ملاقات سے قبل
جناب وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے نیو یارک پہنچ چکے ہیں ۔ ہر سال ستمبر کے...
جناب وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے نیو یارک پہنچ چکے ہیں ۔ ہر سال ستمبر کے آخری ہفتے میں جنرل اسمبلی میںیہ میلا سجتاہے ۔ تقریباً ایک ہفتہ جاری رہنے والے اس عالمی سیاسی میلے میں ہر ملک کا نمایندہ اقوام عالم کے رو برو اپنے ملک کے مسائل اور مصائب کاذکر کرتا ہے۔ پاکستان کے منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف بھی ممکنہ تیاریوںکے ساتھ شریک ہو رہے ہیں ۔
وزیر اعظم میاں محمد نوا زشریف کی امریکا روانگی کے حوالے سے پاکستان کی عوام نے بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں ۔پہلے یہ خبر آئی تھی کہ امریکی صدر جناب اوباما ہمارے وزیر اعظم سے ملاقات کریںگے ۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے منسوب یہ بیان بھی شایع ہوا کہ ہمارے صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کوخوش آمدید کہنے کے لیے بانہیں کھول رکھی ہیں لیکن اب یہ کہاجا رہا ہے کہ اس ملاقات کی تصدیق نہیں ہو رہی اوریہ کہ ممکن ہے نوازشریف صاحب یو این او سے خطاب کرنے کے بعد وطن واپس آئیں اور دوبارہ امریکی صدر سے ملاقات کرنے واشنگٹن روانہ ہوں ۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ پاکستانی عوام کو امریکی صدر سے وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی وہ بھارتی صدر من موہن سنگھ سے جناب نواز شریف کی ملاقات کا انتظار کر رہے ہیں ۔
بد قسمتی سے گزشتہ ایک ماہ سے ایل او سی کے حوالے سے پاکستان اوربھارت کے درمیان جس کشیدگی نے سر اٹھا رکھا ہے 'اسے کم کرنے اور پاک بھارت کی فضا کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ملاقات ضرور ہونی چاہیے ۔جناب نواز شریف ذاتی حیثیت سے انتخابات سے لے کر اب اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد بھی بھارت کے حوالے سے جومسلسل بیانات دے رہے ہیں 'ان کا تقاضا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کادل بھی نرم ہو ۔من موہن سنگھ کوچاہیے کہ آر ایس ایس 'بی جے پی اور وشوا ہند وپریشد ایسی شدت پسند بھارتی مذہبی تنظیموں کے کندھوںسے نیچے اترآئیں اور نوازشریف صاحب سے جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز پر ملاقات ضرور فرمائیں تاکہ جنوبی ایشیاء کے ممالک امن اورشانتی سے زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں 'اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر خارجہ متنازعہ مسئلہ کشمیرکی الجھی ہوئی گتھیوںکو سلجھانے کے لیے اپنا ''اٹوٹ انگ''کا راگ الاپنے سے پرہیز کریں ۔اگر یہ نہیں تو پھر کچھ نہیں ۔ویسے سر تاج عزیز اور سلمان خورشید نے بشکیک میں ملاقات کے دوران مبینہ طور پر کوشش توکی ہے کہ نیو یارک میں دونوں ممالک کے وزیر اعظم باہمی طور پر سینے سے سینہ ملانے میںکامیاب ہو جائیں
وزیراعظم صاحب کے موڈ اور عزائم کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے موجودہ حکومت پاکستان نے کوشش تو یہی کی ہے کہ ستمبر کے آخری ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں من موہن سنگھ سے نواز شریف کی ممکنہ ملاقات سے قبل ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے بھارت بھی راضی ہو جائے اور دنیا خصوصاً امریکا پر بھی ثابت کیا جاسکے پاکستان حقیقی معنوں میں جنوبی ایشیا ء میںپائیدار قیام امن کاخواہاں ہے ۔ اسی غرض سے پاکستان نے ستمبر 2013کے آغازمیں 337کی تعداد میں ان بھارتی قیدیوں کورہا کر دیا۔ بھارت کواس پرپاکستان کا شکر گزار اور ممنون احسان ہونا چاہیے تھا اور خودکو بھی اسی طرح کا کوئی ایسا قدم اٹھاناچاہیے تھا لیکن حقائق ہمیں اس کے بر عکس نظر آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر13ستمبر 2013 کو بھارت نے پاکستان کو صاف الفاظ میں واضح کر دیا کہ وہ بھارتی جیلوں میں قید اُن 50پاکستانیوں کو ہرگز رہا نہیں کرے گا جوبھارت میں اپنی قیدبھی مکمل کر چکے ہیں ۔ پاکستان نے اسی سلسلے میں ان کی رہائی کی گزارش کی تھی لیکن بھارتی حکام نے اس گزارش کو بری طرح مستر د کر دیا۔
اس پر بھارت کے معروف اخبار ''ہندوستان ٹائمز''نے 14ستمبر کو یہ سرخی جمائی''INDIA SNUBS PAKISTAN'' ایسے میں بھارت سے بھلا کیا توقعات کی جا سکتی ہیں؟۔یہ تو دوستی کے بڑھے ہاتھوں کو حقارت سے جھٹک دینے کے مترادف ہے ۔ پاکستان اوربھارت اپنے اپنے قیدیوں کے بارے میںایک سال کے دوران 2بار فہرستوں کاتبادلہ کرتے ہیں ۔ اس بار پاکستان کی فراہم کردہ فہرست پر عمل کرنے سے بھارتی دوستوں نے صاف انکار کر دیا 'یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ پاکستان کی طرف سے برف تیزی سے پگھل رہی ہے ۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی جیلوں میںقید ان 50 پاکستانیوںنے اگرچہ سزا کے دن پورے کر لیے ہیں لیکن یہ توایک جرم کی سزا کی تکمیل ہوئی ہے 'ان پر تو ابھی کئی دیگر جرائم کے مقدمات بنے ہوئے ہیںان پر الگ سزا ہو گی ۔ اب بھارتی ضد کے سامنے پاکستان کہاں جا کر اپنا سر پھوڑے؟
بھارت کا معاملہ دراصل پاکستان طالبان کی طرح کاہے کہ موجودہ حکومت جوں جوں ان کی طرف دوستی اورافہام و تفہیم کا ہاتھ بڑھانا چارہی ہے 'یہ لوگ ماش کی دال کی طرح اکڑتے جا رہے ہیں اور ہمارے میاںصاحب ہیں کہ سب سے بڑے ہمسائے کے ساتھ دوستی کرنے کی تگ و دو میں بھارت کا نام مسلسل لیتے چلے جارہے ہیں ۔وہ دورہ ترکی میں بھی اس نام کوفراموش نہ کرسکے ۔میاںصاحب نے ترکی کے مشہوراخبار ''زمن ''سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بارپھر 17ستمبر کوفرمایا کہ بھارت سے بہتر تعلقات کواستوار کرنا ان کی اولین ترجیحات میں سر فہرست ہے ۔ درست ہے ۔بقول ان کے انھیں پاکستان کی عوام نے11مئی کے انتخابات میں اسی کا مینڈیٹ دیاہے ۔وہ نیو یارک میں اپنے بھارتی ہم منصب سے معانقہ کرنے سے قبل کسی عالمی قوت اور عالمی میڈیا کو کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کرناچاہتے جسے بنیاد بنا کر کوئی ان سے نا مناسب سوال پوچھ سکے ۔ان کی اس خواہش پر عسکری ادارے بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن بھارت بھی کسی اچھے بیان یااقدام کامظاہر ہ کرے ۔
امریکا کی بھی خواہش ہے کہ نیو یارک میں ہونے والی ممکنہ ملاقات میںپاک بھارت کے دونوں وزرائے اعظم کسی ایک نقطے پر تو متفق ہو سکیں ۔فیس سیونگ ہی سہی ۔18ستمبر 2013کو بھارت کادورہ کرنے والے نائب امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی نواز شریف حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ کسی امریکی ذمے دارشخصیت کی طرف سے اس واضع بیان کے باوجود بھی بھارت پاکستان پر اعتبار کرنے اورجنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز پر پاکستان کے وزیر اعظم سے ثمر آور معانقہ کرنے پر تیار نہیں ؟یہ مقام افسوس ہے ۔ وزیر اعظم کے سیکیورٹی ایڈوائزر اور خارجہ امورکے مشیر سر تاج عزیز کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں اگر میاں صاحب کی من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات ہو بھی جاتی ہے تو ہمیں کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں رکھنی چاہیے ۔
ہمارے وزیر اعظم نیو یارک میں ہیں۔ من موہن سنگھ اورنواز شریف کی ملاقات ہوتی ہے یا نہیں 'ابھی مطلع صاف نہیں ہوا لیکن بھارتی میڈیا کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ معانقہ اور مصافحے کی یہ بیل منڈھے چڑھ سکے۔ ''ہندوستان ٹائمز'' کے معروف کالم نگار ویوک کاٹجو گزشتہ تین ہفتے سے بار بار لکھ رہے ہیں کہ پاکستان پہلے ممبئی سانحہ اور ایل او سی پر اپنے ''جرائم'' تسلیم کرتے ہوئے بھارت سے معافی مانگے ' تب بھارتی وزیر اعظم کو نوا زشریف سے ملاقات کرنی چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران من موہن سنگھ نے سید یوسف رضا گیلانی سے نیو یارک ' لندن اور مصرمیں کئی ملاقاتیں کیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا کیونکہ پاکستان اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارت سے اخلاص کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ ہمیں ویوک کاٹجو ایسے شر انگیز بھارتی صحافیوں سے شرم آتی ہے ۔ایسے عناصر یہ امید لگائے بیٹھے ہیںکہ نیو یارک میں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات نہ ہی ہو تو بہتر ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ نوازشریف صاحب کو اس Charged ماحول میں اپنی سیاسی بصیرت استعمال کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا چاہیے۔