آئی ایم ایف مالیاتی کنٹرول سی پیک منصوبے لٹک گئے وزیر اعظم کا نوٹس
پابندیوں سے حکومت ایم ایل ون جیسے بڑے ٹھیکے نہیں دے سکتی، نیب کی وجہ سے بیوروکریسی بھی کام سے گریزاں
آئی ایم ایف کی طرف سے 6 ارب ڈالر قرضے کیلیے لگائی گئی سخت شرائط کے بعد سی پیک کے 6 منصوبے عملاً لٹک گئے ہیں جن کا وزیراعظم نے نوٹس لے لیا۔
آئی ایم ایف نے موجودہ مالی سال سے گورنمنٹ گارنٹی کی حد 1.6 ٹریلین روپے تک مقرر کررکھی ہے اور ساتھ ہی بیرونی ادائیگیوں کے بقایا جات بھی نہ روکے جانے کی پابندی لگا رکھی ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے حکومت پاکستان ریلوے کی ایم ایل ون جیسے بڑے ٹھیکے نہیں دے سکتی۔اجلاس میں وزیراعظم کو گوادرکے 300 میگا واٹ بجلی کے منصوبے ،11ہزار میگاواٹ کے کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ ،9 ارب ڈالر کے ایم ایل ون پراجیکٹ ،ایسٹ بے ایکسپریس وے ،گوادرماسٹرپلان اورگوادرفری زون کیلیے ٹیکس مراعات کے معاملات پر بریفنگ دی گئی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم نے ان زیرالتوا معاملات کو حل کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہوئے بیوروکریسی کو ان منصوبوں کی راہ میں تمام رکاوٹیں دور کرنے کی ہدایت کی ۔کوہالہ ہائیڈروپراجیکٹ کے معاملے پر وزیراعظم نے سیکریٹری پاوراور سیکریٹری آبی وسائل کو چیف سیکریٹری آزاد کشمیر سے میٹنگ کی ہدایت کی ۔بیوروکریسی سطح کی اس ملاقات کے بعد وزیراعظم پاکستان اور وزیراعظم آزاد کشمیر میں حتمی ملاقات ہوگی۔
اس منصوبے میں تاخیرحکومت آزادکشمیر کے ان تحفظات کی وجہ سے ہورہی ہے کہ منصوبے کی تکمیل سے اس ریجن میں پانی کا مسئلہ پیداہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے وزارت منصوبہ بندی کوہدایت کی کہ وہ ایم ایل ون پر تیزی سے کام کو آگے بڑھائے۔اس منصوبے کا پی سی 1 جس کی مالیت 2.4 ارب ڈالر ہے وزارت منصوبہ بندی کے پاس زیرالتوا پڑا ہوا ہے۔
اس منصوبے پر حکومت پاکستان اورچین کے مابین 2017ء میں دستخط ہوئے تھے۔وزارت منصوبہ بندی اس پراجیکٹ کی قانونی کلیئرنس کیلئے پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی اور تحقیقاتی اداروں سے کلیئرنس مانگ رہی ہے ۔سی پیک کے تحت دو شاہراہوں کے میگا پراجیکٹس کے کیس نیب کے پاس جانے کے بعد بیورکریسی اس منصوبے میں پیشرفت کرنے سے کترا رہی ہے۔
وزیراعظم نے وزارت منصوبہ بندی اوروزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ مل کر اس منصوبے کی فنانسنگ کے مسئلہ کو حل کریں۔کن سلٹنٹس کا انتظام کریں اوراس ریل پراجیکٹ کیلئے چین سے تازہ یقین دہانیاں حاصل کریں۔ابھی یہ طے کرنا باقی ہے کہ آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کے دوران وزارت خزانہ 9 ارب ڈالر کا قرضہ لے بھی سکتی ہے یا نہیں۔
وزیراعظم نے چیف سیکریٹری بلوچستان ،وزارت بحری امور اور وزارت توانائی کوہدایت کی وہ 300 میگاواٹ کے گوادر پاور پلانٹ کی تعمیر میں حائل تمام رکاوٹیں دور کریں۔نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل نے گوادرماسٹر پلان کیلئے نیا میکانزم بنانے کی تجویز دی ہے،وزیراعظم نے وزارت منصوبہ بندی کو اس کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی ۔ایسٹ بے ایکسپریس بے گوادر پورٹ کی اہم شاہراہ ہے جس سے پورٹ کی تمام ٹریفک نے گزرنا ہے۔ اس منصوبے پرعملدرآمد میں بھی سنگین قسم کے ایشوز حائل ہیں۔
وزیراعظم نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ سکھر ملتان موٹر وے کو چالو کرنے کیلیے موٹروے پولیس کی بھرتی کی منظوری دے اور اس کے افتتاح کی تاریخ فائنل کی جائے۔
دریں اثنا سی پیک اتھارٹی کے قیام سے اس وقت سی پیک سپورٹ سیکریٹریٹ پراجیکٹ اور سی پیک سینٹر آف ایکسی لینس میں کام کرنے والے تقریباً 50 ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
آئی ایم ایف نے موجودہ مالی سال سے گورنمنٹ گارنٹی کی حد 1.6 ٹریلین روپے تک مقرر کررکھی ہے اور ساتھ ہی بیرونی ادائیگیوں کے بقایا جات بھی نہ روکے جانے کی پابندی لگا رکھی ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے حکومت پاکستان ریلوے کی ایم ایل ون جیسے بڑے ٹھیکے نہیں دے سکتی۔اجلاس میں وزیراعظم کو گوادرکے 300 میگا واٹ بجلی کے منصوبے ،11ہزار میگاواٹ کے کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ ،9 ارب ڈالر کے ایم ایل ون پراجیکٹ ،ایسٹ بے ایکسپریس وے ،گوادرماسٹرپلان اورگوادرفری زون کیلیے ٹیکس مراعات کے معاملات پر بریفنگ دی گئی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم نے ان زیرالتوا معاملات کو حل کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہوئے بیوروکریسی کو ان منصوبوں کی راہ میں تمام رکاوٹیں دور کرنے کی ہدایت کی ۔کوہالہ ہائیڈروپراجیکٹ کے معاملے پر وزیراعظم نے سیکریٹری پاوراور سیکریٹری آبی وسائل کو چیف سیکریٹری آزاد کشمیر سے میٹنگ کی ہدایت کی ۔بیوروکریسی سطح کی اس ملاقات کے بعد وزیراعظم پاکستان اور وزیراعظم آزاد کشمیر میں حتمی ملاقات ہوگی۔
اس منصوبے میں تاخیرحکومت آزادکشمیر کے ان تحفظات کی وجہ سے ہورہی ہے کہ منصوبے کی تکمیل سے اس ریجن میں پانی کا مسئلہ پیداہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے وزارت منصوبہ بندی کوہدایت کی کہ وہ ایم ایل ون پر تیزی سے کام کو آگے بڑھائے۔اس منصوبے کا پی سی 1 جس کی مالیت 2.4 ارب ڈالر ہے وزارت منصوبہ بندی کے پاس زیرالتوا پڑا ہوا ہے۔
اس منصوبے پر حکومت پاکستان اورچین کے مابین 2017ء میں دستخط ہوئے تھے۔وزارت منصوبہ بندی اس پراجیکٹ کی قانونی کلیئرنس کیلئے پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی اور تحقیقاتی اداروں سے کلیئرنس مانگ رہی ہے ۔سی پیک کے تحت دو شاہراہوں کے میگا پراجیکٹس کے کیس نیب کے پاس جانے کے بعد بیورکریسی اس منصوبے میں پیشرفت کرنے سے کترا رہی ہے۔
وزیراعظم نے وزارت منصوبہ بندی اوروزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ مل کر اس منصوبے کی فنانسنگ کے مسئلہ کو حل کریں۔کن سلٹنٹس کا انتظام کریں اوراس ریل پراجیکٹ کیلئے چین سے تازہ یقین دہانیاں حاصل کریں۔ابھی یہ طے کرنا باقی ہے کہ آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کے دوران وزارت خزانہ 9 ارب ڈالر کا قرضہ لے بھی سکتی ہے یا نہیں۔
وزیراعظم نے چیف سیکریٹری بلوچستان ،وزارت بحری امور اور وزارت توانائی کوہدایت کی وہ 300 میگاواٹ کے گوادر پاور پلانٹ کی تعمیر میں حائل تمام رکاوٹیں دور کریں۔نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل نے گوادرماسٹر پلان کیلئے نیا میکانزم بنانے کی تجویز دی ہے،وزیراعظم نے وزارت منصوبہ بندی کو اس کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی ۔ایسٹ بے ایکسپریس بے گوادر پورٹ کی اہم شاہراہ ہے جس سے پورٹ کی تمام ٹریفک نے گزرنا ہے۔ اس منصوبے پرعملدرآمد میں بھی سنگین قسم کے ایشوز حائل ہیں۔
وزیراعظم نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ سکھر ملتان موٹر وے کو چالو کرنے کیلیے موٹروے پولیس کی بھرتی کی منظوری دے اور اس کے افتتاح کی تاریخ فائنل کی جائے۔
دریں اثنا سی پیک اتھارٹی کے قیام سے اس وقت سی پیک سپورٹ سیکریٹریٹ پراجیکٹ اور سی پیک سینٹر آف ایکسی لینس میں کام کرنے والے تقریباً 50 ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔