اسمارٹ فون اور تصویری شہادت
آپ نے افسران بالا کی خواہش سے بھی زیادہ کردیا اور پکچر نہیں بھیجی تو جیسے آپ نے کچھ کیا ہی نہیں
شعور کو ایسی گردوغبار میں گم کردیا گیا ہے کہ اب بے شعوری بھی دانشمندی کا ثبوت بن گئی ہے۔ پہلے جو جہالت تھی اب وہ رواج ہے۔ علمیت کے اظہار کےلیے اب جہالت کا مظاہرہ کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ عمل اور بے عملی میں بہت زیادہ فرق نہیں رہا۔ دکھاوا اور حقیقت بھی، جو پہلے ایک دوسرے کے متضاد ہوا کرتے تھے، اب امریکا اور پاکستان کی طرح بہت قریب آچکے ہیں۔ سچ اور جھوٹ بھی بھائی بھائی بن گئے ہیں۔ چور اور پولیس کی گاڑھی چھننے لگی ہے۔ ایسے ہی ہر دو متضاد اجناس اور اصناف آپس میں ایک خاص رشتے میں بندھ گئی ہیں۔ اس کی وجہ بنا ہے اسمارٹ فون اور اس کی بڑھتی ہوئی مانگ۔
اب کچھ اصطلاحات اتنی عام ہوچکی ہیں کہ ان کے اصل معنی ہی گم ہوگئے ہیں۔ آپ چور کہیں تو ایک پارٹی والے ناراض ہوجاتے ہیں، حالانکہ بات خربوزے کے چور کی ہوتی ہے۔ آپ یو ٹرن خواہ وہ سڑک کا ہی کیوں نہ ہو، کہیں گے تو بہت سے جوان آپ کے گریبان تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح اگر آپ کچھ بھی کہیں تو کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی آپ کے آڑے آجاتی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ گالیاں بھی خاص پارٹیوں اور خاص ناموں سے موسوم ہوچکی ہیں اور شعور نے اپنا رنگ بدلا ہوا ہے۔ اب اگر ان گالیوں کو آپ برا کہیں تو لوگ برا مان جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی وفاداری ثابت کرنے کےلیے تصویری شہادت دے رہا ہے، چاہے اسے فوٹو شاپ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
یہ پکٹوریل ایویڈینس اب سرکاری محکموں میں بھی لازم قرار پاچکی ہے۔ کوئی فنکشن ہو اس کی تصویریں آپ نے ضرور حکام بالا کو بھیجنی ہیں۔ آپ نے افسران بالا کی خواہش سے بھی زیادہ کردیا اور پکچر نہیں بھیجی تو جیسے آپ نے کچھ نہیں کیا اور مقررہ تاریخ سے پہلے ہی پکٹوریل ایویڈینس بنا لی اور اس دن اپ لوڈ کردی، بے شک آپ اپنے دفتر سے ہی غیر حاضر تھے تو آپ نے کارنامہ سرانجام دے لیا۔ اسی طرح وعدہ وفا کرنے والے اور مکر جانے والے بھی ایک ہی سکہ کے دو رخ بن چکے ہیں۔ وہی آدمی چند لمحے آپ کا مخالف نظر آئے گا مگر چند گھڑیوں بعد کوئی ایسا انقلاب آئے گا کہ وہ آپ کے شانہ بشانہ آپ کے دشمن کو غصہ دلا رہا ہوگا۔
اگر میری یہ ساری باتیں کسی کو غلط نظر آئیں تو میرے پاس تصویری ثبوت موجو ہیں جنہیں انگریزی میں آج کل پکٹوریل ایویڈینس کہا جارہا ہے۔ اس میڈیا کے دور میں ہر بات ممکن ہوگئی ہے۔ ہماری دوستی دشمنی، داخل خارج، حاضری غیر حاضری، چھٹی، بیماری، وفاداری، بداعتمادی، سب ہی پکٹوریل ایویڈینس سے ظاہر ہورہی ہے۔ کوئی مہم شروع کی جاتی ہے تو اس کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اس کے تصویری ثبوت منظر عام پر آجاتے ہیں۔
اصلی چور پکڑا جائے یا نہ پکڑا جائے، مگر چور ضرور پکڑا جاتا ہے۔ پولیس والے اپنے ہی کسی دوست کی تصویر فوٹو شاپ کرکے اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے، یوں کہہ لیں کہ جوان ہوچکا ہے، جو نہ کیے ہوئے گناہوں کا بھی پکٹوریل ایویڈینس لے آتا ہے اور اس شدو مد سے اس ثبوت کی ترویج و اشاعت کرتا ہے کہ ہمیں سچ اور جھوٹ بھائی بھائی نظر آنے لگتے ہیں۔
منافقت تو اب ہمارے معاشرے میں رہی ہی نہیں، اسے بھی ایک خوبی بنادیا گیا ہے۔ ایسا پہلے الیکشن کے دنوں میں ہوا کرتا تھا کہ یار لوگ بریانی اور کھابے اڑانے کےلیے مختلف کیمپوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ شام کو ایک کے تمبو میں ڈوبتے اور صبح کو کسی دوسرے کے تمبو سے نکلتے تھے۔ مگر اب یہ طرفہ تماشہ ہمیں اسمبلی میں اور دوسرے بہت سے پلیٹ فارموں پر بھی نظر آرہا ہے۔ جسے ضمیر کی آواز کے نام سے پکارا جارہا ہے۔ اپنی بات پر ڈٹ جانے والے اب بے وقوف ہیں۔ جو بھی اپنے موقف کو ثابت کرنا چاہتا ہے وہ پکٹوریل ایویڈینس نہیں لا سکتا اور اسے ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔
آج کل دکھاوا، دکھاوا رہا ہی نہیں، دکھاوا مطلب رکھ رکھاؤ۔ ہر کوئی حقیقت پسند ہوگیا ہے۔ پہلے ہمارے سیاست دان اور افسران کسی نہ کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کا دکھاوا کرلیا کرتے تھے، مگر اب یہ ایسا نہیں کرتے۔ کسی کی مہربانی سے جس مقام پر بھی پہنچ چکے ہوں وہ حقیقت پسندی ہی اختیار کرتے ہیں اور اس میں ہی سب کا فائدہ سمجھتے ہیں، بلکہ سمجھاتے بھی ہیں۔ جیسے ہمارے ایک چوہدری صاحب ہیں جو بار بار پکٹوریل ایویڈینس پیش کرنے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔
عام آدمی بھی اب اتنا ہوشیار اور چالاک ہوگیا ہے، سوری اسمارٹ ہوگیا ہے کہ اسمارٹ فون کے سارے فنکشن اس میں بھی کوٹ کوٹ کر بھر چکے ہیں۔ اسے جب چاہو فیکٹری ری سیٹ کرلو۔ اس کی کارکردگی پھر الف سے شروع ہوجاتی ہے۔ جو ایپ چاہیے انسٹال کردو، اس نے کون سا پکٹوریل ایویڈینس مانگنا ہے کہ یہ ایپ حقیقت ہے یا دکھاوا، منافقت ہے یا وفاداری، دوستی ہے یا دشمنی۔ اس نے تو کام کرنا ہے جب تک کہ اس کی زندگی کی میموری خالی ہے، اس میں تھوڑی سی اسپیس موجود ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اب کچھ اصطلاحات اتنی عام ہوچکی ہیں کہ ان کے اصل معنی ہی گم ہوگئے ہیں۔ آپ چور کہیں تو ایک پارٹی والے ناراض ہوجاتے ہیں، حالانکہ بات خربوزے کے چور کی ہوتی ہے۔ آپ یو ٹرن خواہ وہ سڑک کا ہی کیوں نہ ہو، کہیں گے تو بہت سے جوان آپ کے گریبان تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح اگر آپ کچھ بھی کہیں تو کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی آپ کے آڑے آجاتی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ گالیاں بھی خاص پارٹیوں اور خاص ناموں سے موسوم ہوچکی ہیں اور شعور نے اپنا رنگ بدلا ہوا ہے۔ اب اگر ان گالیوں کو آپ برا کہیں تو لوگ برا مان جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی وفاداری ثابت کرنے کےلیے تصویری شہادت دے رہا ہے، چاہے اسے فوٹو شاپ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
یہ پکٹوریل ایویڈینس اب سرکاری محکموں میں بھی لازم قرار پاچکی ہے۔ کوئی فنکشن ہو اس کی تصویریں آپ نے ضرور حکام بالا کو بھیجنی ہیں۔ آپ نے افسران بالا کی خواہش سے بھی زیادہ کردیا اور پکچر نہیں بھیجی تو جیسے آپ نے کچھ نہیں کیا اور مقررہ تاریخ سے پہلے ہی پکٹوریل ایویڈینس بنا لی اور اس دن اپ لوڈ کردی، بے شک آپ اپنے دفتر سے ہی غیر حاضر تھے تو آپ نے کارنامہ سرانجام دے لیا۔ اسی طرح وعدہ وفا کرنے والے اور مکر جانے والے بھی ایک ہی سکہ کے دو رخ بن چکے ہیں۔ وہی آدمی چند لمحے آپ کا مخالف نظر آئے گا مگر چند گھڑیوں بعد کوئی ایسا انقلاب آئے گا کہ وہ آپ کے شانہ بشانہ آپ کے دشمن کو غصہ دلا رہا ہوگا۔
اگر میری یہ ساری باتیں کسی کو غلط نظر آئیں تو میرے پاس تصویری ثبوت موجو ہیں جنہیں انگریزی میں آج کل پکٹوریل ایویڈینس کہا جارہا ہے۔ اس میڈیا کے دور میں ہر بات ممکن ہوگئی ہے۔ ہماری دوستی دشمنی، داخل خارج، حاضری غیر حاضری، چھٹی، بیماری، وفاداری، بداعتمادی، سب ہی پکٹوریل ایویڈینس سے ظاہر ہورہی ہے۔ کوئی مہم شروع کی جاتی ہے تو اس کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اس کے تصویری ثبوت منظر عام پر آجاتے ہیں۔
اصلی چور پکڑا جائے یا نہ پکڑا جائے، مگر چور ضرور پکڑا جاتا ہے۔ پولیس والے اپنے ہی کسی دوست کی تصویر فوٹو شاپ کرکے اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے، یوں کہہ لیں کہ جوان ہوچکا ہے، جو نہ کیے ہوئے گناہوں کا بھی پکٹوریل ایویڈینس لے آتا ہے اور اس شدو مد سے اس ثبوت کی ترویج و اشاعت کرتا ہے کہ ہمیں سچ اور جھوٹ بھائی بھائی نظر آنے لگتے ہیں۔
منافقت تو اب ہمارے معاشرے میں رہی ہی نہیں، اسے بھی ایک خوبی بنادیا گیا ہے۔ ایسا پہلے الیکشن کے دنوں میں ہوا کرتا تھا کہ یار لوگ بریانی اور کھابے اڑانے کےلیے مختلف کیمپوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ شام کو ایک کے تمبو میں ڈوبتے اور صبح کو کسی دوسرے کے تمبو سے نکلتے تھے۔ مگر اب یہ طرفہ تماشہ ہمیں اسمبلی میں اور دوسرے بہت سے پلیٹ فارموں پر بھی نظر آرہا ہے۔ جسے ضمیر کی آواز کے نام سے پکارا جارہا ہے۔ اپنی بات پر ڈٹ جانے والے اب بے وقوف ہیں۔ جو بھی اپنے موقف کو ثابت کرنا چاہتا ہے وہ پکٹوریل ایویڈینس نہیں لا سکتا اور اسے ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔
آج کل دکھاوا، دکھاوا رہا ہی نہیں، دکھاوا مطلب رکھ رکھاؤ۔ ہر کوئی حقیقت پسند ہوگیا ہے۔ پہلے ہمارے سیاست دان اور افسران کسی نہ کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کا دکھاوا کرلیا کرتے تھے، مگر اب یہ ایسا نہیں کرتے۔ کسی کی مہربانی سے جس مقام پر بھی پہنچ چکے ہوں وہ حقیقت پسندی ہی اختیار کرتے ہیں اور اس میں ہی سب کا فائدہ سمجھتے ہیں، بلکہ سمجھاتے بھی ہیں۔ جیسے ہمارے ایک چوہدری صاحب ہیں جو بار بار پکٹوریل ایویڈینس پیش کرنے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔
عام آدمی بھی اب اتنا ہوشیار اور چالاک ہوگیا ہے، سوری اسمارٹ ہوگیا ہے کہ اسمارٹ فون کے سارے فنکشن اس میں بھی کوٹ کوٹ کر بھر چکے ہیں۔ اسے جب چاہو فیکٹری ری سیٹ کرلو۔ اس کی کارکردگی پھر الف سے شروع ہوجاتی ہے۔ جو ایپ چاہیے انسٹال کردو، اس نے کون سا پکٹوریل ایویڈینس مانگنا ہے کہ یہ ایپ حقیقت ہے یا دکھاوا، منافقت ہے یا وفاداری، دوستی ہے یا دشمنی۔ اس نے تو کام کرنا ہے جب تک کہ اس کی زندگی کی میموری خالی ہے، اس میں تھوڑی سی اسپیس موجود ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔