پوپ موسیقیاحمد رُشدی سے عاطف اسلم تک
سب سے پہلی بات ،جس کی کچھ وضاحت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں عموماً پوپ میوزک کو’’ پاپ‘‘ میوزک لکھا جاتا ہے۔۔۔
سب سے پہلی بات ،جس کی کچھ وضاحت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں عموماً پوپ میوزک کو'' پاپ'' میوزک لکھا جاتا ہے۔یہ میوزک کوئی پاپ نہیں ہے۔یہ پوپ میوزک ہے،اس سے مراد مقبول موسیقی ہے۔ پوپ موسیقی اپنی موجودہ شکل میں آنے سے پہلے کئی روپ بدلتی رہی۔''راک اینڈ رول'' اس کی ابتدائی شہرت یافتہ قسم ہے،آگے چل کر یہ ''جیز میوزک''اور''بلیوزمیوزک''میں تبدیل ہوئی،پھر مزید ترقی کی تو ''ڈسکو،ری مکس'' اور موجودہ دورمیں''فیوژن''کی شکل اختیار کی۔
پوپ موسیقی تخلیقی لحاظ سے آسان اورسہل ہے،سننے والے بھی اس کوہلکی پھلی موسیقی کے طورپر سماعت کرتے ہیں۔ اس کی شاعری اورکمپوزنگ میں موسیقاروں اورگلوکاروں کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی انداز میں کوئی بھی گیت گائیں۔اسی وجہ سے پوری دنیا میں پوپ میوزک کی چاہ میں نوجوانوں کا ایک پورا سیلاب امڈ آیا۔انھوں نے دل کھول کر اپنے جذبات کااظہاراورفنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔موسیقی کے نت نئے آلات استعمال کیے۔کسی نے انفرادی حیثیت سے گایا،کسی نے مل کر بینڈ بنایا اور شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔ پوپ موسیقی کی کہکشاں کے روشن ستاروں کی فہرست خاصی طویل ہے،اس کاذکر پھر کبھی سہی۔
پوپ موسیقی کی ابتدا بیسویں صدی سے ہوئی لیکن صحیح معنوں میں اس کی شہرت کی پرواز امریکا سے پچاس کی دہائی میں شروع ہوئی۔مغرب سے مشرق تک پوپ موسیقی کے جادو نے اپنااثر دکھایا۔مقبولیت کایہ سفرامریکا اوربرطانیہ سے ہوتا ہوا لاطینی امریکا کے ممالک سے،چین،جاپان، کوریا،ترکی، بھارت، ترکی سے پاکستان تک آن پہنچا۔مغربی دنیا میں ''دی بیٹلز''اور''دی رولنگ اسٹونز''جیسے بینڈز نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے۔مائیکل جیکسن اورمیڈونا جیسے گلوکاروں نے شہرت کی ان بلندیوں کو چھولیا،جن تک پہنچنا انسان کا خواب ہوتا ہے۔
یہ دونوں ستارے پوپ موسیقی کی دنیا کے خوابوں کی عملی تعبیر بن گئے۔مغرب جب پوپ موسیقی کے سحر میں گرفتارتھا،اس وقت ہمارے خطے میں فلمی موسیقی اپنے عروج پرتھی۔کلاسیکی اورنیم کلاسیکی موسیقی کادوردورہ تھا۔ایسے میں میوزک کی ایسی صنف جس میں سنجیدگی کے برعکس اچھل کود اورشور وغل برپا ہو، ہمارے ہاں شائقین موسیقی کے لیے اسے قبول کرناذرا مشکل تھا، اس بات کو یہاں کے اہل موسیقی سمجھتے بھی تھے اسی لیے ہمارے ہاں خالص مغربی پوپ موسیقی اپنانے کی بجائے نیم کلاسیکی اورپوپ موسیقی کاامتزاج کیاگیا۔
نتیجے میں فلمی پوپ موسیقی کی اختراع ہوئی۔پاکستانی فلمی صنعت میں احمدرُشدی اوررُونالیلیٰ کی آوازوں کے ذریعے اس صنف کی ہمارے ہاں شروعات ہوئیں۔دھیرے دھیرے فلمی پوپ سے'' ڈسکو میوزک'' اور ''ہپ ہاپ''تک شائقین کولایاگیا، اس طرح وہ اس موسیقی کے عادی ہونے لگے۔ساٹھ کی دہائی میں فلمی پوپ نے کافی حدتک مقبولیت حاصل کرلی اور ''کوکوکورینا'' جیسے گیت پسند کیے جانے لگے۔
ستر کی دہائی میں پاکستانی نوجوانوں نے ہمت کی اور پوپ موسیقی کوفلمی پوپ سے نکال کرنیم کلاسیکی پوپ تک لے آئے۔عالمگیر اورشہکی جیسے گلوکاروں کے گیتوں کو شہرت حاصل ہوئی۔ عالمگیر کا ایک گیت ''البیلاراہی''کی مقبولیت سب کو یاد ہوگی۔یہ گیت ایک مقبول ہسپانوی گیت کی نقل تھا،لیکن ہمارے ہاں گیت کے اس اندازکوپسند کیا گیا۔ہمارے گلوکاروں نے پوپ موسیقی کو چونکہ حال ہی میں اختیار کیاتھااس لیے وہ براہ راست مغرب کے گلوکاروں اور بینڈز سے متاثر تھے اورانہی کے جیسا میوزک تخلیق کرنا چاہتے تھے۔یہی وہ دور بھی ہے،جب پوپ موسیقی کی علامت صرف گٹار ہواکرتا تھا۔ایک عرصے تک یہ علامت پوپ موسیقی سے پیوستہ رہی،مگر پھر یہ دور جلد ختم ہواورپاکستان میں حقیقی طورپر پوپ موسیقی کاجنم ہوا۔کچھ نوجوانوں نے پاکستانی انداز میں خالص پوپ موسیقی کو اختیار کرتے ہوئے شائقین موسیقی کے دل میں جگہ بنائی،نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیا۔
اَسّی کی دہائی میں پاکستانی نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ نکلی ،جن کے پوپ گیتوں نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ان میں سرفہرست نازیہ حسن اور زوہیب حسن تھے۔''آپ جیساکوئی ''گیت گایا اور انڈوپاک میں چھاگئے،اس گیت کو بھارت اور پاکستان کا پہلا مقبول پوپ گیت کہاجاسکتاہے۔اس کے بعد ان کے گیت ''دوستی ''نے بھی بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ان کی البم ''ڈسکودیوانے''پوپ میوزک کی ایشیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی پہلی البم تھی۔
پاکستانی پوپ موسیقی کایہ ابتدائی روشن دور زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا اورجنرل ضیاالحق کی آمریت اس دور کوکھاگئی۔پوپ موسیقی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا،لیکن اچھی بات یہ تھی کہ پوپ موسیقی پاکستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جماچکی تھی۔ایک طویل وقفے کے بعد جب اَسی کی دہائی کے آخر اورنوے کی دہائی کے شروع میں پوپ موسیقی کے نئے دور کی ابتدا ہوئی، تو وائٹل سائنز اورجنون گروپ جیسے پوپ بینڈز منظر عام پر آئے اورانھوں نے بے مثال شہرت حاصل کی۔
وائٹل سائنز کا گیت''دل دل پاکستان''قومی ترانے کے بعد دوسراایسا گیت تھا،جس کو پوری قوم یک زبان ہوکر گاتی تھی۔ اسی طرح جنون گروپ کا گایا ہوا گیت ''ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار''بھی ایک ایسا ہی گیت ہے،جو ہمیشہ ہارے ہوئے دلوں کو حوصلہ اورتوانائی بخشتاہے۔ان دونوں بینڈز نے پاکستان کو معیاری پوپ موسیقی کے درجے پر لاکھڑاکیا۔
انھوں نے لاتعداد البم ریلیز کیں اورپوپ موسیقی کی تاریخ میں اپنا نام امر کرلیا۔جنون گروپ کو اقوام متحدہ کی اسمبلی میں گانے کاموقع ملا جب کہ وائٹل سائنز کے روحیل حیات نے پاکستان میں کوک اسٹوڈیو جیسے جدید موسیقی کے پلیٹ فارم کو جنم دیا،جس سے نئی نسل کے ساتھ ساتھ ہمارے کلاسیکی اورلوک گلوکار بھی مستفید ہو رہے ہیں۔نوے کی دہائی میں پوپ موسیقی کے پروگرامز بھی نشر ہونے لگے۔گانوں کی ویڈیوز بھی بننے لگیں،یوں پوپ موسیقی کی جدت میں مزید اضافہ ہوا۔نت نئے بینڈز سامنے آنے لگے۔میوزک چینل چارٹ کے نام سے ایک نجی چینل سے پروگرام شروع ہواجس نے شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔عالمی سطح پر ایم ٹی وی اور وی چینل شہرت رکھتے تھے۔پاکستان سے ہارون رشید وہ پہلا گلوکارتھاجس کی ویڈیو ایم ٹی وی پر نشر ہوئی۔عامر ذکی پہلا موسیقار تھا،جس نے پاکستان کی پہلی انسٹرومنٹل البم ''سیگنیچر''ریلیز کی۔فخر عالم نے پوپ میں بھنگڑا شامل کیا۔بلال مقصود اورفیصل کپاڈیا نے مدھم اور سُریلے پوپ میوزک کو تخلیق کیا۔سجاد علی جیسے منجھے ہوئے اورنیم کلاسیکی گائیکی سے آغاز کرنے والے گلوکار نے بھی پوپ میوزک کو اپنا لیااوربے حد مقبولیت حاصل کی،بہت کم لوگ ان کے ہارمونیم والے دور سے واقف ہوں گے۔
اس طرح ہمارے نوجواں اپنی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر منوانے لگے۔جواد احمد،حدیقہ کیانی،ابرارالحق،شہزاد رائے اوردیگر نوجوان پوپ موسیقی کے منظرنامے پر طلوع ہوئے۔ یہاں سب سے بڑی تبدیلی نصرت فتح علی خان کا فیوژن موسیقی کی طرف مائل ہوناتھا۔یہاں سے پاکستانی پوپ موسیقی ایک نئے عہد میں داخل ہوتی ہے۔پاکستان میں کلاسیکی اورجدید موسیقی کاملاپ ہوااورپھر تو رُت ہی بدل گئی۔ نصرت فتح علی خان نے عالمی شہرت یافتہ موسیقار پیٹر گیبرل کے ساتھ ایک البم میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایااورپوری دنیا کی نظر میں آگئے۔نصرت نے بھارت میں معروف شاعر جاوید اختر اورموسیقار اے آر رحمان کے ساتھ کام کیا۔
بھارتی فلموں میں ہماری طرف سے مضبوط آواز نصرت کی تھی،جس نے بھارتی شائقین موسیقی کو بھی سحرزدہ کردیا۔ نصرت اپنی زندگی کے آخری دنوں میں موسیقی کے ''سہ تکونی'' منصوبے پر کام کررہے تھے،جس میں تین فنکاروں کا ایک مشترکہ البم پوری دنیا میں ریلیز ہوناتھا۔یہ تین گلوکار،نصرت فتح علی خان،میڈونااورمائیکل جیکسن تھے،لیکن نصرت اس منصوبے کو مکمل نہ کرسکے اورہم سے جد اہوگئے۔
پاپ موسیقی نے ہمیں ان کے علاوہ عدنان سمیع خان، احمد جہانزیب،علی حیدر،علی ظفر،سلیم جاوید،شفقت امانت علی جیسے گلوکار دیے۔وائٹل سائنز،جنون گروپ،اسٹرنگز، مائل اسٹون،جل، جیسے بینڈز دیے۔آج عاطف اسلم پوپ میوزک کا درخشاں ستارہ ہے۔علی عظمت روک،پوپ اورنیم کلاسیکی گائیکی کا بادشاہ ہے۔
جب کسی فن کو جنون کی صورت اختیار کرلیاجائے توپھر کامیابیاں ایسے ہی ملتی ہیں،جیسے پوپ موسیقی کے شعبے میں پاکستانی فنکاروں نے حاصل کیں۔آج بھی پوپ موسیقی کا یہ شاندار سفر جاری ہے مگر بہت سے ستارے اس راہ میں ٹوٹ کر بکھرے بھی ہیں،کبھی ان کو بھی قلم بند کروں گا۔جن کو عوام نہیں جانتے ،مگر موسیقی کی دنیا ان سے واقف تھی،لیکن وہ پھر بھی اپنی شناخت نہ بناسکے اوراپنے خوابوں کے ٹوٹی ہوئی کرچیوں سے زخمی ہوگئے۔ان کے بغیر پوپ میوزک کی تاریخ ادھوری ہے۔
پوپ موسیقی تخلیقی لحاظ سے آسان اورسہل ہے،سننے والے بھی اس کوہلکی پھلی موسیقی کے طورپر سماعت کرتے ہیں۔ اس کی شاعری اورکمپوزنگ میں موسیقاروں اورگلوکاروں کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی انداز میں کوئی بھی گیت گائیں۔اسی وجہ سے پوری دنیا میں پوپ میوزک کی چاہ میں نوجوانوں کا ایک پورا سیلاب امڈ آیا۔انھوں نے دل کھول کر اپنے جذبات کااظہاراورفنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔موسیقی کے نت نئے آلات استعمال کیے۔کسی نے انفرادی حیثیت سے گایا،کسی نے مل کر بینڈ بنایا اور شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔ پوپ موسیقی کی کہکشاں کے روشن ستاروں کی فہرست خاصی طویل ہے،اس کاذکر پھر کبھی سہی۔
پوپ موسیقی کی ابتدا بیسویں صدی سے ہوئی لیکن صحیح معنوں میں اس کی شہرت کی پرواز امریکا سے پچاس کی دہائی میں شروع ہوئی۔مغرب سے مشرق تک پوپ موسیقی کے جادو نے اپنااثر دکھایا۔مقبولیت کایہ سفرامریکا اوربرطانیہ سے ہوتا ہوا لاطینی امریکا کے ممالک سے،چین،جاپان، کوریا،ترکی، بھارت، ترکی سے پاکستان تک آن پہنچا۔مغربی دنیا میں ''دی بیٹلز''اور''دی رولنگ اسٹونز''جیسے بینڈز نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے۔مائیکل جیکسن اورمیڈونا جیسے گلوکاروں نے شہرت کی ان بلندیوں کو چھولیا،جن تک پہنچنا انسان کا خواب ہوتا ہے۔
یہ دونوں ستارے پوپ موسیقی کی دنیا کے خوابوں کی عملی تعبیر بن گئے۔مغرب جب پوپ موسیقی کے سحر میں گرفتارتھا،اس وقت ہمارے خطے میں فلمی موسیقی اپنے عروج پرتھی۔کلاسیکی اورنیم کلاسیکی موسیقی کادوردورہ تھا۔ایسے میں میوزک کی ایسی صنف جس میں سنجیدگی کے برعکس اچھل کود اورشور وغل برپا ہو، ہمارے ہاں شائقین موسیقی کے لیے اسے قبول کرناذرا مشکل تھا، اس بات کو یہاں کے اہل موسیقی سمجھتے بھی تھے اسی لیے ہمارے ہاں خالص مغربی پوپ موسیقی اپنانے کی بجائے نیم کلاسیکی اورپوپ موسیقی کاامتزاج کیاگیا۔
نتیجے میں فلمی پوپ موسیقی کی اختراع ہوئی۔پاکستانی فلمی صنعت میں احمدرُشدی اوررُونالیلیٰ کی آوازوں کے ذریعے اس صنف کی ہمارے ہاں شروعات ہوئیں۔دھیرے دھیرے فلمی پوپ سے'' ڈسکو میوزک'' اور ''ہپ ہاپ''تک شائقین کولایاگیا، اس طرح وہ اس موسیقی کے عادی ہونے لگے۔ساٹھ کی دہائی میں فلمی پوپ نے کافی حدتک مقبولیت حاصل کرلی اور ''کوکوکورینا'' جیسے گیت پسند کیے جانے لگے۔
ستر کی دہائی میں پاکستانی نوجوانوں نے ہمت کی اور پوپ موسیقی کوفلمی پوپ سے نکال کرنیم کلاسیکی پوپ تک لے آئے۔عالمگیر اورشہکی جیسے گلوکاروں کے گیتوں کو شہرت حاصل ہوئی۔ عالمگیر کا ایک گیت ''البیلاراہی''کی مقبولیت سب کو یاد ہوگی۔یہ گیت ایک مقبول ہسپانوی گیت کی نقل تھا،لیکن ہمارے ہاں گیت کے اس اندازکوپسند کیا گیا۔ہمارے گلوکاروں نے پوپ موسیقی کو چونکہ حال ہی میں اختیار کیاتھااس لیے وہ براہ راست مغرب کے گلوکاروں اور بینڈز سے متاثر تھے اورانہی کے جیسا میوزک تخلیق کرنا چاہتے تھے۔یہی وہ دور بھی ہے،جب پوپ موسیقی کی علامت صرف گٹار ہواکرتا تھا۔ایک عرصے تک یہ علامت پوپ موسیقی سے پیوستہ رہی،مگر پھر یہ دور جلد ختم ہواورپاکستان میں حقیقی طورپر پوپ موسیقی کاجنم ہوا۔کچھ نوجوانوں نے پاکستانی انداز میں خالص پوپ موسیقی کو اختیار کرتے ہوئے شائقین موسیقی کے دل میں جگہ بنائی،نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیا۔
اَسّی کی دہائی میں پاکستانی نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ نکلی ،جن کے پوپ گیتوں نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ان میں سرفہرست نازیہ حسن اور زوہیب حسن تھے۔''آپ جیساکوئی ''گیت گایا اور انڈوپاک میں چھاگئے،اس گیت کو بھارت اور پاکستان کا پہلا مقبول پوپ گیت کہاجاسکتاہے۔اس کے بعد ان کے گیت ''دوستی ''نے بھی بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ان کی البم ''ڈسکودیوانے''پوپ میوزک کی ایشیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی پہلی البم تھی۔
پاکستانی پوپ موسیقی کایہ ابتدائی روشن دور زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا اورجنرل ضیاالحق کی آمریت اس دور کوکھاگئی۔پوپ موسیقی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا،لیکن اچھی بات یہ تھی کہ پوپ موسیقی پاکستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جماچکی تھی۔ایک طویل وقفے کے بعد جب اَسی کی دہائی کے آخر اورنوے کی دہائی کے شروع میں پوپ موسیقی کے نئے دور کی ابتدا ہوئی، تو وائٹل سائنز اورجنون گروپ جیسے پوپ بینڈز منظر عام پر آئے اورانھوں نے بے مثال شہرت حاصل کی۔
وائٹل سائنز کا گیت''دل دل پاکستان''قومی ترانے کے بعد دوسراایسا گیت تھا،جس کو پوری قوم یک زبان ہوکر گاتی تھی۔ اسی طرح جنون گروپ کا گایا ہوا گیت ''ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار''بھی ایک ایسا ہی گیت ہے،جو ہمیشہ ہارے ہوئے دلوں کو حوصلہ اورتوانائی بخشتاہے۔ان دونوں بینڈز نے پاکستان کو معیاری پوپ موسیقی کے درجے پر لاکھڑاکیا۔
انھوں نے لاتعداد البم ریلیز کیں اورپوپ موسیقی کی تاریخ میں اپنا نام امر کرلیا۔جنون گروپ کو اقوام متحدہ کی اسمبلی میں گانے کاموقع ملا جب کہ وائٹل سائنز کے روحیل حیات نے پاکستان میں کوک اسٹوڈیو جیسے جدید موسیقی کے پلیٹ فارم کو جنم دیا،جس سے نئی نسل کے ساتھ ساتھ ہمارے کلاسیکی اورلوک گلوکار بھی مستفید ہو رہے ہیں۔نوے کی دہائی میں پوپ موسیقی کے پروگرامز بھی نشر ہونے لگے۔گانوں کی ویڈیوز بھی بننے لگیں،یوں پوپ موسیقی کی جدت میں مزید اضافہ ہوا۔نت نئے بینڈز سامنے آنے لگے۔میوزک چینل چارٹ کے نام سے ایک نجی چینل سے پروگرام شروع ہواجس نے شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔عالمی سطح پر ایم ٹی وی اور وی چینل شہرت رکھتے تھے۔پاکستان سے ہارون رشید وہ پہلا گلوکارتھاجس کی ویڈیو ایم ٹی وی پر نشر ہوئی۔عامر ذکی پہلا موسیقار تھا،جس نے پاکستان کی پہلی انسٹرومنٹل البم ''سیگنیچر''ریلیز کی۔فخر عالم نے پوپ میں بھنگڑا شامل کیا۔بلال مقصود اورفیصل کپاڈیا نے مدھم اور سُریلے پوپ میوزک کو تخلیق کیا۔سجاد علی جیسے منجھے ہوئے اورنیم کلاسیکی گائیکی سے آغاز کرنے والے گلوکار نے بھی پوپ میوزک کو اپنا لیااوربے حد مقبولیت حاصل کی،بہت کم لوگ ان کے ہارمونیم والے دور سے واقف ہوں گے۔
اس طرح ہمارے نوجواں اپنی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر منوانے لگے۔جواد احمد،حدیقہ کیانی،ابرارالحق،شہزاد رائے اوردیگر نوجوان پوپ موسیقی کے منظرنامے پر طلوع ہوئے۔ یہاں سب سے بڑی تبدیلی نصرت فتح علی خان کا فیوژن موسیقی کی طرف مائل ہوناتھا۔یہاں سے پاکستانی پوپ موسیقی ایک نئے عہد میں داخل ہوتی ہے۔پاکستان میں کلاسیکی اورجدید موسیقی کاملاپ ہوااورپھر تو رُت ہی بدل گئی۔ نصرت فتح علی خان نے عالمی شہرت یافتہ موسیقار پیٹر گیبرل کے ساتھ ایک البم میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایااورپوری دنیا کی نظر میں آگئے۔نصرت نے بھارت میں معروف شاعر جاوید اختر اورموسیقار اے آر رحمان کے ساتھ کام کیا۔
بھارتی فلموں میں ہماری طرف سے مضبوط آواز نصرت کی تھی،جس نے بھارتی شائقین موسیقی کو بھی سحرزدہ کردیا۔ نصرت اپنی زندگی کے آخری دنوں میں موسیقی کے ''سہ تکونی'' منصوبے پر کام کررہے تھے،جس میں تین فنکاروں کا ایک مشترکہ البم پوری دنیا میں ریلیز ہوناتھا۔یہ تین گلوکار،نصرت فتح علی خان،میڈونااورمائیکل جیکسن تھے،لیکن نصرت اس منصوبے کو مکمل نہ کرسکے اورہم سے جد اہوگئے۔
پاپ موسیقی نے ہمیں ان کے علاوہ عدنان سمیع خان، احمد جہانزیب،علی حیدر،علی ظفر،سلیم جاوید،شفقت امانت علی جیسے گلوکار دیے۔وائٹل سائنز،جنون گروپ،اسٹرنگز، مائل اسٹون،جل، جیسے بینڈز دیے۔آج عاطف اسلم پوپ میوزک کا درخشاں ستارہ ہے۔علی عظمت روک،پوپ اورنیم کلاسیکی گائیکی کا بادشاہ ہے۔
جب کسی فن کو جنون کی صورت اختیار کرلیاجائے توپھر کامیابیاں ایسے ہی ملتی ہیں،جیسے پوپ موسیقی کے شعبے میں پاکستانی فنکاروں نے حاصل کیں۔آج بھی پوپ موسیقی کا یہ شاندار سفر جاری ہے مگر بہت سے ستارے اس راہ میں ٹوٹ کر بکھرے بھی ہیں،کبھی ان کو بھی قلم بند کروں گا۔جن کو عوام نہیں جانتے ،مگر موسیقی کی دنیا ان سے واقف تھی،لیکن وہ پھر بھی اپنی شناخت نہ بناسکے اوراپنے خوابوں کے ٹوٹی ہوئی کرچیوں سے زخمی ہوگئے۔ان کے بغیر پوپ میوزک کی تاریخ ادھوری ہے۔