وزیرخارجہ کی دانا باتیں
معروضی حالات کی بناء پر اسلامی ممالک کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
'' خوش فہمی میں نہ رہیں ، سلامتی کونسل میں کوئی ہار لے کر نہیں کھڑا۔ امت کے محافظوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، دنیا کے بھارت میں مفادات ہیں۔''
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے عید الاضحی کے دن مظفر آباد میں آزادکشمیر کے صدر اور وزیر اعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسی تلخ حقیقت کو آشکار کیا، جس حقیقت کا ہر شخص کو علم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ سلامتی کونسل میں بھارت کی مذمت میں قرارداد منظور نہ ہونے سے وزیر خارجہ کے خدشات کی تصدیق ہوگئی۔
بھارت نے گزشتہ 70 سال کے دوران قابل قدر ترقی کی ہے۔ غربت میں گھری آبادی کے ساتھ ایک جدید صنعتی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ بھارت جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی میں امریکا اور یورپ کا مقابلہ کر رہا ہے۔ امریکا اور کینیڈا کی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہ بھارتی شہری ہیں۔ کئی عالمی مالیاتی اداروں کے اہم عہدوں پر بھارتی شہری فائز ہیں۔
بھارت کے درمیانی طبقہ کا حجم دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں شایع ہونے والی خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی کمپنی نے سعودی عرب کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو سے 24 کھرب روپے کا معاہدہ کیا ہے۔ بھارت کے اس صدی میں ابھرنے والے صنعتکار مکیش امبانی اس معاہدہ کے تحت آرامکو کے 20 فیصد حصہ کے مالک ہونگے۔ امبانی گروپ 5 لاکھ بیرل کا تیل یومیہ خریدے گا۔ یہ گروپ توانائی، ٹیکسٹائل، پیٹروکیمیکل، قدرتی وسائل اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک میں سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اسلامی ممالک سے سو بلین ڈالرکی سالانہ تجارت کرتا ہے، بھارت نے متحدہ عرب امارات میں پچاس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ بھارت کی حیثیت اچانک نہیں بن گئی۔ 15 اگست 1947کو آزاد ہونے والا بھارت لاتعداد مذہبی، لسانی، طبقاتی، صنفی اور ذات پات کے تضادات کا شکار تھا۔ بھارت میں غربت کی سطح پاکستان کے مقابلے میں خاصی زیادہ تھی، مگر جدید بھارت کے معماروں پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابو الکلام آزادکے وژن نے اس ملک کو ترقی کے راستہ پر ڈال دیا۔ بھارت پہلے ہی دن سے کسی ایک بلاک کا حصہ نہیں بنا تھا۔ بھارت نے امریکا اور روس دونوں سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔
پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا وژن ایک جدید جمہوری اور صنعتی ریاست کا قیام تھا، ان کے جانشینوں نے اس وژن کو سبوتاژ کیا۔ پاکستان بغیر کسی وجہ کے سوویت یونین کے مخالفت میں کھڑا کر دیا گیا اور پاکستان امریکا کا اتحادی بن کر فرنٹ اسٹیٹ بن گیا۔ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ فیاضی سے امداد دی۔ اس امداد سے بیوروکریسی نے خوب فائدہ اٹھایا۔ سیاستدانوں کے وارے نیارے ہوگئے اور پھر یہ عام سی بات بن گئی کہ ملک کا ہرکام غیر ملکی امداد سے ہوگا۔ یوں ہماری معیشت غیر ملکی امداد کی محتاج ہوگئی اور ایک غیر حقیقی معاشرہ وجود میں آیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کوریا کی جنگ کا پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔کراچی، لاہور اور لائل پور میں ٹیکسٹائل کی صنعت پروان چڑھی۔ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی پٹ سن کی برآمد سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی مگر اس ترقی کو ملک میں انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ یوں مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ پہلی فوجی حکومت نے جنرل ایوب خان کی صدارت میں پاکستان نے امریکا کو پشاور کے قریب بڈھابیر میں اڈہ دیا۔
اس اڈے سے اڑنے والے امریکی جہاز سوویت یونین میں جاسوسی کرتے تھے۔ روس نے ایک امریکی طیارہ گرا لیا، یوں پاکستان سے روس کی دشمنی شروع ہوئی۔ امریکا اور عالمی اداروں کی امداد سے صنعتی ڈھانچہ پروان چڑھا۔ پی آئی ڈی سی کے ادارے نے ملک میں صنعتیں قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکا کی مخالفت کی بناء پر ملک میں اسٹیل مل قائم نہ ہو سکی۔ ایوب خان کی ترقی مغربی پاکستان کے چند شہروں تک محدود رہی۔ ایوب خان نے زرعی اصلاحات کا اعلان کیا مگر یہ اعلان محض فائلوں تک محدور رہا۔ دیہی علاقوں کی ترقی، شرح خواندگی بڑھانے اور صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ یحییٰ خان کا دور خانہ جنگی میں گزر گیا۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بینکوں اور بھاری صنعتوں کو قومیا لیا، یوں ان کی کارکردگی کچھ عرصے کے لیے تو بہتر ہوئی مگر بعد میں بیوروکریسی، سیاستدانوں اور مزدور رہنماؤں کی لوٹ مار نے ان اداروں کو کھوکھلا کر دیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں افغان پروجیکٹ شروع ہوا، امریکا، اتحادیوں اور عرب ممالک نے اربوں ڈالر دیے، مگر یہ رقم کہاں خرچ ہوئی کوئی اس کا جواب نہیں دیتا مگر ملک امن وامان کی ابتری اور بجلی کے لوڈشیڈنگ کے مرض میں مبتلا ہو گیا۔ بینظیرکی پہلی اور دوسری حکومتوں میں انرجی سیکٹر میں کام ہوا۔ نواز شریف کے دور میں موٹرویز بنیں۔ جنرل مشرف کے دور میں پھر امریکا نے اربوں روپے کی امداد دی، ان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے لیزنگ پرگاڑیوں کی فراہمی کی پالیسی کو نافذ کیا۔
اس پالیسی سے گاڑیوں کی تعداد تو لاکھوں تک پہنچ گئی مگر ملک میں سی این جی کی قلت پیدا ہو گئی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مزید خراب ہوگیا۔ سی این جی کی قلت سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوںکی استعداد کم ہوگئی اور ملک لوڈشیڈنگ کے بحران کا شکار ہوا۔ امن و امان کی خراب صورتحال، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور بیوروکریسی کے منفی رویے کی بناء پر سرمایہ کاروں کے لیے ملک میں صنعتوں کے قیام میں دلچسپی ختم ہوگئی۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ازخود نوٹس اور لوڈشیڈنگ کی صورتحال میں دورگزرگیا۔ جب چیف جسٹس نے ترکی کے بحری جہازکو بجلی پیدا نہ کرنے دی تو عالمی عدالت نے پاکستان پر اربوں ڈالرکا جرمانہ کیا۔
میاں نواز شریف کے دور میں سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا اور موٹر وے تعمیر ہوئے۔ پہلی بار عوام کے پبلک ٹرانسپورٹ کے حق کو ریاست نے تسلیم کیا۔ بجلی اورگیس کی قلت دورکرنے کے لیے این ایل جی ٹیکنالوجی کی درآمد کا سلسلہ شروع ہوا ، مگر پھر پاناما اسکینڈل نے سب کچھ ختم کردیا۔ موجودہ حکومت ایک سال گزرنے کے باوجود معیشت کو فعال نہ کرسکی۔ تعلیم یافتہ افراد میں بے روزگاری بڑھ گئی۔ فنانشل ٹیرر ازم کی ایشیا پیسیفک کی ٹاسک فورس کی پابندیوں نے بینکنگ کی صنعت کو خاصا متاثر کیا۔ پاکستان کوگرے فہرست میں شامل کیا گیا۔
اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معیشت زوال پذیر ہوئی۔ سعودی عرب اور دبئی میں مزدوروں کے علاوہ ہنرمندوں کا بھی ملک سے اخراج ہوا ، سعودی عرب میں صنعتیں قائم ہوئیں۔ مقامی افراد کو ان صنعتوں میں ملازمتوں پر ترقی دی جانے لگی۔ سعودی عرب نے خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں پر بھی خصوصی توجہ دی ۔ اب ان ممالک کو افرادی قوت سے زیادہ تکنیکی مشاورت اور سرمایہ کاری کی ضرورت پڑنے لگی۔ پاکستان کے کمزور صنعتی ڈھانچے کی بناء پر پاکستان یہ کردار ادا نہ کرسکا جو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا اور اس صدی کے آغاز تک جاری رہا تھا۔
معروضی حالات کی بناء پر اسلامی ممالک کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ امریکا اور یورپی ممالک کے لیے بھارت کا درمیانی طبقہ سب سے بڑی کشش بن گیا کیونکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار پایا۔ وزیر اعظم عمران خان اس ملک کے بحران کی ذمے داری گزشتہ 10برسوں سے بر سر اقتدار حکومتوں پر عائد کرتے ہیں تو وہ حقائق سے روگردانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔اس ملک کا بحران ان ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کا آغاز جنرل ایوب خان کی حکومت سے ہوا تھا۔
اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری توجہ معیشت کی بحالی، صنعتی ڈھانچے کے پھیلاؤ،بے روزگاری کے خاتمہ اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی پر دی جائے۔ محض جذباتی تقاریر سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ترقی یافتہ پاکستان ہی بھارت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی بات میں بڑا وزن ہے، ان کی باتوں پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے۔