بقا کی جنگ لڑتے بحرالکاہل کے جزائر
امریکا کے ایٹمی تجربات کے باعث ان جزیروں کا وجود خطرے میں ہے
KARACHI:
بحرالکاہل دنیا کا سب بڑا سمندر ہے جسے Ocean Pacificبھی کہا جاتا ہے۔ اس کے نام کی وجہ اس کا پرسکون ہونا ہے۔
یہ دنیا کے چار بڑے براعظموں ایشیا، آسٹریلیا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کے بیچ واقع ہے۔ یہ زمین کے کل رقبے کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے۔ تاحد نگاہ پھیلا یہ سمندر اپنے اندر ایک پراسرار خاموشی سموئے ہوئے ہے۔ دنیا کی 60 فی صد مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات بحرالکاہل سے ہی آتی ہیں۔
دنیا کے 75 فی صد آتش فشاں بحرالکاہل میں موجود ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد زیرزمین آتش فشانوں کی بھی ہے۔ بحرالکاہل کے چاروں طر ف آتش فشانوں کا ایک طویل سلسلہ بھی واقع ہے، جسے ماہرین ارضیاتRing of Fire یعنی آگ کی انگوٹھی کا نام دیتے ہیں۔
دنیا کی بحری تاریخ کے بہت سے بڑے حادثے 11 ہزار میٹر تک گہرے اسی سمندر میں واقع ہوئے۔ ابھی حال ہی میں ایک کارگو شپ کا حادثہ ہوا جس میں کار بنا نے والی کمپنی کی3500 گاڑیاں جہاز سمیت سمندر برد ہوگئیں۔ بحرالکاہل نہ صرف کتنے ہی بحری جہازوں کی آخری آرام گاہ ہے بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ خلائی جہازاورسیٹیلائٹ بھی اپنی عمر پوری کرنے کے بعد بحرالکاہل میں ہی غرق آب کیے جاتے ہیں۔
اس وسیع وعریض سمندر میں 25 ہزار سے زائد جزائر موجود ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے جزائر میں پھیلی تہذیبوں کا وجود بحری سفر اور ان کے مسافروں کے مرہون منت ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی بحرالکاہل کو پار کرنے میں 30 دن تک لگ جاتے ہیں۔ تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بادبان کی بدولت یہ بحری جہاز سمندروں میں محو سفر ہوتے تھے تب بحرالکاہل کو پار کرنا کتنا کٹھن ہوگا۔ ایسے میں یہ جزائر کسی نعمت سے کم نہ تھے، جن میں سے بعض پر جہازوں کی مرمت، سامان ضروریات اور علاج معالجے کی سہولیات بھی میسر تھیں۔ ان جزائر میں جہاں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، فلپائن، جاپان انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے نام ور ممالک آتے ہیں وہیں بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں جو کئی کئی سو جزائر پر مشتمل ہیں۔
یہ جزائر دنیا کی نظروں سے دور بھی ہیں اور غیرمعروف بھی۔ جنوبی بحرالکاہل میں واقع ان جزائری ممالک کو تین گروپس میں تقسیم کی جاتا ہے۔ پولینیزیا، مائیکرونیزیا اور میلنیزیا۔ نو آبادیاتی دور میں جب طاقت ور ممالک دنیا پر اپنے تسلط کے لیے کوشاں تھے یہ جزائر بھی ان کے زیرقبضہ آتے چلے گئے۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جزائر پر برطانوی سام راج کی نشانی یونین جیک لہرانے لگی۔ امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ کے زیرتسلط بھی بہت سے ممالک وسطی اور جنوبی بحرالکاہل میں موجود ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکا اور دیگر طاقتوں نے ان جزائر کا بھرپور استعمال کیا، یہاں فوجی اڈے اور ایئرپورٹ بنائے۔
طویل سفر کے دوران یہ جزائر فوجی دستوں کو تازہ دم کرنے اور جہازوں کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے بے مثال تھے۔ جاپان پر ایٹمی حملہ کرنے والے جہاز بحرالکاہل کے انہی جزائر میں سے ایک ماریانا آئی لینڈ سے روانہ ہوئے، جب کہ یہی جزائر بالترتیب اسپین اور جرمنی کے پاس اور پھر جاپان کے پاس بھی رہے، جہاں انہوں نے ملٹری ایئربیس بنایا جس پر بالآخر امریکا قابض ہوگیا، جب کہ امریکا کے پرل ہاربر پر جاپانی حملے میں بھی ایسے ہی جزائر کام آئے۔ غرض بحرالکاہل کے جزائر کی خوب بندر بانٹ ہوئی۔ آج بھی ان جزائر میں بہت سے ایسے ہیں جہاں انگریزی اور فرانسیسی سمیت ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کا وہاں تصور ہی ممکن نہیں۔
فرینچ پولینیزیا118 جزائر پر مشتمل ایک ایسے ملک کا نام ہے جو فرانس سے باہر فرانسیسی جمہوریہ کی ملکیت ہے، یہاں کی سرکاری زبان بھی فرنچ ہے۔ اگر پوری دنیا کا نقشہ سامنے رکھا جائے تو اس میں ان جزائر کا کوئی وجود نظر نہیں آتا، لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل اس ملک کا اپنا ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے، 48 لوکل ایئرپورٹس اور 2 کمرشل و تجارتی بندرگاہیں بھی ہیں۔ یہی نہیں French Polynesia کی اپنی تین کمرشل ایئرلائنز بھی ہیں، لیکن بحرالکاہل کے تمام تر چھوٹے جزائر کی معاشی صورت حال ایسی نہیں۔
بحرالکاہل کے وسط میں واقع جزائر میں سے ایک ملک کا نام مارشل آئی لینڈز ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر جاپان اور جرمنی نے ان جزائر پر قبضہ کیا۔ جو کہ 1944ء میں امریکا کے زیر تسلط آگیا۔ 1979ء تک باقاعدہ امریکا کی کالونی ہونے کے سبب یہاں امریکی ڈالر ہی میں لین دین کیا جاتا ہے۔
مارشل آئی لینڈ کی آمدن کا انحصار زراعت اور سی فوڈ پر ہے، لیکن پاناما کے بعد مارشل آئی لینڈ کو بحری جہازوں کی رجسٹری کا بڑا مرکز بھی مانا جاتا ہے۔ یہ جہاز غیرملکی کمپنیوں کی ملکیت ہوتے ہیں لیکن انہیں یہاں رجسٹر کروانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سخت بحری و لیبر قوانین سے بچا جاسکے جس کے لیے مارشل آئی لینڈز اور پاناما موزوں ترین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل آئی لینڈ کا امریکی کروڈ آئل کے بڑے خریداروں میں شمار ہوتا ہے۔ باجود اس کے کہ مارشل آئی لینڈ میں کوئی ریفائنری بھی نہیں جو کروڈ آئی کو ریفائن کرسکے۔
1946ء سے 1962ء کے دوران امریکا نے یہاں 105 ایٹمی تجربات کیے جو انتہائی شدت کے تھے۔ ان ایٹمی تجربات کو Pacific Proving Grounds کا نام دیا گیا۔ یہ تجربات نہ صرف زمین پر کیے گئے بلکہ سمندر کی تہہ میں بھی کیے گئے، تاکہ سمندر اور بحری جہازوں پر بھی اس کی تباہ کاریوں کو آزمایا جا سکے۔
مارشل جزائر کے 11,56جزیرے کل 29 حصوں پر مشتمل ہیں۔ یہ حصے دائروں کی شکل میں واقع ہیں اور وسط میں پانی ہے۔ امریکا نے ایٹمی تجربوں کے لیے ''بکنی''جزائر کو منتخب کیا جو کہ دائرے کی شکل میں واقع ہیں۔ وہاں سے تمام انسانوں کو دوسرے جزائر پر منتقل کردیا گیا۔ تجربات کے لیے خاص طور پر تیار کردہ 95 بحری جنگی جہاز ان جزائر کے وسط میں کھڑے کیے گئے اور ان تجربات کی ہلاکت خیزی کو جانچنے کے لیے مختلف جانور بھی ان جہازوں پر باندھے گئے۔ تجربات تو ہوگئے لیکن ان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ان جزائر پر زندگی معدوم ہوگئی اور تاب کاری کے اثرات آج تک سامنے آرہے ہیں۔ کئی ہلاکتیں ہوئیں اور ان گنت لوگ پیدائشی معذوری اور کینسر جیسی خطرناک بیماریوں کا شکار ہوگئے۔
درجنوں جزائر کاشت کاری کے قابل بھی نہیں رہے، جب کہ متاثرین آج تک اعلان کردہ 2ارب ڈالر امریکی امداد کے منتظر ہیں۔ لیکن امریکی سرکار نے اپنی ریاست کا درجہ رکھنے والے ملک سے اس مد میں امداد کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ جوہری تجربات سے متاثرہ 60 جزائر میں سے اب تک صرف 1 کو کلیئر کیا گیا ہے۔ مارشل آئی لینڈ کی حکومت 2015ء میں جوہری عدم پھیلاؤ کی درخواست لے کر عالمی عدالت انصاف گئی جہاں اس نے پاکستان اور بھارت سمیت عالمی جوہری طاقتوں کو فریق بنایا اور یہ مطالبہ کیا کہ عالمی جوہری طاقتوں کو 1970ء کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر عمل درآمد پر مجبور کیا جائے۔ بڑی جوہری طاقتوں نے عالمی عدالت میں دائر اس درخواست کو ہوا میں اڑا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بے ہنگم صنعتی ترقی اور جوہری ہتھیاروں کے بے دریغ تجربات نے دنیا کے موسمی نظام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ آلودگی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سمندر کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔
سمندری حیات تباہ ہورہی ہے۔ سمندر کی مسلسل بڑھتی سطح کے نتیجے میں جزائر رفتہ رفتہ غرق آب ہورہے ہیں۔ بہت سے چھوٹے جزائر ڈوب چکے ہیں جو کبھی اپنا وجود رکھتے تھے۔ ماہرین ارضیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ مارشل آئی لینڈ سمیت بہت سے جزائر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ یوں یہ جزائر اب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ متاثرین کی جانب سے اس تمام صورت حال کا ذمہ دار بڑھتی ہوئی آلودگی کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں اور ان کے تجربات کو قرار دیا جارہا ہے جنہیں خود امریکا نے انہی جزائر میں بے دریغ آزمایا۔
بحرالکاہل دنیا کا سب بڑا سمندر ہے جسے Ocean Pacificبھی کہا جاتا ہے۔ اس کے نام کی وجہ اس کا پرسکون ہونا ہے۔
یہ دنیا کے چار بڑے براعظموں ایشیا، آسٹریلیا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کے بیچ واقع ہے۔ یہ زمین کے کل رقبے کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے۔ تاحد نگاہ پھیلا یہ سمندر اپنے اندر ایک پراسرار خاموشی سموئے ہوئے ہے۔ دنیا کی 60 فی صد مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات بحرالکاہل سے ہی آتی ہیں۔
دنیا کے 75 فی صد آتش فشاں بحرالکاہل میں موجود ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد زیرزمین آتش فشانوں کی بھی ہے۔ بحرالکاہل کے چاروں طر ف آتش فشانوں کا ایک طویل سلسلہ بھی واقع ہے، جسے ماہرین ارضیاتRing of Fire یعنی آگ کی انگوٹھی کا نام دیتے ہیں۔
دنیا کی بحری تاریخ کے بہت سے بڑے حادثے 11 ہزار میٹر تک گہرے اسی سمندر میں واقع ہوئے۔ ابھی حال ہی میں ایک کارگو شپ کا حادثہ ہوا جس میں کار بنا نے والی کمپنی کی3500 گاڑیاں جہاز سمیت سمندر برد ہوگئیں۔ بحرالکاہل نہ صرف کتنے ہی بحری جہازوں کی آخری آرام گاہ ہے بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ خلائی جہازاورسیٹیلائٹ بھی اپنی عمر پوری کرنے کے بعد بحرالکاہل میں ہی غرق آب کیے جاتے ہیں۔
اس وسیع وعریض سمندر میں 25 ہزار سے زائد جزائر موجود ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے جزائر میں پھیلی تہذیبوں کا وجود بحری سفر اور ان کے مسافروں کے مرہون منت ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی بحرالکاہل کو پار کرنے میں 30 دن تک لگ جاتے ہیں۔ تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بادبان کی بدولت یہ بحری جہاز سمندروں میں محو سفر ہوتے تھے تب بحرالکاہل کو پار کرنا کتنا کٹھن ہوگا۔ ایسے میں یہ جزائر کسی نعمت سے کم نہ تھے، جن میں سے بعض پر جہازوں کی مرمت، سامان ضروریات اور علاج معالجے کی سہولیات بھی میسر تھیں۔ ان جزائر میں جہاں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، فلپائن، جاپان انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے نام ور ممالک آتے ہیں وہیں بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں جو کئی کئی سو جزائر پر مشتمل ہیں۔
یہ جزائر دنیا کی نظروں سے دور بھی ہیں اور غیرمعروف بھی۔ جنوبی بحرالکاہل میں واقع ان جزائری ممالک کو تین گروپس میں تقسیم کی جاتا ہے۔ پولینیزیا، مائیکرونیزیا اور میلنیزیا۔ نو آبادیاتی دور میں جب طاقت ور ممالک دنیا پر اپنے تسلط کے لیے کوشاں تھے یہ جزائر بھی ان کے زیرقبضہ آتے چلے گئے۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جزائر پر برطانوی سام راج کی نشانی یونین جیک لہرانے لگی۔ امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ کے زیرتسلط بھی بہت سے ممالک وسطی اور جنوبی بحرالکاہل میں موجود ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکا اور دیگر طاقتوں نے ان جزائر کا بھرپور استعمال کیا، یہاں فوجی اڈے اور ایئرپورٹ بنائے۔
طویل سفر کے دوران یہ جزائر فوجی دستوں کو تازہ دم کرنے اور جہازوں کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے بے مثال تھے۔ جاپان پر ایٹمی حملہ کرنے والے جہاز بحرالکاہل کے انہی جزائر میں سے ایک ماریانا آئی لینڈ سے روانہ ہوئے، جب کہ یہی جزائر بالترتیب اسپین اور جرمنی کے پاس اور پھر جاپان کے پاس بھی رہے، جہاں انہوں نے ملٹری ایئربیس بنایا جس پر بالآخر امریکا قابض ہوگیا، جب کہ امریکا کے پرل ہاربر پر جاپانی حملے میں بھی ایسے ہی جزائر کام آئے۔ غرض بحرالکاہل کے جزائر کی خوب بندر بانٹ ہوئی۔ آج بھی ان جزائر میں بہت سے ایسے ہیں جہاں انگریزی اور فرانسیسی سمیت ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کا وہاں تصور ہی ممکن نہیں۔
فرینچ پولینیزیا118 جزائر پر مشتمل ایک ایسے ملک کا نام ہے جو فرانس سے باہر فرانسیسی جمہوریہ کی ملکیت ہے، یہاں کی سرکاری زبان بھی فرنچ ہے۔ اگر پوری دنیا کا نقشہ سامنے رکھا جائے تو اس میں ان جزائر کا کوئی وجود نظر نہیں آتا، لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل اس ملک کا اپنا ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے، 48 لوکل ایئرپورٹس اور 2 کمرشل و تجارتی بندرگاہیں بھی ہیں۔ یہی نہیں French Polynesia کی اپنی تین کمرشل ایئرلائنز بھی ہیں، لیکن بحرالکاہل کے تمام تر چھوٹے جزائر کی معاشی صورت حال ایسی نہیں۔
بحرالکاہل کے وسط میں واقع جزائر میں سے ایک ملک کا نام مارشل آئی لینڈز ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر جاپان اور جرمنی نے ان جزائر پر قبضہ کیا۔ جو کہ 1944ء میں امریکا کے زیر تسلط آگیا۔ 1979ء تک باقاعدہ امریکا کی کالونی ہونے کے سبب یہاں امریکی ڈالر ہی میں لین دین کیا جاتا ہے۔
مارشل آئی لینڈ کی آمدن کا انحصار زراعت اور سی فوڈ پر ہے، لیکن پاناما کے بعد مارشل آئی لینڈ کو بحری جہازوں کی رجسٹری کا بڑا مرکز بھی مانا جاتا ہے۔ یہ جہاز غیرملکی کمپنیوں کی ملکیت ہوتے ہیں لیکن انہیں یہاں رجسٹر کروانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سخت بحری و لیبر قوانین سے بچا جاسکے جس کے لیے مارشل آئی لینڈز اور پاناما موزوں ترین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل آئی لینڈ کا امریکی کروڈ آئل کے بڑے خریداروں میں شمار ہوتا ہے۔ باجود اس کے کہ مارشل آئی لینڈ میں کوئی ریفائنری بھی نہیں جو کروڈ آئی کو ریفائن کرسکے۔
1946ء سے 1962ء کے دوران امریکا نے یہاں 105 ایٹمی تجربات کیے جو انتہائی شدت کے تھے۔ ان ایٹمی تجربات کو Pacific Proving Grounds کا نام دیا گیا۔ یہ تجربات نہ صرف زمین پر کیے گئے بلکہ سمندر کی تہہ میں بھی کیے گئے، تاکہ سمندر اور بحری جہازوں پر بھی اس کی تباہ کاریوں کو آزمایا جا سکے۔
مارشل جزائر کے 11,56جزیرے کل 29 حصوں پر مشتمل ہیں۔ یہ حصے دائروں کی شکل میں واقع ہیں اور وسط میں پانی ہے۔ امریکا نے ایٹمی تجربوں کے لیے ''بکنی''جزائر کو منتخب کیا جو کہ دائرے کی شکل میں واقع ہیں۔ وہاں سے تمام انسانوں کو دوسرے جزائر پر منتقل کردیا گیا۔ تجربات کے لیے خاص طور پر تیار کردہ 95 بحری جنگی جہاز ان جزائر کے وسط میں کھڑے کیے گئے اور ان تجربات کی ہلاکت خیزی کو جانچنے کے لیے مختلف جانور بھی ان جہازوں پر باندھے گئے۔ تجربات تو ہوگئے لیکن ان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ان جزائر پر زندگی معدوم ہوگئی اور تاب کاری کے اثرات آج تک سامنے آرہے ہیں۔ کئی ہلاکتیں ہوئیں اور ان گنت لوگ پیدائشی معذوری اور کینسر جیسی خطرناک بیماریوں کا شکار ہوگئے۔
درجنوں جزائر کاشت کاری کے قابل بھی نہیں رہے، جب کہ متاثرین آج تک اعلان کردہ 2ارب ڈالر امریکی امداد کے منتظر ہیں۔ لیکن امریکی سرکار نے اپنی ریاست کا درجہ رکھنے والے ملک سے اس مد میں امداد کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ جوہری تجربات سے متاثرہ 60 جزائر میں سے اب تک صرف 1 کو کلیئر کیا گیا ہے۔ مارشل آئی لینڈ کی حکومت 2015ء میں جوہری عدم پھیلاؤ کی درخواست لے کر عالمی عدالت انصاف گئی جہاں اس نے پاکستان اور بھارت سمیت عالمی جوہری طاقتوں کو فریق بنایا اور یہ مطالبہ کیا کہ عالمی جوہری طاقتوں کو 1970ء کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر عمل درآمد پر مجبور کیا جائے۔ بڑی جوہری طاقتوں نے عالمی عدالت میں دائر اس درخواست کو ہوا میں اڑا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بے ہنگم صنعتی ترقی اور جوہری ہتھیاروں کے بے دریغ تجربات نے دنیا کے موسمی نظام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ آلودگی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سمندر کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔
سمندری حیات تباہ ہورہی ہے۔ سمندر کی مسلسل بڑھتی سطح کے نتیجے میں جزائر رفتہ رفتہ غرق آب ہورہے ہیں۔ بہت سے چھوٹے جزائر ڈوب چکے ہیں جو کبھی اپنا وجود رکھتے تھے۔ ماہرین ارضیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ مارشل آئی لینڈ سمیت بہت سے جزائر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ یوں یہ جزائر اب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ متاثرین کی جانب سے اس تمام صورت حال کا ذمہ دار بڑھتی ہوئی آلودگی کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں اور ان کے تجربات کو قرار دیا جارہا ہے جنہیں خود امریکا نے انہی جزائر میں بے دریغ آزمایا۔