آج کل کے سنڈیمن
سناہے ڈیرہ غازی خان سے بلوچستان کی طرف جائیں تو ’’فورٹ سنڈیمن‘‘ نام کی کوئی جگہ آتی ہے۔ میں وہاں کبھی نہیں گیا مگر...
RAWALPINDI:
سناہے ڈیرہ غازی خان سے بلوچستان کی طرف جائیں تو ''فورٹ سنڈیمن'' نام کی کوئی جگہ آتی ہے۔ میں وہاں کبھی نہیں گیا مگر فرض کر لیا کہ سنڈیمن ''لائل'' کی طرح کا کوئی انگریز ڈی سی وغیرہ ہو گا جس کے نام پر اس مقام پر کوئی قلعہ نما عمارت بنا دی گئی ہو گی۔ اسکول میں جتنی تاریخ مجھے پڑھائی گئی تھی اس کے ذریعے میری عمر کے لوگ ہرگز نہیں جان سکتے تھے کہ انگریز تاجروں کے روپ میں جنوبی ایشیاء پہنچ کر یہاں کا حکمران کیسے بن گیا۔ اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے اس نے کیا طریقے اختیار کیے۔
اپنے ملک کی تاریخ کے بارے میں مجھے تو کیا شاید آج کل کے اسکول جانے والے بچوں کو بھی یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک راجہ داہر ہوتا تھا۔ مسلمان تاجروں کا ایک جہاز آج کل کے سری لنکا سے ہمارے سندھ کی آبی گزرگاہوں سے ہوتا ہوا بصرہ جا رہا تھا تو ڈاکوئوں نے اسے لوٹ لیا۔ ان تاجروں کے ساتھ جو خواتین تھیں ان کی چیخ و پکار حجاج بن یوسف تک پہنچی۔ انھوں نے محمد بن قاسم کو ایک لشکر دے کر یہاں بھیجا۔ محمد بن قاسم تھا تو 17 سال کا نوجوان مگر بڑا ذہین جرنیل تھا۔ اس نے اس وقت کے جدید ترین ہتھیار ''منجنیق'' کے استعمال کے ذریعے دیبل کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد سے برصغیر میں اسلام پھیلا۔ مسلمانوں نے تقریباََ 800 سال تک یہاں حکمرانی کی۔ پھر مکار انگریز تاجروں کے روپ میں یہاں آ گئے۔ پہلے انھوں نے نواب سراج الدولہ کو میر جعفر جیسے غداروں کی مدد سے شکست دے کر بنگال ہتھیا لیا، پھر شیر کی ایک دن کی زندگی کو گیدڑ کے سو سالوں سے ترجیح دینے والے سلطان ٹیپو کے پیچھے پڑ گئے۔
وہاں بھی ایک میر صادق ان کا ساتھی بن گیا۔ یوں ''دو میروں'' کی وجہ سے نوبت بہ ایں جا رسید کہ 1857کے بعد مغل سلطنت کا آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر اپنی سلطنت سے ہاتھ دھو کر رنگون جلا وطن کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے زوال کے بعد سرسید احمد خان آئے۔ انھوں نے علی گڑھ میں ایک کالج بنایا۔ مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کی جانب متوجہ کیا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انگریز اس ملک سے چلا گیا تو اس کی بنائی کانگریس جمہوریت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لے گی۔ شاعر مشرق نے اسی لیے جمہوریت کو ایسا نظام ٹھہرایا جہاں بندوں کو تولا نہیں گنا کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے ایک جدا مملکت کا خواب دیکھا۔ قائد اعظم نے اس خواب کو پاکستان کے قیام کی صورت میں ایک حقیقت بنا دیا۔
کالج کے اپنے پہلے دو سالوں میں میں نے ''پولیٹیکل سائنس'' بھی پڑھی تھی۔ اسے ان دنوں غالباََ اُردو میں ''مدنیات'' کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد میں فلسفہ اور انگریزی ادب پڑھتا رہا اور رٹے لگا کر اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہا۔ پھر صحافی بن گیا۔ اس شعبے میں رپورٹنگ کے عمل میں مصروف رہا۔ اس پورے عرصے میں کسی بھی موقعہ پر میں نے یہ سمجھنے کی ہرگز کوئی کوشش نہیں کی کہ وہ جسے ''حکومت'' کہتے ہیں وہ کیا چیز ہوتی ہے۔ گزشتہ چار پانچ برسوں سے کبھی کبھار یہ سوال ضرور تنگ کرتا کہ انگریز اتنی دور سمندر پار سے آ کر کیوں اور کس طرح ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہمارے آقائوں کے دبدبے والے حکمران بنے رہے۔ گوری چمڑی والوں کی تعداد تو اس خطے میں آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ ان کے پاس وہ کیا ہنر اور چالاکی تھی جس کی بدولت وہ اپنی اس قلیل تعداد کے باوجود ہم پر اپنا حکم چلاتے رہے۔ ہمارے لکھنے والے ان سوالوں کا جواب دینے کی زیادہ زحمت نہیں کرتے۔ تحقیق سے ہمیں من حیث القوم کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ اگر ہو بھی تو تاریخ کے بارے میں کتابیں لکھ کر باعزت روٹی نہیں کمائی جا سکتی۔
ویسے بھی عالم اسلام کی شاندار تاریخ کو ہمارے دینی مفکر اور واعظ بڑی تفصیل اور تواتر سے بیان کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بتائے Narrative پر کوئی سوال کر دو تو انٹرنیٹ مجاہدین آپ کی تصویروں کے ساتھ لوگوں کو آپ سے نفرت کرنے پر اُکسانا شروع ہو جاتے ہیں۔ عزت و جان بچانے کے لیے خاموش رہنا ہی مناسب راستہ ہے۔ میرا لیکن ایک مسئلہ ہے۔ کتابوں کی کسی بڑی دوکان کے سامنے سے گزروں تو گاڑی روک کر اندر گھس جاتا ہوں۔ ATM کارڈ سے پہلے جیب میں اکثر اتنی رقم ہی نہیں ہوتی تھی کہ جو کتاب پسند آ جائے بے دھڑک خرید لوں۔ پچھلے کچھ برسوں سے روزانہ سرخی پائوڈر لگاکر ٹی وی اسکرین پر آتا ہوں اور غریب عوام کے دُکھوں پر سیاپا کرتا ہوں۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ دل کی بات زبان پر نہ لائوں۔ ایک مہذب انداز اور اچھے لفظوں میں سچ کو چھپائوں۔ کبھی کبھار بلّھے شاہ کی طرح منہ آئی بات روک نہیں پاتا۔ اس پر کئی گھنٹے شرمندہ رہتا ہوں۔ سچ بولوں گا تو جیب میں رکھا ATM بے وقعت ہوجائے گا۔ گمنامی کی موت مر جائوں گا۔ سچ چھپانے کی وجہ سے رزق اور شہرت میّسر رہے تو کیا بُرا ہے۔
تو ذکر ہو رہا تھا۔ سنڈیمن کا۔گزشتہ ہفتے کی شب وقت گزاری کے لیے کتابوں کی الماری کھولی تو "Fragments of the Afghan Frontier" نام کی ایک کتاب ہاتھ آگئی۔ اسے دو افراد نے مل کر لکھا ہے۔ ان میں سے ایک امریکا کی مشہور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر ہے۔ دوسرے صاحب لندن کے School of Oriental and African Studies کے سینئر لیکچرار ہیں۔ ان کا نامMagnum Marsden ہے۔
مارسدن نے افغانستان اور پاکستان کو ان دونوں ملکوں میں بار ہا آ کر سمجھنے میں پندرہ سال لگائے ہیں۔ اس نے "Managing Hearts and Minds" نام کا ایک پورا باب لکھ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کیپٹن رابرٹ جی سنڈیمن بڑا ذہین آدمی تھا۔ وہ انگریز حکومت کا نسبتاََ چھوٹا افسر تھا مگر ''دیسی'' لوگوں کو سمجھ کر ان پر حکومت کرنے کے نت نئے طریقے اختراع کرنے کی وجہ سے سندھ کے ایک مشہور کمشنر میری ویدر کو جس کے نام پر آج کل کراچی کا ایک ٹاور بہت مشہور ہے۔ بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ سنڈیمن نے انگریزوں کو سمجھایا کہ بلوچوں کو ایک ریاست کا ''شہری'' بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ انھیں ان کے ''رواج'' کے مطابق اپنے اپنے قبائلی سرداروں کے زیر نگین علاقوں میں رہنے کی ''خودمختاری'' دی جائے۔ اس کی وجہ سے وہ انگریزوں کی ''تابعدار رعایا'' بن کر رہیں گے۔
1870کی دہائی میں بلوچستان کے معاملات سندھ کے کمشنر کے سپرد ہوا کرتے تھے جو خان آف قلات اور اس کے کنٹرول والے بلوچستان کو ایک ''ہمسایہ مگر دوست'' کی طرح سمجھتا تھا۔ سنڈیمن تکنیکی طور پر پنجاب انتظامیہ کا کارندہ تھا۔ مگر ڈی جی خان کا DC بن جانے کے بعد اس نے اپنی سرحد کے اس پار بلوچوں کے ساتھ اپنے طور پر ایک الگ طریقے سے برتائو کرنا شروع کر دیا۔ سندھ کا کمشنر احتجاج کرتا رہا۔ مگر کلکتہ اور لندن کے انگریزی درباروں میں اس کی واہ واہ ہو گئی۔ سنڈیمن کے متعارف کردہ حربے بعد ازاں جنوبی افریقہ اور کینیا میں بھی استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سنڈیمن کے بارے میں یہ باب پڑھنے کے بعد میں اب سمجھ گیا ہوں کہ بلوچ ابھی تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ''شہری'' کیوں نہیں بن پائے ۔ آج کل کے ''سنڈیمن'' انھیں''رعایا'' بنائے رکھنے پر جو تلے بیٹھے ہیں۔
سناہے ڈیرہ غازی خان سے بلوچستان کی طرف جائیں تو ''فورٹ سنڈیمن'' نام کی کوئی جگہ آتی ہے۔ میں وہاں کبھی نہیں گیا مگر فرض کر لیا کہ سنڈیمن ''لائل'' کی طرح کا کوئی انگریز ڈی سی وغیرہ ہو گا جس کے نام پر اس مقام پر کوئی قلعہ نما عمارت بنا دی گئی ہو گی۔ اسکول میں جتنی تاریخ مجھے پڑھائی گئی تھی اس کے ذریعے میری عمر کے لوگ ہرگز نہیں جان سکتے تھے کہ انگریز تاجروں کے روپ میں جنوبی ایشیاء پہنچ کر یہاں کا حکمران کیسے بن گیا۔ اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے اس نے کیا طریقے اختیار کیے۔
اپنے ملک کی تاریخ کے بارے میں مجھے تو کیا شاید آج کل کے اسکول جانے والے بچوں کو بھی یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک راجہ داہر ہوتا تھا۔ مسلمان تاجروں کا ایک جہاز آج کل کے سری لنکا سے ہمارے سندھ کی آبی گزرگاہوں سے ہوتا ہوا بصرہ جا رہا تھا تو ڈاکوئوں نے اسے لوٹ لیا۔ ان تاجروں کے ساتھ جو خواتین تھیں ان کی چیخ و پکار حجاج بن یوسف تک پہنچی۔ انھوں نے محمد بن قاسم کو ایک لشکر دے کر یہاں بھیجا۔ محمد بن قاسم تھا تو 17 سال کا نوجوان مگر بڑا ذہین جرنیل تھا۔ اس نے اس وقت کے جدید ترین ہتھیار ''منجنیق'' کے استعمال کے ذریعے دیبل کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد سے برصغیر میں اسلام پھیلا۔ مسلمانوں نے تقریباََ 800 سال تک یہاں حکمرانی کی۔ پھر مکار انگریز تاجروں کے روپ میں یہاں آ گئے۔ پہلے انھوں نے نواب سراج الدولہ کو میر جعفر جیسے غداروں کی مدد سے شکست دے کر بنگال ہتھیا لیا، پھر شیر کی ایک دن کی زندگی کو گیدڑ کے سو سالوں سے ترجیح دینے والے سلطان ٹیپو کے پیچھے پڑ گئے۔
وہاں بھی ایک میر صادق ان کا ساتھی بن گیا۔ یوں ''دو میروں'' کی وجہ سے نوبت بہ ایں جا رسید کہ 1857کے بعد مغل سلطنت کا آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر اپنی سلطنت سے ہاتھ دھو کر رنگون جلا وطن کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے زوال کے بعد سرسید احمد خان آئے۔ انھوں نے علی گڑھ میں ایک کالج بنایا۔ مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کی جانب متوجہ کیا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انگریز اس ملک سے چلا گیا تو اس کی بنائی کانگریس جمہوریت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لے گی۔ شاعر مشرق نے اسی لیے جمہوریت کو ایسا نظام ٹھہرایا جہاں بندوں کو تولا نہیں گنا کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے ایک جدا مملکت کا خواب دیکھا۔ قائد اعظم نے اس خواب کو پاکستان کے قیام کی صورت میں ایک حقیقت بنا دیا۔
کالج کے اپنے پہلے دو سالوں میں میں نے ''پولیٹیکل سائنس'' بھی پڑھی تھی۔ اسے ان دنوں غالباََ اُردو میں ''مدنیات'' کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد میں فلسفہ اور انگریزی ادب پڑھتا رہا اور رٹے لگا کر اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہا۔ پھر صحافی بن گیا۔ اس شعبے میں رپورٹنگ کے عمل میں مصروف رہا۔ اس پورے عرصے میں کسی بھی موقعہ پر میں نے یہ سمجھنے کی ہرگز کوئی کوشش نہیں کی کہ وہ جسے ''حکومت'' کہتے ہیں وہ کیا چیز ہوتی ہے۔ گزشتہ چار پانچ برسوں سے کبھی کبھار یہ سوال ضرور تنگ کرتا کہ انگریز اتنی دور سمندر پار سے آ کر کیوں اور کس طرح ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہمارے آقائوں کے دبدبے والے حکمران بنے رہے۔ گوری چمڑی والوں کی تعداد تو اس خطے میں آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ ان کے پاس وہ کیا ہنر اور چالاکی تھی جس کی بدولت وہ اپنی اس قلیل تعداد کے باوجود ہم پر اپنا حکم چلاتے رہے۔ ہمارے لکھنے والے ان سوالوں کا جواب دینے کی زیادہ زحمت نہیں کرتے۔ تحقیق سے ہمیں من حیث القوم کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ اگر ہو بھی تو تاریخ کے بارے میں کتابیں لکھ کر باعزت روٹی نہیں کمائی جا سکتی۔
ویسے بھی عالم اسلام کی شاندار تاریخ کو ہمارے دینی مفکر اور واعظ بڑی تفصیل اور تواتر سے بیان کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بتائے Narrative پر کوئی سوال کر دو تو انٹرنیٹ مجاہدین آپ کی تصویروں کے ساتھ لوگوں کو آپ سے نفرت کرنے پر اُکسانا شروع ہو جاتے ہیں۔ عزت و جان بچانے کے لیے خاموش رہنا ہی مناسب راستہ ہے۔ میرا لیکن ایک مسئلہ ہے۔ کتابوں کی کسی بڑی دوکان کے سامنے سے گزروں تو گاڑی روک کر اندر گھس جاتا ہوں۔ ATM کارڈ سے پہلے جیب میں اکثر اتنی رقم ہی نہیں ہوتی تھی کہ جو کتاب پسند آ جائے بے دھڑک خرید لوں۔ پچھلے کچھ برسوں سے روزانہ سرخی پائوڈر لگاکر ٹی وی اسکرین پر آتا ہوں اور غریب عوام کے دُکھوں پر سیاپا کرتا ہوں۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ دل کی بات زبان پر نہ لائوں۔ ایک مہذب انداز اور اچھے لفظوں میں سچ کو چھپائوں۔ کبھی کبھار بلّھے شاہ کی طرح منہ آئی بات روک نہیں پاتا۔ اس پر کئی گھنٹے شرمندہ رہتا ہوں۔ سچ بولوں گا تو جیب میں رکھا ATM بے وقعت ہوجائے گا۔ گمنامی کی موت مر جائوں گا۔ سچ چھپانے کی وجہ سے رزق اور شہرت میّسر رہے تو کیا بُرا ہے۔
تو ذکر ہو رہا تھا۔ سنڈیمن کا۔گزشتہ ہفتے کی شب وقت گزاری کے لیے کتابوں کی الماری کھولی تو "Fragments of the Afghan Frontier" نام کی ایک کتاب ہاتھ آگئی۔ اسے دو افراد نے مل کر لکھا ہے۔ ان میں سے ایک امریکا کی مشہور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر ہے۔ دوسرے صاحب لندن کے School of Oriental and African Studies کے سینئر لیکچرار ہیں۔ ان کا نامMagnum Marsden ہے۔
مارسدن نے افغانستان اور پاکستان کو ان دونوں ملکوں میں بار ہا آ کر سمجھنے میں پندرہ سال لگائے ہیں۔ اس نے "Managing Hearts and Minds" نام کا ایک پورا باب لکھ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کیپٹن رابرٹ جی سنڈیمن بڑا ذہین آدمی تھا۔ وہ انگریز حکومت کا نسبتاََ چھوٹا افسر تھا مگر ''دیسی'' لوگوں کو سمجھ کر ان پر حکومت کرنے کے نت نئے طریقے اختراع کرنے کی وجہ سے سندھ کے ایک مشہور کمشنر میری ویدر کو جس کے نام پر آج کل کراچی کا ایک ٹاور بہت مشہور ہے۔ بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ سنڈیمن نے انگریزوں کو سمجھایا کہ بلوچوں کو ایک ریاست کا ''شہری'' بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ انھیں ان کے ''رواج'' کے مطابق اپنے اپنے قبائلی سرداروں کے زیر نگین علاقوں میں رہنے کی ''خودمختاری'' دی جائے۔ اس کی وجہ سے وہ انگریزوں کی ''تابعدار رعایا'' بن کر رہیں گے۔
1870کی دہائی میں بلوچستان کے معاملات سندھ کے کمشنر کے سپرد ہوا کرتے تھے جو خان آف قلات اور اس کے کنٹرول والے بلوچستان کو ایک ''ہمسایہ مگر دوست'' کی طرح سمجھتا تھا۔ سنڈیمن تکنیکی طور پر پنجاب انتظامیہ کا کارندہ تھا۔ مگر ڈی جی خان کا DC بن جانے کے بعد اس نے اپنی سرحد کے اس پار بلوچوں کے ساتھ اپنے طور پر ایک الگ طریقے سے برتائو کرنا شروع کر دیا۔ سندھ کا کمشنر احتجاج کرتا رہا۔ مگر کلکتہ اور لندن کے انگریزی درباروں میں اس کی واہ واہ ہو گئی۔ سنڈیمن کے متعارف کردہ حربے بعد ازاں جنوبی افریقہ اور کینیا میں بھی استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سنڈیمن کے بارے میں یہ باب پڑھنے کے بعد میں اب سمجھ گیا ہوں کہ بلوچ ابھی تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ''شہری'' کیوں نہیں بن پائے ۔ آج کل کے ''سنڈیمن'' انھیں''رعایا'' بنائے رکھنے پر جو تلے بیٹھے ہیں۔