ریاست عسکری حکمتِ عملی اور قیادت حصہ اول
چین آف کمانڈ میں عین دورانِ جنگ پانچ اعلیٰ تبدیلیوں کے باوجود برطانیہ پہلی عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں میں شامل رہا۔
جو ممالک برس ہا برس بحرانوں اور لمبی لمبی جنگوں سے نبرد آزما ہیں یا رہے ہیں ان میں اعلیٰ عسکری تقرریوں، تبادلوں اور سبکدوشیوں کی کیا روایات رہی ہیں۔ حاصلِ تحقیق پیشِ خدمت ہے۔
پہلی عالمی جنگ اٹھائیس جولائی انیس سو چودہ سے گیارہ نومبر انیس سو اٹھارہ تک چار برس چار ماہ جاری رہی۔ اس دوران رائل برٹش آرمی کی چین آف کمانڈ کی سربراہی میں پانچ تبدیلیاں ہوئیں۔جنرل سر چارلس ڈگلس چھ اپریل انیس سو چودہ سے پچیس اکتوبر انیس سو چودہ تک دو سو دو دن برٹش امپیریل چیف آف دی جنرل اسٹاف رہے۔ان کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سر جیمز مرے ایک سال ایک سو چون دن، جنرل آرچی بالڈ مرے اٹھاسی دن ، جنرل سر ولیم رابرٹسن دو سال اٹھاون دن اور فیلڈ مارشل سر ہنری ولسن چار برس برطانوی فوج کی کمان کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے۔ چین آف کمانڈ میں عین دورانِ جنگ پانچ اعلیٰ تبدیلیوں کے باوجود برطانیہ پہلی عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں میں شامل رہا۔
دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر انیس سو انتالیس سے دو ستمبر انیس سو پینتالیس تک چھ برس جاری رہی۔اس عرصے میں برطانوی فوج کے چار سربراہ تبدیل ہوئے۔جب جنگ شروع ہوئی تو جنرل جان ویرک امپیریل برٹش آرمی کے سربراہ تھے۔جنگ شروع ہونے کے تیسرے روز جنرل ویرک کی جگہ جنرل ایڈمنڈ آئرن سائیڈ کو بری فوج کا سربراہ نامزد کیا گیا۔انھوں نے دو سو چھیاسٹھ دن بعد کمان فیلڈ مارشل جان ڈل کے حوالے کردی۔ایک برس دو سو تیرہ دن بعد یہ کمان فیلڈ مارشل ایلن بروک کے حوالے ہو گئی جو چار برس ایک سو بیاسی دن کے بعد پچیس جون انیس سو چھیالیس کو ریٹائر ہو گئے۔ان کے بعد شمالی افریقہ کے برٹش ہیرو جنرل منٹگمری نے کمان سنبھالی اور دو برس ایک سو انتیس دن بعد مدتِ ملازمت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔
انیس سو چار سے آج تک اکتالیس جرنیلوں نے برٹش آرمی کی کمان کی اور صرف دو سربراہ ایسے گذرے جنھوں نے چار برس کی مقررہ مدت سے زائد فوج کی کمان کی۔فیلڈ مارشل سر جارج میلنی فروری انیس سو چھبیس سے فروری انیس سو تینتیس تک سات برس اور سر ایلن بروک ساڑھے چار برس۔
برطانیہ کے برعکس پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمن ہائی کمانڈ میں صرف دو تبدیلیاں ہوئیں۔جنرل ایرک وان فوکن ہائین تین برس اور پال وان ہنڈن برگ ڈھائی برس جرمن بری فوج کے سربراہ رہے۔جب کہ دوسری عالمی جنگ میں پانچ جرنیلوں نے یکے بعد دیگرے کمان کی۔جنرل فرانز ہالڈر چار برس تئیس دن ، جنرل کرٹ زائٹزلر ایک سال دو سو ساٹھ دن، ایڈولف ہیشنگر اکتالیس دن ، جنرل ہائنز گودیریاں ڈھائی سو دن اور جنرل ہانز کریبز تیس دن۔
آپ یہ دیکھیں کہ برطانیہ نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نو کمانڈر اور جرمنوں نے سات کمانڈر بدلے مگر جرمنی ہار گیا اور برطانیہ جیت گیا۔
امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے آخری برس میں شمولیت اختیار کی مگر دوسری عالمی جنگ کے چھ برس میں سے پانچ برس امریکا نے جنگ میں حصہ لیا۔اس دوران جنرل جارج مارشل ہی امریکی فوج کی کمان کرتے رہے اور چھ برس اٹھہتر دن بعد اٹھارہ نومبر انیس سو پینتالیس کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
ان کے بعد جنرل آئزن ہاور دو برس دو ماہ انیس دن کماندار رہے۔حالانکہ یورپ میں نازیوں کو شکست دینے میں بحیثیت سپریم اتحادی کمانڈر برائے یورپ جنرل آئزن ہاور کا کلیدی کردار رہا مگر اس کردار کے باوجود امریکی فوج کے سربراہ کے طور پر ان کی سبکدوشی وقتِ مقررہ پر ہی ہوئی۔
سب سے دلچسپ کہانی جنرل ڈگلس میک آرتھر کی ہے۔وہ انیس سو تیس سے پینتیس تک پونے پانچ برس امریکی بری فوج کے سربراہ رہے۔انیس سو سینتیس میں باقاعدہ ریٹائر ہوگئے اور حکومتِ فلپینز کے فوجی مشیر ہو گئے۔
مگر دسمبر انیس سو اکتالیس میں پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد امریکا نے اعلانِ جنگ کر دیا اور دیگر ریٹائرڈ فوجیوں کی طرح ڈگلس میکارتھر کو بھی متحرک ڈیوٹی کے لیے طلب کر لیا گیا۔انھیں بحرالکاہل کے محاذ کی کمان سونپ دی گئی۔اس حیثیت میں انھوں نے فلپینز کو جاپانی قبضے سے آزاد کروایا اور جنگ کو جاپان کی دہلیز تک لے گئے۔چھ اگست اور نو اگست انیس سو پینتالیس کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر یکے بعد دیگرے دو ایٹم بم گرائے گئے۔ دو ستمبر کو امریکی سپریم کمانڈر میک آرتھر کے سامنے جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔
پچیس جون انیس سو پچاس کو شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔اقوامِ متحدہ کی قرار داد کی چھتری تلے امریکا اور اتحادیوں نے جزیرہ نما کوریا میں اپنی فوجیں اتار دیں اور میک آرتھر کو کمانڈر بنایا گیا۔ان کی قیادت میں اتحادی فوجوں نے شمالی کوریا کو پسپا کر دیا اور جنگ کو اس کے علاقے میں لے گئے۔اس موقع پر چین نے اپنے فضائی و بری دستے شمالی کوریا کی مدد کے لیے بھیج دیے۔صدر ٹرومین کی پالیسی تھی کہ جنگ کو پھیلنے نہ دیا جائے اور فوجی آپریشن صرف کوریا کی حدود میں رکھا جائے۔مگر میک آرتھر کا خیال تھا کہ چین کو مزہ چکھانے اور کیمونسٹوں کا قلع قمع کرنے کا یہ بہترین موقع ہے لہذا جنگ کا دائرہ چین تک پھیلا دیا جائے۔
مگر یہ بات میک آرتھر نے بند کمرے میں کرنے کے بجائے کچھ یورپی سفارتکاروں اور امریکی کانگریس کے ارکان سے کھلم کھلا کی۔اس پر صدر ٹرومین نے فوری تادیبی کارروائی کی اور میک آرتھر جیسے فاتح جنرل کی سابقہ سنہری خدمات کا لحاظ کیے بغیر عین چلتی جنگ میں کمان سے فارغ کر دیا اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل میتھیو رج وے کو کمان دے دی گئی۔جنگ ستائیس جولائی انیس سو تریپن کو ختم ہوئی۔
جنرل باپ کے جنرل بیٹے میک آرتھر کا شمار امریکی تاریخ کے ان پانچ کمانڈروں میں ہوتا ہے جنھیں جنرل آف دی آرمی کا ٹائٹل دیا گیا۔مگر کورین جنگ کے دوران تادیبی فراغت کے بعد اگلے تیرہ برس نسبتاً خاموشی سے سویلین عہدوں پر رہتے ہوئے بسر کیے اور پانچ اپریل انیس سو چونسٹھ کو چوراسی برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
جنگِ ویتنام میں امریکا انیس سو چونسٹھ سے انیس سو چوہتر تک براہِ راست ملوث رہا۔پچاس ہزار سے زائد امریکی فوجی جاں بحق ہوئے۔مگر اس عرصے میں امریکی فوج کی کمان یکے بعد دیگرے پانچ بار تبدیل ہوئی۔
جنرل میک کرسٹل عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد امریکی افواج کے کمانڈر رہے اور اس حیثیت میں انھوں نے القاعدہ کا زور توڑنے میں خاصی کامیابی حاصل کی۔چنانچہ ان کی عسکری کارکردگی دیکھتے ہوئے انھیں افغانستان میں اتحادی افواج کا کمانڈر مقرر کر دیا گیا۔ جولائی دو ہزار دس میں امریکی جریدے رولنگ اسٹون میں ایک مضمون شایع ہوا جس میں جنرل میک کرسٹل سے یہ بات منسوب کی گئی کہ وہ افغانستان کی بابت صدر اوباما ، نائب صدر جو بائیڈن اور قومی سلامتی کے مشیر کی حکمتِ عملی سے خوش نہیں۔بقول جریدے کے جنرل میک کرسٹل نے کہا کہ اگر انھیں تیس تا چالیس ہزار اضافی فوجی نہیں دیے جاتے تو جنگ جیتنا مشکل ہو جائے گا۔
جنرل میک کرسٹل کو وضاحت کے لیے وائٹ ہاؤس طلب کر لیا گیا۔ انھوں نے امریکی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا مگر رولنگ اسٹون میں خود سے منسوب تبصرے کی تردید نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ ان کی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔انھوں نے اپنے استعفیٰ کی پیش کش کی اور صدر اوباما نے یہ پیش کش فوراً قبول کر لی اور ان کی جگہ جنرل پیٹریاس کو افغانستان کا فوجی کمانڈر مقرر کر دیا گیا۔
صدر اوباما کی جانب سے یہ بیان جاری ہوا۔
'' آج میں نے افغانستان میں اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کا استعفیٰ منظور کر لیا۔ مجھے افسوس بھی ہے مگر یہ یقین بھی کہ یہ افغانستان میں ہمارے مشن ، ہماری فوج اور ہمارے ملک کی خاطر ایک درست قدم ہے ''۔
بحرانوں اور جنگوں میں مبتلا باقی ممالک میں کمان کے تسلسل و تبدیلی کا کیا ماضی، حال اور احوال ہے۔منگل کو مزید روشنی ڈالی جائے گی )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)