیابی سے مکمل ہونے پر بہت مسرور تھا۔
میں نے عمران حکومت کی پہلی سالگرہ تھرپارکر کے سرحدی قصبے ننگر پارکر میں منائی۔گرینائٹ کے کارونجھر پہاڑ پر چڑھ کے دیکھیں تو ان دنوں ننگر کے دامن میں تاحدِ نگاہ اتنا سبزہ گویا پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کا پرچم پھیلا ہوا ہو جس کے اندر سفید پوشی کی پٹی کا اضافہ کر کے قومی پرچم بنا لیا گیا ہو۔
ساون تھرپارکر میں صرف سبزہ ہی ساتھ نہیں لاتا بلکہ کراچی اور حیدرآباد سمیت دور دراز قصبوں سے ہزاروں سیاحوں کو بھی پچھلے دو تین برس سے کھینچ لاتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب انیس سو اٹھانوے میں پہلی بار میں مٹھی سے ننگر پہنچا تو راستے کچے ہونے کے سبب سوا سو کلومیٹر فاصلہ کاٹنے میں ہی سات گھنٹے لگ گئے۔پر آج سڑک کے راستے کراچی سے ننگر تک کے ساڑھے چار سو کلومیٹرسات گھنٹے میں طے ہوتے ہیں۔
ننگر میں پہاڑ ، سبزہ ، مندر اور قدیم آثار ، دور قطار میں رواں رنگ برنگے لباس ، غیر آلودہ ہوا اور کھلا پن۔ اور یہ سب کنکریٹ کے آلودہ شہری جنگلوں کے باسیوں کو بارش کے بعد اپنی جانب کھینچتا ہے۔لوگ آ تو جاتے ہیں مگر مناسب انفراسٹرکچر نہ ہونے کے سبب سڑک پر ، کسی جاننے والے کے گھر میں یا خدا ترس این جی اوز کے اکا دکا مہمان خانوں میں رہتے ہیں۔
ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس پلس ہوٹل صوبائی محکمہ ثقافت و سیاحت والوں نے تحریکِ آزادی کے ہیرو روپلو کوہلی کے نام پر کھولا ضرور ہے مگر '' صاحب '' کے مہمان ، افسر ، ان کے اہلِ خانہ اور ان کے جاننے والے اور جاننے والوں کے جاننے والے ہی ختم نہیں ہوتے کہ عام سیاح کی باری آئے۔ آج شائد روپلو بھی زندہ ہو کر آ جائے تو اسے جگہ نہ ملے۔
ویسے روپلو رہتا کہاں تھا، کس حال میں رہتا تھا، پھانسی کے بعد اس کی چھوڑی ہوئی دنیا یا کم ازکم اس کی برادری کی حالت کتنی بدلی ، اس کا جواب صرف پتھر اور مٹی کی کوئی شے کھڑی کر کے دیا گیا ہے جسے روپلو کی یادگار کہا جاتا ہے۔یہ یادگار اپنی مدد آپ کی ایک خام صورت ہے۔ آپ یہاں جائیں اور جتنا روپلو دریافت ہو جائے اسے ساتھ لے جائیں۔وما علینا البلاغ۔
ایک اور مقامی ہیرو مسکین جہان خان ہے۔جو یہاں کے نچلے طبقات (کوہلی ، بھیل ، مسلمان کسان اور چرواہے) کے حقوق اور قحط کے ماروں کی جانب سرکار کی توجہ دلانے کے لیے دفاتر میں کلرکوں اور قاصدوں کی خوشامد کرتا کرتا اپنی بیسیوں عرضیوں سمیت حیدرآباد کے ایک اسپتال میں بتیس برس پہلے لاوارث مر گیا۔مگر مرنے کے بعد اس کی عزت افزائی شروع ہو گئی۔
آج کارونجھر کے دامن میں اس کے نام پر ایک شاندار لائبریری قائم ہے۔ ایک منٹ۔کہیں آپ شاندار لائبریری سے یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ یہاں کوئی لائبریرین ہوگا ، جو سلیقے سے الماریوں میں لگی ہزاروں کتابوں کی دیکھ بھال کر رہا ہوگا۔کوئی ریڈنگ روم ہوگا جس میں مقامی لوگ سکون سے پنکھوں کے نیچے بیٹھے اخبار اور رسالے پڑھ رہے ہوں گے۔کوئی چلڈرن سیکشن ہوگا جہاں بچے قالین پر پاؤں پھیلائے ڈرائنگ کر رہے ہوں گے۔طلبا نیٹ کی سہولتوں سے استفادہ کر رہے ہوں گے۔
یہ سب سہولتیں مسکین جہان خان لائبریری کے نقشے میں ہیں مگر انھیں دیکھنے کیلیے آپ کو کم ازکم دو ہزار سینتالیس تک انتظار کرنا ہوگا۔جب پاکستان سو برس کا ہو جائے گا۔
حکومت نے مستقبل کے ننگر پارکر کے لیے لائبریری کے نام پر باہر سے بھلا نظر آنے والا ایک اسٹرکچر کھڑا تو کر دیا ہے۔اب تھوڑا سا کام ہمیں بھی تو کرنا چاہیے۔جیسے بجلی، کتابیں، عملہ ، فرنیچر، دیکھ بھال ، نیٹ وغیرہ اور پھر ان سہولتوں سے استفادہ کرنے والے بھی۔
بالکل ویسے ہی جیسے سرکار نے پورے تھر میں پینے کے صاف پانی کے لیے کئی سال پہلے ہی آر او پلانٹس نصب کر دیے۔اب جسے صاف پانی پینا ہو ان پلانٹس کو رواں بھی رکھ لے۔ہر شے کے لیے پہلے حکومت کی طرف اور پھر آسمان کی طرف دیکھنا زندہ قوموں کو زیب نہیں دیتا۔
بہت اچھی بات ہے کہ مستقبل کی ضروریات کو ذہن میں رکھ کے سرکار نے لائبریری کا صاف ستھرا ڈھانچہ کھڑا کر دیا مگر حال کی ضرورت تو معیشت کی ترقی ، مقامی لوگوں کی روزی روٹی کے نئے مواقعے اور اس تعلق سے یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے رہائش ، ماحولیات کی بہتری اور قدیم آثارو عمارات کی دیکھ بھال اور رہنمائی کرنے والے گائیڈوں کی ضرورت ہے۔یہ سب میسر آجائے تو مٹھی تاننگر لوگ برسات کے دو مہینوں میں اتنا کما لیں کہ سال بھر گھر چلا سکیں۔مگر جن مقامی لوگوں کے پاس پیسہ ہے وہ نیب کے خوف سے نکالتے ہوئے گھبراتے ہیں۔یہ پیسہ کراچی ، حیدرآباد کے بند کمروں اور بیرونِ ملک کام میں آتا ہے۔
پر یہ علاقہ اپنی ذات میں اتنا امیر ہے کہ اگر ایک بھی سیاح نہ آئے تو اسے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں۔ میں کوئلے کے خزانے کی بات نہیں کر رہا۔میں سراپا گرینائٹ کارونجھر پہاڑ کی بات کر رہا ہوں۔یہ پہاڑ برسات کے دنوں میں اپنے جھرنوں سے اتنا پانی دیتا ہے کہ اگر سب جمع ہو جائے تو ایک منگلا جھیل کے برابر میسر ہو۔مگر زیادہ تر پانی پہاڑ کے دوسری جانب سرحد پار چلا جاتا ہے جہاں اسے مناسب طریقے سے جمع کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کام میں لایا جاتا ہے۔
جب کہ اپنی طرف پچھلے چند برس میں جو چھوٹے چھوٹے کچھ ڈیم بنائے گئے ہیں۔ان کی جگہ مقامی لوگوں کے مشورے کے بجائے سرکاری و این جی اوز ڈرائنگ بورڈ پر شہری ماہرین کی مدد سے طے کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو ڈیم بنے ان میں سے زیادہ تر بجٹ خشک ہوتے ہی خود بھی چٹخ گئے اور ستر فیصد پانی زمین نے جذب کر لیا۔
جہاں تک گرینائٹ کا معاملہ ہے تو بجائے یہ کہ کوئی سرکاری یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے اصول پر گرینائٹ ڈویلپمنٹ کارپوریشن قائم کی جاتی اور اس کے مینڈیٹ میں یہ ہوتا کہ منافع کا کم از کم دس فیصد مقامی ترقی و تربیت پر خرچ ہوگا۔کارونجھر چند لوگوں کے درمیان عشروں پہلے لیز کے نام پر بٹ گیا۔فی الحال وہاں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او ) والے تھوڑا بہت سنگی کام کر رہے ہیں۔ مقامی لوگ لیز والوں کو بھی دور سے دیکھتے تھے۔اب ایف ڈبلیو او والوں کی بھی دور سے عزت کرتے ہیں۔
یہاں کے لوگ صحت کی ناکافی سہولتوں پر بھی تنقید کرتے رہتے ہیں۔یہ بھی ثابت کرتے رہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں بیماری یا ناکافی غذائیت کے سبب نومولود بچوں کی شرحِ اموات کا تناسب ہزار پر چھیالیس مگر تھرپارکر میں ہزار پر اسی ہے۔سرکاری طبی سہولتوں کا خلا فلاحی و مذہبی تنظیموں کی سہولتوں سے پر ہو رہا ہے۔مجھ جیسے کئی ڈرائنگ روم دانشور ان تنظیموں کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار ضرور کرتے ہیں مگر اس کا جواب نہیں دے پاتے کہ خلا کوئی تو پر کرے گا۔آپ کو یہاں کے لوگوں کی اتنی تکلیف ہے تو آپ آجاؤ۔
اسے کہتے ہیں دماغ کی خرابی۔بات شروع ہوئی تھی کہ میں نے عمران خان حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے والا دن کہاں گذارا اور پھر میں کہاں سے کہاں بھٹک گیا۔ننگر پارکر کا ایک باسی ملا جو عمران خان حکومت کا پہلا برس کامیابی سے مکمل ہونے پر بہت مسرور تھا۔کہنے لگا خوشی اس بات کی ہے کہ اب چار سال باقی ہیں۔یہ بھی گذر جائیں گے۔جیسے برسات کا سبزہ گذر جاتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
ساون تھرپارکر میں صرف سبزہ ہی ساتھ نہیں لاتا بلکہ کراچی اور حیدرآباد سمیت دور دراز قصبوں سے ہزاروں سیاحوں کو بھی پچھلے دو تین برس سے کھینچ لاتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب انیس سو اٹھانوے میں پہلی بار میں مٹھی سے ننگر پہنچا تو راستے کچے ہونے کے سبب سوا سو کلومیٹر فاصلہ کاٹنے میں ہی سات گھنٹے لگ گئے۔پر آج سڑک کے راستے کراچی سے ننگر تک کے ساڑھے چار سو کلومیٹرسات گھنٹے میں طے ہوتے ہیں۔
ننگر میں پہاڑ ، سبزہ ، مندر اور قدیم آثار ، دور قطار میں رواں رنگ برنگے لباس ، غیر آلودہ ہوا اور کھلا پن۔ اور یہ سب کنکریٹ کے آلودہ شہری جنگلوں کے باسیوں کو بارش کے بعد اپنی جانب کھینچتا ہے۔لوگ آ تو جاتے ہیں مگر مناسب انفراسٹرکچر نہ ہونے کے سبب سڑک پر ، کسی جاننے والے کے گھر میں یا خدا ترس این جی اوز کے اکا دکا مہمان خانوں میں رہتے ہیں۔
ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس پلس ہوٹل صوبائی محکمہ ثقافت و سیاحت والوں نے تحریکِ آزادی کے ہیرو روپلو کوہلی کے نام پر کھولا ضرور ہے مگر '' صاحب '' کے مہمان ، افسر ، ان کے اہلِ خانہ اور ان کے جاننے والے اور جاننے والوں کے جاننے والے ہی ختم نہیں ہوتے کہ عام سیاح کی باری آئے۔ آج شائد روپلو بھی زندہ ہو کر آ جائے تو اسے جگہ نہ ملے۔
ویسے روپلو رہتا کہاں تھا، کس حال میں رہتا تھا، پھانسی کے بعد اس کی چھوڑی ہوئی دنیا یا کم ازکم اس کی برادری کی حالت کتنی بدلی ، اس کا جواب صرف پتھر اور مٹی کی کوئی شے کھڑی کر کے دیا گیا ہے جسے روپلو کی یادگار کہا جاتا ہے۔یہ یادگار اپنی مدد آپ کی ایک خام صورت ہے۔ آپ یہاں جائیں اور جتنا روپلو دریافت ہو جائے اسے ساتھ لے جائیں۔وما علینا البلاغ۔
ایک اور مقامی ہیرو مسکین جہان خان ہے۔جو یہاں کے نچلے طبقات (کوہلی ، بھیل ، مسلمان کسان اور چرواہے) کے حقوق اور قحط کے ماروں کی جانب سرکار کی توجہ دلانے کے لیے دفاتر میں کلرکوں اور قاصدوں کی خوشامد کرتا کرتا اپنی بیسیوں عرضیوں سمیت حیدرآباد کے ایک اسپتال میں بتیس برس پہلے لاوارث مر گیا۔مگر مرنے کے بعد اس کی عزت افزائی شروع ہو گئی۔
آج کارونجھر کے دامن میں اس کے نام پر ایک شاندار لائبریری قائم ہے۔ ایک منٹ۔کہیں آپ شاندار لائبریری سے یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ یہاں کوئی لائبریرین ہوگا ، جو سلیقے سے الماریوں میں لگی ہزاروں کتابوں کی دیکھ بھال کر رہا ہوگا۔کوئی ریڈنگ روم ہوگا جس میں مقامی لوگ سکون سے پنکھوں کے نیچے بیٹھے اخبار اور رسالے پڑھ رہے ہوں گے۔کوئی چلڈرن سیکشن ہوگا جہاں بچے قالین پر پاؤں پھیلائے ڈرائنگ کر رہے ہوں گے۔طلبا نیٹ کی سہولتوں سے استفادہ کر رہے ہوں گے۔
یہ سب سہولتیں مسکین جہان خان لائبریری کے نقشے میں ہیں مگر انھیں دیکھنے کیلیے آپ کو کم ازکم دو ہزار سینتالیس تک انتظار کرنا ہوگا۔جب پاکستان سو برس کا ہو جائے گا۔
حکومت نے مستقبل کے ننگر پارکر کے لیے لائبریری کے نام پر باہر سے بھلا نظر آنے والا ایک اسٹرکچر کھڑا تو کر دیا ہے۔اب تھوڑا سا کام ہمیں بھی تو کرنا چاہیے۔جیسے بجلی، کتابیں، عملہ ، فرنیچر، دیکھ بھال ، نیٹ وغیرہ اور پھر ان سہولتوں سے استفادہ کرنے والے بھی۔
بالکل ویسے ہی جیسے سرکار نے پورے تھر میں پینے کے صاف پانی کے لیے کئی سال پہلے ہی آر او پلانٹس نصب کر دیے۔اب جسے صاف پانی پینا ہو ان پلانٹس کو رواں بھی رکھ لے۔ہر شے کے لیے پہلے حکومت کی طرف اور پھر آسمان کی طرف دیکھنا زندہ قوموں کو زیب نہیں دیتا۔
بہت اچھی بات ہے کہ مستقبل کی ضروریات کو ذہن میں رکھ کے سرکار نے لائبریری کا صاف ستھرا ڈھانچہ کھڑا کر دیا مگر حال کی ضرورت تو معیشت کی ترقی ، مقامی لوگوں کی روزی روٹی کے نئے مواقعے اور اس تعلق سے یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے رہائش ، ماحولیات کی بہتری اور قدیم آثارو عمارات کی دیکھ بھال اور رہنمائی کرنے والے گائیڈوں کی ضرورت ہے۔یہ سب میسر آجائے تو مٹھی تاننگر لوگ برسات کے دو مہینوں میں اتنا کما لیں کہ سال بھر گھر چلا سکیں۔مگر جن مقامی لوگوں کے پاس پیسہ ہے وہ نیب کے خوف سے نکالتے ہوئے گھبراتے ہیں۔یہ پیسہ کراچی ، حیدرآباد کے بند کمروں اور بیرونِ ملک کام میں آتا ہے۔
پر یہ علاقہ اپنی ذات میں اتنا امیر ہے کہ اگر ایک بھی سیاح نہ آئے تو اسے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں۔ میں کوئلے کے خزانے کی بات نہیں کر رہا۔میں سراپا گرینائٹ کارونجھر پہاڑ کی بات کر رہا ہوں۔یہ پہاڑ برسات کے دنوں میں اپنے جھرنوں سے اتنا پانی دیتا ہے کہ اگر سب جمع ہو جائے تو ایک منگلا جھیل کے برابر میسر ہو۔مگر زیادہ تر پانی پہاڑ کے دوسری جانب سرحد پار چلا جاتا ہے جہاں اسے مناسب طریقے سے جمع کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کام میں لایا جاتا ہے۔
جب کہ اپنی طرف پچھلے چند برس میں جو چھوٹے چھوٹے کچھ ڈیم بنائے گئے ہیں۔ان کی جگہ مقامی لوگوں کے مشورے کے بجائے سرکاری و این جی اوز ڈرائنگ بورڈ پر شہری ماہرین کی مدد سے طے کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو ڈیم بنے ان میں سے زیادہ تر بجٹ خشک ہوتے ہی خود بھی چٹخ گئے اور ستر فیصد پانی زمین نے جذب کر لیا۔
جہاں تک گرینائٹ کا معاملہ ہے تو بجائے یہ کہ کوئی سرکاری یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے اصول پر گرینائٹ ڈویلپمنٹ کارپوریشن قائم کی جاتی اور اس کے مینڈیٹ میں یہ ہوتا کہ منافع کا کم از کم دس فیصد مقامی ترقی و تربیت پر خرچ ہوگا۔کارونجھر چند لوگوں کے درمیان عشروں پہلے لیز کے نام پر بٹ گیا۔فی الحال وہاں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او ) والے تھوڑا بہت سنگی کام کر رہے ہیں۔ مقامی لوگ لیز والوں کو بھی دور سے دیکھتے تھے۔اب ایف ڈبلیو او والوں کی بھی دور سے عزت کرتے ہیں۔
یہاں کے لوگ صحت کی ناکافی سہولتوں پر بھی تنقید کرتے رہتے ہیں۔یہ بھی ثابت کرتے رہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں بیماری یا ناکافی غذائیت کے سبب نومولود بچوں کی شرحِ اموات کا تناسب ہزار پر چھیالیس مگر تھرپارکر میں ہزار پر اسی ہے۔سرکاری طبی سہولتوں کا خلا فلاحی و مذہبی تنظیموں کی سہولتوں سے پر ہو رہا ہے۔مجھ جیسے کئی ڈرائنگ روم دانشور ان تنظیموں کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار ضرور کرتے ہیں مگر اس کا جواب نہیں دے پاتے کہ خلا کوئی تو پر کرے گا۔آپ کو یہاں کے لوگوں کی اتنی تکلیف ہے تو آپ آجاؤ۔
اسے کہتے ہیں دماغ کی خرابی۔بات شروع ہوئی تھی کہ میں نے عمران خان حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے والا دن کہاں گذارا اور پھر میں کہاں سے کہاں بھٹک گیا۔ننگر پارکر کا ایک باسی ملا جو عمران خان حکومت کا پہلا برس کامیابی سے مکمل ہونے پر بہت مسرور تھا۔کہنے لگا خوشی اس بات کی ہے کہ اب چار سال باقی ہیں۔یہ بھی گذر جائیں گے۔جیسے برسات کا سبزہ گذر جاتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)