جنگلی حیات کی اسمگلنگ

دنیا کی چوتھی بڑی غیرقانونی تجارت

صورت حال کے پاکستان کے ماحول پر بھی تباہ کُن اثرات مُرتب ہورہے ہیں

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 19ارب یو ایس ڈالر کی جنگلی حیات کی غیرقانونی تجا رت ہوتی ہے جو کہ دنیا کی چو تھی بڑی تجارت ہے۔

یو این آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم (UNODC ) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر بین الاقوامی قوانین، کنونشنز اور معاہدات کے باوجود دنیا کے مختلف ممالک میں جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ انتہائی منظم اور مربوط انداز سے جا ری ہے اور اس مکروہ دھند ے میں کئی ملکوں کے دہشت گرد نیٹ ورکس براہ راست ملوث ہیں۔

وائلڈلائف کرائم آج دنیا میں بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے جسے انتہائی خطرناک نیٹ ور کس کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ یو این او ڈی سی کے مطابق ڈرگ اور انسانی اسمگلنگ کے بعد جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت تیسرا بڑا بین الاقوامی کرائم ہے جو ملکوں کی اتھارٹی، سماجی و اقتصادی ترقی کو کم ز ور کررہا ہے۔ علاوہ ازیں جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کرۂ ارض کی بائیوڈائیورسٹی اور ایکوسسٹم پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔

یو این کے اعدادوشمار کے مطابق 2013 میں غیرقانونی پوچرز/شکاریوں نے 20ہزار ہاتھی، 2016 میں 1054گینڈے، 20 ہزار ڈولفن، 2006 تا 2016 ایک ہزار شیر اور 460 برفانی چیتے مار کر ان کے اعضاء غیرقانونی تجارت کی بھینٹ چڑھائے۔ علاوہ ازیں 2012 تا 2017 جنگلی جانوروں کی 10لا کھ بالوں والی کھالیں اسمگل کیں۔ غیرقانونی تجارت کی عالمی منڈی میں جنگلی حیات سے تیار کی جانے والی جن مصنوعات کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی ہے ان میں جنگلی جانوروں کے اعضاء سے تیار کردہ خوراک، روایتی ادویات، ملبوسات، زیورات شامل ہیں۔

مزیدبرآں جنگلی جانوروں خصوصاً ہاتھی کے دانت، گینڈے کے سینگ اور شیر کی کھال اور ہڈیاں بھاری نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ امریکا، چین، کوریا، تائیوان اور یورپین ممالک جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کی بہت بڑی منڈیاں ہیں۔ اگرچہ دنیا کے تمام ممالک کی حکومتیں ودیگر عالمی تنظیمات جن میں آئی یو سی این، آسیان وائلڈلائف انفورسمنٹ نیٹ ورک، ساؤتھ ایشیاوائلڈلائف انفورسمنٹ نیٹ ورک، کلارک آربیون نیشنل فش اینڈ وائلڈ لائف فرانزک لیبارٹری، فری لینڈ فاؤنڈیشن، اسپیشز سروائیول نیٹ ورک، ٹریفک دی وائلڈلائف ٹریڈ مانیٹرنگ نیٹ ورک، وائلڈ لائف الائنس، انٹرنیشنل فنڈ فاراینیمل ویلفیئر، یو این انوائرمنٹ پروگرام اور ڈبلیو ڈبلیو ایف شامل ہیں، جنگلی حیات کی غیرقانونی عالمی تجارت کی بیخ کنی کے لیے سرتوڑ کوششیں بروئے کار لارہی ہیں۔ تاہم متاثرہ ممالک میں بدعنوانی کے عنصر بے ضرر رائج قوانین اور کم زور عدالتی نظام کی وجہ سے یہ کوششیں زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہیں۔



پاکستان حیاتیاتی تنوع سے خوب مالامال ملک ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے پودوں کی تین لاکھ انواع میں سے چھے ہزار پاکستان میں ہیں جب کہ پرندوں کی 8700انواع میں سے 668، ممالیہ کی 4327 میں سے 188اور خزندوں کی 5500انواع میں سے 69 پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان دنیا کی بعض نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔ اس کثیر حیاتیاتی تنوع کی بدولت یہاں بھی غیرقانونی شکار اور جنگلی حیات کی ناجائز تجارت کا رجحان موجود ہے، جس سے یہاں کی بایوڈائیورسٹی اور ایکوسسٹم خطر ے سے دوچار ہیں اور یہ عنصر یہاں بھی معدوم ہوتی ہوئی انواع پر اثرانداز ہورہا ہے۔

امسال نایاب پینگولن اور لیپرڈکیٹ کی انواع اسلام آبا د نیشنل پارک سے غیرقانونی شکار ہونے والی ایسی ہی دو مثالیں ہیں۔ پینگولن دنیا کا سب سے زیادہ اسمگل ہو نے والا ممالیہ ہے جو غیرقانونی عالمی تجارت کے حجم کا 20 فی صد ہے۔ انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق 2014 سے قبل کی دہائی میں پینگولن پاکستان سمیت دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں شکار ہوئیں۔ پاکستان سے غیرقانونی تجارت کی جانے والی جنگلی حیات کی انواع میں لومڑی، گیڈر، بھیڑیے، لیپرڈ کیٹ، پینگولن، تازہ پانی کے اودبلاؤ، تازہ پانی کے کچھووں کی آٹھوں انواع، سمندری کچھوے، تلور، شکاری پرندے خصوصاً فالکنز، چرگ اور بہری، زہریلے جان دار کوبرا، وائپر، پتھریلے اور غیرزہریلے سانپ، ناگ اور چھپکلیاں وغیرہ شامل ہیں۔


درپیش صورت حال کے تناظر میں وزارت موسمیاتی تبدیلی حکومت پاکستان پہلی مرتبہ ایک نیشنل وائلڈ لائف پالیسی تشکیل دے چکی ہے جس کا مقصد جنگلی حیات کی اسمگلنگ کو روکنا اور انسانی اور جنگلی حیات کے تصادم کو کم سے کم کرنا اور جانوروں کو ظلم سے محفوظ رکھنا ہے۔ اگرچہ قبل ازیں 2015 کی نیشنل فاریسٹ پالیسی میں جنگلی حیات سے متعلقہ بعض حفاظتی تدابیر کو اختیار کیا گیا، تاہم جنگلی حیات کے جملہ تمام پہلوؤں کو ایڈریس کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت محسوس کی گئی۔

خطرے سے دو چار جنگلی جانوروں کی روزبروز بڑھتی ہوئی غیرقانونی تجارت کو تسلیم کرتے ہوئے اس پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ خصوصی سیل قائم کرکے ایسی سوشل میڈیا سائٹس کی مسلسل مانیٹرنگ کی جائے جو جنگلی حیات کی مصنوعات کی آن لائن فروخت کرتی ہیں۔ غیرقانونی تاجر فیس بک صفحات اور گروپس استعمال کرکے نایاب جانوروں کی خریدوفروخت کر تے ہیں۔

پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر طرح کی جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کو ختم کریں گی جن میں جنگلی جانوروں کا استعمال بحیثیت پالتو جانور، کالے جادو، ادویائی استعمال، گلی محلوں میں کھیل تماشا، حنوط کاری اور سرکس کی شکل میں کیا جائے۔

جانوروں پر ظلم پاکستان میں ابھی تک انتہائی مقبول ہے جو نہ محض جنگلی جانوروں، جیسے ریچھ اور شیر انتہائی ظالمانہ انداز سے اسیری میں رکھے جاتے ہیں بلکہ یہ ان جانوروں سے بھی روا رکھا جا تا ہے جو گدھوں کی طرح مال برداری وغیرہ کے کام آتے ہیں۔ ٰلہٰذا ظالمانہ ایکٹ کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں تمام جانوروں کو شامل کیا جائے جیسے جنگلی حیات کی انواع اور چڑیاگھروں کے جانور، نیز اس ایکٹ کی خلاف ورزی پر بڑھائے گئے جرمانوں کو متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے۔ مزید برآں ایک نیشنل اینمل ویلفئیر کمیٹی کی تشکیل تجویز کی گئی جو دیگر وزارتوں اور صوبائی محکمہ ہائے جنگلی حیات اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ اس کاز کے لیے مشاورت کرے۔



اس ضمن میں حال ہی میں ورلڈوائیڈ فنڈفار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان اور یو این آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم نے ایک میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے مطابق دونوں ادارے باہم مل کر پاکستان میں جدید ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کی روک تھام کریں گے۔

صوبہ پنجاب میں پائی جانے والی نایاب جنگلی حیات کی اہمیت کے پیش نظر محکمہ تخفظ جنگلی حیات و پارکس پنجاب جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کی موثر روک تھام اور بیخ کنی کے لیے بین الاقوامی برادری، حکومت پاکستان و دیگر عالمی و قومی تنظیمات ڈبلیو ڈبلیو ایف، آئی یو سی این، پاکستان کسٹم اور پاکستان رینجرز کے باہمی تعاون سے بھرپور انداز میں اپنا کر دار ادا کر رہا ہے۔

پنجاب میں متعلقہ محکمہ صوبے کے تمام بڑے ایئرپورٹس، ریلوے اسٹیشنز، بس اسٹینڈز اور جانوروں و پرندوں کے خریدوفروخت کے پوائنٹس کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔ اس ضمن میں محکمے نے صوبائی اور ڈویژنل سطح پر سریع الحرکت خصوصی وائلڈلائف اسکواڈز تشکیل دے رکھے ہیں، جنہوں نے غیرقانونی شکار اور جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت و اسمگلنگ کی اطلاع موصول ہونے پر بروقت کارروائی کرکے متعدد ایسی کوششوں کو ناکام بنایا اور درجنوں افراد گرفتار کرکے ان پر بھاری جرمانے عائد کیے۔

تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اور حکومتیں جنگلی حیات کی اس غیرقانونی تجارت سے وا بستہ ایسے افراد جن کی روزی روٹی کا انحصار محض اس کاروبار پر ہے انہیں منا سب روزگار کے مواقع فراہم کر ے، عدالتوں میں وائلڈلائف کرائمز کی موثر پیروی کی جائے، سزائیں اور جرمانوں کی شرح بڑھائی جائے، پروٹیکشن فورسز کو جدید آلات سے لیس کرکے ان کی استعداد کار بڑھائی جائے اور کرپشن جیسی لعنت سے پاک کیا جائے تاکہ روز افزوں بڑھتی ہوئی جنگلی حیات کی اس غیرقانونی تجارت کی مکمل روک تھام ہوسکے۔
Load Next Story