دریچہ نمائش پسندی کے دور میں ادب

نمائش پسندی ایسی کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جو اس سے پہلے کبھی تھی ہی نہیں اور اچانک اس دور میں پیدا ہوگئی۔

نمائش پسندی ایسی کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جو اس سے پہلے کبھی تھی ہی نہیں اور اچانک اس دور میں پیدا ہوگئی۔

ویسے تو خیر ابھی خدا جانے اور کیا کیا سامنے آنا ہے، لیکن اس اکیس ویں صدی کے بارے میں اتنی بات تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ یہ نمائش پسندی کا زمانہ ہے۔

یہ اس عہدِجدید کی انسانی زندگی کی وہ حقیقت ہے کہ جسے جھٹلانا تو رہا ایک طرف، چھپانا تک ممکن نہیں۔ خود کو نمایاں کرنے کی خواہش بھی یوں تو انسانی فطرت میں داخل ہے، لیکن آج ہم جس سطح پر اس کا اظہار دیکھ رہے ہیں، اس کی کوئی توجیہہ یا کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ وہ بنیادی عنصر ہے جو اس دور کے انسانی مزاج اور اس کے رویوں کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اب کوئی اور مانے یا نہ مانے، ہم ادیب شاعر لوگوں کو تو بہرحال یہ سچائی تسلیم کیے ہی بنے گی۔

نمائش پسندی ایسی کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جو اس سے پہلے کبھی تھی ہی نہیں اور اچانک اس دور میں پیدا ہوگئی۔ نہیں، بہت پرانی ہے یہ، شاید قابیل کے زمانے سے چلی آتی ہے۔ تاہم پہلے کے زمانوں اور معاشروں میں اس کا تناسب وہ نہیں تھا جو آج ہے۔ اب سے پہلے معاشرے کے کچھ فی صد لوگ اس میں مبتلا ہوتے تھے، لیکن آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید کچھ فی صد ہی بہ مشکل اس سے بچ پاتے ہوں۔

آج یہ کسی ایک خطے یا سماج کا مسئلہ بھی نہیں ہے، بلکہ چھوت چھات سے پھیلنے والے جراثیم کی طرح نمائش پسندی بھی ایک ایسی وبا ہے جو اس دور میں فرسٹ ورلڈ کی اقتداری اشرافیہ سے لے کر تھرڈ ورلڈ کے مفلس اور مجہول افراد تک پھیلتی چلی گئی ہے۔ اس پھیلاؤ میں بڑا اہم حصہ ہے الیکٹرونک میڈیا کا اور اس سے بھی کہیں بڑا اور مؤثر کردار ہے سوشل میڈیا کا۔ ثبوت کے لیے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پس ماندہ اقوام تک سیاسی، سماجی، علمی حتیٰ کہ مذہبی منظرنامے تک جہاں چاہے نظر ڈال لیجیے، پے در پے مثالیں دست یاب ہوں گی، اور وہ بھی کسی چھان پھٹک کے بغیر۔

انسانی تہذیب و تمدن اور اخلاق و اقدار کا یہ طول طویل سفر آخر کیوں اور کیسے ایک ایسی ڈگر پر آنکلا کہ اس کی منزل ہی بدل جائے، یہ ایک الگ اور تفصیل طلب سوال ہے۔ اس کے لیے آپ کو ماضیِ قریب میں گزرے بیانیے، مہا بیانیے اور حال میں جاری مابعد نوآبادیاتی تناظر تک بہت کچھ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ سب چیزیں یک جا اور اپنی کلیت میں ہی ان حقائق کو واضح کرسکتی ہیں جو اس عہد کے انسان اور اس کی روح کا احوال ہمیں سنائیں۔ تاہم اس امر کو مسلسل نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان سب بیانیوں، مہا بیانیوں اور اس مابعد نوآبادتی تناظر میں بھی سب کچھ سچائی پر مبنی نہیں ہے۔ اس میں بھی بہت جھوٹ اور کھوٹ ہے، لیکن اس کو دیکھے پرکھے بنا اور مکمل چھان بین کے بغیر اُس سچ تک نہیں پہنچا جاسکتا جو اس عہد کے اصل انسان سے ہمیں ملا دے۔ نمائش پسندی کے اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ دراصل اس سچ کی تلاش ہی تو ہے۔ سچ جو آج مفقود ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو سات پردوں کے پیچھے اور بڑی مخدوش حالت اور معمولی حیثیت میں۔

یوں دیکھا جائے تو ادب و شعر، بلکہ جملہ فنونِ لطیفہ کا سارا کاروبار ہی اظہار کی خواہش سے تعلق رکھتا ہے۔ اب یہ اظہار کی خواہش کیا ہے؟ اس کے پیچھے بھی تو خود کو سامنے لانے یا نمایاں ہونے کی جستجو ہوتی ہے، یعنی وہی نمائش پسندی۔ نہیں، بالکل نہیں۔ نمایاں ہونے کی خواہش اور نمائش پسندی میں بہت فرق ہے۔ فن کار خود کو جب نمایاں کرتا ہے تو وہ اپنی ذات کو نہیں، اپنے فن کو سامنے لاتا ہے۔ اپنے جذبے، احساس، خیال اور شعور کو ابھارتا ہے۔

ذاتی طور پر تو وہ کہیں پس منظر میں ہوتا ہے۔ پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس کے جذبہ و شعور کی تشکیل و تعمیر میں ایک حصہ اس کے عہد کا، اس کی تہذیب اور سماج کا بھی ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو فن کار اور اس کا معاشرہ دونوں جانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح فن کار کے نمایاں ہونے میں ایک طرف عصری شعور نمایاں ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ازلی ابدی حقیقتیں بھی اس کے یہاں راہ پاتی ہیں جو نوعِ انسانی کی تجربی صداقتوں کو عہد بہ عہد آگے بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ اب اگر شیکسپیئر ایک مرحلے پر ہیملٹ سے کہلاتا ہے:

To be, or not to be, that is the question

تو بہ ظاہر یہ ایک کردار کی الجھن ہے جس کا ایک مفہوم وجودی سطح پر بھی ہے، لیکن اصل ابتلا تو انسان کے شعور و احساس پر گزرتی ہے جو اس سے یہ اظہار کراتی ہے۔ اس کا بیان آگے چل کر اٹھائیس تیس سطروں بعد آتا ہے، جب وہی کردار یہ کہتا ہے: Thus conscience does make cowards of us all,

ٹھیک ہے، یہ ایک فن کار کا اظہار ہے، اور بے شک وہ یہاں نمایاں بھی ہورہا ہے، لیکن ذرا رکیے اور دیکھیے کہ یہاں اُس کی ذات ابھر رہی ہے یا پھر حیاتِ انسانی کی وہ سچائی کہ جس کا تجربہ اپنے اپنے زمانوں میں نسل درنسل لوگ کرتے چلے آئے ہیں۔ اب اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فن کار کی نمایاں ہونے والی خواہش کا یہ وہ اثباتی رخ ہے جو دراصل ایک انسانی صداقت کو ابھارتا ہے، فن کار کی ذات کی نمائش کا ذریعہ نہیں بنتا۔ اب دیکھیے، میر صاحب کہتے ہیں:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا

ذرا بتائیے تو سہی کہ آخر اس میں میر صاحب کی ذات کتنی نمائش پسند محسوس ہورہی ہے۔ اچھا چلیے، یہ تو شعر ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ جس میں بات ساری توجہ حاصل کرلیتی ہے اور فن کار کی ذات خود ہی نظروں سے محو ہوجاتی ہے۔ لیجیے، یہ شعر دیکھیے:

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا


یہاں تو فن کار سر تا پا ہمارے سامنے ہے کہ ساری بات اس نے خود کو بنیاد بناکر کی ہے، کیا یہاں اس کی ذات کی نمائش ہورہی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہاں بھی آپ کی تمام تر توجہ زنداں پر، جنوں اور اس کی شورش پر مرکوز ہوجاتی ہے، فن کار کی ذات تو پھر کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ اس طرح اوجھل ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کو اس کا دھیان تک نہیں رہتا۔ بتائیے اب کہ اس میں بھلا کسی نمائش پسندی کا کوئی شائبہ بھی ہے؟ نظیر کا شعر سنیے:

یوں تو ہم کچھ نہ تھے پر مثلِ انار و مہتاب

جب ہمیں آگ لگائی تو تماشا نکلا

اب غور کیجیے، آگ ہمیں لگائی گئی ہے اور تماشا بھی ہمارے اندر سے نکلا ہے، لیکن دکھائی دے رہے ہیں، انار، مہتاب، آگ اور اس کے بعد کا پورا تماشا، یعنی سب کچھ نظر آرہا ہے، لیکن نظر نہیں آرہے تو بس ایک ہم۔ وجہ یہ ہے کہ اظہار، ابلاغ اور شناخت حاصل کرنے اور نمایاں ہونے کے سارے عوامل اپنی جگہ، لیکن ادب و فن میں نمائش پسندی کے لیے رتی برابر گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ دراصل اْن کے مزاج، ان کی فطرت کے منافی ہے۔ یہاں تو صرف خیال، احساس اور شعور نمایاں ہوتا ہے۔

اب رہی بات ادیب کی خود مرکزیت، اظہار پسندی اور عینیت کی تو ہمیں صاف صاف لفظوں میں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تو ادیب کی شخصیت کے لازمی عناصر ہیں۔ ان کے بغیر تو وہ ادب تخلیق ہی نہیں کرسکتا۔ ہمارے یہاں غالب کے بارے میں تو بہت لکھا گیا ہے، لیکن ذرا دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ خود مرکزیت اور عینیت جیسی میر کے یہاں نظر آتی ہے، وہ تو غالب سے بھی سوا ہے، اور ایسا صرف ہمارے یہاں نہیں ساری دنیا میں ادب و شعر تخلیق کرنے والوں کا ایسا ہی معاملہ رہا ہے اور ہمیشہ سے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے کے جس حصے سے سطورِ گذشتہ میں لائن نقل کی گئی اسی میں وہ ایک جگہ کہتا ہے: There's the respect

That makes calamity of so long life;

اسی طرح آپ رومانٹک پوئٹری کے پورے عہد کو انگریزی میں دیکھ لیجیے۔ بائرن، ٹینی سن، شیلے، کیٹس، ورڈزورتھ کون ان میں سے خود پسند اور شہرت کا خواہاں نہیں تھا۔ خودپسندی اور شہرت و جاہ کی خواہش کا عالم یہ کہ آپ کہہ اٹھیں کہ الاماں! ایک فلاں کی کھوپڑی میں شراب پینا چاہتا ہے، دوسرا شیکسپیئر کو پیچھے اپنی گرد میں دیکھنا چاہتا ہے، تیسرے کا دماغ یہ کہ وہ اس مقام پر ہو کہ کوئی اسے اپنا دوست کہنے کی جرأت نہ کرسکے۔ آپ کہیں گے، یہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔

ٹھیک ہے، لیکن ادیب شاعر اعصابی سطح پر نارمل آدمی ہوتا بھی کب ہے۔ ایک حد تک یہ ابنارمیلٹی ہی تو اصل میں اس کے اندر وہ احساس پیدا کرتی ہے جو اسے اظہار کی اعلیٰ سے اعلیٰ تر سطح کی طرف لے جاتا ہے۔ سلیم احمد نے اقبال کی شاعری کو خوفِ مرگ سے لڑنے کا حاصل بتایا تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایک اقبال ہی کیا، دنیا کے کس بڑے شاعر نے شہرتِ عام و بقائے دوام کی آرزو کا چراغ دل میں روشن نہیں رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ برائی اس خواہش میں نہیں ہے، بلکہ خواہش کا محور بدل جانے میں ہے۔ اگر یہ آرزو فن کار کے فن کو بلندی کی طرف لے جارہی ہے تو بڑی کارآمد شے ہے، لیکن اگر یہ اس کا دھیان فن سے ہٹاکر دنیا کی طرف لگادے تو پھر وہ فن کار نہیں، دنیا کا کتا بن کر رہ جاتا ہے۔

عہدِجدید میں نمائش پسندی کا رویہ کوئی اثباتی پہلو نہیں رکھتا۔ عام آدمی کو تو چھوڑیے، یہ فن کار کے اندر بھی کوئی کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اْس کے دل میں فنی برتری کی خواہش پیدا کررہا ہے اور نہ ہی تکمیلیت کے جذبے کو بیدار کررہا ہے۔ یہ اسے اپنے فن کے بارے میں تو کچھ سوچنے کی تحریک دیتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس اس کی توجہ اپنی ذات پر مرکوز کرتا ہے، اور ذات کے بھی وجودی اور خارجی رخ تک۔ پہلے یہ کام اداکاروں کی زندگی میں ہوتا تھا۔ وہ فیس ویلیو کے لوگ سمجھے جاتے تھے اور اسی پر ان کی ساری ساکھ اور کیریئر کا انحصار ہوتا تھا۔

کمرشلائز ہونے والے کھیلوں کے کھلاڑی بھی بعد ازاں فیس ویلیو کے حامل ہوگئے۔ ان کی شخصیت بھی اسی پہلو سے نمایاں ہونے لگی۔ عہدِجدید کے اس مظہر نے جس کا نام سوشل میڈیا ہے، آج ادیب اور شاعر کو بھی اداکاروں اور کھلاڑیوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ مشاعرے کے عروج کے زمانے میں تو ہمارا شاعر پھر بھی کچھ نہ کچھ نمایاں اور پاپولر ہونے والی شخصیت کا مالک تھا، لیکن افسانہ نگار اور نقاد تو کبھی اس چکر میں ہی نہیں پڑے تھے۔ سوشل میڈیا کا ریلا آج ان کو بھی بہا لے جانے کے درپے ہے۔

بات ادیب، شاعر اور نقاد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ عہدِجدید کے اس چلن نے تو ایک سادہ لوح اور عام آدمی کے اندر بھی اداکار اور کھلاڑی کا التباس پیدا کرکے، اسے ذاتی اور وجودی نمائش میں اس طرح مبتلا کیا ہے کہ اسے یہی سماجی زندگی کا مقصود و منتہیٰ معلوم ہورہا ہے۔

خارجی اظہار کا یہی رویہ اب اصل زندگی سمجھا جارہا ہے۔ اس ریلے کا بہاؤ اس قدر شدید، بلکہ طوفانی قسم کا ہے کہ آپ ترقی یافتہ اور خوش حال معاشروں کے ساتھ پس ماندہ ملکوں کے عوام کو بھی اس میں اْسی طرح بہتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، بلکہ مؤخر الذکر زیادہ شدومد سے اس میں مگن نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقی زندگی میں کمی اور محرومی کی تلافی اس کے ذریعے کرنے کے خواہاں ہیں۔

ظاہر ہے، وہ تو ہرگز ممکن نہیں ہے، لیکن آدمی کا دھیان وقتی طور پر یہ خارجی مشاغل ان سے ہٹا ضرور دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی جب کبھی پلٹ کر حقیقی زندگی اور اس کے مسائل کا سامنا کرتا ہے تو اس کی تلخی میں اضافہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نتیجہ فرسٹریشن میں اضافے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِجدید کی ان اشیا اور مشاغل نے آدمی کی زندگی میں ایسا دھوکا پیدا کیا ہے کہ جب اس کی اصلیت کھلتی ہے تو زندگی کی لایعنیت، محرومی، تنہائی اور اداسی کا احساس ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جاتا ہے۔ چناںچہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ذہنی امراض اور خودکشی کے رجحان میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ مستقل ایک بھری پری محفل میں خود کو پاتے ہیں۔ ہر وقت رونق کے مرکز میں اور آوازوں کے ہجوم کے درمیان، لیکن حقیقی زندگی میں ایک محلے، بلکہ ایک گھر میں رہنے والے لوگوں کے مابین بھی اتنے فاصلے پیدا ہوگئے ہیں کہ آدمی سے آدمی کی ملاقات ہی نہیں ہوپاتی، ایک کی آواز دوسرے تک پہنچتی ہی نہیں۔ جب بیماری، آزاری یا کسی اور وجہ سے حقیقتاً آدمی کو آدمی کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سارا مجمع تو اس کے موبائل، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھا، اصل میں تو وہ تنہائی اور سناٹے کی لپیٹ میں ہے۔

اس کے عملی مظاہرے آئے دن دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک شخص کی علالت کی خبر پر عیادت کرنے والوں کی تعداد تو بہت ہوتی ہے، لیکن اس کے پاس آکر، اس کا ہاتھ تھام کر اپنے رشتے کی حرارت کا احساس دلانے والے پانچ فی صد بھی نہیں ہوتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رشتے اور تعلقات بھی اس عہد کے انسان کی خارجی زندگی کا دکھاوا ہوکر رہ گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس دور میں ادیب اور شاعر کیا کرسکتے ہیں؟ سچ پوچھیے تو ادیب شاعر ہی وہ لوگ ہیں جو نمائش پسندی کے اس امڈتے سیلاب کے آگے اپنے معاشرے کو بچانے کے لیے کوئی بند باندھ سکتے ہیں۔ سیاست داں، سول سرونٹس، مصلح، سماجی کارکن، ڈاکٹر، انجینئر سب مل کر بھی وہ نہیں کرسکتے جو کام ادیب شاعر کرسکتے ہیں۔

اس لیے کہ یہ صلاحیت قدرت نے سب سے بڑھ کر انھی کو بخشی ہوتی ہے کہ معاشرے کے تغیرات کے عقب میں کارفرما محرکات کو دیکھ سکیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان کی نظر انسانی احساس کی بدلتی ہوئی ان صورتوں کو بھی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ گہرائی میں جاکر دیکھ سکتی ہے جو اس کے لاشعور اور تحت الشعور میں تہ در تہ پیدا ہوتی ہیں۔ جن کا خود انسان اور اس کے سماج کو بھی کہیں بہت بعد میں جاکر اندازہ ہوتا ہے۔ تاہم یہ کام اْس وقت ہوسکتا ہے جب ادیب شاعر کو اس عہد میں اپنے کردار کے تقاضے اور فن کے مطالبے کا شعور ہو۔ یہ شعور اس کے اندر اس نمائش پسندی سے اغماض پیدا کرتے ہوئے اس کی ذہنی، فکری اور تخلیقی شخصیت کو متحرک کرے گا اور معاشرے میں اپنے اصل کردار کی طرف مائل۔
Load Next Story