اقوام متحدہ سلامتی کونسل اجلاس اور کشمیر
جو قومیں،گروہ یاافراد اپنے ماضی اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے ان کا مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے۔
امید کیا ہے اور یہ کیسے پیدا ہوئی، اس کے لیے دور یونانی دیو مالا Greek Mythology)) میں ایک بڑا ہی دلچسپ قصہ موجود ہے۔Hesiod سے لی گئی دیو مالا میں ہے کہ ایک خوشیوں سے بھر پورسنہری دور ایسا تھا جب زمین پر صرف مرد پائے جاتے تھے۔
زمین عورت کے وجود سے خالی تھی،ذیوس(یونانی دیو مالا میں سپریم دیوتا) نے عورت کی تخلیق صرف اس لیے کی کہ وہ انسان اور انسان کے دوست پرومیتھیس کو اس کے کیے کی سزا دے سکے۔ پرومیتھیس نے ایک تو دیوتاؤں کی اجازت کے بغیر اولمپس سے آگ چرا کر انسان کو دی تاکہ وہ اس کو اپنے استعمال میں لا سکے اور دوسرا اس نے دیوتاؤں کے ساتھ ہاتھ کرتے ہوئے یہ یقینی بنایا کہ قربانی کے وقت اچھا گوشت انسان کو پہنچے۔
زیوس کے ساتھ ہاتھ تو ہو گیا لیکن وہ اس برتاؤ پر ا نتہائی نا خوش تھا، اس نے عہد کیا کہ وہ پہلے انسان کو سزا دے گا اور پھر پرومیتھیس کی خبر لے گا۔انسان کو سزا دینے کے لیے زیوس نے انسان کی ہم جنس تیار کی جو دیکھنے میں خوبصورت اور دل موہ لینے والی تھی۔زیوس نے اس کا نام پنڈورا رکھااور اسے دوسرے دیوتاؤں کو دکھایا جو اسے دیکھتے ہی حیران رہ گئے کیونکہ پنڈورا دیکھنے میں بہت خوبصورت،من موہنی۔ نازک اندام اور شرمیلی تھی۔بظاہر تو یہ حالت تھی لیکن زیوس نے اس کے اندر بے حد تجسس بھر رکھا تھا جس کے ذریعے وہ انسان کو سزا دینا چاہتا تھا۔
زیوس نے ایک خوبصورت صندوق پنڈورا کو تحفے میں دیا جس کو پنڈورا باکس کہا گیا۔زیوس اور باقی سارے دیوتاؤں نے اس صندوق کے اندر کچھ نہ کچھ برائی،شر، بیماری،دکھ،مصیبت رکھ چھوڑی تھیں۔ یہ صندوق دیتے وقت پنڈورا کو تاکید کی کہ وہ اس کو کبھی بھی نہ کھولے۔ دیوتاؤں نے صندوق کے ساتھ پنڈورا کو پرومیتھیس کے بھائی ایپی میتھیس کے پاس بھیج دیا جس نے پنڈورا کو خوش آمدید کہا حالانکہ پرومیتھیس نے اسے خبردار کیا تھا کہ وہ دیوتاؤں کی بھیجی ہوئی کسی چیز کو کبھی قبول نہ کرے۔
جب پنڈورا ایپی کے ساتھ رہنے لگی تب اسے احساس ہوا کہ اس کے بھائی نے اسے نیک صلاح دی تھی کیونکہ اب وہ پنڈورا کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ادھر پنڈورا کے اندر بے پناہ تجسس تھا، وہ بہت بے چین تھی کہ صندوق کے اندر کیا ہے۔ ایک دن اس نے صندوق کا ڈھکنا اوپر اٹھا دیا۔ڈھکنے کا اٹھنا تھا کہ اس کے اندر بند تمام دکھ،تکلیفیں،مصیبتیں باہر آنا شروع ہو گئیں۔پنڈورا نے صندوق بند کرنے کی کوشش کی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔خوشیوں بھرا سنہری دور ختم ہو چکا تھا، رنج و آلام کے ساتھ ایک اچھی چیزجو پنڈورا باکس سے برآمد ہوئی وہ امید تھی جس کے سہارے برے سے برے حالات میں بھی انسان اچھے وقتوں کے سہانے سپنے سجائے زندگی گزار لیتا ہے۔
جو قومیں،گروہ یاافراد اپنے ماضی اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے ان کا مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے ہم نے تو جیسے فیصلہ ہی کر رکھا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھنا،سچ نہیں بولنا۔ پچھلے جمعہ 16اگست کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا جو اجلاس ہوا ،عوام کو اس کے بارے میں بھی سچی آگاہی سے محروم رکھا گیا۔ایک مشاورتی اجلاس جو نہ تو سلامتی کونسل کے چیمبر میں ہارس شو ٹیبل پر ہوتا ہے، نہ اس کے کوئی minutes لیے جاتے اور نہ ہی اس کا کوئی ریکارڈ رکھا جاتا ہے اس اجلاس کا اتنا تذکرہ کہ کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو سوائے شرمندہ ہوئے نہ بنے۔
90 منٹ کی پرائیویٹ بحث میں سلامتی کونسل کے ممبران اس بات پر بھی آمادہ نہیں ہوئے کہ پریس کے لیے ایک بیان ہی جاری کر دیا جائے حالانکہ سلامتی کونسل کسی بھی مسئلے پر سب سے نچلے درجے کا جو قدم اٹھاتی ہے وہ یہی پریس کے لیے بیان ہی ہوتا ہے،کیا سلامتی کونسل کی اس بے حسی،بے اعتناعی سے کشمیر کاز کو تقویت ملے گی اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں جاتا ہے،فی الوقت پاکستان معاشی طور پر اتنا کمزور ہے کہ وہ اپنی پالیسیاں خود بنا کر عملی جامہ نہیں پہنا سکتا اس لیے کشمیر کاز کی عملی مدد نہیں ہو سکتی۔
ایسے میں دو صورتیں مدد گار ہو سکتی ہیں،یا تو کشمیری مزاحمت بھارت کو سیاسی و اقتصادی طور پر اتنی مہنگی پڑ جائے کہ وہ خود ہی کسی آبرو بچاؤ فارمولے کے سہارے نکل بھاگے،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سفارتی و اقتصادی دباؤ بھارت کے لیے اتنا ناقابلِ برداشت ہو جائے کہ و ہ ا س کی تاب نہ لاتے ہوئے کشمیر کے کسی حل پر آمادہ ہو۔کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں معاون تو ہو سکتی ہیں لیکن وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر باب ششم کے تحت ہیں جن کی حیثیت محض اخلاقی و سفارشی ہے۔ اگر یہی قراردادیں ساتویں باب کے تحت ہوتیں تو موثر ہو سکتی تھیں۔
پاکستان کی موجودہ معیشت اور تجارتی حجم کو سامنے رکھیں تو اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔سعودی عرب کو لیجیے پاکستان تو تیل بھی ادھار لیتا ہے جب کہ بھارت اٹھائیس ارب ڈالر سالانہ کا تیل کیش دے کر لیتا ہے۔ بھارت سے اماراتی تجارت کا حجم پچاس ارب ڈالرہے۔سلامتی کونسل کا مستقل ممبر روس آج بھی بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اگلے برس وہ پانچ ارب ڈالر کا S-400 میزائل سسٹم فراہم کرے گا۔چین کی وجہ سے بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک ساتھی ہے۔بھارت فرانس سے نقد ادائیگی کر کے 135 رافیل طیارے اور پانچ سب میرین حاصل کر رہا ہے۔
جن میں سے سو طیارے اور تین میرین بھارت میں تیار ہوں گی۔اب آئیے چین کی طرف۔چین باقی تجارت کے علاوہ اگلے ایک سال میں دو سو ملین موبائل فون بھارت کو بیچ رہا ہے۔جہاں تک سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کا تعلق ہے تو کویت ،انڈونیشیا جیسے اسلامی ممالک سمیت کسی نے بھی مشاورتی اجلاس میں کشمیریوں کی حمایت میں ایک لفظ تک نہیں بولا۔ایسے میں بظاہر ہر طرف سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے افغانستان سے نکلنے کے لیے بے تاب ہیں ا ورپاکستان کی مدد کے طالب ہیں۔امریکا نے سلامتی کونسل اجلاس میں تو بھارت کی مدد کی لیکن اب پاکستان کی تالیف قلب کے لیے مودی کو فون کر دیا ہے اور ہم خوش ہو گئے ہیں۔لیگ آف نیشن کے قیام پر علامہ اقبال نے فرمایا تھا
بر فند تا روش رزم درین بزمِ کہن۔درد منداں جھان طرح نواند اختہ اند۔من ازیں بیش ندانم کہ کفن و زدی چند، بہر تقسیم قبور انجمی ساختہ اند۔(دنیا کے بہی خواہوں نے نئی روش اپنائی ہے۔اس بزم ِکہن سے جنگ کا چلن ختم ہو،میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے آپس میں قبریں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے)۔یہی کچھ اقوامِ متحدہ کر رہی ہے لیکن کیا کوئی امید کی کرن ہے،کیا کشمیریوں کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔بظاہر ہر سو اندھیرا ہے لیکن کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
صدر ٹرمپ بہت اچھے بزنس مین ہیں وہ پہلے تو پاکستان سے مفت مدد چاہیں گے لیکن اگر یہ ممکن نہ ہوا تو سودے بازی کے لیے بھی تیار ہوں گے۔ ہماری قیادت کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ بہترین سفارتکاری کے ساتھ بہترین سودے بازی بھی کریں اور زور دیں کہ اگر افغانستان سے نکلنے میں پاکستان کی مدد چاہیے تو کشمیر کا مسئلہ حل کروانا ہو گا۔لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تب بھی کشمیریوں کی تحریکِ آزادی میں وہ جذبہ سرایت کر چکا ہے کہ ممکن نہیں کہ شام ِالم کی سحر نہ ہو۔بقول امیر قزلباش میرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا،اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا۔