خامہ بجوش … ایک کتاب ایک لائبریری

آپ سے کیا پردہ تھوڑی سی جلن بھی ہوئی جب یہ کتاب ہاتھ لگی جس کا نام ’’خامہ بجوش‘‘ ہے، ویسی ہی جلن جو کسی اوور...


Saad Ulllah Jaan Baraq September 24, 2013
[email protected]

آپ سے کیا پردہ تھوڑی سی جلن بھی ہوئی جب یہ کتاب ہاتھ لگی جس کا نام ''خامہ بجوش'' ہے، ویسی ہی جلن جو کسی اوور ایج کنواری کو کسی اور کی بارات دیکھ کر ہوتی ہے، ہم بھی مونچھوں پر تاؤ دے دے کر خود کو کالم نگار کہتے ہیں جب کہ کالم نگار ایسے ہوتے ہیں، تھوڑی سی جلن میں نے محاورتاً کہا ہے ورنہ دہری جلن سمجھ لیجیے، ایک تو یہ کہ جناب فصیح الدین نے اپنے کالموں کو کتابی صورت میں چھپوا کر محفوظ کر لیا اور ان کو کریانہ فروشوں کے اتیاچار سے بچا لیا ہے اور ہم اپنے کالموں کو گمشدہ بچوں کی طرح بھلانے کی کوشش کررہے ہیں ،جانے کبھی ملیں گے بھی یا نہیں، لیکن اصل جلن یہ ہو رہی ہے کہ ہم خود کو بہت بڑا عالم و فاضل سمجھ رہے تھے اور یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ ہمارے جتنا مطالعہ اور مشاہدہ کسی کے پاس بھی نہیں ہے، صرف ہم ہی ہیں جو مختلف اور گونا گوں علوم میں ہمجو من دگرے نیست کا دعویٰ رکھتے ہیں لیکن جناب فصیح الدین کو پڑھا تو اپنا دریا ایک قطرہ محسوس ہوا، اتنے سارے علوم پر بیک وقت نظر رکھنا اور وہ بھی اتنی گہرائی سے، یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ کوئی شخص اتنا ھمہ جہت بھی ہو سکتا ہے، ایسا کون سا علم ہے جو ان کالموں میں نہیں ہے، دین و دنیا، سائنس و مذہب، تصوف اور دنیا داری، شعر و ادب، کرمنا لوجی، سیاست، معیشت، معاشرت کوئی بھی علم ایسا نہیں ہے جو ان حضرت کی گرفت میں نہ ہو،

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہیں مرغ قبلہ نما آشیانے میں

حضرت چونکہ پولیس والے ہیں اور وہ اچھے خاصے اونچے درجے کے، اس لیے لگتا ہے کہ انھوں نے سارے علوم کو گرفتار کر رکھا ہو کہ یو آر انڈر اریسٹ، اور سب کو ہتھکڑیاں ڈال کر اپنی چارپائی سے باندھ رکھا ہو تاکہ جب جی چاہے اور جس کو چاہیں دو چار ٹھڈے مار سکیں یا مرغا بنا کر ککڑوں کوں بلوا سکیں، اصل مسئلہ یہ نہیں کہ انھوں نے سارے ''ملزموں'' کو صرف پکڑ رکھا ہو بلکہ ہر ملزم کی پوری ہسٹری اور کنڈلی بھی ان کو ازبر ہے۔کوئی ملزم ان سے جھوٹ بول ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ ان کا پورا شجرہ نسب اور ویرا باؤٹ بھی ان کو معلوم ہوتا ہے، چنانچہ جس بھی ملزم پر کالم میں کیس بناتے ہیں اس میں تفتیش کا ہر پہلو موجود ہوتا ہے، پہلے جب ہم مقامی اخبار میں ان کے کالم پڑھتے تھے تو صرف سونگھ لیا کرتے تھے اور یہ سوچ کر ایک طرف ڈال دیتے تھے کہ ہوں گے، یہ بھی کوئی شوقیہ قلم کار۔ اس لیے ان کے کچھ زیادہ کالم نہیں پڑھ پائے، مگر جب ان سے تخت بھائی کے ایک ادبی پروگرام میں تھوڑی سی بالمشافہ بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ کوئی سادھارن اور فیشن ایبل کالم نگار نہیں ہے ، کچھ نہ کچھ تو ان کے اندر بھرا ہوا ہے چنانچہ اس کے بعد ان کے کالموں کو سونگھنے کے بجائے پڑھنے لگے، پڑھتے پڑھتے پتہ چلا کہ ہم تو ان کے اندر ''کچھ'' ہونے کی امید کر رہے ہیں لیکن ان کے اندر تو بہت کچھ بھرا ہوا ہے اور وہ بھی خوب کوٹ کوٹ کر۔

اچھا ہوا ، انھوں نے اپنے کالموں کا مجموعہ ''خامہ بجوش'' کے نام سے چھپوا دیا جو ان کے کالم کا نام بھی ہے، مشفق خواجہ کے ''خامہ بجوش'' کا بھی جواب نہیں لیکن فصیح الدین کے خامہ بجوش میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے، مشفق خواجہ تو غالب کے ایک شعر کے مجسم کیے ہوئے تھے ،

مگر لکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

لیکن فصیح الدین سودائی ہیں، وہ سودائی نہیں بلکہ مرزا رفیع سودا کے تابع ہیںکہ ادھر کسی موضوع کو دیکھا اور ادھر آواز لگائی کہ غنچے ذرا لانا تو میرا قلم دان، لیکن یہاں بھی سودائی ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے لیکن سودائی پن میں بھی ہوشیاری دکھا جاتے ہیں۔

دیکھا اسد کو خلوت و جلوت میں بارہا

دیوانہ گھر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

کیونکہ وہ مرزا رفیع سودا کی طرح صرف ہجو نہیں لکھتے ہیں ''شہر آشوب'' بھی لکھتے ہیں بلکہ شہر آشوب ''ہی'' لکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ ''شہر آشوب'' لکھتے ہوئے ان لوگوں کی طرف روئے سخن ہونا لازم ہے جو شہر اور زمانے کو مبتلائے آشوب کیے ہوئے ہوتے ہیں اور فی زمانہ اس سے بڑا گناہ اور کوئی نہیں ہے، فصیح الدین لکھتے ہوئے بھول جاتے ہیں ان پر ''ملک و شخصہ'' کی مہر بھی سرکاری نوکری کی صورت میں لگی ہوئی ہے، ویسے تو پاکستان میں ان ''شیروں'' کی کمی نہیں ہے جو باندھے ہوئے شکار کو ادھیڑنا اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن اے این پی میں ایسے شیروں کی کچھ زیادہ بہتات ہو گئی،بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تھا، بندر کواسترا مل گیا تھا اور گنجے کے ناخن نکل آئے تھے، چھوٹے برتنوں کو اختیارات کا بہت زیادہ پانی مل گیا تھا چنانچہ انھوں نے اس ملک کا مصروف ہتھیار ''تقرر و تبادلہ'' کو خوب خوب چلایا کہ اس سے زیادہ بڑے ہتھیار کے وہ قابل بھی نہ تھے۔

پشتو کے ایک معروف شاعر پروفیسر رحمت اللہ درد کا ایک شعر اس وقت ہمیں یاد نہیں آرہا ہے لیکن مفہوم کچھ ایسا ہے کہ ''سب سے اونچی شاخ کو تو آندھی ضرور توڑتی ہے، اس لیے مجھے بھی کسی اور نے نہیں اپنے کمال نے مارا ہے، وہ ٹہنیاں یا تو کاٹی جاتی ہیں یا توڑی جاتی ہیں یا جھکائی جاتی ہیں جو دوسروں سے کچھ زیادہ ہی سربلند ہو جاتی ہیں'' چنانچہ جناب فصیح الدین کو تخت نشینی کے بجائے ''بن باس'' کی سزا مل گئی، کیکئی رام چندر کو صرف یہی سزا دلوا سکتی تھی چنانچہ آج کل وہ بلوچستان میں بن باس کاٹ رہے ہیں جس طرح رام چندر کو بن باس ہی سے راون کو اور اس کی لنکا کو ڈھانے کا موقع ملا ، اسی طرح فصیح الدین کو بھی سزا سے جزا ملی اور اس جزا کا یہ نتیجہ ایک خوب صورت کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ وہاں کے ادارے گوشہ ادب نے کتاب کوکافی محنت اور خوب صورتی سے چھاپا ہے، اسے کہتے ہیں بدی کے پیٹ میں نیکی کا پیدا ہونا، پشتو کا ایک شعر ہے

کہ رقیبانو زہ وھلے نہ وے

جانان بہ غیگہ کے نیولے نہ وے

یعنی اگر رقیب مجھے نہ مارتا تو محبوب مجھے آغوش میں نہ لیتا، خیر چھوڑیئے اے این پی والوں کی کہاں تک سنائیں، انھوں نے تو حلف کے ساتھ ساتھ یہ سوگند بھی کھائی تھی کہ ایسے کسی فرد کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے جو ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہو اور فصیح الدین میں یہ عیب بدرجہ اتم موجود ہے، اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ اسے دیکھ کر بلکہ پڑھ کر ہم نے بھی اپنا ہاتھ فوراً مونچھوں سے نیچے کر لیا حالانکہ ہمارا خیال تھا کہ مونچھیں ہوں تو نٹور لال ایسی ہوں ورنہ نہ ہوں، لیکن سیر کو سوا سیر مل ہی جاتا ہے اور فصیح الدین تو ڈھیر دو سیر سے بھی کچھ زیادہ ہی ہے، بھلا اسے صوبے میں رکھ کر آدھ پاؤے دوپاوے خود کو ہوا میں معلق رکھ سکتے تھے، لیکن یہ سیاست مدار لوگ نہیں جانتے قلم کا سر قلم کرنے سے اس میں اور بھی کاٹ آجاتی ہے اور رکاوٹوں سے دریا اور بھی تیز ہو جاتے ہیں۔

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی رواں اور

وہ جہاں جاتے ہیں گلزار بنا لیتے ہیں اور یہ گل دستہ بجائے خود اس کا ثبوت ہے جس کا نام ''خامہ بجوش'' ہے، کتاب ابھی ہم نے صرف آدھی پڑھی ہے لیکن اس آدھی کتاب میں جو کچھ بھرا ہے وہ پوری کتاب تو کیا پوری لائبریری جتنا ہے، ہم اپنی اس حیرت کا اظہار ایک مرتبہ اورکرنا چاہتے ہیں کہ ایک پولیس کی وردی پہننے والے کے اندر اتنے علم کا ہونا تو کم از کم انگشت بدندان کرنے کے لیے کافی ہے، یقین نہیں آتا کہ ایک پولیس افسر اپنی چوبیس گھنٹے کی نوکری میں اتنابھی مطالعہ کر سکتا ہے کہ ہر علم کو گھول کر نہ صرف پی لے بلکہ جزو جسم و جاں بھی بنا لے ۔۔۔ ایک طرف اگر ان کالموں میں بین الاقوامی سیاست، معاشیات اور نظریات کا گہرا مطالعہ ہے تو دوسری طرف کرمنالوجی اور قوانین پر بہت کچھ ہے، شعر و ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں تو تصوف فلسفہ، علوم اسلام تفاسیر اور تاریخ پر بھی اتھارٹی اور وسیع مطالعے کے مالک ہیں، خلاصہ کلام یہ کہ خامہ بجوش اگرچہ کالموں کا مجموعہ ہے لیکن یہ صرف عام کالم نہیں بلکہ علم کے سوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں