برہمی
وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی کابینہ کی تبدیلی کے بعد اپنے اوپر سرکاری بوجھ مزید بڑھا لیا ہے۔
چند ٹکوں کی خاطر شہر بیچ ڈالا گیا ، بے حسی کی انتہا ہے آپ نے اپنا آپ بیچا، ضمیر بیچا ، آپ زندہ کیسے ہیں؟ یہ سوال سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایک کیس کی سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے کیا۔
جس کا جواب سندھ حکومت کی ذمے داری ہے، جس کے محکموں نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے ۔اس حکومت کے سربراہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ہیں جو بظاہر تو بڑے فعال اور متحرک ہیں اور انھیں دو سال قبل جب وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا تو ان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں اور عدالت عظمیٰ میں مراد علی شاہ کی حکومت میں جو ریمارکس دیے جاچکے ہیں، اتنے سخت ریمارکس تو بزرگ سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے دور میں بھی عدلیہ نے نہیں دیے تھے جن کو سندھ میں سب سے زیادہ عرصہ وزیر اعلیٰ سندھ رہنے کا اعزاز حاصل ہے مگر سخت ترین ریمارکس موجودہ وزیر اعلیٰ کے حصے میں آئے ہیں۔ عدالتی ریمارکس کے مطابق کراچی ڈوب رہا تھا اور وزیر اعلیٰ ایک بنگلے میں بیٹھے ہدایات دے رہے تھے جب کہ گورنر اور میئر ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی کابینہ کی تبدیلی کے بعد اپنے اوپر سرکاری بوجھ مزید بڑھا لیا ہے اور خزانہ، داخلہ، ترقیاتی امور کے بعد محکمہ تعلیم بھی اپنے اختیار میں لے لیا ہے کیونکہ سابق وزیر تعلیم نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے دس سالہ دور میں محکمہ تعلیم کا بیڑا غرق کرنیوالے سابق وزرائے تعلیم کی کارکردگی کا پول کھولتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ان کے دور میں بھرتی کیے گئے ایک ہزار سے زائد اساتذہ کی خود اپنی تعلیم کا یہ حال ہے کہ انھیں دستخط بھی نہیں آتے۔ سابق وزیر تعلیم نے سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کی جدوجہد میں اپنی بیٹی تک کو نجی اسکول سے سرکاری اسکول میں داخل کرا دیا تھا۔
سابق وزیر تعلیم کی اچھی کارکردگی پی پی حکومت کو پسند نہ آئی اور اس نے محکمہ تعلیم میں کرپشن کے ذمے دار اپنے رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی بجائے ان سے متعلق سچ بولنے والے اپنے ہی وزیر کا محکمہ تبدیل کردیا۔ سپریم کورٹ میں ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا گیا کہ ''شہر میں کتنی عمارتیں زیر تعمیر ہیں'' تو ڈی جی نے کہا کہ ''چار پانچ سو'' جس پر فاضل جج نے کہا کہ '' ہمیں بیوقوف نہ بنائیں ہمیں پتا ہے کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے اور شہر ڈوب رہا ہے، آپ لوگ مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں، شہر میں غیر قانونی تعمیرات کی بھرمار ہے مگر آپ کو شرم نہیں آتی۔'' یہ وہی ایس بی سی ہے جو پہلے کے بی سی اے تھی جسے موجودہ اسپیکر سندھ اسمبلی اور 2008 کے بااختیار وزیر بلدیات سندھ نے کے بی سی اے کا دائرہ پورے سندھ تک وسیع کر کے اپنے ایک بااعتماد افسر کو اس کا سربراہ بنایا تھا جس نے سرکاری سرپرستی میں کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا بازار گرم کرایا اور بعد میں پکڑ سے قبل ہی ملک سے فرار ہوگیا تھا جو اداروں کو نظر نہیں آیا کیونکہ انھیں سیاست سے فرصت نہیں ہے۔
سندھ کے کرپٹ ترین سرکاری افسروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا، جنھوں نے کراچی اور سندھ کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کہہ رہے ہیں کہ سندھ اور شہری حکومت فیل ہوچکے ہیں مگر ذمے داران کو احساس نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ سندھ میں عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو رہا۔ حکومت سندھ کراچی سے متعلق اجلاس میں میئرکو نہیں بلاتی تو ایسے اجلاس کا کیا فائدہ۔ پورے شہرکا بیڑا غرق ہوچکا ہے جگہ جگہ گینگ آپریٹ کر رہے ہیں۔ لالو کھیت، ناظم آباد، کٹی پہاڑی کہیں بھی چلے جائیں یہی حال ہے۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل کی میئر کراچی سے تلخ کلامی ہوئی جو کام سے زیادہ سیاست پر توجہ اور اختیارات کا گلہ کرتے ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ میئر کے پاس اختیارات اور پیسہ سب کچھ ہے مگر یہ جان بوجھ کر کام نہیں کرتے۔ عدالت عظمیٰ نے ایک موقع پر میئر کراچی کی بھی سرزنش کی اورکہا کہ '' میئر آپ خود بنے تھے اور کام بھی آپ نے کرنا تھا میئر بن کر احسان نہیں کیا۔''
فاضل ججوں نے شہر میں بدامنی، بچوں کے غیر محفوظ ہونے، ٹریفک سگنلز پر رکنے کے دوران پیش آنے والے جرائم کا بھی ذکر کیا اور سندھ حکومت کے ساتھ بلدیہ عظمیٰ کے معاملات کا بھی ذکرکیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ عدالت عظمیٰ میں پہلی بارکے الیکٹرک کی کارکردگی پر بھی سخت ریمارکس سننے میں آئے کہ کے الیکٹرک کا ٹھیکہ دیتے وقت یہ نہ دیکھا گیا کہ کے الیکٹرک کما کر اگر اچانک بھاگ جائے تو متبادل کیا ہوگا کیونکہ کے الیکٹرک کا مقصد کمانا ہے ۔ سپریم کورٹ کے مطابق اس دور جدید میں ایسا نہیں ہوتا جو کراچی میں ہوا اور کے الیکٹرک کی غفلت سے کراچی میں 32 جانیں ضایع ہوگئیں اور کے الیکٹرک کے خلاف کہیں کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
سندھ حکومت کے خلاف ماضی میں بھی عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹ سے سخت ریمارکس آتے رہے ہیں مگر اس بار سپریم کورٹ کی طرف سے جو سخت اظہار برہمی اور سخت ریمارکس دیکھے گئے ہیں ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ سندھ میں جو واٹرکمیشن بنایا گیا تھا وہ اب ختم ہوچکا ہے مگر واٹرکمیشن کے قیام نے سندھ حکومت اور اس کے اداروں کی پول کھول کر رکھ دی تھی مگر بدقمستی سے واٹرکمیشن میں توسیع نہیں ہوئی۔
سندھ حکومت کو کام کرنے والے وزیر پسند نہیں بلکہ اپنے وہ سابق وزیر پسند ہیں جن کو نیب اپنے شکنجے میں لے چکا ہے مگر سندھ حکومت نے انھیں دوبارہ وزیر بنا دیا ہے سندھ میں وزیر بلدیات سعید غنی کی کارکردگی کو عوام ہی نہیں متحدہ نے بھی سراہا ہے مگر ان کی جگہ محکمہ بلدیات میں پہلے آزمائے ہوئے شخص کو دوبارہ کیوں وزارت بلدیات دینا ضروری سمجھا گیا۔ مرتضیٰ وہاب حکومت سندھ کی بھرپور ترجمانی کر رہے تھے مگر انھیں قانون اور اینٹی کرپشن کے محکموں سے علیحدہ کردیا گیا۔ پولیس کے محکمے میں بھی یہ حکومت پہلے ہی من مانی کرچکی ہے۔ حکومت سے کراچی والوں کی شکایات بے حد بڑھ چکی ہیں مگر نہ جانے سندھ حکومت کراچی والوں کی بھی حکومت کب بنے گی؟