مسلم ممالک تعلیم پر زیادہ وسائل خرچ جامعات کا کنسورشیم بنائیں وائس چانسلر فورم کی تجاویز

چانسلرزمل بیٹھ کرتعلیم کودرپیش مسائل حل کریں،زاہدحامد ،تعلیم کے فروغ سے ملک ترقی کرسکتا ہے،بلیغ الرحمن


اسلام آباد:ایکسپریس میڈیاگروپ، ہائرایجوکیشن کمیشن اورکامسیٹس کے تعاون سے منعقدہ وائس چانسلرزفورم سے ڈاکٹرعطا الرحمن ،ملائیشین یونیورسٹی کے وائس چانسلرانورعلی، بنگلہ دیش اسلامی یونیورسٹی آف انجینئرنگ کے پروفیسرامتیازحسین،اسلامی یونیورسٹی کے صدرپروفیسراحمد یوسف الدرویش اور سندھ مدرستہ الاسلام کے پروفیسرمحمدعلی شیخ خطاب کررہے ہیں (فوٹو ایکسپریس)

ایکسپریس میڈیا گروپ کے تعاون سے کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زیراہتمام ''وائس چانسلرز فورم 2013'' میں شریک اوآئی سی کے رکن ممالک کے اسکالرز نے تجویز دی ہے کہ اسلامی ممالک جامعات پرمشتمل کنسورشیم تشکیل دیں،ہیومن ریسورس کے فروغ کیلیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔

امریکی طرزکے فل برائٹ اسکالرشپ کا آغاز کیا جائے، طلبہ اورفیکلٹی کے تبادلے کیے جائیں،شرح خواندگی میں اضافے،غربت انتہاپسندی اور مذہبی منافرت کے خاتمے کے لیے تعلیم پرزیادہ وسائل خرچ کیے جائیں۔ پیرکویہاں مقامی ہوٹل میں وفاقی وزیرسائنس وٹیکنالوجی و کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چانسلرزاہد حامد نے ''یونیورسٹیز آف اسلامک ورلڈ:چیلنجزآف انٹرنیشنلائزیشن'' کے عنوان سے اس 2 روزہ فورم کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیرمملکت برائے تعلیم وتربیت بلیغ الرحمان ،اسلامک ایجوکیشن سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کے ڈائریکٹرجنرل ڈاکٹر عبدالعزیز عثمان ، کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ریکٹر ڈاکٹر ایس ایم جنید زیدی اور دیگر شخصیات موجودتھیں۔ فورم میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملائشیا، نائیجیریا، سوڈان، تاجکستان اور ترکی سمیت30 سے زائد اوآئی سی ممالک کی جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے 200 سے زائد وائس چانسلرز، ریکٹرز ، صدور اور مندوبین شریک ہیں۔



فورم کے لیے اسلامک ایجوکیشن سائنٹفک اینڈکلچرل آرگنائزیشن ، ایچ ای سی اور وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے بھی اشتراک کیا ہے۔فورم کے موقع پرمختلف اداروں کی جانب سے اسٹالز بھی لگائے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامی دنیا کے چانسلرز اور تعلیمی اداروں کے سربراہان مل بیٹھ کراعلیٰ تعلیم کے شعبے میں درپیش مسائل کا حل تلاش کریں،آج کے جدید دور میں محض ڈگری حاصل کرنا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا نام نہیں بلکہ عملی زندگی میں اس کا موثر استمعال بھی معیارکو برقرار رکھنے کی کڑی شرط ہے،اس قسم کے فورمز نہ صرف طلبہ اور اساتذہ کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں بلکہ اس میں حکومت کے لیے بھی رہنمائی کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں موجودہ حکومت نے تعلیم کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے اسے اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے تاہم اس میں مزید بہتری کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر مملکت برائے تعلیم وتربیت بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر توجہ دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے، ہم اعلیٰ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے کو ترقی دے کرہی جدید دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کامسیٹس کے اقدام کو سراہتے ہوئے مستقبل میں بھی اس قسم کے فورمز منعقد کرنے پر زور دیا۔ اس سے قبل فورم کے شرکا سے تعارفی خطاب کرتے ہوئے ہائیرایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ تحقیق، تعلیم اور مستقبل کی منصوبہ بندی اس فورم کے بنیادی نکات ہیں ۔



جن پر اسلامی دنیا کے مفکرین اظہار خیال کریں گے، ہمیں چاہیے کہ ملائیشیا، ایران، ترکی، بنگلہ دیش اوراسلامی دنیا کے دیگر ممالک کے کامیاب تجربات سے مستفید ہوں اور اس کے لیے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان روابط قائم کریں۔اسلامک ایجوکیشنل سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرعبدالعزیز عثمان نے اس موقع پر اپنے وسیع تر تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی اور بہترین معیار پر زوردیا۔ اوآئی سی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل عبدالمعید بخاری نے کہاکہ پاکستان میںدوسری باراس فورم کاانعقادبہت خوش آئندہے،او آئی سی تعلیمی میدان خاص کرسائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میںاپنادائرہ کاربڑھانے میںکوشاںہے اوراس کے لیے اوآئی سی کے 10 سالہ منصوبے پرکام جاری ہے۔

تعلیم کے فروغ کے لیے اسلامی ممالک کومل کرکام کرنا چاہیے ۔ سابق وفاقی وزیرسائنس وٹیکنالوجی پروفیسرڈاکٹرعطاء الرحمان نے کہاکہ مسلم امہ کی ترقی باہمی مشاورت سے منسلک ہے، ہمیںمسلم امہ میںہونیوالی ترقی سے مستفیدہونے کے لیے مشترکہ کاوشیںکرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر احمد یوسف الدرویش نے کہا کہ مسلم ممالک کو تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جامعات پر مشتمل کنسورشیم بنانا چاہیے۔



ملائیشین اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرانور علی نے کہا کہ 57 مسلم ممالک کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائدہے اور یہ وسائل سے مالامال ہیں لیکن یہاں دیگر دنیا کے مقابلے میں تعلیم کم اورغربت، بیروزگاری وانتہاپسندی زیادہ ہے، ہمیں ہیومن ریسورس کے شعبے کوتقویت دینی چاہیے اور تعلیم کی شمع روشن کرنے کے لیے زیادہ وسائل خرچ کرنے چاہئیں، تعلیم ہی ہمیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے اور اس مقصد کے لیے ہمیںمشترکہ مفادات کی کونسل قائم کرنی چاہیے۔سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرمحمدعلی شیخ نے کہا کہ ہمیں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک دوسرے کیساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔