گھریلو ملازمہ کی خودکشی واقعے کا قتل کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج
پولیس نے کوئی بات نہیں سنی اور واقعہ خودکشی قرار دے کر فائل بند کردی، والد غلام یاسین
فیروز آباد پولیس نے عدالتی حکم پر گھریلو ملازمہ کی خودکشی کے واقعے کا قتل کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔
9 اگست کو فیروز آباد کے علاقے میں بنگلے سے تیرہ سالہ فضیہ کی لاش ملی تھی جوکہ چھت سے لٹکی ہوئی تھی ، مرنے والی لڑکی فضیہ کے والد غلام یاسین نے الزام عائد کیا ہے کہ بنگلے کے مالک نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ان کی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جس کے بعد انھوں نے قتل کرکے واقعے کو خودکشی کا رنگ دے دیا۔
واقعہ 9 اگست کو پیش آیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کے باعث عدالت سے رجوع کیا گیا جس کے بعد عدالتی حکم پر فیروز آباد پولیس نے جمعہ کو مقدمہ تین ملزمان کاشف ، ذیشان اور عثمان کے خلاف درج کرلیا گیا۔
غلام یاسین کے مطابق انھوں ںے پانچ ماہ قبل اپنی بیٹی کو فیروز آباد میں ذیشان اور اس کی اہلیہ سالکہ کے گھر بطور ملازم رکھوایا تھا جس کے عوض اسے تیرہ ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے لیکن وقوعہ کے وقت اسے فون آیا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ کچھ ہوگیا ہے۔ وہ فوری طور پر بنگلے پر پہنچے ، جب وہ بنگلے پر پہنچا تو اپنی بیٹی کی لاش کو لٹکا ہوا پایا جبکہ پولیس بھی موجود تھی۔
غلام یاسین کا الزام ہے کہ پولیس نے ان کی کوئی بات نہیں سنی اور واقعہ خودکشی قرار دے کر فائل بند کردی ، مجبوراً انھوں نے عدالت کا سہارا لیا ، اس سلسلے میں ایس ایچ او فیرو ز آباد اورنگ زیب خٹک نے بتایا کہ پولیس نے ابتدائی تفتیش مکمل کرلی تھی جس میں تینوں نامزد ملزمان کے موبائل فون کی لوکیشن اور دیگر ضروری سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئیں، نامزد افراد کا گاڑیوں کا شوروم ہے۔
موبائل فون لوکیشن کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ وقوعہ کے روز تینوں افراد بنگلے پر موجود نہیں تھے تاہم چونکہ عدالت کا حکم ہے لہٰذا مدعی کے بیان کے عین مطابق ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں ںے بتایا کہ مرنے والی لڑکی کا موبائل فون پولیس نے حاصل کرلیا ہے جس میں کئی اہم معلومات ملی ہیں ، واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہے۔
9 اگست کو فیروز آباد کے علاقے میں بنگلے سے تیرہ سالہ فضیہ کی لاش ملی تھی جوکہ چھت سے لٹکی ہوئی تھی ، مرنے والی لڑکی فضیہ کے والد غلام یاسین نے الزام عائد کیا ہے کہ بنگلے کے مالک نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ان کی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جس کے بعد انھوں نے قتل کرکے واقعے کو خودکشی کا رنگ دے دیا۔
واقعہ 9 اگست کو پیش آیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کے باعث عدالت سے رجوع کیا گیا جس کے بعد عدالتی حکم پر فیروز آباد پولیس نے جمعہ کو مقدمہ تین ملزمان کاشف ، ذیشان اور عثمان کے خلاف درج کرلیا گیا۔
غلام یاسین کے مطابق انھوں ںے پانچ ماہ قبل اپنی بیٹی کو فیروز آباد میں ذیشان اور اس کی اہلیہ سالکہ کے گھر بطور ملازم رکھوایا تھا جس کے عوض اسے تیرہ ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے لیکن وقوعہ کے وقت اسے فون آیا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ کچھ ہوگیا ہے۔ وہ فوری طور پر بنگلے پر پہنچے ، جب وہ بنگلے پر پہنچا تو اپنی بیٹی کی لاش کو لٹکا ہوا پایا جبکہ پولیس بھی موجود تھی۔
غلام یاسین کا الزام ہے کہ پولیس نے ان کی کوئی بات نہیں سنی اور واقعہ خودکشی قرار دے کر فائل بند کردی ، مجبوراً انھوں نے عدالت کا سہارا لیا ، اس سلسلے میں ایس ایچ او فیرو ز آباد اورنگ زیب خٹک نے بتایا کہ پولیس نے ابتدائی تفتیش مکمل کرلی تھی جس میں تینوں نامزد ملزمان کے موبائل فون کی لوکیشن اور دیگر ضروری سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئیں، نامزد افراد کا گاڑیوں کا شوروم ہے۔
موبائل فون لوکیشن کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ وقوعہ کے روز تینوں افراد بنگلے پر موجود نہیں تھے تاہم چونکہ عدالت کا حکم ہے لہٰذا مدعی کے بیان کے عین مطابق ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں ںے بتایا کہ مرنے والی لڑکی کا موبائل فون پولیس نے حاصل کرلیا ہے جس میں کئی اہم معلومات ملی ہیں ، واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہے۔