انسیت بڑھانے کا طریقہ
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن جوں ہی کراچی کے مسائل کے حوالے سے ’’منی پاکستان‘‘ کی اصطلاح سامنے آتی ہے ۔۔۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن جوں ہی کراچی کے مسائل کے حوالے سے ''منی پاکستان'' کی اصطلاح سامنے آتی ہے اور پھر اس اصطلاح کے معنی و مفہوم کی تشریح کے ساتھ روانی میں اسے کراچی کی ایک خوبی اور خاصیت کے لحاظ سے بیان کیا جانے لگتا ہے تو یہ سارا منظر خاصا '' حیرتناک '' دکھائی دینے لگتا ہے۔ I am Karachi اس مختصر سے پیارے سے جملے میں کراچی کے حوالے سے اخلاص کے سارے رنگ جامعیت اور انتہائی خوبصورتی کے ساتھ یکجا نظر آتے ہیں۔
اس جملے میں کراچی کے لیے پیار بھی ہے، اس کے درد کا اظہار بھی ہے اور اس درد کا مجرب علاج بھی اس سے لو لگاؤ رکھنے اور انسیت بڑھانے کا طریقہ بھی ہے اور سب سے بڑھ کر اس میں وہی اپنائیت اور چاؤ ہے جو کراچی شہر کا خاصہ اور اس کا مزاج ہے۔ یہ دو طرفہ پیغام دے رہا ہے کہ ''میں آپ کا ہوں، آپ بھی میرے بن جاؤ'' لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ متعفن اور فساد زدہ ہمارے ذہن اس جملے کی پکار اس کے گداز اور اس کی مٹھاس سے گھبرا کر اس سے قطعاً لاتعلق اور بیگانے نظر آتے ہیں حالانکہ یہ جملہ اپنی ساخت اور تاثیر میں ہر قسم کے نسلی، صوبائی اور لسانی تعصب سے یکسر پاک ہے اور کراچی میں رہنے بسنے والے سب باسیوں کو یکساں دعوت فکر و عمل دے رہا ہے۔
نقل مکانی معاشروں میں کوئی اچھوتی بات نہیں۔ روزگار وہ طاقتور سبب ہے جو علاقائی تقسیم کو پھلانگنے اور آبادیوں کے باہم مدغم ہونے کی ایک بڑی وجہ بنتا ہے لیکن اس سے قبل مقامی آبادی کا جو تصور ہوتا ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے اسے نہ تو مسخ کیا جاسکتا ہے اور نہ تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کیا جانا چاہیے کیونکہ اس قسم کے تغیرات جن تنوعات کو تشکیل دیتے ہیں وہ معاشروں کی ساخت اور حسن کو فطری بنیادوں پر قائم کرتے ہیں تاہم ان تغیرات کو معاشرے میں رچانے کے لیے ایک چاق و چوبند اور دوربین انتظامیہ اور اہل ریاستی اداروں کا وجود بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
ہم نے اپنے ساتھ برا یہ کیا ہے کہ ایک تو ہم اپنے آپ کو اپنے ملک اور اس کے اداروں کی باگ ڈور اہل افراد کو سونپنے کے قابل نہیں بناسکتے ہم نے خود کو نعروں پہ تھرکنے والی قوم ثابت کیا جس کے مطابق ہماری سیاسی قیادت نے Issues، بڑھکوں اور کھلی دھمکیوں کے مصنوعی تنفس کے سہارے قوم کی سیاسی حرکیات کو تحریک کا عادی بناکر اس کے قومی شعور اور فراست کو اونگھ کی ایسی گولی دے دی ہے جسے زمانے کے تقاضے اور نئی آوازیں جگانے ہلانے میں ناکام ہیں اور دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری صوبائی تقسیم کو sons of soil کے وراثتی رجحان کو تقویت دیکر اسے سیاسی بنیادوں پر استعمال کرنے کی جو قبیح روایت چلی آرہی ہے آج اس کے نتائج قومی ڈھانچے کی شکستہ حالی میں صاف نظر آرہے ہیں۔
اس پس منظر میں جب ہم کراچی کے یعنی منی پاکستان کے مسئلے کو دیکھتے ہیں تو جو بنیادی پہلو بڑی وضاحت سے سامنے آتے ہیں ان کے ناسمجھ میں آنیوالی کوئی بات نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو انھیں ''مسئلہ'' سمجھنے کا ہے جسے ہم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی میں برسوں سے کلبلانے والی بد امنی کا علاج ایک اور آپریشن کلین اپ میں ڈھونڈنے والے جب تک صدق دل سے کچھ اعترافات کا سامنا نہیں کرتے تب تک فساد فی الارض کی اس فصل کو نمو سے نہیں روکا جاسکتا جس کا بیج دراصل دلوں میں پیوست ہے۔ کراچی کی آبادکاری کی داستان مائی کلاچی سے جوڑتے ہوئے یہاں ہجرت کے نتیجے میں بسنے والی آبادی کو سندھ کی تاریخ کا ایک نوچ ڈالنے والا وقوعہ تصور کیا گیا۔
اسے کشادہ دلی کے روایتی فرمودات کے مطابق سندھ کے نئے باسیوں کے طور پر قبول کیے جانے میں اب بھی وہ سوچیں حائل ہیں جو اپنی ذہنی فرسودگی اور مفاد پرستی کے سبب اس زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے سے معذور ہیں کیونکہ بات صرف تعصبات تک محدود نہیں رہ جاتی بلکہ اس سے آگے وسائل اور اداروں پہ اختیار کا معاملہ بھی ہے۔ کراچی کے ذکر کے ساتھ ہی اس کی معاشی حیثیت اور اہمیت وہ مرکزی وجوہات بنتی ہیں جس نے اس شہر کی آبادی کو سیاسی و لسانی جماعتوں کی کھینچ تان اور علاقوں کی بندربانٹ میں تقسیم کر دیا ہے۔ کراچی ہمیشہ سے کثیر اللسانی شہر رہا ہے مگر ان آبادیوں کی لسانی تقسیم اور اس کے ساتھ مقامی آبادی کی پرخاش نے جو علاقائی تقسیم وضع کی اسے آج ہم نوگو ایریاز کے نام سے جانتے ہیں۔
ایک تو آبادی کا فطری بساؤ تھا دوسرا اس کے ساتھ زبردستی کی کچی آبادیوں کی آبادکاری کرکے نہ صرف یہاں کے طرز معاشرت کے مجموعی تشخص کو مجروح کردیا گیا بلکہ بنیادی سہولتوں کے فقدان، شدید غربت اور جہالت کا شکار ان آبادیوں کو مجرمانہ ذہنیت کی افزائش گاہیں بھی بنادیا گیا۔ یوں بے ہنگم آبادی کے ہجوم اور پیش بندی کی اہلیت سے محروم سیاسی انتظامیہ نے روشنیوں کے شہر اور عروس البلاد کراچی کو بدانتظامی کا عبرت انگیز نمونہ بنانے کے ساتھ منطقی اعتبار سے اس ماحول اور ان حالات سے دوچار کردیا جس میں تخریبی عناصر کی چاندی ہو جاتی ہے لیکن اس شہر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ایسے عناصر کے ڈانڈے سیاسی جماعتوں میں اس طرح پیوست ہیں کہ یہ امتیاز بھی مشکل ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لیے ان عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں یا پھر سرپرستی؟
سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کا موضوع خبروں کی دنیا میں آئے گو عرصہ ہوا لیکن کراچی کے باسی اس حقیقت سے بہت پہلے سے ہی باخبر ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ ترقی کرکے سیاسی جماعتوں سے الگ ان کے ملٹری ونگز قرار پاگئے ہیں وگرنہ عام شہری براہ راست اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کو موردالزام ٹھہراتا تھا۔ اس پہلو سے بات کرتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ آرائی سے تفسیر نہ ہوگا کہ کراچی میں جرائم جس طرح مختلف قسم کے مافیاز کے چھپر چھاؤں تلے اجارہ داری کیفیت میں پلے بڑھے ہیں۔ یہ آزادانہ حیثیت میں ممکن ہی نہیں لازمی طور پر یہ سیاسی طاقت کے فیضان کے مظاہرے ہیں ۔
اگر ہمارے چارہ سازوں کا دل واقعتاً کراچی کے درد پہ دکھتا ہے تو سب سے پہلے انھیں کراچی والوں کے انتخاب کو قبول کرنا پڑے گا کیونکہ اب اسے تسلیم کرنے نہ کرنے کا زمانہ تو گیا۔آج اگر مسائل کے لحاظ سے کراچی بذات خود ایک مسئلہ بنا ہوا ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا ہماری سیاسی جماعتوں کی عاقبت نااندیشیوں کے سبب ہے۔ ہم نے سیاست کو جنگ بنایا اور اس جنگ میں سب کچھ نہیں تو بہت کچھ جائز قرار دیکر غلط کاری کی انتہاؤں کی جانب نکل گئے۔ بدعنوانی کا کھیل کھیلنے کے لیے کراچی کو سانجھے کی ہانڈی قرار دینے کے تصور کی پیشرفت کا تجربہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ کتنا دل خوش کن یہ تصور ہے کہ کاش ''منی پاکستان'' کی اصطلاح معنی خیز انداز میں ادا کرنے کے بجائے اسے بڑے پیار سے دل سے ادا کیا جاتا اور ایسا کرنا ناممکن ہر گز نہیں اگر اپنے اپنے دائروں میں سمٹتے ہوئے کراچی کو اپنے ساتھ بالخصوص یہاں کی مقامی آبادی کا اور ''سب کا کراچی'' تسلیم کرلیا جائے تاکہ ''منی پاکستان'' کی اصطلاح اس پر اپنی روح کے ساتھ نافذ ہوسکے۔