کشمیر کا مسئلہ ایسے حل ہوگا

اگر ہم واقعی کشمیر کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ ہندوستان سے ایک جنگ ہی ہے

کیا کشمیریوں کا لہو صرف آج ہی بہایا گیا ہے؟ (فوٹو: فائل)

کشمیر لہو لہو ہے۔ یہ کوئی آج کی بات تو نہیں ہے۔ ہمارے بعض نام نہاد دانشور اور بلاگرز آج جتنا شور کشمیر کے لیے کررہے ہیں، اس سے پہلے شاید کبھی نہ کیا گیا ہوگا۔ کوئی لکھ رہا ہے کشمیریوں ہم شرمندہ ہیں، کوئی لکھ رہا ہے کشمیریوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ کیا یہ لہو صرف آج ہی بہایا گیا ہے؟ کیا آج سے پہلے اس لہو کی کوئی قیمت تھی؟ کیا آج سے پہلے کشمیریوں کےقتل عام پر کبھی بین الاقوامی برادری کا ضمیر جاگا؟

ہماری قوم کے نام نہاد دانشور آج سے پہلے بھی نہ جانے کتنے صفحے کالے کرچکے ہیں۔ اگر اس طرح صفحے کالے کرنے اور بلاگ لکھنے سے کسی قوم کو آزادی مل جاتی تو پاکستانی شاید آج سے کئی دہائیوں پہلے نہ صرف کشمیر آزاد کراچکے ہوتے بلکہ فلسطین بھی آزاد ہوچکا ہوتا۔

ہر قوم اپنی قومی زندگی کےلیے کچھ اہداف مقرر کرتی ہے۔ پھر اس کو حاصل کرنے کےلیے دن رات کوشش کرتی ہے۔ ہندو نے بھی اپنی قومی زندگی کے کچھ اہداف مقرر کیے تھے۔ جنھیں انہوں نے حاصل بھی کرلیا۔ آج وہ دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی قوت بن چکے ہیں۔ آج ان کی آرمی دنیا کی چند ایک بڑی افواج میں شامل ہے۔ آج ان کے پاس دنیا کے جدید ترین طیارے ہیں۔ دنیا کی چند بڑی بحری قوتوں میں سے ایک بھارتی بحریہ ہے۔ ہم سے نمٹنے کےلیے جو کچھ انھیں درکار تھا وہ سب کچھ انہوں نے پالیا۔ آج ان کے وسائل غیر معمولی ہیں۔ وہ ایک طویل جنگ نہ صرف لڑ سکتے ہیں بلکہ اسے جیت بھی سکتے ہیں۔

آج انہوں نے اسرائیل اور امریکا کی مدد سے ایک ایسا میزائل دفاعی نظام بنالیا ہے، جس کی وجہ سے آج پاکستان کا کوئی میزائل آسانی سے بھارت کی سرزمین پر نہیں اتر سکتا۔ انھیں اب ہمارے کسی میزائل سیریز کی کوئی خاص فکر نہیں ہے،
ان کا فضائی دفاعی نظام اتنا مکمل ہے کہ ہمارا کوئی طیارہ ان کی نظر میں آئے بغیر ان کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوسکتا۔ خلائی ٹیکنالوجی میں آج وہ امریکا کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ آج ان کے خلائی مشن چاند پر پہنچ رہے ہیں،
مریخ کے گرد ان کے سیارے چکر لگا رہے ہیں۔ ہماری سرحدوں کی نگرانی کےلیے نہ جانے کتنے سیارے خلا میں موجود ہیں۔

ہم نے بہ ہزار دقت ایک سیارہ خلا میں چھوڑا تو انہوں نے فی الفور اینٹی سیٹلائٹ میزائل کا تجربہ کرکے ہمیں بتادیا کہ اس سیارے کی ان کے سامنے کوئی اوقات نہیں۔ اب وہ اپنے دوسرے اہداف کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں، جس میں کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنانا بھی شامل ہے۔ اس کے بعد پاکستان کو دنیا سے مٹانا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھارت سے ملنے والے اپنے اقتصادی فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دے گی تو شاید پھر یہی کہنا پڑے گا کہ ہم سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہوگا۔

کیا کبھی ہم نے اپنے لیے بھی کچھ اہداف مقرر کرکے انھیں حاصل کرنے کی کوشش کی؟ کیا کبھی ہم نے اس بات کی تیاری کی کہ ہمیں کشمیر کو آزاد کرانا ہے۔ ایک خونریز جنگ بھارت سے لڑنی ہے۔ ہمیں کتنی اقتصادی قوت درکار ہوگی؟ کتنی فوجی قوت درکار ہوگی؟

کیا کبھی ہمارے لیڈروں نے سنجیدگی سے کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھا؟ کیا آج بھی ہماری حکومت یا فوج ایک لمحہ بھی یہ تاثر دیتے نظر آئے کہ اگر کشمیر میں خونریزی بند نہ ہوئی تو ہم خود اس خونریزی کو روکنے کےلیے اقدامات کریں گے، جس میں فوج کا مقبوضہ کشمیر میں جارحانہ داخلہ بھی شامل ہے؟

آج بھی ہمارے تمام لیڈر یہی کیہ رہے ہیں کہ ''اگر'' بھارت نے جارحیت کی تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ یعنی ابھی بھی ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ ہم خود کوئی کوشش کشمیر کی آزادی کےلیے کریں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیں صرف اپنی سلامتی کی فکر پڑگئی ہے۔

کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا کہ کیوں اتنی بڑی قوم ہوتے ہوئے بھی آج ہم دنیا کی نظر میں بھکاریوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے؟ یہ دنیا بھی ایک انسانی معاشرہ ہی ہے، جہاں عزت اور وقار صرف حیثیت والے کو ہی دیا جاتا ہے۔ آج دنیا کی نظروں میں ہماری حیثیت بھارت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔


ہم مسلمان ہیں تو کیا کبھی ہم نے قرآن کو کھول کر یہ دیکھنے کی بھی کوشش کی کہ ایسی صورت حال میں الله نے ہمیں کیا حکم دیا ہے؟ سب سے پہلے تو الله نے ہمیں الله کی رسی یعنی اسلام کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا حکم دیا اور گروہ بندی سے روکا۔ آج ہماری کیا حالت ہے؟ ہماری سرحدوں پر ہر طرف آگ لگی ہے اور ہماری سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے قائدین کی کرپشن سے بنی دولت کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

الله نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ خواہ ہلکے ہو یا بھاری، نکلو الله کی راہ میں۔ اس کا مطلب ہے کہ چاہے آپ پر دنیاوی ذمے داریاں ہیں یا آپ دنیا کے مال و دولت میں گھرے ہوۓ ہوں، الله کی راہ میں جہاد کےلیے نکلو۔ ایک جگہ الله تعالیٰ نے فرمایا ''تمہیں کیا ہوا ہے کہ الله کی راہ میں نہیں نکلتے ان مغلوب انسانوں کےلیے جن میں مرد بھی ہیں عورتیں بھی اور بچے بھی۔ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں نکال اس قریہ سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ایک دوست عطا فرما اور اپنے پاس سے ایک مددگار عطا فرما۔

الله تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ کیا ایمان والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ یونہی بخش دیئے جائیں گے۔ ابھی تو ہم نے انھیں آزمانا ہے کہ کون ایمان میں کامل ہے۔ تم سے پہلے بھی امتوں پر آزمائشیں آئی ہیں جس میں ان کے ایمان متزلزل ہوگئے، یہاں تک کہ ان کا پیغمبر اور جو ایمان والے ان کے ساتھ تھے وہ پکار اٹھے کہ کہاں ہے الله کی مدد۔ تو کیا الله کی مدد ان کے قریب ہی نہیں تھی۔

آج مذہبی لوگ ہر نماز کے بعد انتہائی خشوع و خضوع سے کشمیر کی آزادی کی دعائیں کررہے ہیں۔ 'یاالله کشمیر کو آزادی نصیب فرما، ہندوستان کو تباہ و برباد فرما'۔ یعنی ہم تو اپنے گھروں میں بیٹھ کر کوئی اچھی سے غیرملکی فلم دیکھتے رہیں اور الله ہماری کسی سعی کے بغیر تمام کفار کا صفایا کردے۔ جب ہم فلم دیکھ کر انگڑائیاں لیتے ہوئے گھر سے باہر نکلیں تو دیکھیں کہ تمام مسلمان آزاد اور خوشحال ہوگئے ہیں۔

یہ بالکل وہی ذہنی کیفیت ہے جو پچھلی صدی میں وسط ایشیا کے بسنے والے مسلمانوں کی تھی۔ جب روسی فوجیں ان کی طرف بڑھ رہی تھیں تو وہ خانقاہوں میں بیٹھے تھے اور الله سے دعا کر رہے تھے کہ یاالله روسی فوج کو تباہ و برباد فرما۔ روسی فوجوں نے انہی خانقاہوں میں گھس کر مسلمانوں کا صفایا کردیا تھا۔

ہمارے لیڈروں کا سب سے بڑا خواب ہنڈرڈ بلین ڈالر کلب کا ممبر بننا تھا، جس کےلیے انہوں نے اس قوم کی دولت کو بیدردی سے لوٹا۔ لیکن کیا آج بھی ہماری قوم انہی لیڈروں کو نہیں پوجتی ہے؟ ہم نے جنھیں اپنی رہبری کےلیے چنا وہ ہمارے ہی جیسے چور اور اچکے نکلے۔ جنھیں صرف اس بات سے غرض تھی کہ ان کی دولت بڑھتی رہے۔ اس کےلیے سب سے پہلے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنا انہوں نے اپنا فرض سمجھا تمام وسائل لوٹ کر اس قوم کی ترقی کے دعوے صرف ہمارا لیڈر ہی کرسکتا ہے۔

آج بھی اگر ہم واقعی کشمیر کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ ہندوستان سے ایک جنگ ہی ہے۔ بغیر جنگ کے نہ کشمیر پہلے آزاد ہوسکا، نہ کبھی ہوگا۔ ہندو تو جنگ کےلیے مکمل تیار ہیں، کیا ہم ہیں؟

جب ہم من حیث القوم اپنی پوری تیاری کے ساتھ ہندو سے جنگ کےلیے میدان میں پہنچ جائیں تب ہم الله سے دعا کریں ''یا الله جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کردیا، اب تو ہمیں اپنی مدد اور نصرت عطا فرما اور کفار پر ہمیں فتح نصیب فرما۔''

ورنہ تو ہندوستان اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتا رہے گا، اور ہم پر دباؤ بڑھاتا رہے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ جب ہمارے اعصاب اس دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہیں گے، تب ہم سے کہا جائے گا کہ اگر ہم ہندوستان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں تو دنیا اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دینے کو تیار ہے۔ بحالت مجبوری جب ہم ہندوستان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے دیں گے، اس کے بعد معمول کی طرح پھر دنیا اپنے وعدوں سے پھر جائے گی۔ ہندوستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر بھی قبضہ کرلے گا۔ پاکستان پھر سلامتی کونسل کا اجلاس بلائے گا۔ اس بار پھر ایک سخت قرارداد پیش کی جائے گی۔ جسے ہندوستان مستقل رکن کی حیثیت سے اپنی ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا۔ کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کےلیے حل ہوگیا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story