ہے انھیں کوئی پوچھنے والا
مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت کے پہلے 100 روز مکمل ہونے تک مہنگائی کا جو ریکارڈ قائم ہوا ہے اس نے۔۔۔
مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت کے پہلے 100 روز مکمل ہونے تک مہنگائی کا جو ریکارڈ قائم ہوا ہے اس نے موجودہ حکومت کی نہ صرف کارکردگی کو عیاں کردیا ہے بلکہ نئی حکومت اپنے ریکارڈ خود ہی توڑنے میں مصروف ہے ۔ عوام نے پیپلز پارٹی کی حکومت سے مایوس ہوکر مسلم لیگ کی حکومت سے ازحد توقعات وابستہ کرلی تھیں جس کی سزا نئی حکومت نے عوام کو اپنے پہلے 100 دنوں میں دے دی ہے ۔
18 ویں ترمیم کے بعد قیمتوں اور مہنگائی کا سب سے اہم عوامی مسئلہ اب وفاقی حکومت کا دردسر نہیں رہا ہے اور یہ ذمے داری اب متعلقہ صوبے کی حکومت کی ہے۔ مہنگائی پر کنٹرول، قیمتوں کا تعین اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا اب صوبائی حکومتوں کا کام ہے اور اس سلسلے میں چاروں سابق صوبائی حکومتوں نے 2008 میں برسر اقتدار آتے ہی اپنا پسندیدہ کمشنری نظام بحال کرکے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کا تقرر کردیا تھا اور 18 ویں ترمیم کے بعد عوام کو خوشخبری دی تھی کہ ان کے ذریعے مہنگائی پر کنٹرول کرایا جائے گا ۔
مگر کمشنری نظام بھی اس سلسلے میں ناکام رہا اور نئے انتخابات کے بعد رمضان المبارک میں بھی کمشنری نظام عوام کو اشیائے ضرورت مناسب قیمتوں پر تو کیا دلاتا بلکہ رمضان سے قبل ہی جو مہنگائی بڑھادی گئی تھی وہ بھی کم نہ کراسکا اور چاروں صوبائی حکومتوں کی نااہلی و ناکامی سے رمضان المبارک میں گراں فروشوں نے نئی حکومت کا استقبال ازحد مہنگائی بڑھاکر کیا اور کسی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ رمضان میں ہونے والی مہنگائی اب اس کے بعد بھی برقرار رہنے لگی ہے اور کئی سالوں سے رمضان سے قبل بڑھائی جانے والی قیمتیں اب عید کے بعد بھی برقرار رہنے لگی ہیں۔ اس رمضان المبارک سے قبل ملک میں قائم سندھ و پنجاب حکومتیں دوبارہ منتخب ہوئی تھیں اور کے پی کے اور بلوچستان میں قائم ہونے والی نئی حکومتوں نے شاید اپنے قیام کی خوشی میں گراں فروشی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور گراں فروشوں کو کھلی چھٹی عوام کو لوٹنے کی دے دی تھی اس لیے ملک بھر میں عوام چاروں ہاتھوں پاؤں سے لوٹے گئے جس کی ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کس بے دردی سے لوٹے گئے۔ میرے ایک دوست کی نیو کراچی میں بیکری ہے جس کے باہر شام کو سموسے پکوڑے، جلیبی فروخت ہوتی ہے۔ میرے دوست نے فخریہ بتایا کہ انھوں نے اس رمضان میں سموسے پکوڑوں سے اخراجات کاٹ کر 85 ہزار روپے بچائے ہیں۔
صرف کراچی ہی نہیں لوٹ کھسوٹ کی گراں فروشی چھوٹے شہروں کے مقابلے میں بڑے شہروں میں زیادہ ہے جہاں کمشنر بھی موجود ہیں مگر ڈپٹی کمشنروں کو سرکاری فرمائشیں پوری کرنے اور ارکان اسمبلی کو خوش رکھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی میں جکڑے عوام پر کچھ توجہ دے سکیں۔ مشرف دور میں عوام اپنے ناظمین سے باآسانی مل لیتے تھے مگر اب وہ مہنگائی کا رونا رونے کمشنر، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کے پاس جائیں تو وہاں ارکان اسمبلی اور نئی حکومتوں کے نئے معززین بیٹھے ہوتے ہیں اور عملہ نجی ملاقاتوں کو میٹنگ کا نام دے کر لوگوں کو صاحب بہادروں سے ملنے نہیں دیتا اور لوگ مایوس ہوکر واپس آجاتے ہیں۔
اب اعلیٰ و عظمیٰ عدالتوں تک یہ باتیں پہنچ گئی ہیں کہ تازہ معیاری پھل اور سبزیاں متعلقہ حکام کے گھروں میں پہنچ جاتی ہیں تو انھیں کیا پڑی کہ وہ پھلوں اور سبزیوں کی مارکیٹوں اور منڈیوں کی لوٹ کھسوٹ پر توجہ دیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔
صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں ہونے والی دہشت گردی، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کے مسائل اور اپنے وزیروں، ارکان اسمبلی اور پارٹی رہنماؤں کے مسائل سے ہی نہیں نمٹ پا رہیں اور انھیں عوام کے سب سے اہم مسئلے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر توجہ دینے کی فرصت کہاں ہے اس لیے تمام صوبائی حکومتیں مہنگائی پر توجہ نہیں دے رہیں اور عوام روزانہ بڑھنے والی مہنگائی کے ہاتھوں بری طرح سے پریشان ہیں۔
سبزیوں و پھلوں کی قیمتوں کے تعین کے لیے ہر صوبے میں مارکیٹ کمیٹیاں قائم ہیں اور نام کی حد تک بیوروآف سپلائی اینڈ پرائسز بھی موجود ہے اور کہیں کہیں اس کا وزیر بھی ہوتا تھا۔ جب تک ملک میں سیاسی حکومتیں نہیں ہوتیں یہ ادارے کچھ کرلیتے ہیں مگر سیاسی دور میں کچھ نہیں ہوتا صرف کرپشن عروج پر ہوتی ہے۔
ملک میں آٹا، دالیں، گھی، چاول، مصالحہ جات، پھل و سبزیاں اور روزمرہ کے استعمال میں آنے والی اشیا گراں فروش من مانی قیمتوں پر فروخت کرتے آرہے ہیں جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پہلے یہ تاثر عام تھا کہ ریڑھی پتھاروں پر سستی اشیاء مل جاتی ہیں کیونکہ ان پر نہ کوئی ٹیکس ہوتا ہے نہ انھیں دکانوں کے بھاری کرائے دینے پڑتے ہیں یہ صرف سرکاری اہلکاروں کو بھتے دے کر مال فروخت کرتے ہیں مگر اب ان ریڑھی اور پتھارے والوں نے مہنگا مال فروخت کرکے عوام کو لوٹنے میں دکانداروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
کہنے کو تو یہ غریب ریڑھی پتھارہ لگانے والے ہیں مگر ان کی کمائی دکانداروں سے کہیں زیادہ ہے۔ ان میں اکثر غریبوں کے پاس مال لانے کے لیے اپنی گاڑیاں ہیں۔ ایک بڑی تعداد پک اپ میں بھی کاروبار کرتی ہے۔ اب اندرونی سڑکوں پر بھی ریڑھیاں لائن سے لگاکر عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ آج کل آم کے بعد سیب کا موسم ہے۔ کسی ریڑھی والے سے نرخ پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ صاحب 120 روپے والا 100 روپے میں لے لو، جب کہ یہی سیب درمیانے درجے کا پچاس ساٹھ روپے میں بھی مول تول سے مل جاتا ہے۔ آخر حکومتی ادارے ان لٹیروں پر توجہ دے کر ان کے نرخ چیک کیوں نہیں کرتے۔ انھیں کوئی پوچھنے والا کیوں نہیں ہے؟ اشیائے ضرورت کے نرخ مقرر کرکے ان پر عمل کرانے والے خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں اور صوبائی حکومتیں اپنا آئینی اختیار کیوں نہیں استعمال کر رہیں کہ عوام کو گراں فروشوں سے نجات ہی مل سکے؟
تصحیح: میرے گزشتہ کالم ''پولیس عوام سے دور کیوں؟'' میں سہوا سندھ کے موجودہ آئی جی شاہد ندیم بلوچ کے نام کے ساتھ لفظ سابق چھپ گیا ۔