سندھ اسمبلی کا ایک سال حکومت سے ساڑھے 3 ہزار سے زائد سوال صرف 10 فیصد جواب
سندھ حکومت کے10 محکموں کے سوالات کیلیے سندھ اسمبلی کے طویل ترین سیشنزمیں کوئی دن وقفہ سوالات کیلیے مختص ہی نہیں کیاگیا
قیام پاکستان کی قرارداد پاس کرنے والی تاریخی سندھ اسمبلی میں ایک سال کے دوران حکومتی کارکردگی غیر اطمینان بخش رہی، ارکان سندھ اسمبلی نے ایک سال کے دوران سندھ کے مختلف محکموں سے متعلق ساڑھے3 ہزار سے زائد سوالات جمع کرائے جن میں سے 90 فیصد سوالات کے جواب سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کو ارسال کیے گئے نہ ہی ایوان کی کارروائی میں شامل کیے گئے۔
سندھ اسمبلی میں صوبائی وزرا نے مختلف محکموں سے متعلق ساڑھے3 ہزار سے زائد سوالات کے صرف10 فیصد سوالات کے جواب ایوان میں پیش کیے، محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات، لینڈ یوٹیلائزیشن، داخلہ اور خوراک سندھ حکومت کے ایسے محکمے ہیں جن سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے تحریری جوابات سندھ اسمبلی کے ایجنڈ ے پر شامل ہی نہیں کیے گئے۔
سندھ اسمبلی ریکارڈ کے مطابق مختلف محکموں کے انچارج وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے پہلے پارلیمانی سال کے دوران ایک بھی مرتبہ محکمہ داخلہ و پولیس سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جوابات ایوان میں نہیں دیے۔
محکمہ صحت، توانائی اور جنگلات و جنگلی حیات نے سب سے زیادہ سوالات کے جوابات ایوان میں پیش کیے جبکہ کھیل و امور نوجوانان، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن، اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ، منصوبہ بندی و ترقیات، خوراک کے محکموں کے سوالات ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیے گئے، ریکارڈ کے مطابق سندھ حکومت کے 10 محکموں کے سوالات کیلیے سندھ اسمبلی کے طویل ترین سیشنز میں کوئی دن وقفہ سوالات کیلیے مختص ہی نہیں کیا گیا۔
سب سے زیادہ وقفہ سوالات صحت و بہبود آبادی، جیل خانہ جات، ثقافت و سیاحت، جگلات وجنگلی حیات اور لائیو اسٹاک ریونیو ریلیف اور قانون و پارلیمانی امور کے وقفہ سوالات سندھ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیے گئے۔
سندھ اسمبلی نے ایک سال کے دوران مجموعی طور پر 12 مختلف مسودہ قوانین پاس کیے جن میں فنانس بل اور بلدیاتی ترمیمی بل کے علاوہ جیل، پولیس اور زخمی افراد کے علاج کے نئے مسودہ قوانین بھی شامل ہیں، اس حوالے سے جی ڈی اے کے رکن عارف مصطفیٰ جتوئی کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی کا ایک سال مکمل ہوا تاہم حکومتی کارکردگی غیر اطمینان بخش رہی، انھوں نے کہا کہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے 3 ہزار سے زائد سوالات جمع کرائے تاہم صرف 380 سوالات کے جواب ملے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، یہ فی جواب 11 لاکھ روپے میں پڑا۔
پورے سال کے دوران محکمہ خوراک، اینٹی کرپشن، منصوبہ بندی و ترقیات، محکمہ داخلہ، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ، لینڈ یوٹیلائزیشن، رورل ڈویلپمنٹ، اسپورٹس و یوتھ افیئرز سمیت کئی محکموں سے ایک سوال کا جواب بھی موصول نہیں ہوا، انھوں نے کہا کہ محکمہ صحت نے 33 اور توانائی نے 30 سوالات کے جواب دیے، محکمہ انسانی حقوق، مائینز اینڈ منرل اور ماحولیات کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ان کے صرف ایک ایک سوال کا جواب ایوان میں دیا گیا۔
سندھ اسمبلی میں صوبائی وزرا نے مختلف محکموں سے متعلق ساڑھے3 ہزار سے زائد سوالات کے صرف10 فیصد سوالات کے جواب ایوان میں پیش کیے، محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات، لینڈ یوٹیلائزیشن، داخلہ اور خوراک سندھ حکومت کے ایسے محکمے ہیں جن سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے تحریری جوابات سندھ اسمبلی کے ایجنڈ ے پر شامل ہی نہیں کیے گئے۔
سندھ اسمبلی ریکارڈ کے مطابق مختلف محکموں کے انچارج وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے پہلے پارلیمانی سال کے دوران ایک بھی مرتبہ محکمہ داخلہ و پولیس سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جوابات ایوان میں نہیں دیے۔
محکمہ صحت، توانائی اور جنگلات و جنگلی حیات نے سب سے زیادہ سوالات کے جوابات ایوان میں پیش کیے جبکہ کھیل و امور نوجوانان، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن، اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ، منصوبہ بندی و ترقیات، خوراک کے محکموں کے سوالات ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیے گئے، ریکارڈ کے مطابق سندھ حکومت کے 10 محکموں کے سوالات کیلیے سندھ اسمبلی کے طویل ترین سیشنز میں کوئی دن وقفہ سوالات کیلیے مختص ہی نہیں کیا گیا۔
سب سے زیادہ وقفہ سوالات صحت و بہبود آبادی، جیل خانہ جات، ثقافت و سیاحت، جگلات وجنگلی حیات اور لائیو اسٹاک ریونیو ریلیف اور قانون و پارلیمانی امور کے وقفہ سوالات سندھ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیے گئے۔
سندھ اسمبلی نے ایک سال کے دوران مجموعی طور پر 12 مختلف مسودہ قوانین پاس کیے جن میں فنانس بل اور بلدیاتی ترمیمی بل کے علاوہ جیل، پولیس اور زخمی افراد کے علاج کے نئے مسودہ قوانین بھی شامل ہیں، اس حوالے سے جی ڈی اے کے رکن عارف مصطفیٰ جتوئی کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی کا ایک سال مکمل ہوا تاہم حکومتی کارکردگی غیر اطمینان بخش رہی، انھوں نے کہا کہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے 3 ہزار سے زائد سوالات جمع کرائے تاہم صرف 380 سوالات کے جواب ملے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، یہ فی جواب 11 لاکھ روپے میں پڑا۔
پورے سال کے دوران محکمہ خوراک، اینٹی کرپشن، منصوبہ بندی و ترقیات، محکمہ داخلہ، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ، لینڈ یوٹیلائزیشن، رورل ڈویلپمنٹ، اسپورٹس و یوتھ افیئرز سمیت کئی محکموں سے ایک سوال کا جواب بھی موصول نہیں ہوا، انھوں نے کہا کہ محکمہ صحت نے 33 اور توانائی نے 30 سوالات کے جواب دیے، محکمہ انسانی حقوق، مائینز اینڈ منرل اور ماحولیات کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ان کے صرف ایک ایک سوال کا جواب ایوان میں دیا گیا۔