معصوم کلیاں جو بن کھلے مرجھا گئیں
اس سال یوم دفاع پاکستان 6ستمبرہمارے لیے اس لیے بھی نہایت خوشی کا دن رہا کہ اسی تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے ۔۔۔
RATODERO:
اس سال یوم دفاع پاکستان 6ستمبرہمارے لیے اس لیے بھی نہایت خوشی کا دن رہا کہ اسی تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور پیاری سی بیٹی سے نوازا، جس کا نام ہم نے رکھنا تو تھا ''مبارکی'' لیکن بہرحال ہماری ایک نہ چلی اور نام رکھا گیا خنساء!...مبارکی نام پر ہم اس لیے بضد تھے کہ ناظم آباد کے جس پرائیوٹ اسپتال میں ہماری پیاری بیٹی نے پہلی صدائے احتجاج بلند کی، وہاں دیواروں پر جگہ جگہ تو یہ لکھا ہوا تھا کہ اسٹاف میں سے کوئی مٹھائی کے نام پر کچھ مانگے تو انتظامیہ کو اطلاع دیں... لیکن نرسوں سے لے کر ماسیوں تک تقریباً بیس پچیس کے اسٹاف نے جس طرح وقتاً فوقتاً ہمارے کمرے میں انٹری دی اور انتہائی کاریگری سے اپنا حق جتا کر اور ہماری پدری محبت کو نہایت 'اسٹائل' سے جھنجھوڑ کر 'مبارکی'کا مطالبہ کیاتو ہم سچ مچ گھبرا گئے بلکہ چکرا گئے۔ ایک دو کو مبارکی دینے کے بعد جب باقی کو حکمت سے ٹالا تو اس کا نتیجہ فوراً ہی سامنے آ گیا۔ سارے زمانے کی بے چارگی اور نرمی چہروں سے پل میں غائب ہو گئی ، تیوریاں چڑھ گئیں اور پھر چند ہی گھنٹوں میں کمرے کی صفائی سے لے کر ضروری ادویات تک کے سلسلے میں ہمیں ایسی بے توجہی اور لاپروائی کا سامنا کرنا پڑا کہ پہلے سے زیادہ گھبرا گئے۔ یوں ہمیں سرنڈر کرنا پڑا اورہم نے خود سے بلا بلا کر 'مبارکیاں'دینا شروع کر دیں۔ چہرے دوبارہ کھل اٹھے، چڑھی تیوریاں مسکان میں تبدیل ہو گئیں اور یوں وہ ساری سہولیات ہمیں دوبارہ سے میسر ہو گئیں جو پیکیج میں شامل تھیں اور جن کا معاوضہ ہم پیشگی کاؤنٹر پر ادا کر چکے تھے۔
اس سے پہلے ایک بیٹا احمد سدیس اوراس سے چھوٹی بیٹی ساریہ ہیں۔ خاندان والے جیسا کہ ہوتا ہے، اس بار ایک بیٹے کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ بیٹی کے بعد بیٹاہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی کی''چاہیے'' کی پابند نہیں۔ وہ تو جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور وہ اچھا ہی ہوتا ہے۔
ہم تو بہرحال خوش ہیں کہ بیٹیاں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔ خنساء کی پیدائش پر ہمیں کسی نے میسیج بھیجا کہ بیٹا جب تک بیٹا ہوتا ہے تب تک اس کی شادی نہیں ہو جاتی جب کہ بیٹی کی محبت والدین کوآخری ہچکی تک میسر ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد دیکھ لیں،عموماًیہی کچھ نظر آتا ہے۔ آٹے میں نمک کے برابر ہی آپ کو ایسے مثالی بیٹے نظر آئیں گے جو خود باپ بن کر بھی اپنے ماں باپ کو اتنی ہی توجہ اور محبت دیتے ہیں، جتنا اپنے بیوی بچوں کو ورنہ اس حوالے سے بڑی درد ناک کہانیاں قدم قدم پر ہمیں بکھری نظر آتی ہیں،پھر نجانے اکثرلوگ بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی منانے کی بجائے غمگین کیوںہو جاتے ہیں۔
چونکہ ہمیں بچے خصوصاً بیٹیاں بہت پیاری ہیں اسی لیے جب بھی کوئی ایسی خبر پڑھنے سننے کو ملتی ہے جس میں کسی بچی یا بچے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہوتا ہے، تو وہ خبر ہمیں دنوں تک پریشان رکھتی ہے۔بڑوں کے ساتھ ظلم کی کیسی ہی واردات ہو جائے دل اتنا افسردہ نہیں ہوتا جیسے کسی بچے کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانے پر ہوتاہے اور پچھلے چند مہینوں سے تو لگتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی، تشدد اور قتل کے ہولناک واقعات ایسے پے درپے ہو رہے ہیں جیسے تسبیح کے دانے تسبیح ٹوٹنے پر یکے بعد دیگرے گرتے ہیں۔ ان منحوس واقعات میں ہر نوعیت کے واقعات شامل ہیں۔
اس میں وہ دل دہلا دینے والے واقعات بھی ہیں جن میں خود ماں یا باپ ملوث ہوتے ہیں،جوخود اپنے ہاتھوں اپنے جگر گوشوں کی جان لے لیتے ہیں! جی ہاں آج دنیا بھر کے مہذب ملکوں کے مہذب لوگ الٹراساؤنڈ اوراسقاط حمل کی جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے روزانہ ہزاروں بچیوں کو صرف بچی ہونے کی پاداش میں قتل کر دیتے ہیں لیکن ان قاتلوں کو کوئی قاتل نہیں کہتا ۔ قاتل عموماً غیروں اجنبیوں کو قتل کرتا ہے مگر عہدِ جدید نے ایسے سفاک ، ذلیل وحشی درندے پیدا کیے ہیں جو مقتول کے لیے اجنبی نامانوس اور غیر نہیں بلکہ اس کے سگے ماں باپ ہیں۔
اپنے بچوں کو قتل کرنے کا دوسرا محرک بدنامی سے بچنے کی کوشش ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ صرف ایک برس میں ایک ہزار سے زائد نومولود بچوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر انھیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک دیا گیا۔ فاؤنڈیشن کے مطابق ہلاک ہونیوالے بچوں میں بھی اسی فیصد نومولود بچیاں تھیں اور قرائن سے بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ ان نومولود کلیوں کو ان کے ناجائز والدین( ناجائز معصوم بچے نہیں، یہ اصطلاح ان کے لیے استعمال ہونی چاہیے جو یہ حرکت کرتے ہیں) نے خود اپنے ہاتھوں مسلا ہے یا جانوروں کی خوراک بننے کے لیے کوڑے کے ڈھیروں پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف پاکستان کے اہم شہروں سے جمع کیے گئے، ورنہ بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں اس سے بھی زیادہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے۔
دوسرے نمبر پربچوں کے ساتھ ہونیوالے وہ اندوہناک واقعات ہیں جو دراصل شیطانیت ،شقاوت، بہیمیت اور درندگی کے بدترین مظاہر ہیں۔ شیطان صفت لوگ معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے اغواکرتے ہیں اور پھر پول کھل جانے کے ڈر سے انھیںسفاکی سے قتل کردیتے ہیں۔ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پچھلے دنوںکراچی کے نواحی علاقے کورنگی میں پیش آیا۔ کورنگی ڈیڑھ نمبر سیکٹر48-D نورانی بستی میں رہنے والے 9 سالہ روشان کو اس کا پڑوسی رکشا ڈرائیور عبدالروؤف بہلا پھسلا کر لے گیا اور پھر پکڑے جانے کے خوف سے عبدالروؤف نے تیز دھار آلے سے روشان کو قتل کر دیا،اور اس کے بعدبچے کی نعش کو ایک بیگ میں ڈال کردور کچرہ کنڈی میں پھینک دیا۔
بیگ ملنے پر پولیس نے تفتیش شروع کی تو بالآخر عبدالرؤف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔کم سن روشان کی نعش علاقے میں پہنچی تو ایک کہرام مچ گیا۔ روشان کی والدہ پر غشی کے دورے پڑنے لگے اور ہر سو فضا سوگوار ہو گئی۔کراچی کے بعد لاہور میں ہونے والا چند دن پہلے کے دلخراش واقعے نے بھی پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بار نشانہ ایک 5سالہ بچی تھی، جسے اس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا۔اگلے ہی دن فیصل آباد میں بھی معصوم بچی سے زیادتی کا واقعہ پیش آیا اور درندہ صفت افراد بارہ سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ویرانے میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ ان دونوں واقعات کے بعد ملک بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ان دلخراش واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کتنی تیزی سے جنون' حیوانیت اور ہیجان بڑھ رہا ہے اور قوم کس تیزی سے ذہنی پستی اوراخلاقی تباہی کے مہیب گڑھوں کی طرف جارہی ہے!!والدین کا صرف بچی ہونے کی پاداش میں اپنی اولاد کا قتل ، اپنا گناہ چھپانے کے لیے اپنے ہی خون کو کچرے کنڈیوں میں پھینکنے کا ذلیل عمل اور اپنی ہوس کے شعلے بجھانے کے لیے معصوم بچوں کا اغوا اور قتل...یہ سب روئے زمین کے بدترین جرائم ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی نوعیت کا ایسا سنگین جرم ہے کہ قیامت سے پہلے ایک قیامت ہے۔ ان جرائم سے تب ہی معاشرہ پاک ہو سکتا ہے جب ذلیل مجرموں سے کوئی رعایت نہ کی جائے، اور انھیں پکڑ کر عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ سنبل کی بہن نے بالکل صحیح مطالبہ کیا ہے کہ ان درندوں کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے تب ہی انشاء اللہ ہمارے بچے ہماری نسلیں محفوظ رہ سکیں گی ورنہ اسی طرح کوئی سنبل، کوئی روشان کم سنی میں اجڑتا رہے گا ، یہ معصوم کلیاں بن کھلے مرجھاتی رہیں گی۔
اس سال یوم دفاع پاکستان 6ستمبرہمارے لیے اس لیے بھی نہایت خوشی کا دن رہا کہ اسی تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور پیاری سی بیٹی سے نوازا، جس کا نام ہم نے رکھنا تو تھا ''مبارکی'' لیکن بہرحال ہماری ایک نہ چلی اور نام رکھا گیا خنساء!...مبارکی نام پر ہم اس لیے بضد تھے کہ ناظم آباد کے جس پرائیوٹ اسپتال میں ہماری پیاری بیٹی نے پہلی صدائے احتجاج بلند کی، وہاں دیواروں پر جگہ جگہ تو یہ لکھا ہوا تھا کہ اسٹاف میں سے کوئی مٹھائی کے نام پر کچھ مانگے تو انتظامیہ کو اطلاع دیں... لیکن نرسوں سے لے کر ماسیوں تک تقریباً بیس پچیس کے اسٹاف نے جس طرح وقتاً فوقتاً ہمارے کمرے میں انٹری دی اور انتہائی کاریگری سے اپنا حق جتا کر اور ہماری پدری محبت کو نہایت 'اسٹائل' سے جھنجھوڑ کر 'مبارکی'کا مطالبہ کیاتو ہم سچ مچ گھبرا گئے بلکہ چکرا گئے۔ ایک دو کو مبارکی دینے کے بعد جب باقی کو حکمت سے ٹالا تو اس کا نتیجہ فوراً ہی سامنے آ گیا۔ سارے زمانے کی بے چارگی اور نرمی چہروں سے پل میں غائب ہو گئی ، تیوریاں چڑھ گئیں اور پھر چند ہی گھنٹوں میں کمرے کی صفائی سے لے کر ضروری ادویات تک کے سلسلے میں ہمیں ایسی بے توجہی اور لاپروائی کا سامنا کرنا پڑا کہ پہلے سے زیادہ گھبرا گئے۔ یوں ہمیں سرنڈر کرنا پڑا اورہم نے خود سے بلا بلا کر 'مبارکیاں'دینا شروع کر دیں۔ چہرے دوبارہ کھل اٹھے، چڑھی تیوریاں مسکان میں تبدیل ہو گئیں اور یوں وہ ساری سہولیات ہمیں دوبارہ سے میسر ہو گئیں جو پیکیج میں شامل تھیں اور جن کا معاوضہ ہم پیشگی کاؤنٹر پر ادا کر چکے تھے۔
اس سے پہلے ایک بیٹا احمد سدیس اوراس سے چھوٹی بیٹی ساریہ ہیں۔ خاندان والے جیسا کہ ہوتا ہے، اس بار ایک بیٹے کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ بیٹی کے بعد بیٹاہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی کی''چاہیے'' کی پابند نہیں۔ وہ تو جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور وہ اچھا ہی ہوتا ہے۔
ہم تو بہرحال خوش ہیں کہ بیٹیاں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔ خنساء کی پیدائش پر ہمیں کسی نے میسیج بھیجا کہ بیٹا جب تک بیٹا ہوتا ہے تب تک اس کی شادی نہیں ہو جاتی جب کہ بیٹی کی محبت والدین کوآخری ہچکی تک میسر ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد دیکھ لیں،عموماًیہی کچھ نظر آتا ہے۔ آٹے میں نمک کے برابر ہی آپ کو ایسے مثالی بیٹے نظر آئیں گے جو خود باپ بن کر بھی اپنے ماں باپ کو اتنی ہی توجہ اور محبت دیتے ہیں، جتنا اپنے بیوی بچوں کو ورنہ اس حوالے سے بڑی درد ناک کہانیاں قدم قدم پر ہمیں بکھری نظر آتی ہیں،پھر نجانے اکثرلوگ بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی منانے کی بجائے غمگین کیوںہو جاتے ہیں۔
چونکہ ہمیں بچے خصوصاً بیٹیاں بہت پیاری ہیں اسی لیے جب بھی کوئی ایسی خبر پڑھنے سننے کو ملتی ہے جس میں کسی بچی یا بچے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہوتا ہے، تو وہ خبر ہمیں دنوں تک پریشان رکھتی ہے۔بڑوں کے ساتھ ظلم کی کیسی ہی واردات ہو جائے دل اتنا افسردہ نہیں ہوتا جیسے کسی بچے کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانے پر ہوتاہے اور پچھلے چند مہینوں سے تو لگتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی، تشدد اور قتل کے ہولناک واقعات ایسے پے درپے ہو رہے ہیں جیسے تسبیح کے دانے تسبیح ٹوٹنے پر یکے بعد دیگرے گرتے ہیں۔ ان منحوس واقعات میں ہر نوعیت کے واقعات شامل ہیں۔
اس میں وہ دل دہلا دینے والے واقعات بھی ہیں جن میں خود ماں یا باپ ملوث ہوتے ہیں،جوخود اپنے ہاتھوں اپنے جگر گوشوں کی جان لے لیتے ہیں! جی ہاں آج دنیا بھر کے مہذب ملکوں کے مہذب لوگ الٹراساؤنڈ اوراسقاط حمل کی جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے روزانہ ہزاروں بچیوں کو صرف بچی ہونے کی پاداش میں قتل کر دیتے ہیں لیکن ان قاتلوں کو کوئی قاتل نہیں کہتا ۔ قاتل عموماً غیروں اجنبیوں کو قتل کرتا ہے مگر عہدِ جدید نے ایسے سفاک ، ذلیل وحشی درندے پیدا کیے ہیں جو مقتول کے لیے اجنبی نامانوس اور غیر نہیں بلکہ اس کے سگے ماں باپ ہیں۔
اپنے بچوں کو قتل کرنے کا دوسرا محرک بدنامی سے بچنے کی کوشش ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ صرف ایک برس میں ایک ہزار سے زائد نومولود بچوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر انھیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک دیا گیا۔ فاؤنڈیشن کے مطابق ہلاک ہونیوالے بچوں میں بھی اسی فیصد نومولود بچیاں تھیں اور قرائن سے بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ ان نومولود کلیوں کو ان کے ناجائز والدین( ناجائز معصوم بچے نہیں، یہ اصطلاح ان کے لیے استعمال ہونی چاہیے جو یہ حرکت کرتے ہیں) نے خود اپنے ہاتھوں مسلا ہے یا جانوروں کی خوراک بننے کے لیے کوڑے کے ڈھیروں پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف پاکستان کے اہم شہروں سے جمع کیے گئے، ورنہ بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں اس سے بھی زیادہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے۔
دوسرے نمبر پربچوں کے ساتھ ہونیوالے وہ اندوہناک واقعات ہیں جو دراصل شیطانیت ،شقاوت، بہیمیت اور درندگی کے بدترین مظاہر ہیں۔ شیطان صفت لوگ معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے اغواکرتے ہیں اور پھر پول کھل جانے کے ڈر سے انھیںسفاکی سے قتل کردیتے ہیں۔ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پچھلے دنوںکراچی کے نواحی علاقے کورنگی میں پیش آیا۔ کورنگی ڈیڑھ نمبر سیکٹر48-D نورانی بستی میں رہنے والے 9 سالہ روشان کو اس کا پڑوسی رکشا ڈرائیور عبدالروؤف بہلا پھسلا کر لے گیا اور پھر پکڑے جانے کے خوف سے عبدالروؤف نے تیز دھار آلے سے روشان کو قتل کر دیا،اور اس کے بعدبچے کی نعش کو ایک بیگ میں ڈال کردور کچرہ کنڈی میں پھینک دیا۔
بیگ ملنے پر پولیس نے تفتیش شروع کی تو بالآخر عبدالرؤف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔کم سن روشان کی نعش علاقے میں پہنچی تو ایک کہرام مچ گیا۔ روشان کی والدہ پر غشی کے دورے پڑنے لگے اور ہر سو فضا سوگوار ہو گئی۔کراچی کے بعد لاہور میں ہونے والا چند دن پہلے کے دلخراش واقعے نے بھی پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بار نشانہ ایک 5سالہ بچی تھی، جسے اس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا۔اگلے ہی دن فیصل آباد میں بھی معصوم بچی سے زیادتی کا واقعہ پیش آیا اور درندہ صفت افراد بارہ سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ویرانے میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ ان دونوں واقعات کے بعد ملک بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ان دلخراش واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کتنی تیزی سے جنون' حیوانیت اور ہیجان بڑھ رہا ہے اور قوم کس تیزی سے ذہنی پستی اوراخلاقی تباہی کے مہیب گڑھوں کی طرف جارہی ہے!!والدین کا صرف بچی ہونے کی پاداش میں اپنی اولاد کا قتل ، اپنا گناہ چھپانے کے لیے اپنے ہی خون کو کچرے کنڈیوں میں پھینکنے کا ذلیل عمل اور اپنی ہوس کے شعلے بجھانے کے لیے معصوم بچوں کا اغوا اور قتل...یہ سب روئے زمین کے بدترین جرائم ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی نوعیت کا ایسا سنگین جرم ہے کہ قیامت سے پہلے ایک قیامت ہے۔ ان جرائم سے تب ہی معاشرہ پاک ہو سکتا ہے جب ذلیل مجرموں سے کوئی رعایت نہ کی جائے، اور انھیں پکڑ کر عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ سنبل کی بہن نے بالکل صحیح مطالبہ کیا ہے کہ ان درندوں کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے تب ہی انشاء اللہ ہمارے بچے ہماری نسلیں محفوظ رہ سکیں گی ورنہ اسی طرح کوئی سنبل، کوئی روشان کم سنی میں اجڑتا رہے گا ، یہ معصوم کلیاں بن کھلے مرجھاتی رہیں گی۔