آہ احمد ہمیش

اتوار 8 ستمبر اور پیر 9 ستمبر کی درمیانی شب تقریباً ڈیڑھ بجے اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تو ہم نے اسے خطرے کی۔۔۔


Shakeel Farooqi September 23, 2013
[email protected]

اتوار 8 ستمبر اور پیر 9 ستمبر کی درمیانی شب تقریباً ڈیڑھ بجے اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تو ہم نے اسے خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے ریسیور کان سے لگایا تو دوسری جانب شجاعت حسین کو مخاطب پایا:

''خیر تو ہے نا شجاعت ؟'' ہم نے گھبرا کر پوچھا۔
''آپ نے ٹی وی پر چلتا ہوا ٹکر تو دیکھ ہی لیا ہوگا؟'' انھوں نے سوالیہ انداز میں کہا۔
''نہیں بھائی! ہم تو اپنا ٹی وی آف کرکے ابھی سونے کی تیاری کر رہے تھے۔'' ہم نے جواب دیا۔
''اپنے احمد ہمیش انتقال فرماگئے، کل بعد نماز عصر ان کی نماز جنازہ اور تدفین ہوگی''۔

''کیا کہا۔۔۔؟ ہمیش جی بھی چل بسے، انا للہ وانا الیہ راجعون!'' سکتے کی حالت میں ہمارے منہ سے بس یہی الفاظ نکل سکے۔ اس کے بعد تو گویا آنکھوں کی نیند ہی اڑ گئی اور ہمیش جی کے ساتھ گزرا ہوا پورا عہد پردہ سیمیں پر چلنے والی فلم کی طرح چشم تصور کے آگے سے گزر گیا۔ ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس میں ہمارا ساتھ برسوں پرانا تھا۔ شجاعت حسین،حسن نجمی اور ریحانہ احمد میری اس ٹیم میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ریڈیو پاکستان کے مستقل ملازم کے طور پر شامل تھے جب کہ احمد ہمیش اس ٹیم کے ساتھ بطور جزوقتی آرٹسٹ مسلسل وابستہ تھے۔ بے مثل آواز کے حامل کی رحلت کو تو ایک عرصہ گزر گیا جب کہ ریحانہ احمد کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ 1984 میں ہندی سروس کی اسلام آباد منتقلی کے نتیجے میں ہمیش جی کا اور ہمارا ساتھ چھوٹ گیا کیونکہ کراچی کو چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ ہماری ہندی سروس کے وہ ایک انتہائی فعال رکن تھے جس میں لائیو پروگراموں میں شرکت کے علاوہ حسب ضرورت اسکرپٹ لکھنا بھی شامل تھا۔ ہندوستان کے لیے نشر ہونے والی ہندی سروس ہم سب کے لیے ایک خاندان کی طرح تھی جس میں ہم سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔

ہندی سروس وہ پلیٹ فارم تھا جس نے ہمیں اور ہمیش جی کو یکجا کردیا اور اس کے بعد تاحیات ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ خلوص میں وابستہ اور پیوستہ رکھا۔ سنسکرت اور ہندی کو ہم دونوں کے درمیان قدر مشترک کی حیثیت حاصل تھی۔ ان ہی کے الفاظ میں ''میری تعلیم سنسکرت اور ہندی میں ہوئی۔ فارسی اور اردو میرے مطالعے میں بہت بعد کے حالات میں آئی''۔ نثری نظم جسے انھوں نے اردو میں بھرپور انداز میں متعارف کرایا اور پروان چڑھایا اس کا آہنگ سنسکرت ناٹک کے ستم وادوں ''مکالموں'' اور بنگلا نثر کی شاعری کے حوالے سے سب سے پہلے ہندی کے نام ور شاعر سوریہ کانت ترپاٹھی کے یہاں آیا جن کا تخلص نرالاؔ تھا، اور جو چھایا واد کی نمایندہ شاعرہ مہادیوی ورما کے ہم عصروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہندی کے ایک اور نام ور شاعر اور ادیب واتسائن اگیہ کے شعری مجموعے ''تارسپتک'' کے مطالعے نے احمد ہمیش کی اردو نثری نظم پر اکسایا اور اس میں زیادہ شدت سروکیشور ویال سکسینہ کی نثری نظموں کو پڑھ کر آئی جو ہندوستان کے مشہور و معروف ہندی پرچے ''دنمان'' کے مدیر تھے۔ احمد ہمیش نے ہندی نثری شاعری کے زیر اثر ہی پہلی بار اردو میں 1960 کی دہائی میں جو نثری نظمیں لکھیں ان میں سے ایک نظم بعنوان ''اور یہ بھی ایک ڈائری'' 1962 میں لاہور کے ماہنامہ ''نصرت'' میں شایع ہوئی جس کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

پر بھات میں جب وہی گھنٹیاں بجیں گی
جو صدیوں سے کنول توڑنے والے کو ہی سنائی دیتی ہیں
تو سرسوتی اترے گی
ودیا تیری جے ہو

یوں احمد ہمیش نے اردو زبان میں نثری نظم کی داغ بیل ڈالی جس پر شروع شروع میں بڑا ہاہاکار مچا اور لوگوں نے اسے نظم ماننے سے ہی انکار کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں اس کے بانی ہونے کے کئی دعوے دار پیدا ہوگئے اور آگے چل کر اسے اتنی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوگئی کہ نثری نظم کہنے والوں کی پوری ایک کھیپ پیدا ہوگئی جس میں بہت سے پیارے پیارے اور معتبر نام شامل ہیں۔

احمد ہمیش کا اصل نام احمد قریش تھا جب کہ ان کے والد محترم کا نام ابواللیث صدیقی تھا۔ وہ یکم جولائی 1940 کو موضع بانس پار، ضلع بلیا، یوپی میں پیدا ہوئے جو اب اترپردیش کہلاتا ہے۔ پاکستان میں ان کی آمد 1955 میں ہوئی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1958 میں شاعری سے ہوا جب کہ اپنی پہلی کہانی انھوں نے 1963 میں تحریر کی جس کا عنوان تھا ''بے زمینی''۔ یہ کہانی ان کے افسانوں کے مجموعے میں شامل ہے جس کا نام ہے ''کہانی مجھے لکھتی ہے''۔ یہ مجموعہ 35 سال کے دوران لکھی گئی ان کی منتخب کہانیوں پر مشتمل ہے جس کا انتساب انھوں نے اپنی شریک حیات محترمہ شہناز ہمیش کے نام کیا ہے اور جس کا پیش لفظ ان کی لائق و فائق صاحبزادی انجلا ہمیش نے بقلم خود تحریر کیا ہے جو اپنا سیف نما قلم تھامے ہوئے اپنے بے مثل لکھاری باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فن کے گہوارے ''ناپا'' کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ''عرض ناشر'' کے عنوان سے اپنے پیش لفظ میں وہ رقم طراز ہیں کہ ''بیٹی ہونے سے زیادہ میں ایک قاری ہونے کے ناتے یہ کہوں گی کہ احمد ہمیش کہانی اور شاعری دونوں اصناف میں اردو ادب میں دبستان کا درجہ رکھتے ہیں''۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا تعرض نہیں کہ انجلا کی رائے سے ہم صد فیصد متفق ہیں۔

''خوشبو کا خمیر اٹھتا ہے خاکستر گل سے'' والے مصرعے کے مصداق احمد ہمیش کی ہر تحریر کا خمیر مشرق سے ہی اٹھتا ہے خواہ وہ ان کی شاعری ہو یا نثری شہ پارہ۔

ان کا ماننا تھا کہ ''ہماری کہانی کا اول و آخر رشتہ دار سورج ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس کائناتی نمایندہ اول وابد نے مشرق اور تصور مشرق کا اجرا کیا''۔ وہ کہتے ہیں کہ ''پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کا نام نہاد مغرب ہمارے امیر خسرو، کبیرداس، میرا بائی، حضرت بیدل، میرتقی میر اور نظیر اکبر آبادی کی اکبریت کا چربہ ہے۔ ہمیش کا کہنا ہے کہ ''ہماری کہانی کی تاریخ غلط لکھی گئی۔ حالانکہ جب کبھی نہ مغرب ہوا کرتا تھا، نہ تصور مغرب ، نہ یورپ کی کوئی نطفہ ناتحقیق قوم۔۔۔'' وہ محی الدین ابن عربی کی عظمت کے قائل ہیں اور ان کے خیال میں ملٹن نے بھی فردوس گمشدہ (Paradise Lost) کی صورت میں اپنی معرکۃ الآراء نظم کا تصور محی الدین عربی سے ہی اخذ کیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے بیشتر ہم عصروں کے برعکس احمد ہمیشہ مغربی رجحانات سے مرعوب تو کجا مغرب کے کسی بھی رجحان سے کبھی متاثر تک نہ ہوئے اور نہ ہی کبھی اسے خاطر میں لائے۔''کہانی مجھے لکھتی ہے'' ان کی منفرد کاوش ہے جس میں انھوں نے کہانی کو نہایت خوبصورتی سے Personify کرتے ہوئے یہ باور کرایا ہے کہ ''حقیقی اور سچی تحریر لکھنے والے کو اپنی گرفت میں لے کر اس سے وہی کچھ لکھواتی ہے جو کھرا سچ ہوتا ہے۔ مجسم کہانی کے ساتھ عجیب و غریب مکالموں پر مبنی یہ دلچسپ اور منفرد تحریر احمد ہمیش کو اپنے تمام ہمعصروں میں ممتاز کرتی ہے۔

اسی مجموعے میں ان کی اچھوتی اور انقلاب آفریں کہانی ''مکھی'' بھی شامل ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس کہانی کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم شایع ہوکر خراج تحسین وصول کرچکے ہیں احمد ہمیش کی تحریروں پر اپنی بے لاگ ناقدرانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے ثقہ نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ایک بار یہ کہا تھا کہ ''جو لوگ انھیں پسند کرتے ہیں، وہ تو خیر انھیں پڑھتے ہی نہیں، لیکن جو لوگ انھیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے وہ بھی ان کی کہانیاں پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ احمد ہمیش کی بڑی کامیابی ہے۔''

احمد ہمیش کل وقتی لیکھک تھے اور لکھنا ان کا محض مشغلہ اور جنون ہی نہیں بلکہ واحد ذریعہ معاش بھی تھا۔ مگر چونکہ وہ کسی انجمن ستائش باہمی یا کسی مخصوص ادبی گروہ سے وابستہ نہیں ہوئے اور ہمیشہ کسی بھی لابی کا حصہ بننے سے گریز کرتے رہے اس لیے آخر مشکلات کا شکار رہے۔ مزاجاً ایک سچے اور کھرے آرٹسٹ تھے۔ انھیں بیک وقت شاعری، کہانی کاری، مصوری اور ڈرامہ نگاری سے گہرا لگاؤ تھا۔ ڈرامے سے اسی لگاؤ نے ان کی زندگی کے آخری حصے میں انھیں ''ناپا'' نامی ادارے سے وابستہ کردیا جہاں انھوں نے ہندی کے منتخب ناٹکوں کے تراجم کرکے انھیں اردو کے قالب میں ڈھال دیا۔فن کسی بھی طرح کا ہو اپنی تکمیل کے لیے بھرپور توجہ اور زندگی بھر کی محنت و ریاضت کا تقاضہ کرتا ہے۔احمد ہمیش نے ہمت کرکے ''تشکیل'' کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا جو انفرادیت کے لحاظ سے ایک ادبی شاہکار تھا۔ مگر رسائل کی کمی اور نامساعد حالات کی وجہ سے یہ سلسلہ تادیر جاری نہ رہ سکا۔ ان کا خوبصورت شعری مجموعہ ''ہمیش نظمیں'' کے عنوان سے 2005 میں شایع ہوکر منظر عام پر آیا جو ان کے فکروفن کا آئینہ دار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔