منفرد چڑھاوے اور کرامات
سندھ کی بعض درگاہوں کی دل چسپ روداد
کراچی سے کشمور تک پھیلے سندھ میں لاتعداد درگاہیں، خانقاہیں اور مزارات موجود ہیں اور ان سے منسوب کرامات، روایات اور داستانیں بھی کم نہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ معاشروں کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے اول حکم راں کہ بے علم ہوں دوم علما جو بے عمل ہوں اور سوم فقرا جو بے توکل ہوں۔ صوفیائے کرام کی ارض مہران میں خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انھوں نے یہاں ایک طرف اسلام کا پیغام پھیلایا دوسری طرف برداشت، صلح کُل، بین المذاہب ہم آہنگی اور احترام انسانیت کا پرچار کیا جس کے اثرات آج بھی صوبے کی معاشرت پر جا بجا نظر آتے ہیں۔
مزارات اور سجادہ نشین تاریخ کا دل چسپ موضوع ہیں ڈاکٹر سارہ انصاری نے تو سندھ کے پیروں کے سیاسی اثرات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ اس مقالے میں انگریزوں سے ملنے والی مراعات، کمشنر و گورنر کے دربار میں کرسی نشینی، آفریں ناموں، اسلحے کے لائسنسوں اور دیگر سہولتوں کے حصول کے لیے ان ''بڑے لوگوں'' میں جاری کشمکش کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ہمارا موضوع نہیں ہے۔ بات ہے ان درگاہوں، خانقاہوں اور مزارات سے منسوب کرامات اور منتوں مرادوں کی تکمیل پر چڑھائے جانے والے نذرانوں کی۔
ضلع بدین میں پنگریو کے قریب سائیں سمن سرکار کی درگاہ ہے۔ ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور ٹنڈو محمد خان اضلاع کا شمار زیریں سندھ میں ہوتا ہے جسے اس نسبت سے لاڑ پکارا جاتا ہے جب کہ جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، کندھکوٹ اضلاع بالائی سندھ میں شمار ہوتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کو ''اتر'' کی نسبت سے ''اترادی'' کہا جاتا ہے۔ سائیں سمن سرکار کے عرس اور عام ایام میں عقیدت مند مرغ کا چڑھاوا دیتے ہیں۔ روایت ہے کہ مجذوب سید سمن شاہ کے گرد مرغ جمع رہتے تھے اور ان کی رغبت دیکھتے ہوئے زائرین بھی مرغ لانے لگے تھے۔ کہتے ہیں کہ کوئی سائیں سے دعا کے لیے التجا کرتا تو سائیں فرماتے ''تیرا کام ہوجائے گا، ہمارا مرغ مت بھولنا'' اور ایسا ہی ہوتا تھا۔
ٹنڈو باگو کے انور عباسی، بدین کے خالد محمود گھمن اور ماتلی کے اسلم قائم خانی نے ایسے کئی واقعات بھی بیان کیے جو مقامی لوگ کچہریوں (محفلوں) میں سائیں سمن سرکار کا ذکر آنے پر ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ تھر کی لوک فن کارہ مائی بھاگی کا ایک گیت ہے:
''سمن سائیں میں تمہارے در کی کنیز ہوں عقیدت سے دربار کے پانی کے مٹکے اور مون (تین ساڑھے تین فٹ اونچے مٹی کے برتن) بھروں گی۔'' (ترجمہ)
سائیں سمن سرکار کا عرس ہر سال اکتوبر کے اواخر اور نومبر کے شروع میں دھان کی فصل اترنے کے بعد شروع ہوتا ہے جس میں قرب و جوار ہی نہیں دوردراز سے بھی زائرین کی بڑی تعداد شرکت کے لیے پہنچتی ہے۔
انور عباسی نے درگاہ احمد راجو پر چڑھائے جانے والے بھینسوں کا یاد دلایا گولارچی جو سجاول بدین اضلاع کا سرحدی شہر ہے۔ اس کے نواح میں یہ مزار واقع ہے۔ یہاں منتوں مرادوں کی تکمیل پر بھینسوں یا پاڈوں کا چڑھاوا دیا جاتا ہے جو درگاہ کی ملکیت ہوتے ہیں اور انھیں فروخت نہیں کیا جاتا۔ چوںکہ بدین میں دھان کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور گولارچی میں تو اس کی منڈی بھی ہے۔
اس لیے درگاہ کے عقیدت مند یہ جنس بھی ہدیہ کرتے ہیں اور ہر قمری ماہ کے پہلے نوچندی اتوار کو زائرین کی تعداد دیکھتے ہوئے ایک دو یا زائد بھینسے ذبح کرکے ان کا گوشت اور چاول تیل یا گھی ڈالے بغیر لنگر تیار ہوتا ہے جس کا ذائقہ بھی مثالی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ چڑھائے گئے بھینسے یہاں آزادانہ گھومتے ہیں اور کھیتوں یا زرعی زمینوں میں چرمنے کا کوئی برا نہیں مانتا۔ ماضی میں تو کوئی واردات نہیں ہوتی تھی لیکن بقول انور عباسی اب کبھی کبھار مویشی چور ایسا کر گزرتے ہیں لیکن ان کی نشان دہی فوراً ہوجاتی ہے جس کا انھیں ازالہ مع ہرجانہ کرنا پڑتا ہے۔
ضلع بدین میں لواری شریف کی درگاہ بھی ہے جو سندھ کے متمول پیروں میں شمار ہوتے تھے۔ پیر سائیں گل حسن بادشاہ کی رحلت کے بعد چوںکہ ان کی نرینہ اولاد نہ تھی اس لیے سجادہ نشینی کا تنازعہ اسے دو حصوں میں منقسم کر گیا۔ کچھ مریدین نے مرحوم کی صاحب زادی کے بیٹے یعنی نواسے پیر محفوظ کو گدی نشین تسلیم کیا تو دیگر نے ان کے خلیفہ فیض محمد،جو درگاہ قاضی احمد ضلع نواب شاہ کے سجادہ نشین تھے، کو مستحق مسند نشین جانا۔ آج کل مرحوم فیض محمد کے صاحب زادے پیر محمد صادق قریشی دونوں درگاہوں کے سجادہ نشین ہیں۔ ضلع بدین میں ماتلی کے قریب شاہ دیوانوں ہاشمی کی درگاہ بھی معروف ہے جس کا حد درجہ احترام کیا جاتا ہے۔
خیرپور میں بیگماجی ریلوے اسٹیشن کے قریب حضرت پیر سید راجن قتال جہانیاں بخاری المعروف مست سرکار کا آستانہ ہے۔ ان بزرگ کا تعلق اوچ شریف سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں دعاؤں کے لیے آنے والے منت یا مقصد کی تکمیل پر ''گدھے'' کا چڑھاوا چڑھاتے ہیں۔ کہتے ہیں راجن قتال درویش خدامست تھے۔ کسی نے کوئی خواہش ظاہر کی اور دعا کے لیے کہا تو مست سرکار نے جواب دیا ''تیری خواہش پوری ہوجائے تو ہمیں سواری کے لیے گدھا لا دینا۔'' ان کی زندگی اور وفات کے بعد بھی لوگ منت پوری ہونے پر گدھے کو سجا سنوار کر خوب صورت چادروں سے مزین کرکے وہاں چھوڑ جاتے ہیں۔
مدتوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ عرس اور عام ایام میں یہاں عقیدت مندوں کی خاصی تعداد ہمہ وقت دیکھی جاتی ہے۔ ہمارے خیرپور کے دوست محب اللہ شاہ کے ماموں عبدالغنی بلوچ اسی درگاہ کے معتقد ہیں۔ انھوں نے ایسے بہت سے واقعات لوگوں کی حاجت براری کے بتائے اور خیرپور کے دیگر دوستوں نے بھی تصدیق کی کہ واقعی ایسا کچھ ہوتا ہے۔
خیرپور کو ویسے بھی میروں، پیروں اور کھجوروں کا دیس پکارا جاتا ہے۔ اول یہاں کے تالپور حکم رانوں کا لقب ہے، وہ میر کہلاتے تھے، دوسرے یہاں پیران پگارا، رانی پور، کھوڑا، گمبٹ سمیت کئی دیگر شہروں کے پیر اثرورسوخ رکھتے ہیں، درازہ میں حضرت سچل سرمست کا مزار موجود ہے اور خیرپور میں حضرت ابراہیم ادھم کی درگاہ بھی ہے، اور کھجور یہاں کی مشہور فصل ہے۔ نایاب اقسام کی کھجوریں اور طویل رقبے پر پھیلے ان کے باغات خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ خیرپور کی خشک کھجوروں کے چھوارے بڑی تعداد میں بھارت برآمد کیے جاتے ہیں جنھیں وہاں مندروں میں ناریلوں کی طرح چڑھاوے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
پنجاب میں ایک درگاہ کانواں والی سرکار کہلاتی ہے۔ صاحب درگاہ کوؤں کی خوراک و نگہداشت کے لیے وسائل استعمال کرتے تھے تو اسی نسبت سے ان کا نام ہی اسی نسبت سے مشہور ہوگیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر عروس البلاد کراچی میں نصف درجن کے قریب درگاہیں منفرد چڑھاووں کی وجہ سے مشہور ہیں جب کہ متعدد دیگر کی اپنی وجہ شہرت ہے۔ ڈیفنس کراچی میں واقع حضرت مصری شاہ کی درگاہ پر ان کے عقیدت مند مصری کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور یہ تحفہ ہی ان کے نام کا سبب بن گیا یا پھر ان کے نام کی نسبت سے لوگ مصری لے جانے لگے۔
کئی روایات ہیں جو عقیدت مند بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح کیماڑی کراچی میں پیر غائب شاہ کا مزار، ڈاکخانے کے قریب واقع ہے۔ آپ سے بہت سے کشف و کرامات منسوب ہیں۔ آپ کے عقیدت مند یہاں گُڑ کا تحفہ لے کر جاتے ہیں۔ منوڑہ کے بابا یوسف شاہ مہدوی اور کیماڑی کے غمازی غائب شاہ کے عقیدت مندوں کا دعویٰ ہے کہ 65ء کی جنگ میں بہت سے لوگوں نے انھیں بھارتی طیاروں سے گرنے والے بموں کو فضا میں پکڑتے اور سمندربُرد کرتے دیکھا۔ ایم اے جناح روڈ پر ہرمزجی اسٹریٹ گاڑی کھاتہ میں حضرت سچل شاہ بخاری مستان بابا کے مزار پر عقیدت مند نمک لے کر جاتے ہیں جو وہاں موجود طشت میں چڑھا دیتے ہیں۔ اس نمک کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کئی امراض اور آسیب زدہ شخص کے چھٹکارے میں شفا ہے۔ یہاں ایک ضعیف خاتون آنے والوں کو پانی پلایا کرتی تھیں۔ وفات کے بعد بھی وہاں ان کی مسند کے پاس موجود پانی کی بوتلیں بطور تبرک استعمال کی جاتی ہیں۔
آسیب زدگان کے لیے تین ہٹی کے مزار بابا نور علی شاہ غازی کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ویسے ٹھٹھہ میں درگاہ شاہ عقیق پر پیچیدہ امراض کے شکار افراد کی شفا یابی اور روحانی علاج کے لیے مشہور ہے یہاں آنے والوں کو صحت یابی کی نوید خواب میں سنائی جاتی ہے اور اس کا ثبوت جسم کے متعلقہ حصے پر سرجری کا نشان ہوتا ہے جسے وہ روحانی آپریشن قرار دیتے ہیں جبکہ جلالی بابا ٹھٹھہ جناتی بابا کے مزاروں پر آسیب زدہ افراد کا علاج ہونے کی روایات ہیں۔
عثمان دموہی نے اپنی تصنیف کراچی میں بھیم پورہ کی درگاہ ابراہیم شاہ بخاری کا تذکرہ کیا ہے جو بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کے عرس کا اہتمام آج بھی بچے کرتے ہیں جب کہ صدر کے علاقے میں ایک مزار کا انتظام اور عرس پارسی اور کرسچن کرتے تھے۔ مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال اس اکبر روڈ کے مندر میں تعزیہ داری ہے جو برسوں سے ہو رہی ہے اور بھیم پورہ اور نارائن پورہ میں اقلیتی آبادی عزاداری کا اہتمام کرتی ہے۔
مزارات اور ان سے منسوب کرامات کے حوالے سے کراچی میں حضرت بابا عبداللہ شاہ غازیؒ اور منوڑا میں یوسف شاہ مہدوی کے مزارات منفرد نوعیت کے حامل ہیں۔ ساحل منوڑا پر واقع مزار کی انتظامیہ نے بورنگ کرائی تو زمین سے نکلنے والا پانی میٹھا تھا، حالاںکہ سمندر چند فٹ کے فاصلے پر موجویں مار رہا ہے۔ اسی طرح سیکڑوں برس سے بابا عبداللہ شاہ غازی کے مزار والی پہاڑی کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ موجود ہے۔ پچاس برس قبل تک تو پہاڑی سے سمندری پانی ٹکرا کر واپس جاتا تھا لیکن چشمے کا پانی ہنوز میٹھا ہے۔
اس طرح بھارت میں امروہہ کے شاہ ولایت کی درگاہ پر زہریلے بچھو پھرتے ہیں اور کوئی نہیں کاٹتا یوں لگتا ہے کہ ان کا زہر ختم ہوچکا ہے۔ بہت سے لوگ بیان کرتے ہیں کہ مزار سے بچھو باہر لے جایا گیا تو اس کے کاٹے کے زہریلے اثرات مرتب ہوئے جب کہ باہر کے بچھو کو اندر لایا گیا تو وہ اپنی صفت کھو بیٹھا۔ اسی طرح حیدرآباد دکن میں چیونٹی شاہ کے مزار پر زہریلی چیونٹیاں گھومتی پھرتی ہیں لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ افغانستان میں قندھار کا معجزاتی قبرستان بھی مشہور ہے جہاں مدفون بعض بزرگوں سے کرامات کا اظہار آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے مزارات ہیں جن سے ملحقہ درختوں پر آہنی کیل گاڑ دی جائے تو کیل گاڑنے والے شخص کے دانت کا درد ختم ہوجاتا ہے۔
سائنس کی اپنی توجیہات ہیں اور اہل علم کی اپنی تحقیقات لیکن کچھ چیزیں کچھ معاملات ایسے ضرور سامنے آتے ہیں جنھیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ان لوگوں کے لیے تو بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے جو ان کے ارادت مند بھی ہوں۔
بہرکیف سندھ ہو یا برصغیر کے دیگر علاقوں مزارات ان سے منسوب کرامات اور ان پر چڑھائے جانے والے چڑھاوے گفتگو کا دل چسپ موضوع ضرور ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ معاشروں کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے اول حکم راں کہ بے علم ہوں دوم علما جو بے عمل ہوں اور سوم فقرا جو بے توکل ہوں۔ صوفیائے کرام کی ارض مہران میں خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انھوں نے یہاں ایک طرف اسلام کا پیغام پھیلایا دوسری طرف برداشت، صلح کُل، بین المذاہب ہم آہنگی اور احترام انسانیت کا پرچار کیا جس کے اثرات آج بھی صوبے کی معاشرت پر جا بجا نظر آتے ہیں۔
مزارات اور سجادہ نشین تاریخ کا دل چسپ موضوع ہیں ڈاکٹر سارہ انصاری نے تو سندھ کے پیروں کے سیاسی اثرات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ اس مقالے میں انگریزوں سے ملنے والی مراعات، کمشنر و گورنر کے دربار میں کرسی نشینی، آفریں ناموں، اسلحے کے لائسنسوں اور دیگر سہولتوں کے حصول کے لیے ان ''بڑے لوگوں'' میں جاری کشمکش کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ہمارا موضوع نہیں ہے۔ بات ہے ان درگاہوں، خانقاہوں اور مزارات سے منسوب کرامات اور منتوں مرادوں کی تکمیل پر چڑھائے جانے والے نذرانوں کی۔
ضلع بدین میں پنگریو کے قریب سائیں سمن سرکار کی درگاہ ہے۔ ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور ٹنڈو محمد خان اضلاع کا شمار زیریں سندھ میں ہوتا ہے جسے اس نسبت سے لاڑ پکارا جاتا ہے جب کہ جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، کندھکوٹ اضلاع بالائی سندھ میں شمار ہوتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کو ''اتر'' کی نسبت سے ''اترادی'' کہا جاتا ہے۔ سائیں سمن سرکار کے عرس اور عام ایام میں عقیدت مند مرغ کا چڑھاوا دیتے ہیں۔ روایت ہے کہ مجذوب سید سمن شاہ کے گرد مرغ جمع رہتے تھے اور ان کی رغبت دیکھتے ہوئے زائرین بھی مرغ لانے لگے تھے۔ کہتے ہیں کہ کوئی سائیں سے دعا کے لیے التجا کرتا تو سائیں فرماتے ''تیرا کام ہوجائے گا، ہمارا مرغ مت بھولنا'' اور ایسا ہی ہوتا تھا۔
ٹنڈو باگو کے انور عباسی، بدین کے خالد محمود گھمن اور ماتلی کے اسلم قائم خانی نے ایسے کئی واقعات بھی بیان کیے جو مقامی لوگ کچہریوں (محفلوں) میں سائیں سمن سرکار کا ذکر آنے پر ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ تھر کی لوک فن کارہ مائی بھاگی کا ایک گیت ہے:
''سمن سائیں میں تمہارے در کی کنیز ہوں عقیدت سے دربار کے پانی کے مٹکے اور مون (تین ساڑھے تین فٹ اونچے مٹی کے برتن) بھروں گی۔'' (ترجمہ)
سائیں سمن سرکار کا عرس ہر سال اکتوبر کے اواخر اور نومبر کے شروع میں دھان کی فصل اترنے کے بعد شروع ہوتا ہے جس میں قرب و جوار ہی نہیں دوردراز سے بھی زائرین کی بڑی تعداد شرکت کے لیے پہنچتی ہے۔
انور عباسی نے درگاہ احمد راجو پر چڑھائے جانے والے بھینسوں کا یاد دلایا گولارچی جو سجاول بدین اضلاع کا سرحدی شہر ہے۔ اس کے نواح میں یہ مزار واقع ہے۔ یہاں منتوں مرادوں کی تکمیل پر بھینسوں یا پاڈوں کا چڑھاوا دیا جاتا ہے جو درگاہ کی ملکیت ہوتے ہیں اور انھیں فروخت نہیں کیا جاتا۔ چوںکہ بدین میں دھان کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور گولارچی میں تو اس کی منڈی بھی ہے۔
اس لیے درگاہ کے عقیدت مند یہ جنس بھی ہدیہ کرتے ہیں اور ہر قمری ماہ کے پہلے نوچندی اتوار کو زائرین کی تعداد دیکھتے ہوئے ایک دو یا زائد بھینسے ذبح کرکے ان کا گوشت اور چاول تیل یا گھی ڈالے بغیر لنگر تیار ہوتا ہے جس کا ذائقہ بھی مثالی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ چڑھائے گئے بھینسے یہاں آزادانہ گھومتے ہیں اور کھیتوں یا زرعی زمینوں میں چرمنے کا کوئی برا نہیں مانتا۔ ماضی میں تو کوئی واردات نہیں ہوتی تھی لیکن بقول انور عباسی اب کبھی کبھار مویشی چور ایسا کر گزرتے ہیں لیکن ان کی نشان دہی فوراً ہوجاتی ہے جس کا انھیں ازالہ مع ہرجانہ کرنا پڑتا ہے۔
ضلع بدین میں لواری شریف کی درگاہ بھی ہے جو سندھ کے متمول پیروں میں شمار ہوتے تھے۔ پیر سائیں گل حسن بادشاہ کی رحلت کے بعد چوںکہ ان کی نرینہ اولاد نہ تھی اس لیے سجادہ نشینی کا تنازعہ اسے دو حصوں میں منقسم کر گیا۔ کچھ مریدین نے مرحوم کی صاحب زادی کے بیٹے یعنی نواسے پیر محفوظ کو گدی نشین تسلیم کیا تو دیگر نے ان کے خلیفہ فیض محمد،جو درگاہ قاضی احمد ضلع نواب شاہ کے سجادہ نشین تھے، کو مستحق مسند نشین جانا۔ آج کل مرحوم فیض محمد کے صاحب زادے پیر محمد صادق قریشی دونوں درگاہوں کے سجادہ نشین ہیں۔ ضلع بدین میں ماتلی کے قریب شاہ دیوانوں ہاشمی کی درگاہ بھی معروف ہے جس کا حد درجہ احترام کیا جاتا ہے۔
خیرپور میں بیگماجی ریلوے اسٹیشن کے قریب حضرت پیر سید راجن قتال جہانیاں بخاری المعروف مست سرکار کا آستانہ ہے۔ ان بزرگ کا تعلق اوچ شریف سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں دعاؤں کے لیے آنے والے منت یا مقصد کی تکمیل پر ''گدھے'' کا چڑھاوا چڑھاتے ہیں۔ کہتے ہیں راجن قتال درویش خدامست تھے۔ کسی نے کوئی خواہش ظاہر کی اور دعا کے لیے کہا تو مست سرکار نے جواب دیا ''تیری خواہش پوری ہوجائے تو ہمیں سواری کے لیے گدھا لا دینا۔'' ان کی زندگی اور وفات کے بعد بھی لوگ منت پوری ہونے پر گدھے کو سجا سنوار کر خوب صورت چادروں سے مزین کرکے وہاں چھوڑ جاتے ہیں۔
مدتوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ عرس اور عام ایام میں یہاں عقیدت مندوں کی خاصی تعداد ہمہ وقت دیکھی جاتی ہے۔ ہمارے خیرپور کے دوست محب اللہ شاہ کے ماموں عبدالغنی بلوچ اسی درگاہ کے معتقد ہیں۔ انھوں نے ایسے بہت سے واقعات لوگوں کی حاجت براری کے بتائے اور خیرپور کے دیگر دوستوں نے بھی تصدیق کی کہ واقعی ایسا کچھ ہوتا ہے۔
خیرپور کو ویسے بھی میروں، پیروں اور کھجوروں کا دیس پکارا جاتا ہے۔ اول یہاں کے تالپور حکم رانوں کا لقب ہے، وہ میر کہلاتے تھے، دوسرے یہاں پیران پگارا، رانی پور، کھوڑا، گمبٹ سمیت کئی دیگر شہروں کے پیر اثرورسوخ رکھتے ہیں، درازہ میں حضرت سچل سرمست کا مزار موجود ہے اور خیرپور میں حضرت ابراہیم ادھم کی درگاہ بھی ہے، اور کھجور یہاں کی مشہور فصل ہے۔ نایاب اقسام کی کھجوریں اور طویل رقبے پر پھیلے ان کے باغات خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ خیرپور کی خشک کھجوروں کے چھوارے بڑی تعداد میں بھارت برآمد کیے جاتے ہیں جنھیں وہاں مندروں میں ناریلوں کی طرح چڑھاوے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
پنجاب میں ایک درگاہ کانواں والی سرکار کہلاتی ہے۔ صاحب درگاہ کوؤں کی خوراک و نگہداشت کے لیے وسائل استعمال کرتے تھے تو اسی نسبت سے ان کا نام ہی اسی نسبت سے مشہور ہوگیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر عروس البلاد کراچی میں نصف درجن کے قریب درگاہیں منفرد چڑھاووں کی وجہ سے مشہور ہیں جب کہ متعدد دیگر کی اپنی وجہ شہرت ہے۔ ڈیفنس کراچی میں واقع حضرت مصری شاہ کی درگاہ پر ان کے عقیدت مند مصری کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور یہ تحفہ ہی ان کے نام کا سبب بن گیا یا پھر ان کے نام کی نسبت سے لوگ مصری لے جانے لگے۔
کئی روایات ہیں جو عقیدت مند بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح کیماڑی کراچی میں پیر غائب شاہ کا مزار، ڈاکخانے کے قریب واقع ہے۔ آپ سے بہت سے کشف و کرامات منسوب ہیں۔ آپ کے عقیدت مند یہاں گُڑ کا تحفہ لے کر جاتے ہیں۔ منوڑہ کے بابا یوسف شاہ مہدوی اور کیماڑی کے غمازی غائب شاہ کے عقیدت مندوں کا دعویٰ ہے کہ 65ء کی جنگ میں بہت سے لوگوں نے انھیں بھارتی طیاروں سے گرنے والے بموں کو فضا میں پکڑتے اور سمندربُرد کرتے دیکھا۔ ایم اے جناح روڈ پر ہرمزجی اسٹریٹ گاڑی کھاتہ میں حضرت سچل شاہ بخاری مستان بابا کے مزار پر عقیدت مند نمک لے کر جاتے ہیں جو وہاں موجود طشت میں چڑھا دیتے ہیں۔ اس نمک کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کئی امراض اور آسیب زدہ شخص کے چھٹکارے میں شفا ہے۔ یہاں ایک ضعیف خاتون آنے والوں کو پانی پلایا کرتی تھیں۔ وفات کے بعد بھی وہاں ان کی مسند کے پاس موجود پانی کی بوتلیں بطور تبرک استعمال کی جاتی ہیں۔
آسیب زدگان کے لیے تین ہٹی کے مزار بابا نور علی شاہ غازی کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ویسے ٹھٹھہ میں درگاہ شاہ عقیق پر پیچیدہ امراض کے شکار افراد کی شفا یابی اور روحانی علاج کے لیے مشہور ہے یہاں آنے والوں کو صحت یابی کی نوید خواب میں سنائی جاتی ہے اور اس کا ثبوت جسم کے متعلقہ حصے پر سرجری کا نشان ہوتا ہے جسے وہ روحانی آپریشن قرار دیتے ہیں جبکہ جلالی بابا ٹھٹھہ جناتی بابا کے مزاروں پر آسیب زدہ افراد کا علاج ہونے کی روایات ہیں۔
عثمان دموہی نے اپنی تصنیف کراچی میں بھیم پورہ کی درگاہ ابراہیم شاہ بخاری کا تذکرہ کیا ہے جو بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کے عرس کا اہتمام آج بھی بچے کرتے ہیں جب کہ صدر کے علاقے میں ایک مزار کا انتظام اور عرس پارسی اور کرسچن کرتے تھے۔ مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال اس اکبر روڈ کے مندر میں تعزیہ داری ہے جو برسوں سے ہو رہی ہے اور بھیم پورہ اور نارائن پورہ میں اقلیتی آبادی عزاداری کا اہتمام کرتی ہے۔
مزارات اور ان سے منسوب کرامات کے حوالے سے کراچی میں حضرت بابا عبداللہ شاہ غازیؒ اور منوڑا میں یوسف شاہ مہدوی کے مزارات منفرد نوعیت کے حامل ہیں۔ ساحل منوڑا پر واقع مزار کی انتظامیہ نے بورنگ کرائی تو زمین سے نکلنے والا پانی میٹھا تھا، حالاںکہ سمندر چند فٹ کے فاصلے پر موجویں مار رہا ہے۔ اسی طرح سیکڑوں برس سے بابا عبداللہ شاہ غازی کے مزار والی پہاڑی کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ موجود ہے۔ پچاس برس قبل تک تو پہاڑی سے سمندری پانی ٹکرا کر واپس جاتا تھا لیکن چشمے کا پانی ہنوز میٹھا ہے۔
اس طرح بھارت میں امروہہ کے شاہ ولایت کی درگاہ پر زہریلے بچھو پھرتے ہیں اور کوئی نہیں کاٹتا یوں لگتا ہے کہ ان کا زہر ختم ہوچکا ہے۔ بہت سے لوگ بیان کرتے ہیں کہ مزار سے بچھو باہر لے جایا گیا تو اس کے کاٹے کے زہریلے اثرات مرتب ہوئے جب کہ باہر کے بچھو کو اندر لایا گیا تو وہ اپنی صفت کھو بیٹھا۔ اسی طرح حیدرآباد دکن میں چیونٹی شاہ کے مزار پر زہریلی چیونٹیاں گھومتی پھرتی ہیں لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ افغانستان میں قندھار کا معجزاتی قبرستان بھی مشہور ہے جہاں مدفون بعض بزرگوں سے کرامات کا اظہار آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے مزارات ہیں جن سے ملحقہ درختوں پر آہنی کیل گاڑ دی جائے تو کیل گاڑنے والے شخص کے دانت کا درد ختم ہوجاتا ہے۔
سائنس کی اپنی توجیہات ہیں اور اہل علم کی اپنی تحقیقات لیکن کچھ چیزیں کچھ معاملات ایسے ضرور سامنے آتے ہیں جنھیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ان لوگوں کے لیے تو بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے جو ان کے ارادت مند بھی ہوں۔
بہرکیف سندھ ہو یا برصغیر کے دیگر علاقوں مزارات ان سے منسوب کرامات اور ان پر چڑھائے جانے والے چڑھاوے گفتگو کا دل چسپ موضوع ضرور ہیں۔