سیاسی سے تو مارشل لا حکومتیں بہتر تھیں جنہوں نے بلدیاتی انتخابات تو کرائے چیف جسٹس
حکومت اگلے ہفتے تک انتخابات کرائے اور اگر نہیں کرانے تو صاف کہہ دے کہ نہیں کرانے تو ہم حکم جاری کردیں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس افتخار محد چوہدری نے کہا ہے کہ سیاسی حکومتوں سے تو مارشل لاء حکومتیں اچھی تھیں اور اگر حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے لکھ کر دے دیں، ہم حکم جاری کردیں گے۔
بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے مرضی کی تاریخ نہیں ملے گی، جائیں جاکر انتخابات کرائیں اور اگر بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے تو بتادیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ سے اچھی تو مارشل لاء کی حکومتیں تھیں، ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں نے اپنے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کرائے، اب سیاسی حکومتیں ہیں، جمہوریت ہے پھر بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے جاتے، اگلے ہفتے تک انتخابات کرائیں اور اگر انتخابات نہیں کرانے تو صاف کہہ دیا جائے کہ بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے اور آئین پر عمل نہیں کرنا تو ہم حکم جاری کردیں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ صوبہ پنجاب اور سندھ میں تو پرانی حکومتیں ہی ہیں مگر بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی وجہ نہیں بتائی جارہی، عدلیہ نے سیاسی حکومت کی پوری حمایت کی اور ہمیشہ چاہا کہ سیاسی حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کا تصور مذاق نہیں، اس سے ملک خوشحال ہوگا اور عوام کو ان کے حقوق بہتر طریقے سے ملیں گے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ مارشل لاء حکومتوں کے اثرات سے عدلیہ نہیں سیاسی حکومتیں متاثر ہوتی ہیں، 1958، 1977 اور 1999 کے مارشل لاء کا ثر عدلیہ پر نہیں پڑا بلکہ عدلیہ نے تو ان کی توثیق کی تاہم تینوں مارشل لاء ناکام رہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ پنجاب حکومت صوبے میں 14 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کرائے گی اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں پیچیدگیاں ہیں اس لئے نومبر کے آخری ہفتے میں انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے مرضی کی تاریخ نہیں ملے گی، جائیں جاکر انتخابات کرائیں اور اگر بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے تو بتادیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ سے اچھی تو مارشل لاء کی حکومتیں تھیں، ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں نے اپنے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کرائے، اب سیاسی حکومتیں ہیں، جمہوریت ہے پھر بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے جاتے، اگلے ہفتے تک انتخابات کرائیں اور اگر انتخابات نہیں کرانے تو صاف کہہ دیا جائے کہ بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے اور آئین پر عمل نہیں کرنا تو ہم حکم جاری کردیں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ صوبہ پنجاب اور سندھ میں تو پرانی حکومتیں ہی ہیں مگر بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی وجہ نہیں بتائی جارہی، عدلیہ نے سیاسی حکومت کی پوری حمایت کی اور ہمیشہ چاہا کہ سیاسی حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کا تصور مذاق نہیں، اس سے ملک خوشحال ہوگا اور عوام کو ان کے حقوق بہتر طریقے سے ملیں گے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ مارشل لاء حکومتوں کے اثرات سے عدلیہ نہیں سیاسی حکومتیں متاثر ہوتی ہیں، 1958، 1977 اور 1999 کے مارشل لاء کا ثر عدلیہ پر نہیں پڑا بلکہ عدلیہ نے تو ان کی توثیق کی تاہم تینوں مارشل لاء ناکام رہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ پنجاب حکومت صوبے میں 14 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کرائے گی اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں پیچیدگیاں ہیں اس لئے نومبر کے آخری ہفتے میں انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔