سیاسی اور عسکری قیادت کو 3 برسوں میں کئی معرکے سر کرنا ہونگے

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ توسیع دینے سے کئی دیگر افسروں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور ادارہ بھی دباو کا شکار ہوتا ہے۔


رضوان آصف August 21, 2019
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ توسیع دینے سے کئی دیگر افسروں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور ادارہ بھی دباو کا شکار ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بارے ایوان وزیر اعظم سے جاری ہونے والے حکم نامہ کی تین سطریں ہیں مگر انہی تین سطروں میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ آئندہ تین برس میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کس طرح سے چیلنجز کا مقابلہ کرے گی اور کیا ان تین برسوں میں سیاسی و عسکری لوسٹوری میں''بریک اپ'' کا موڑ بھی آنے کا امکان ہے؟

فی الوقت تو تحریک انصاف بھی خوشی کے شادیانوں پر بھنگڑے ڈال رہی ہے اور مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں جبکہ اپوزیشن کی جانب سے آنے والے ابھی تک کے بیانات بھی''خیر مقدم'' اور''ملکی سلامتی کیلئے ناگزیر فیصلہ'' جیسے الفاظ نچھاور کر رہے ہیں۔

توسیع کسی بھی محکمے میں ہو اس کی مخالفت کی جاتی ہے اور بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ توسیع دینے سے کئی دیگر افسروں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور ادارہ بھی دباو کا شکار ہوتا ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جس طرز کی حکومتیں اور حکمران آتے رہے اس نے عوام کو مزید تکلیف میں مبتلا کیا،کرپشن انتہاوں کو چھو گئی، معیشت مصنوعی پن کا شکار ہوئی اور معاشی فیصلے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کی بنیاد پر کئے گئے، غریب کیلئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا لیکن ارباب اقتدار کیلئے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے والا مال سنبھالنا مشکل بن گیا، ایسے میں پاکستان کے عوام کو عمران خان کی صورت میں متبادل آپشن دکھائی دیا اوراب عمران خان اور اس کی حکومت جو سیاسی، معاشی اور دفاعی جنگ لڑ رہی ہے۔

اس میں عمران خان کو اپنا آرمی چیف کو نہ بدلنے کا فیصلہ ہی درست لگا ہے۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کسی قسم کا سرپرائز نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف حکومت کے قیام کے فوری بعد باخبر اور مقتدر حلقوں میں یہ بات وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع لازمی ہو گی۔

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے بحیثیت آرمی چیف گزشتہ تین برس کا مکمل غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو گزشتہ تین دہائیوں کے دوران وہ سب سے مفید اور موثر چیف ثابت ہوئے ہیں، ان سے قبل جنرل راحیل شریف نے میاں نواز شریف کو کافی''ٹف ٹائم'' دیا تھا اور پانامہ لیکس کے معاملے پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا موقف بہت واضح تھا لہذا جب نئے آرمی چیف کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو سب سیاسی و سماجی حلقوں کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف اپنی مشکلات کم کرنے کیلئے اپنا''خاص'' بندہ منتخب کریں گے۔

جنرل قمر باجوہ کو جب نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا تو بہت سے لوگوں کیلئے یہ ''سرپرائز'' تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی بحیثیت آرمی چیف میاں نواز شریف سے پہلی ملاقات کی تصویر نے بھی بہت سے سوال اور اعتراضات کھڑے کر دیئے تھے۔

اس تصویر میں میاں نواز شریف اپنی سرکاری میز کے ساتھ رکھی کرسی پر براجمان تھے اور آرمی چیف میز کے دوسری جانب والی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، ملک میں کرپشن اور ناکام حکمرانی کی مخالفت کرنے والوں کیلئے یہ تصویر ''دل توڑ'' تھی اور یہ سمجھا جانے لگا کہ اب میاں نواز شریف سمیت دیگر حکمرانوں کا احتساب نہیں ہو پائے گا لیکن جنرل باجوہ نے ابتک کے عرصہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے اہم ترین کردار ادا کیا ہے اور کرپٹ حکمرانوں کو چھوڑنے کی غیر ملکی سفارشیں بھی ملکی مفاد میں مسترد کی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور قومی خزانہ تقریبا خالی ہو چکا تھا، ایسے وقت میں آرمی چیف جنرل باجوہ نے بیرون ملک ہنگامی دورے کئے، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عر ب امارات کی جانب سے پاکستان کی مالی امداد کا جتنا کریڈٹ عمران خان کو ملتا ہے اس سے کچھ زیادہ آرمی چیف کا کریڈٹ ہے کیونکہ یہ تینوں ممالک پاکستان کی سیاسی قیادت سے زیادہ عسکری قیادت پر اعتماد کرتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی حکومت گرانے کی کوشش بھی اسی لیئے ناکام ثابت ہوئی کیونکہ عسکری قیادت ملک میں جمہوریت کا استحکام چاہتی ہے ۔

متحدہ اپوزیشن کو یہ ''خوش فہمی'' تھی کہ شاید عمران خان اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور محاذ آرائی کی عادت کی وجہ سے نیا آرمی چیف مقرر کریں گے اور یوں نئے آرمی چیف کے آنے سے متحدہ اپوزیشن کو پاوں پر کھڑا ہونے کا موقع مل جائے گا لیکن اب تو اپوزیشن کی صفوں میں صف ماتم بچھ چکی ہے اور جن کے خلاف کرپشن تحقیقات اور کیس چل رہے ہیں وہ بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ اپوزیشن کو یہ خوش فہمی پالنا ہی نہیں چاہئے تھی۔

مقبوضہ کشمیر پر اس وقت پاکستان اور بھارت جس طرح سے سفارتی اور عسکری محاذ پر مدمقابل ہیں ان حالات میں مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما سمجھ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے آئندہ تین سال تو ''محفوظ'' ہو گئے ہیں اور 29 نومبر2022 ء کو توسیعی مدت مدت مکمل ہونے کے بعد جب جنرل باجوہ ریٹائر ہوں گے تو اس وقت سنیارٹی کی ٹاپ فائیو لسٹ میں موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض بھی موجود ہوں گے اور ممکنہ طور پر وہی نئے آرمی چیف کیلئے عمران خان کی اولین پسند ہوں گے، یوں حکومت کا آخر ی سال بھی ''آرام''سے گزر جائے گا ۔ تحریک انصاف والے جو مرضی سوچیں لیکن زمینی حقائق اور اسٹیلبشمنٹ کا ٹارگٹ قدرے مختلف معلوم ہو رہا ہے۔

افواج پاکستان پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک میں کرپشن کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کی خواہشمند ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں احتساب کا شکنجہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ تحریک انصاف اوراتحادی جماعتوں کے رہنماوں کے گرد تنگ ہوگا۔''مناسب'' وقت آنے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلی بھی تبدیل ہوں گے کیونکہ ان کی طرز حکمرانی اور حکومتی گرفت پر مقتدر حلقے غیر مطمئن ہیں۔

18 ویں ترمیم میں سے بعض شقیں ختم ہوں گی اور کچھ اختیارات واپس وفاق کو ملیں گے۔ وفاقی و صوبائی کابینہ میں بھی تبدیلیاں ہوں گی، جو وزراء نکمے ہیں اور جو وزراء ''مال بناو مہم'' شروع کر چکے ہیں انہیں گھر بھیج دیا جائے گا۔خطے میں بھارت کی بالادستی کے خواب کو چکنا چور کرنے کیلئے نئی سفارتی و عسکری ڈاکٹرائن متعارف کروائی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔