آہنگ بازگشت

بچپن میں ایک بزرگ نے محمد سعید سے کہا تھا،کتاب نہ لکھنا۔عمر بھروہ اس نصیحت پر کاربند رہے، بڑھاپے میں آکر توبہ ٹوٹ گئی۔

مولوی محمد سعید پسرورکے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، والد محکمہ انہار میں ملازم تھے۔ بچپن بادیہ پیماؤں میں گزرا پھر حضرکا دور شروع ہوا جنگلوں کی وسعتیں پیچھے رہ گئیں۔ ان کی جگہ شہروں کی کوچہ نوردیوں نے لے لی۔ لاہور پہنچے تو ایک نئی دنیا میں آ نکلے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی۔ متعدد درس گاہوں سے تعلق رہا۔علیگڑھ سے فارغ ہوئے تو تعلیمی زندگی اختتام کو پہنچی۔

محمد سعید لاہور آگئے اور تلاش معاش میں مشغول ہوگئے۔ وقت جیسے جیسے گزرتا گیا احساس ناکامی بڑھتا گیا۔ ایک دن ریلوے روڈ سے گزر رہے تھے کہ ایک جگہ ''شہباز'' کا بورڈ لگا تھا۔ لکھتے ہیں ''نہ جانے جی میں کیا آئی کہ سیڑھیوں پر چڑھ گیا۔ مرتضیٰ احمد خان میکش کا کمرہ سامنے تھا۔اجازت لے کر اندر چلا گیا۔انھوں نے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے کہا، زندگی کے کئی میدانوں میں قسمت آزمانے کی کوشش کی ہے، ناکام رہا ہوں۔صحافت کا خیال بارہا دل میں ابھرتا رہا ہے۔ موقع دیجیے کہ یہ بھی آزما دیکھوں۔ ناکامی کی صورت میں بھی آپ کا ممنون ہوں گا کہ ایک بھرم اورکھل گیا۔'' میکش نے کہا، کل سے آجائیے۔ تنخواہ 35 روپے ہوگی۔

سعید دوسرے دن سے کام پر لگ گئے۔ ایک خبر کا ترجمہ کیا۔ تھوڑی سی تصحیح کے بعد وہ خبر اگلی صبح اخبار میں چھپ گئی۔ان کی مسرت کی انتہا نہ رہی کہ ان کی تحریر اخبارکی زینت بنی ہے، اگرچہ اسے ایک غیر معروف گوشہ ہی نصیب ہوا تھا۔یوں مولوی سعید صحافت کے کوچہ میں آئے اور چھا گئے۔ بڑا نام پیدا کیا، بڑی عزت کمائی۔ مولوی محمد سعید نے اپنی زندگی کی داستان خودنوشت کتاب ''آہنگ بازگشت'' میں بیان کی ہے۔ یہ کتاب ان کی زندگی میں چھپ گئی تھی۔ اب راشد اشرف نے ''زندہ کتابوں'' کے سلسلے میں اہتمام سے دوبارہ شایع کی ہے۔

یہ وہ دور تھا جب پاکستان پر بڑی شد و مد سے بحث ہو رہی تھی۔ تحریک ایک ایسے نازک موڑ پر پہنچ گئی تھی جہاں قابل سے قابل قیادت بھی صحافی کے قلم سے بے نیاز نہیں رہ سکتی تھی۔ انھیں دنوں میں چند نوجوانوں نے مل کر لاہور میں پندرہ روزہ ''نوائے وقت'' جاری کیا اور دلی میں کچھ صاحب ثروت لوگوں کے اشتراک سے ہفتہ وار ''ڈان'' نکالا گیا۔ ان دونوں جریدوں کا اجرا ابھرتی ہوئی تحریک آزادی کی ضرورت تھی۔ محمد سعید ''شہباز'' میں کام کر رہے تھے مگر مطمئن نہ تھے۔

دلی میں فوجی ہیڈکوارٹر اسکول میں ملازمت کے لیے درخواست دی ہوئی تھی، وہاں سے بلاوا آگیا۔ یہ دلی پہنچ گئے۔ یہاں ضمیر جعفری اور دوسرے احباب کی صحبت میسر آئی۔ لیکن جلد ہی جنرل ہیڈ کوارٹر کے شب و روز سے اکتا گئے۔ ایک روز ایک دوست کے یہاں ''ڈان'' کے اسسٹنٹ ایڈیٹر عزیز بیگ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا، دوبارہ صحافت میں کیوں نہیں آجاتے؟

محمد سعید دو چار دن بعد ہی مسلم لیگ کے اخبار ''منشور'' پہنچے۔ اس کے ایڈیٹر حسن ریاض سے ملے، وہاں کامیابی نہ ہوئی تو سیدھے ''ڈان'' کے ایڈیٹر الطاف حسین کے پاس پہنچ گئے۔ مدعا بیان کیا۔ انھوں نے پوچھو، ''کسی انگریزی اخبار میں کام کیا ہے؟'' جواب دیا۔ ''انگریزی اخبار مسلمانوں کے پاس تھے کہاں جہاں کام کرتے۔ اردو اخبار تھے، ان میں ضرورکام کیا ہے۔'' الطاف حسین نے دوسرے دن دفتر میں بلایا۔ دس دن کام دکھانے کو کہا۔ سعید نے جی ایچ کیو سے رخصت لی اورکام شروع کردیا۔ دس دن بعد تقرر ہوگیا۔ یہ ایک بار پھر خبروں کے بھنور میں گرفتار ہوگئے۔

یہ بڑی سیاسی گہما گہمی کا زمانہ تھا۔ مولوی محمد سعید لکھتے ہیں ''1946ء کے آتے آتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تینوں فریقوں انگریز، ہندو اور مسلمان کو شدید احساس ہو چلا ہے کہ اب ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ انگریز تھک چکا تھا، نہ صرف جنگوں سے بلکہ حکمرانی سے بھی قائد ستر برس کے ہوچکے تھے، قوا میں اضمحلال بشریت کا لازمہ تھا۔ ہتھیار ڈالنے اور جنگ جیتنے کے درمیان صرف قوت ارادی حائل تھی۔گاندھی جی 77 برس کے ہو چکے تھے اور زندگی کا کاررواں طویل سفر کے بعد منزل پر پہنچنا چاہتا تھا۔

یہاں پہنچ کر ہر فریق محسوس کر رہا تھا کہ انجام کامیڈی ہو یا ٹریجڈی، یہ کردار آخری بار اسٹیج پر جمع ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اسی احساس کے پیش نظر تینوں فریق اس تیزی سے سرگرم عمل تھے کہ ہر ایک کو گمان تھا کہ ''یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دُور شد۔''

سیاست کی رفتار تیز ہوئی تو ڈان کی آواز میں قوت اور اس کے وقار میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اسی تناسب سے دفتر میں گہما گہمی شروع ہوئی۔ مسلمان عوام کو پہلی مرتبہ ایک ایسا اخبار میسر آیا جس میں ان کے شب و روزکا عکس ہوتا تھا۔


پھر ملک کی تقسیم کا اعلان ہوگیا اور وہ دن بھی آگیا جب ہندوستان اور پاکستان کی دو مملکتیں وجود میں آگئیں۔ دلی میں حالات کشیدہ ہوچکے تھے۔ان ہی دنوں میاں افتخار الدین لاہور سے آئے۔ انھیں پاکستان ٹائمزکے لیے اسٹاف چاہیے تھا، وہ الطاف حسین سے ملے۔ شام کو الطاف دفتر آئے تو انھوں نے محمد سعید سے کہا، میاں صاحب سے مل لو، تمہارے لاہور جانے کا انتظام ہوگیا۔ یہ جاکر ان سے ملے اور دو دن بعد ان کے تقرر کا خط لاہور سے آگیا۔ اگلی شام سعید دلی سے فرنیٹر میل میں روانہ ہوئے، دوسری صبح لاہور پہنچ گئے۔ لکھتے ہیں ''یکدم محسوس ہوا ایک دنیا پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور ایک جہان تازہ کہ جس کے ہم منتظر تھے، سامنے ہے۔''

8 اگست 1947ء کو محمد سعید پاکستان ٹائمز کے دفتر میں فیضؔ صاحب سے ملے۔ ڈیوٹی جوائن کرلی۔

پاکستان ٹائمز میں مولوی محمد سعید کا جو وقت گزر رہا تھا وہ خوشگوار تھا۔ ایسے میں ایک دن الطاف حسین انھیں راہ میں مل گئے۔ کہنے لگے کئی روز سے میں تمہاری تلاش میں تھا، ہم ڈان لاہور سے بھی شایع کرنا چاہتے ہیں، تم چھوڑو اس کمیونسٹ چیتھڑے کو، واپس آجاؤ ڈان میں۔ اسی وقت ان کی تنخواہ بھی طے کردی۔

چنانچہ سعید نے ایک مرتبہ پھر لاہور سے رخت سفر باندھا اورکراچی پہنچ گئے۔ یہاں پہنچے تو کچھ احباب دلی ڈان کے ملے اورکچھ نئے چہرے۔ پرانے چہروں میں عبدالحامد زبیری، غیاث الدین، شمس اور نئے چہروں میں محمد عشیر، شمیم احمد، احمد حسن، سلیمان مینائی اور ایرک رحم شامل تھے۔ان سب کی موجودگی سے کراچی کی اجنبیت باقی نہ رہی۔ اکتوبر 1950ء میں ضیاالدین سلہری نے اپنا اخبار ایوننگ ٹائمز جاری کر دیا۔ تین سال بعد یہ صبح کا اخبار ہوگیا۔ نام بھی بدل گیا، ٹائمزآف کراچی ہوگیا۔ سعید ڈان چھوڑکر سلہری کے اخبار میں چلے گئے۔ وہاں نیوز ایڈیٹر ہوگئے۔

ایک دن تجویز یہ ہوئی کہ ٹائمزآف کراچی چھپے گا توکراچی میں مگر اس کا پچھلے پہرکا ایڈیشن لاہور میں بنے گا۔لاہورکی خبریں خاکے کی صورت میں صبح ٹیلی فون پر کراچی پہنچا دی جائیں گی۔ لاہور میں ٹائمز آف کراچی کا دفتر قائم ہوا اور مولوی محمد سعید یہاں آگئے۔ عمر قریشی کراچی میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ اس دوران سول اینڈ ملٹری گزٹ سے محمد سعید کو پیغام متواتر آرہے تھے کہ یہاں آجاؤ۔ یہ صحیح ہے کہ سلہری صاحب کا اخبار مالی اعتبار سے کمزور ہوتا جا رہا تھا لیکن سعید کے لیے اس سے قطع تعلق کرلینا تکلیف دہ تھا۔

بالآخر انھوں نے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے اسٹاف میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔سعید یہاں آ تو گئے لیکن نہ اخبار سے وابستہ نئے مالک کی توقعات پوری ہوتی نظر آئیں اور نہ ان کی۔ پھر جب ان کا مرتبہ کم کرنے کی کوشش ہوئی تو انھوں نے سول اینڈ ملٹری گزٹ کو خیر آباد کرنے میں عافیت سمجھی۔ پھر ان کی تنخواہ اور واجبات روک لیے گئے اور ان کے ساتھ مجید صاحب کے بھی تو انھوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس اثنا میں سعید کو ایک دن پاکستان ٹائمز سے بلاوا آگیا۔

احمد علی خان ان دنوں پاکستان ٹائمزکے ایڈیٹر تھے، ان سے دوستانہ دلی سے تھا، چنانچہ سعید پھر سے پاکستان ٹائمز میں آگئے۔مئی 1965ء میں ایک بار پھر سعید کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ انھیں پاکستان ٹائمز کے راولپنڈی ایڈیشن کا انچارج بناکر دارالحکومت بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چارج لیتے ہی ان کا کام اخبار کی ازسر نو ترتیب تھا کہ 6 ستمبر کو ہندوستان سے جنگ چھڑ گئی۔

سعید لکھتے ہیں ''ذرایع ابلاغ کا جنگ سے جو گہرا تعلق ہے اس اعتبار سے اہل قلم سپاہی کے ہم دوش نظر آتا ہے۔ پاکستان ٹائمز کے حصے میں اس محاذ پر جو فرض آیا اس کے نبھانے میں کسی شخص نے بخل سے کام نہیں لیا۔ پاکستان ٹائمز لاہور اگر میدان جنگ کے قریب تھا تو پنڈی کا ایڈیشن اس جگہ واقع تھا جو جنگ کا مرکز اعصاب تھا۔''

بچپن میں ایک بزرگ نے محمد سعید سے کہا تھا، کتاب نہ لکھنا۔ عمر بھر وہ اس نصیحت پر کاربند رہے، بڑھاپے میں آکر توبہ ٹوٹ گئی۔ اس کا سبب ان کے چند احباب کا پیہم اصرار تھا۔ سعید کا اپنے پڑھنے والوں سے کہنا ہے کہ اگر ''آہنگ بازگشت'' ان کے لیے دلچسپی کا باعث بنے تو دوستوں کو دعائیں دیں۔ سو دوستوں کو دعائیں۔
Load Next Story