انسانی حقوق اور بھارت کا طرزعمل
مودی سرکار نے یک طرفہ طور پر اقوام متحدہ اور عالمی برداری سے بدعہدی کی اور کشمیر کی خود مختار حیثیت کا پیمان توڑ دیا۔
انسانی حقوق سے متعلق بھارت کا ریکارڈ اور رویہ 1947میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے آج تک متنازعہ رہا ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے اقتدار میں قائم ہونے والی بھارتی ریاست کو جلد ہی عالمی سطح پر ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کہا جانے لگا۔ نہرو خاندان کے زوال کے بعد بھی تبدیلی ہمیشہ انتخابات کے ذریعے ہی آئی۔
بھارتی سیکیولرازم کے فسانے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس میں مذہبی جنونیت کو سماجی و اقتصادی بہتری کی راہ میں رکاوٹ بننے سے روکنا بھی شامل تھا۔ یہ خواب 2002میں چکنا چور ہوگیا جب گجرات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی نگرانی میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 2006میں بھارتی مسلمانوں کے حالات پر سچر رپورٹ آئی۔
مسلمانوں نے عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کیا لیکن اس رپوٹ کو جھوٹا قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔ 1947میں مسلمان ہندوستان کا پس ماندہ طبقہ بن چکے تھے اور 2006تک ان کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مسلمانوں میں تعلیم کی کمی اور غربت کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ ہے، اسی طرح آبادی کے اعتبار سے سرکاری ملازمت میں ان کا حصہ انتہائی کم ہے۔
مودی سرکار نے یک طرفہ طور پر اقوام متحدہ اور عالمی برداری سے بدعہدی کی اور کشمیر کی خود مختار حیثیت کا پیمان توڑ دیا۔ اس کے علاوہ شملہ معاہدے اور اعلان لاہور میں کشمیر کو دو طرفہ معاملہ تسلیم کرکے ان معاہدات کی بھی صریح خلاف ورزی کی اور جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے اپنے آئین کو بھی پامال کیا۔
مودی نے کشمیر پر دلّی سے حکومت کرنے کیلیے ہنگامی حالات کا بہانہ تراشا اور اس کیلیے بندوبست یہ کیا گیا کہ اپنے ہی گورنر سے کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام دینے کی منظوری حاصل کی۔ بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی کو حاصل اکثریت کی وجہ سے اس پر بہ آسانی منظوری کا ٹھپا بھی لگوا لیا گیا۔ کشمیر کی منتخب قیادت کو ''حفاظتی تحویل ''میں لے کر اور مظاہروں و عوامی جلسوں پر پابندی لگا کر مودی نے ایک ہی دن کے اندر اپنے چہرے سے جمہوریت کا بچا کچا نقاب بھی نوچ پھینکا ۔ مرکزی قیادت کو دیوار سے لگا دینے کے بعد مودی سرکار نے کشمیری نوجوانوں کے لیے اب صرف مسلح جدوجہد کا راستہ چھوڑا ہے۔
اگر کشمیر سے بد تر نہیں تو اس سے ملتے جلتے حالات بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں(اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، مزورام، ناگا لینڈ، تری پورہ) میں پیدا ہوچکے ہیں جہاں 1947میں اٹھنے والی علیحدگی کی تحریکیں ریاستی جبر ، فوجی کارروائیوں اور انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ریاستیں دوردراز محل وقوع، دشوار گزار سرزمین، وسیع قدرتی وسائل اور قبائلی طرز زندگی جیسی مشترکہ خصوصیات رکھتی ہیں تاہم ہندوستان میں قبائل کی متنوع تاریخ کی بنا پر اس خطے میں ہر اکائی دوسرے سے تفاوت رکھتی ہے۔
برما، تبت اور جنوب مشرقی ایشیائی نسلی گروہوں سے ان ریاستوں کے باشندوں کی قربت اتنی زیادہ ہے کہ ان میں اور برصغیر کے ہندوستانیوں میں کوئی مشترک قدر نہیں پائی جاتی ہے۔ چوں کہ ان کے ہاں ذات پات کا نظام نہیں اس لیے انھیں ''دلت'' کی نچلی سطح پر رکھا جاتا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن، پناہ گزین، نسلی تنازعات، جنگلوں کی کٹائی اور ان میں پائے جانے والے وسائل کا استحصال، ''شر انگیزی'' پر قابو پانے کے لیے بڑی پیمانے پر فوج اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی اس خطے میں انسانی حقوق کی پامالی کے چند بنیادی اسباب ہیں۔
دہلی کی جانب سے یہاں نافذ کیے گئے سیاسی و اقتصادی نظام پر مقامی باشندوں کو شدید تحفظات ہیں چوں کہ یہ نظام، ایک طرح سے، ان کے ترقیاتی، سیاسی اور اقتصادی حقوق پر مسلط کیا گیا ہے۔ کثیر القومی مصنوعات اور عالمی کلچر کی صورت میں عالمگیریت کے محرکات اور عناصر مقامی باشندوں کی ترقی اور ثقافی حقوق کے لیے بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
ناگا مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے آزاد بھارت کی فوج کے ہاتھوں پچاس کی دہائی سے عوام کو ہراساں کرنے کا آغاز ہوا۔ جب میزورام ، منی پور اور تری پورہ میں حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو جبر کا شکنجہ کسنے کے لیے اس خطے میں مزید فوج بھیجی گئی۔ اگرچہ حالیہ کچھ برسوں میں شمال مشرق میں مجموعی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور پیچیدہ ناگا مسائل کا حل نکالنے کے لیے مذاکرات کی کوششیں بھی کی گئی ہیں تاہم منی پور، تری پورہ، آسام اور ناگا لینڈ میں مسلح تحریکیں ابھی تک سرگرم ہیں۔
مرکزی حکومت کی مسلح افواج کی موجودگی، ریاستی پولیس کے پست حوصلے اور نااہلی کے باعث ان ریاستوں کا انصرام فوج کے ہاتھ میں ہے۔ انتشار کا شکار ان ریاستوں میں انتہائی سفاکانہ قانون آرمڈ فورسز(خصوصی اختیارات) ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) نافذ ہے جس کے تحت فوج کہیں بھی تلاشی لینے کا اختیار رکھتی ہے اور جس کو جی چاہے حراست میں لے سکتی ہے۔ اس قانون کی بنیاد پر شمال مشرقی علیحدگی پسند علاقوں میں کشمیر کی طرح انسانی حقوق کی بے دریغ خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔
بھارتی جمہوریت نے اپنے شہریوں کے اعتماد کو کئی اعتبار سے ٹھیس پہنچائی ہے، خاص طور پر انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اندرا گاندھی کے دور میں جبری نس بندی کی مہم یا مشرقی پاکستان میں خفیہ کارروائیوں کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب کانگریس کا موازنہ بی جے پی کی ہندتوا نظریات سے کیا جائے تو یہ کم تر برائی معلوم ہوتی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی راج کا ہٹلر کی نسل پرست حکومت سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، ویسے ہٹلر بھی ''جمہوری'' طور پر منتخب ہوکر حکومت میں آیا تھا۔ اب سنگھ پریوار ''ہندتوا'' کی تشکیل کے لیے انسانی حقوق سے متعلق رہی سہی کسر بھی پوری کردے گی۔
ہندتوا فکر نازیوں سے بہت مماثلت رکھتی ہے تاہم نازیوں کی بنیاد قومی اشتراکیت پر تھی جب کہ یہ ہندو قوم پرستی کی کٹر شکل ہے۔ اس کے مطابق ہندوستانی کا مطلب ہندو ہونا ہے۔ مسلمان، عیسائی اور دیگر غیر ہندو اس کے مطابق غیر ملکی اور اجنبی تصور کیے جاتے ہیں اور انھیں ''بھارت ماتا'' کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسی بنیاد پر انھیں مساوی حقوق کا مستحق نہیں گردانا جاتا۔ بھارت میں بسنے والوں کو حقیقی معنوں میں بھارتی یعنی ہندو بنانا سنگھ پریوار اور اس کے سیاسی بازو بی جے پی کا بنیادی مقصد ہے۔
جو سرجھکانے سے انکار کردے اسے جبری تبدیلی مذہب اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم اور روزگار سے محرومی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر ہراساں کرنے کے واقعات آئے روز ہورہے ہیں۔ صرف گائے کا گوشت کھانے ، لے کر جانے یا گھر میں رکھنے کے شبہے میں بے لگام ہجوم مسلمانوں کو قتل کرڈالتے ہیں۔ سماج میں انسانی حقوق کی آوازوں کو دبانے والے ہندوتوا کے مذہبی قوم پرستوں کو بھارتی حکومت کی کھلے عام اور خفیہ حمایت حاصل ہے۔خواتین کے حقوق کی صورت حال بھی بدترین ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2019کی رپورٹ کے مطابق: '' ملک بھر میں جنسی زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آنے سے نظام قانون و انصاف کی ناکامی بے نقاب ہوچکی ہے۔
زیادتی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی داد رسی کے لیے بنائے گئے قوانین میں ترمیم ہوئے تقریباً چھے برس کا عرصہ ہونے کو ہے، اس کے بعد سے خواتین کو یہ جرائم رپورٹ کرانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ خواتین ہی کو ذمے دار ٹھہرانے کا رویہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے، اس کے علاوہ گواہیوں کی کمی اور متاثرین کی حفاظت کے قوانین میں سقم کے باعث خواتین ہراسگی اور دیگر خطرات کے لیے آسان ہدف بن چکی ہیں''۔ مودی راج آیندہ پانچ برس تک قائم رہے گا یعنی آنے والے ماہ و سال میں حالات مزید سنگین ہوتے جائیں گے۔ امریکا اور بین الاقوامی برادری اگر محض اپنے چند کاروباری یا سیاسی مفادات کے لیے بھارت میں جاری انسانی حقوق کی پامالی پر خاموشی اختیار کرتے ہیں تو یہ بھارت پر مودی راج سے بھی بڑا المیہ ہوگا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
بھارتی سیکیولرازم کے فسانے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس میں مذہبی جنونیت کو سماجی و اقتصادی بہتری کی راہ میں رکاوٹ بننے سے روکنا بھی شامل تھا۔ یہ خواب 2002میں چکنا چور ہوگیا جب گجرات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی نگرانی میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 2006میں بھارتی مسلمانوں کے حالات پر سچر رپورٹ آئی۔
مسلمانوں نے عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کیا لیکن اس رپوٹ کو جھوٹا قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔ 1947میں مسلمان ہندوستان کا پس ماندہ طبقہ بن چکے تھے اور 2006تک ان کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مسلمانوں میں تعلیم کی کمی اور غربت کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ ہے، اسی طرح آبادی کے اعتبار سے سرکاری ملازمت میں ان کا حصہ انتہائی کم ہے۔
مودی سرکار نے یک طرفہ طور پر اقوام متحدہ اور عالمی برداری سے بدعہدی کی اور کشمیر کی خود مختار حیثیت کا پیمان توڑ دیا۔ اس کے علاوہ شملہ معاہدے اور اعلان لاہور میں کشمیر کو دو طرفہ معاملہ تسلیم کرکے ان معاہدات کی بھی صریح خلاف ورزی کی اور جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے اپنے آئین کو بھی پامال کیا۔
مودی نے کشمیر پر دلّی سے حکومت کرنے کیلیے ہنگامی حالات کا بہانہ تراشا اور اس کیلیے بندوبست یہ کیا گیا کہ اپنے ہی گورنر سے کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام دینے کی منظوری حاصل کی۔ بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی کو حاصل اکثریت کی وجہ سے اس پر بہ آسانی منظوری کا ٹھپا بھی لگوا لیا گیا۔ کشمیر کی منتخب قیادت کو ''حفاظتی تحویل ''میں لے کر اور مظاہروں و عوامی جلسوں پر پابندی لگا کر مودی نے ایک ہی دن کے اندر اپنے چہرے سے جمہوریت کا بچا کچا نقاب بھی نوچ پھینکا ۔ مرکزی قیادت کو دیوار سے لگا دینے کے بعد مودی سرکار نے کشمیری نوجوانوں کے لیے اب صرف مسلح جدوجہد کا راستہ چھوڑا ہے۔
اگر کشمیر سے بد تر نہیں تو اس سے ملتے جلتے حالات بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں(اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، مزورام، ناگا لینڈ، تری پورہ) میں پیدا ہوچکے ہیں جہاں 1947میں اٹھنے والی علیحدگی کی تحریکیں ریاستی جبر ، فوجی کارروائیوں اور انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ریاستیں دوردراز محل وقوع، دشوار گزار سرزمین، وسیع قدرتی وسائل اور قبائلی طرز زندگی جیسی مشترکہ خصوصیات رکھتی ہیں تاہم ہندوستان میں قبائل کی متنوع تاریخ کی بنا پر اس خطے میں ہر اکائی دوسرے سے تفاوت رکھتی ہے۔
برما، تبت اور جنوب مشرقی ایشیائی نسلی گروہوں سے ان ریاستوں کے باشندوں کی قربت اتنی زیادہ ہے کہ ان میں اور برصغیر کے ہندوستانیوں میں کوئی مشترک قدر نہیں پائی جاتی ہے۔ چوں کہ ان کے ہاں ذات پات کا نظام نہیں اس لیے انھیں ''دلت'' کی نچلی سطح پر رکھا جاتا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن، پناہ گزین، نسلی تنازعات، جنگلوں کی کٹائی اور ان میں پائے جانے والے وسائل کا استحصال، ''شر انگیزی'' پر قابو پانے کے لیے بڑی پیمانے پر فوج اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی اس خطے میں انسانی حقوق کی پامالی کے چند بنیادی اسباب ہیں۔
دہلی کی جانب سے یہاں نافذ کیے گئے سیاسی و اقتصادی نظام پر مقامی باشندوں کو شدید تحفظات ہیں چوں کہ یہ نظام، ایک طرح سے، ان کے ترقیاتی، سیاسی اور اقتصادی حقوق پر مسلط کیا گیا ہے۔ کثیر القومی مصنوعات اور عالمی کلچر کی صورت میں عالمگیریت کے محرکات اور عناصر مقامی باشندوں کی ترقی اور ثقافی حقوق کے لیے بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
ناگا مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے آزاد بھارت کی فوج کے ہاتھوں پچاس کی دہائی سے عوام کو ہراساں کرنے کا آغاز ہوا۔ جب میزورام ، منی پور اور تری پورہ میں حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو جبر کا شکنجہ کسنے کے لیے اس خطے میں مزید فوج بھیجی گئی۔ اگرچہ حالیہ کچھ برسوں میں شمال مشرق میں مجموعی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور پیچیدہ ناگا مسائل کا حل نکالنے کے لیے مذاکرات کی کوششیں بھی کی گئی ہیں تاہم منی پور، تری پورہ، آسام اور ناگا لینڈ میں مسلح تحریکیں ابھی تک سرگرم ہیں۔
مرکزی حکومت کی مسلح افواج کی موجودگی، ریاستی پولیس کے پست حوصلے اور نااہلی کے باعث ان ریاستوں کا انصرام فوج کے ہاتھ میں ہے۔ انتشار کا شکار ان ریاستوں میں انتہائی سفاکانہ قانون آرمڈ فورسز(خصوصی اختیارات) ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) نافذ ہے جس کے تحت فوج کہیں بھی تلاشی لینے کا اختیار رکھتی ہے اور جس کو جی چاہے حراست میں لے سکتی ہے۔ اس قانون کی بنیاد پر شمال مشرقی علیحدگی پسند علاقوں میں کشمیر کی طرح انسانی حقوق کی بے دریغ خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔
بھارتی جمہوریت نے اپنے شہریوں کے اعتماد کو کئی اعتبار سے ٹھیس پہنچائی ہے، خاص طور پر انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اندرا گاندھی کے دور میں جبری نس بندی کی مہم یا مشرقی پاکستان میں خفیہ کارروائیوں کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب کانگریس کا موازنہ بی جے پی کی ہندتوا نظریات سے کیا جائے تو یہ کم تر برائی معلوم ہوتی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی راج کا ہٹلر کی نسل پرست حکومت سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، ویسے ہٹلر بھی ''جمہوری'' طور پر منتخب ہوکر حکومت میں آیا تھا۔ اب سنگھ پریوار ''ہندتوا'' کی تشکیل کے لیے انسانی حقوق سے متعلق رہی سہی کسر بھی پوری کردے گی۔
ہندتوا فکر نازیوں سے بہت مماثلت رکھتی ہے تاہم نازیوں کی بنیاد قومی اشتراکیت پر تھی جب کہ یہ ہندو قوم پرستی کی کٹر شکل ہے۔ اس کے مطابق ہندوستانی کا مطلب ہندو ہونا ہے۔ مسلمان، عیسائی اور دیگر غیر ہندو اس کے مطابق غیر ملکی اور اجنبی تصور کیے جاتے ہیں اور انھیں ''بھارت ماتا'' کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسی بنیاد پر انھیں مساوی حقوق کا مستحق نہیں گردانا جاتا۔ بھارت میں بسنے والوں کو حقیقی معنوں میں بھارتی یعنی ہندو بنانا سنگھ پریوار اور اس کے سیاسی بازو بی جے پی کا بنیادی مقصد ہے۔
جو سرجھکانے سے انکار کردے اسے جبری تبدیلی مذہب اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم اور روزگار سے محرومی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر ہراساں کرنے کے واقعات آئے روز ہورہے ہیں۔ صرف گائے کا گوشت کھانے ، لے کر جانے یا گھر میں رکھنے کے شبہے میں بے لگام ہجوم مسلمانوں کو قتل کرڈالتے ہیں۔ سماج میں انسانی حقوق کی آوازوں کو دبانے والے ہندوتوا کے مذہبی قوم پرستوں کو بھارتی حکومت کی کھلے عام اور خفیہ حمایت حاصل ہے۔خواتین کے حقوق کی صورت حال بھی بدترین ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2019کی رپورٹ کے مطابق: '' ملک بھر میں جنسی زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آنے سے نظام قانون و انصاف کی ناکامی بے نقاب ہوچکی ہے۔
زیادتی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی داد رسی کے لیے بنائے گئے قوانین میں ترمیم ہوئے تقریباً چھے برس کا عرصہ ہونے کو ہے، اس کے بعد سے خواتین کو یہ جرائم رپورٹ کرانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ خواتین ہی کو ذمے دار ٹھہرانے کا رویہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے، اس کے علاوہ گواہیوں کی کمی اور متاثرین کی حفاظت کے قوانین میں سقم کے باعث خواتین ہراسگی اور دیگر خطرات کے لیے آسان ہدف بن چکی ہیں''۔ مودی راج آیندہ پانچ برس تک قائم رہے گا یعنی آنے والے ماہ و سال میں حالات مزید سنگین ہوتے جائیں گے۔ امریکا اور بین الاقوامی برادری اگر محض اپنے چند کاروباری یا سیاسی مفادات کے لیے بھارت میں جاری انسانی حقوق کی پامالی پر خاموشی اختیار کرتے ہیں تو یہ بھارت پر مودی راج سے بھی بڑا المیہ ہوگا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)