میں کون ہوں اے ہم نفسو

اس وقت منشیات کی وبا نے ملک کی نوجوان نسل کی صحت پر شب خون مارا ہے۔

وہ شخص معین اختر تھا۔ جی ہاں مجسم جینیس معین اختر جسے پاکستان کا بچہ بچہ اسٹیج کا شہنشاہ کامیڈی اور قہقہوںکا بے تاج بادشاہ سمجھتا ہے، مگر اس رات ایک ٹی وی پروگرام نے مجھے کامیڈی کے انتظار میںآنسوؤں میں ڈبو دیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ پروگرام انور مقصود کے ''لوز ٹاک'' سلسلے کا نشر مکرر تھا۔

انور مقصود نے اپنے مخصوص انداز میں معین اخترکو سامنے بٹھایا تھا، سوال جواب ہونا تھے، یہ دوبدو یا روبرو کامیڈی پروگرام تھا،اپنے وقت کا مقبول پروگرام، میں سیاسی ٹی وی ٹاکس کی بمبارڈ منٹ سے اکتا کر'' لوز ٹاک'' پر نظریں جما کر بیٹھ گیا اور میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ انور مقصود کا آج کا کامیڈی پروگرام میرے وجود کو معین اختر کے سپرد کردے گا اور ملک کا یہ مایہ نازکامیڈین آج کی شب منشیات کے ایک عادی نوجوان کا کردار ادا کرتے ہوئے اسکرین پر دھاڑیں مارکر روئے گا۔

پروگرام شروع ہوا۔انور مقصود نے معین اخترسے سوالات شروع کیے۔ معین اخترکا گیٹ اپ حقیقت سے قریب تر ، اس کے بکھرے بال ، بڑھی ہوئی شیو، چہرے کی اداسی ، برباد جوانی، مفلسی اور منشیات کی لت کے باعث درد بدری اس کے درد انگیزجوابات روح کو جھنجھوڑ رہے تھے، یہ مکالمے ، صداکاری یا روایتی اداکاری کا کوئی فرسودہ ڈرامہ نہ تھا بلکہ معین اختر منشیات کی دنیا کے ایک ستم رسیدہ پاکستانی نوجوان پرگزرنے والی ایک ایک لمحے کی آفاقی کہانی اپنی زبانی سنا رہے تھے، انور مقصود کے انسانی زندگی کے دکھوں سے بھرپور اسکرپٹ میں موجود سوالات معین اختر کو بولنے پر مجبورکر رہے تھے۔ معین اختر نے ایک خستہ تن بے منزل اور غریب الوطن عادی نشہ باز کی ناقابل یقین اداکاری کرتے ہوئے جب اپنے اسکول کے زمانے کو یاد کیا توگویا درد کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔

اس نے سلسلہ کلام کو اپنے مقدرکے ٹوٹے ہوئے ستارے کی طرح گرتے ہوئے تھام کر جب اسکول کے زمانے کو یاد کیا تو اس مقام پر معین کی اداکاری اور صدا کاری عروج پر تھی اور اس نے اس قول کو سچ کردکھایا کہ ''جہاں ادیب کا قلم گنگ ہوجاتا ہے وہاں سے اداکاری شروع ہوتی ہے۔'' معین اختر سے جب انور مقصود نے اسکول جانے کا پوچھا تو جذبات و احساسات کی آفاقیت نے معین کے لہجے میں گھرکر لیا، وہ رائیگاں جوانی کے سفر کی بے منزلیت کے باوجود اپنی تعلیمی اساس سے لاتعلق نہیں ہوا، منشیات سے تباہ حال معین اختر اسکول کا تدریسی بیانیہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر اپنے لرزتے لبوں پر لے آیا ، معین نے اسکول میں یاد کیے ہوئے الفاظ دہرائے۔ ان کے ہر دل کو چیرنے والے الفاظ تھے کہ

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

میں نے تیرا نام لکھا تھا

اتنا کہنے کے بعد پھرکچھ نہ پوچھئے کہ معین اختر پرکیا گذری اور انور مقصود پر بھی ۔ معین اختر نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا، اس وقت انور مقصود کا اسکرپٹ ، کیمرہ مین ، شوٹنگ عملہ اس کے آنسوؤں میں بہہ گئے، میں اداکاری کے باب میں اپنے آپ کو گریٹ ایکٹرز کی گریٹ ایکٹنگ کا نصابی کیڑا سمجھتا ہوں مگر معین کے آنسوؤں نے مجھے زندگی میں پہلی بارکسی پاکستانی ڈرامہ کی حقیقت پسندی پر رلادیا، اگرچہ معین اختر کا سین ختم ہوا اور وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے آگے بولنے لگے مگرکمرے میں میرے بھتیجے، بھتیجیاں پریشان تھے کہ چاچا کوکیا ہوگیا ، وہ ڈرامہ کا ذکر کرتے ہوئے رو کیوں رہے ہیں ، حقیقت یہ تھی کہ معین اختر نے جس نوجوان کی زندگی کا عکس پیش کیا وہ میرے اپنے بیٹے کی زندگی کا عکس نہیں اس کی سچی تصویر تھی۔


وہ معین اختر نہیں میرا بیٹا بابر شاہ تھا۔ میں اس لیے روتا رہا کہ میرے بیٹے کی شبیہ معین اختر کے وجود کا حصہ بن گئی تھی۔ بابر شاہ میرا دوسرا بیٹا ہے، اسے عظیم کراٹے ماسٹر اشرف طائی نے کراٹے سینٹر میں یلو بیلٹ دی اور وہ اسے باندھ کرگھر پہنچا تھا،اس کے چہرے پر منشیات کی لعنت سے نجات کی مسرت رقصاں تھی ، وہ کچھ دنوں کے بعد فیضان مدینہ میں جا کر اعتکاف میں بیٹھ گیا ، عید کے دن گھر والے خوش تھے کہ بابر اب زندگی کا نیا باب شروع کرے گا، مگر وائے حسرت ، لیاری کی کالی رات نے پھر سے بابر شاہ کا تعاقب کیا اور اس کا وہی الم ناک انجام ہوا جس کا ذکر میں نے معین اختر اور انور بھائی کے لوز ٹاک میں کیا ہے۔

آج منشیات اور اداکاری کا حوالہ ایک فکر انگیز اور یادگار ٹی وی پروگرام بنا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس مہیب سماجی ، اخلاقی اور معاشی مسئلہ نے نہ صرف لیاری کے ہزاروں گھر اجاڑے بلکہ وطن عزیزکے ان گنت نوجوانوں کے خواب ریزہ ریزہ کر دیے۔ لیاری میں 40 برس قبل تحریک انسداد لیاری کی داغ بیل ڈالی گئی۔ میرے صحافی والد اسرار عارفی نے اپنی زندگی، منشیات کے عادی افراد کی بحالی، تحفظ اور مسئلہ کے خاتمہ کی جدوجہد میں گزار دی۔ اس تحریک میں بے شمار اہل ضمیر اور اہل دل شخصیات نے معاونت کی، سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی، امداد حسین، سکندر بلوچ ، ابرار محی الدین ، سید سعید حسن ، شیر محمد رئیس، طارق رحمانی ، فاروق اعوان آف نیشنل موٹرز، اسپورٹس رپورٹر رفیق بلوچ ، کیپٹن امام بخش، شفیع بٹ ، عبدالرحمن شاہ ، ابراہیم بھٹو، مبارک رقم اور دیگر اس تحریک سے وابستہ تھے۔

یہ 1950کی دہائی تھی۔ ہیروئن کے زہر آلود نشہ سے پہلے کی بات ہے، گلی گلی میں چرس ، راکٹ ، پیتھیڈرین ، بھنگ ،گھانجہ ، افیون اور مارفیہ کے انجکشن سر عام بکتے تھے، لیاری کے دو تھانے تھے کلاکوٹ اور چاکیواڑہ ، پھر دو مزید تھانے قائم ہوئے بغدادی اورکلری مگر تھانوں کے قیام کا الٹا اثر ہوا ، منشیات کے انسداد کے بجائے کراچی اور لیاری کے درمیان منشیات کی تجارت کے نئے روٹس تلاش کیے گئے، لیاری کو طے شدہ منصوبہ کے تحت بد نام کیا گیا، اسے منشیات کی منڈی اور پھرگینگ وار کی تاریک راہوں میں دھکیل دیا گیا۔ وقت کی قہر سامانی ملاحظہ ہوکہ منشیات کے خاتمہ کی کوئی صورت نہ نکل سکی مگر تھانوں کی تعداد شہر قائد کے ریونیوکی طرح بڑھنے لگی۔ دنیا بھرکی ڈرگ مافیا نے کراچی اور خیبر پخونخوا کے روٹ کوکئی نام دیے۔

ثنا اصغرکی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق230 ملین افراد دنیا بھر میں غیر قانونی منشیات استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کے عادی افراد میں نوجوان نسل سر فہرست ہے ، اس وبا سے خاندان ، برادریاں ، اسکول وکالجز اور اسپورٹس و شوبز کی دنیا تک آلودہ ہوکر رہ گئی ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 8 لاکھ افراد ہیروئن کے عادی ہیں، جن کی عمریں بالترتیب 15سے 64 برس تک ہیں، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات وجرائم (unodc)کا کہنا ہے کہ امریکا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں ہیروئن کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہرسال 44 ٹن ہیروئن استعمال میں لائی جاتی ہے۔یہ تناسب امریکا میں پاکستان کے لحاظ سے تگنا یا چوگنا ہے۔

اس وقت پاکستان ، بھارت، مالدیپ،بنگلہ دیش اور نیپال کے مقابلہ میں سب سے آگے ہے اور دنیا میں ہیروئن کے سب سے بڑے مرکز اور اڈے کے طور پر عالمی ڈرگ مافیا کی توجہ پاکستان پر ہے، بلوچستان میں بظاہر شورش ہے مگر منشیات کی تجارت اور اسمگلنگ کے حوالے سے صوبہ بلوچستان میں اب تک منشیات کی بھاری کھیپیں پکڑی جاچکی ہیں۔اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میںمنشیات کے عادی افراد کی محتاط تعداد 7.6ملین ہے، جس میں78 فیصد مرد جب کہ22 فیصد خواتین شامل ہیں، مزید برآں اس تعداد میں سالانہ 40 ہزارکا اضافہ ہو رہا ہے۔

ہیروئن کی درد ناک حقیقت پر ایک واقعہ سنئے ۔ یہ 80کا زمانہ تھا، پاکستان نیشنل سینٹرز قائم تھے جہاں مذاکرے منعقد ہوتے تھے، ایک بار ایگزیکٹو ڈائریکٹر صدیقی صاحب نے طارق روڈ پر واقع سینٹر پر ایک سیمینار رکھا جس میں منشیات سے وابستہ حکام نے بھی شرکت کی،اس موقع پر چند منشیات زدہ نوجوان بھی لائے گئے تاکہ وہ اپنے بد ترین حالات سے آگاہ کریں، منشیات کے ایک عادی مریض نے اپنی ہیروئن کی لت کے حوالہ سے بتایا کہ ہیروئن مہنگی بیچی جا رہی ہے اور پڑیا میں ملاوٹ ہوتی ہے۔

اس کے بعد محکمہ ایکسائزکے ایک افسر نے دوران تقریر انکشاف کیا کہ کراچی میں اکثر لوگ ملاوٹی ہیروئن مہنگے داموں خریدتے ہیں مگر انھیں پتا نہیں کہ وہ صرف مٹی ملی ہوئی ہیروئن استعمال کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ایک این جی او کے پختون کارکن کے سوال پر شرکائے محفل خوب محظوظ ہوئے جب انھوں نے کہا کہ کراچی کے بد نصیب نوجوان مٹی کے نام پر ہیروئن خریدتے ہیں تو آپ کے محکمہ اور آپ لوگوں کو شرم محسوس نہیں ہوتی کہ غریب لوگ مٹی کے نام پر ہیروئن خریدتے ہیں۔

اس وقت منشیات کی وبا نے ملک کی نوجوان نسل کی صحت پر شب خون مارا ہے ،کوئی شہر ،کوئی دیہات ، اسکول، کالج، جامعات منشیات کے مختلف آئٹموں سے محفوظ نہیں۔ چرس عام بکتی ہے، کرسٹل، لوشن ، کوکین ، افیون ، بھنگ گلی کوچوں میں دستیاب ہے، منشیات کے عادی افراد کے لیے سرکاری اسپتالوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، حکومت کی ترجیحات میں منشیات شامل نہیں۔کیونکہ اقتدار کا نشہ ہیروئن سے بڑھ کر ہے۔ضروری ہے کہ لیاری ، روتھ فاؤ سول اسپتال،جناح اسپتال اور ملک کے سرکاری اسپتالوں میں منشیات کے وارڈ اور اس کے معالجاتی شعبہ قائم ہونا چاہئیں، لاکھوں پاکستانی زہرکھا کر مر رہے ہیں۔ مسیحا خاموش ہیں، بہرحال جوباضمیر لوگ منشیات کے خاتمہ کے لیے سرگرم ہیں ان این جی اوزکو سامنے آنا چاہیے۔
Load Next Story