دین تو نام ہی اخلاص کا ہے

اخلاص کے لفظی معنی کسی چیز کی آمیزش سے دوسر ی چیز کو چھانٹ کر الگ کردینے کے ہیں۔

اخلاص کے لفظی معنی کسی چیز کی آمیزش سے دوسر ی چیز کو چھانٹ کر الگ کردینے کے ہیں۔ فوٹو: فائل

اخلاص تمام اعمال صالحہ کی روح ہے، اس کے بغیر اعمال ایسے ہی ہیں جیسے روح کے بغیر انسانی جسم۔ اخلاص ہی وہ گوہر ہے جس کی و جہ سے اللہ کریم کی بارگاہ میں اعمال شرف قبولیت حاصل کرتے ہیں۔ اخلاص کے بغیر کوئی عمل معمولی حیثیت بھی نہیں رکھتا، بل کہ بعض اوقات موجب سزا بن جاتا ہے۔

اخلاص کے لفظی معنی کسی چیز کی آمیزش سے دوسری چیز کو چھانٹ کر الگ کردینے کے ہیں۔

قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ کریم نے مختلف مقامات پر اخلاص اور صاحب اخلاص کی تعریف و تحسین فرمائی اور ا ن کے لیے اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا۔

مفہوم: '' مگر وہ لو گ جنہوں نے توبہ کی اور ا پنے اعمال کی اصلاح کرلی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین اللہ کے لیے خالص کرلیا یہی وہ لو گ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور عن قریب اللہ مومنین کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔'' عبادت و اطاعت کو اللہ تعالی کے لیے خالص کرنے کا حکم ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا، مفہوم: '' بے شک ہم نے نازل کی آپ (ﷺ) پر کتاب حق کے سا تھ، پس آپ اللہ کی عبادت کریں اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اسی کے لیے۔ خبردار صرف اللہ کے لیے ہے دین خالص۔''

اگر اخلاص کی اہمیت و ضرورت جاننے کے لیے فرامین مصطفی ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ حقیقت آ شکار ہوتی ہے کہ دین تو نام ہی اخلاص کا ہے۔ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' دین نام ہے خلوص کا، تین مرتبہ آپؐ نے یہ فرمایا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یہ آپؐ نے کس کے لیے فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اللہ تعالی کی کتاب قرآن حکیم کے لیے، اللہ کے رسولؐ کے لیے، اور عا م مسلمانوں کے لیے۔'' (مشکو ۃ شریف)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' بے شک اللہ نہ تمہاری صورتیں دیکھتا ہے اور نہ اموال، بل کہ وہ تمہارے قلوب اور اعمال کو دیکھتا ہے۔'' ( مشکوۃ شریف )

اخلاص ہی وہ مضبوط و مستحکم ڈھال ہے جو انسان کو شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھتی ہے۔ ا س کی مضبوطی کا اعتراف شیطان نے خود کیا، جب اللہ تعالی نے حضرت آدمؑ کی تخلیق فرمائی اور ان میں رو ح پھونکی اور فرشتوں کو حکم فرمایا کہ آدمؑ کو سجدہ کریں تو ابلیس کے علاوہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، اس پر اللہ تعالی نے ابلیس کو مردود و ملعون قرار دے کر ا پنی بارگاہ سے نکال دیا تو ابلیس نے اولاد آدم کو گم راہ کرنے کے لیے اللہ تعالی سے مہلت مانگی جو ا سے دے دی گئی تو ابلیس نے کہا تیری عزت کی قسم میں ضرور ا ن کو گم را ہ کروں گا مگر تیرے مخلص بندوں پر میرا بس نہیں چلے گا۔


اخلاص اس بات کا متقاضی ہے کہ جو عمل خالص بھی انجام دیا جائے اس سے مقصود محض خدا کی رضا اور خوش نودی ہو، اس میں ذرہ برابر بھی ریا اور نمود کا کو ئی عنصر شامل نہ ہو ۔ کیوں کہ جہاں خدا کی ا طاعت کے سا تھ کسی دوسر ے کی غیر مشروط اطاعت کرنا مخلصانہ عبا دت کے منافی ہے، وہاں اعمال میں نمود و نمائش بھی خلوص عبادت کے منافی ہے۔

اسی بات کو حضور اکرم ﷺ نے ان بلیغ الفاظ میں ار شاد فرمایا:

'' اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔'' (متفق علیہ)

یعنی اگر کسی کام کے کرنے سے کوئی ذاتی غرض مثلا حصول شہرت و عزت یا کوئی مادی منفعت پیش نظر ہے تو وہ کام بہ ذات خود کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، عبادت کے زمرے میں شمار نہ ہوگا۔

سرور دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' قیامت کے د ن جن لوگوں کے متعلق سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا وہ تین آ د می ہوں گے۔ ایک شہید، دوسرا عالم اور تیسرا سخی۔ جب شہید سے سو ال کیا جا ئے گا تُو کیا کرتا رہا۔ وہ کہے گا میں تیری را ہ میں لڑتا رہا حتی کہ شہید ہوگیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا تُونے جھوٹ کہا تُو تو ا س لیے بہادری سے لڑتا تھا کہ لوگ تجھے شجاع اور بہادر کہیں۔

پھر عالم سے پوچھا جائے گا تو وہ کہے گا۔ میں نے تیری خا طر علم سیکھا اور لوگوں کو سکھاتا ر ہا اور تیری خاطر قرآن پڑھتا رہا۔ اللہ تعالی فرمائے گا تُونے جھوٹ بولا تُو تو اس لیے علم پڑھتا اور پڑھاتا ر ہا کہ لو گ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں۔ جب سخی سے پوچھا جائے گا تو وہ کہے گا۔ میں نے تیری راہ میں مال خرچ کیا اور تیری پسندیدہ جگہوں پر مال خرچ کیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا تُونے جھوٹ کہا تُو تو اس لیے مال خرچ کرتا تھا کہ لوگ تجھے سخی اور کریم کہیں۔ پھر ا نہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مشکوۃ شریف)

اللہ کریم ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین
Load Next Story