نہ جانے کون طالبان سے مذاکراتی عمل کو متاثر کرنا چاہتا ہے مولانا فضل الرحمان
گرجا گھر پرحملہ سوچی سمجھی سازش ہے جس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کی سطح پرآزاد کمیشن قائم کیا جائے،مولانا فضل الرحمان
جے یوآئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں برسر پیکار قوتوں میں اتحاد نہیں کہ وہ کس لئے لڑرہی ہیں،اس صورتحال میں نہ جانے کون مذاکرات کے عمل کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران جے یوآئی(ف)کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ سے نکلنے کے لئے قراداد منظور کی، عام انتخابات سے قبل طالبان سے مذاکرات کے لئے فاٹا کا قبائلی جرگہ تشکیل دیا گیا جس سے سیاسی قیادت نے ملاقات کی اور یہ یقین دلایا کہ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں وہ قبائلی جرگے کی حمایت جاری رکھیں گے۔ طالبان کی جانب سے بھی قومی جرگوں اور آل پارٹیز کانفرنس کا مثبت ردعمل سامنے آیا۔ اس کے علاوہ طالبان نے مذاکرات کی حکومتی پیشکش کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک کی تمام دینی، سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں عسکری جنگ نہیں لڑی جانی چاہئے، پاکستان کے اندر لڑنے والی عسکریت پسند قوتوں میں بھی اتحاد نہیں کہ وہ کس لئے لڑ رہی ہیں، اس صورتحال میں نہ جانے کون مذاکرات کے عمل کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ ان کی نظر میں پشاور میں گرجا گھر پر سوچی سمجھی سازش ہے جس کی تحقیقات کےلئے سپریم کورٹ کی سطح پر آزاد کمیشن قائم کیا جائے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے خطے میں امن کی ضرورت کو محسوس کیا جارہا ہے، پاکستان اور بھارت بھی مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کے حل کی حامی ہیں، کشمیر میں مسلح تحریک آزادی کے خاتمے کو 8 سے 10 برس ہوگئے ہیں، افغانستان میں بھی امریکا اور طالبان مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات کی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے افغانستان سے اپنے فوجی انخلا کے لئے 2014 کا ہدف رکھا ہے، ان کی ذاتی رائے ہے کہ افغانستان اور امریکا کی بات چیت صرف سطحی عمل ہے اس میں کچھ نہیں، امریکا افغانستان میں اپنی موجودگی سے متعلق معاملات کو مرضی کے مطابق منوانا چاہتا ہے، اس سلسلے میں مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کو کچھ اہداف کے لئے استعمال کیا جا رہاہے تاہم ملا برادرکی رہائی افغانستان میں قیام امن کے لیے مثبت پیش رفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو وہاں کی سیاسی نفسیات کے لحاظ سے چلانے کی ضرورت ہے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران جے یوآئی(ف)کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ سے نکلنے کے لئے قراداد منظور کی، عام انتخابات سے قبل طالبان سے مذاکرات کے لئے فاٹا کا قبائلی جرگہ تشکیل دیا گیا جس سے سیاسی قیادت نے ملاقات کی اور یہ یقین دلایا کہ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں وہ قبائلی جرگے کی حمایت جاری رکھیں گے۔ طالبان کی جانب سے بھی قومی جرگوں اور آل پارٹیز کانفرنس کا مثبت ردعمل سامنے آیا۔ اس کے علاوہ طالبان نے مذاکرات کی حکومتی پیشکش کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک کی تمام دینی، سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں عسکری جنگ نہیں لڑی جانی چاہئے، پاکستان کے اندر لڑنے والی عسکریت پسند قوتوں میں بھی اتحاد نہیں کہ وہ کس لئے لڑ رہی ہیں، اس صورتحال میں نہ جانے کون مذاکرات کے عمل کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ ان کی نظر میں پشاور میں گرجا گھر پر سوچی سمجھی سازش ہے جس کی تحقیقات کےلئے سپریم کورٹ کی سطح پر آزاد کمیشن قائم کیا جائے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے خطے میں امن کی ضرورت کو محسوس کیا جارہا ہے، پاکستان اور بھارت بھی مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کے حل کی حامی ہیں، کشمیر میں مسلح تحریک آزادی کے خاتمے کو 8 سے 10 برس ہوگئے ہیں، افغانستان میں بھی امریکا اور طالبان مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات کی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے افغانستان سے اپنے فوجی انخلا کے لئے 2014 کا ہدف رکھا ہے، ان کی ذاتی رائے ہے کہ افغانستان اور امریکا کی بات چیت صرف سطحی عمل ہے اس میں کچھ نہیں، امریکا افغانستان میں اپنی موجودگی سے متعلق معاملات کو مرضی کے مطابق منوانا چاہتا ہے، اس سلسلے میں مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کو کچھ اہداف کے لئے استعمال کیا جا رہاہے تاہم ملا برادرکی رہائی افغانستان میں قیام امن کے لیے مثبت پیش رفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو وہاں کی سیاسی نفسیات کے لحاظ سے چلانے کی ضرورت ہے۔